ماہرہ خان نے دادی یا نانی کے ساتھ ملائی والی چائے پینے اور پراٹھا کھانے کا مشورہ کیوں دیا؟
اشاعت کی تاریخ: 19th, November 2025 GMT
معروف پاکستانی اداکارہ ماہرہ خان نے مشورہ دیا ہے کہ اپنی مصروفیت میں سے وقت نکال کر نانی یا دادی کے ساتھ بیٹھیں اور اُن کے ساتھ چائے پراٹھا کھا کر زندگی کو انجوائے کریں۔
یہ بات انہوں نے کراچی میں منعقدہ اپنی نئی آنے والی فلم نیلوفر کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں ایکسپریس ٹریبیون سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔
عمار رسول کی ہدایت کاری میں نیلوفر فلم بنائی جارہی ہے جو رمانوی کہانی پر مبنی ہے اور ہدایت کار ہی اس کے مصنف بھی ہیں۔
فلم میں فواد خان، ماہرہ کے علاوہ مدیحہ امام، بہروز سبزواری سمیت دیگر بھی کردار ادا کرتے نظر آئیں گے۔ اس فلم کے شریک پروڈیوسر فواد خان بھی ہیں۔
یاد رہے کہ فواد خان اور ماہرہ خان کی جوڑی نے ڈرامہ ہمسفر سے شہرت حاصل کی جس کے بعد دونوں کو بالی ووڈ میں موقع ملا اور پھر طویل وقت کے بعد چند سال قبل دونوں بلال لاشاری کی ہدایت کاری میں بننے والی فلم دی لیجنڈ آف مولا جٹ میں ایک ساتھ نظر آئے تھے۔
ڈرامہ اور فلم شائقین اس جوڑے کو رومانوی کرداروں میں ایک ساتھ دیکھ کر بہت پسند کرتے ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہرہ خان نے بتایا کہ ’فواد اور اُن کا کردار رومانوی ہے اور اس سے اُن کے گھر والوں کو بھی اعتراض نہیں ہے بلکہ انہوں نے یہ کہا کہ تم محبت کرنے والی لڑکی ہو تو کردار اچھا ہی نبھاؤں گی‘۔
ماہرہ کے مطابق فلم میں رومانوی کہانی کے ساتھ اور بھی دیکھنے کو ملے گا اور انہیں امید ہے کہ شائقین اس کو بہت پسند بھی کریں گے۔
طویل عرصے بعد ایک ساتھ کام کرنے سے متعلق سوال پر اداکارہ نے کہا کہ ہاں ہم کافی عرصے بعد ایک ساتھ کام کررہے ہیں مگر اس میں بہت مزہ آیا، اسی کے ساتھ انہوں نے دیگر اداکاروں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ہم سیٹ پر ایک ساتھ ہوتے اور ایک دوسرے سے نہ صرف محبت کرتے بلکہ احترام کے ساتھ رہتے ہیں۔
ماہرہ خان نے کہا کہ اس فلم کے پروڈیوسر باصلاحیت اور ذہین ہیں انہوں نے نہ صرف ہم سب کو ایک ساتھ جمع کیا بلکہ فلم میں بھی لے کر آرہے ہیں۔ اداکارہ نے بتایا کہ فلم میں بہروز سبزواری، نوید شہزاد اور فواد کے ساتھ بھی مناظر ہیں۔
اداکارہ نے فلم کے حوالے سے کہا کہ ’لوگوں کو انتہائی مصروف دنیا میں سے کچھ وقت اپنے لیے نکال کر دادی یا نانی کے ساتھ ملائی والی چائے اور پراٹھے کھاتے ہوئے اسے دیکھنا اور انجوائے کرنا چاہیے‘۔
فواد خان کے ساتھ دوبارہ کام کا موقع ملنے پر ماہرہ نے کہا کہ ’’ہم اداکاروں کے طور پر بھی کچھ مختلف تھے، لیکن چونکہ ہم نے اتنے عرصے سے ایک ساتھ کام نہیں کیا لیکن اس بار بہت مزہ آیا ہے‘۔
فواد خان کے ساتھ اپنی جوڑی کی شہرت اور لوگوں کی محبت ملنے کے حوالے سے ماہرہ نے کہا کہ یہ فلم میرے دل کے بہت قریب ہے کیونکہ یہ ایک رومانوی کہانی ہے، ایک ایسی فلم جس میں محبت کے بارے میں بات کی گئی ہے۔
TagsShowbiz News Urdu.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: پاکستان کھیل ماہرہ خان نے نے کہا کہ انہوں نے فواد خان ایک ساتھ کے ساتھ فلم میں
پڑھیں:
فواد چوہدری کی سیز فائر مہم اور اڈیالہ جیل کا بھڑکتا الاؤ
فواد چوہدری کی سیاسی پوزیشن یا خیالات کچھ بھی ہوں ان کا خاصہ ہے کہ وہ اپنا موقف بیان کرنے میں مہارت رکھتے ہیں اور جو بیانیہ بنانا چاہیں اس کے لیے الفاظ اور دلائل کا انبار لگا دیتے ہیں۔
ان دنوں وہ ملک میں سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی مہم چلا رہے ہیں اور پی ٹی آئی کے 2 سابق رہنماوں محمود مولوی اور عمران اسماعیل کے ساتھ مل کر مختلف حلقوں سے ملاقاتیں کر رہے ہیں۔
ویک اینڈ پر وہ وی نیوز کے دفتر آئے اور اپنی اس مہم پر تفصیلی بات چیت کی۔ دوران گفتگو انہوں نے بتایا کہ ان کی کوششیں کافی بارآور ثابت ہورہی ہیں اور اب تک وہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے کئی سینیئر وزرا اور اسپیکر سے ملاقاتیں کرچکے ہیں جنہوں نے سیاسی درجہ حرارت کم کرنے کی ہامی بھری ہے۔
فواد چوہدری کے مطابق اسٹیبلشمنٹ بھی حالات کو نارمل بنانا اور ملک میں استحکام لانا چاہ رہی ہے اور وہ ان ملاقاتوں سے ملنے والی امید کے بعد رواں ہفتے یا اس سے اگلے ہفتے اس مہم کا دوسرا دور شروع کریں گے۔
فواد چوہدری کا ماننا ہے کہ ملک میں سیاسی سکون لانے کے لیے حکومت کو عمران خان کے ساتھ بات چیت کا آغاز کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں اعتماد بحال کرنے کی غرض سے کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی کی سینیئر قیادت شاہ محمود قریشی، اعجاز چوہدری، ڈاکٹر یاسمین راشد اور دیگر رہنماؤں کی مشکلات میں کمی لانی چاہیے اور رفتہ رفتہ ان کے مقدمات کے حل کی طرف بڑھنا چاہیے، بصورت دیگر پی ٹی آئی اگلے چند ماہ میں پشاور سے ایک اور مارچ اسلام آباد لانے پر مجبور ہوگی جس کے نتائج پہلے سے زیادہ خراب ہوسکتے ہیں۔
فواد چوہدری کی خواہشات اور کاوشیں اپنی جگہ لیکن جو کچھ وہ حاصل کرنا چاہ رہے ہیں، کیا آج کے پاکستان میں وہ ممکن ہے؟
صورتحال یہ ہے کہ حکمران اتحاد اس وقت حکومت اور ملک پر گرفت انتہائی مضبوط کرچکا ہے اور بظاہر اگلے کچھ سالوں تک ان کے اقتدار کو کوئی بڑا خطرہ نظر نہیں آرہا۔ انہیں عسکری قیادت کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور بین الااقوامی سطح پر بھی ان کی قبولیت میں اضافہ ہوا ہے۔
دوسری طرف پاکستان تحریک انصاف کی اسٹریٹ پاور انتہائی کمزور پڑچکی ہے اور ناامیدی کے اندھیروں میں پی ٹی آئی کے ورکرز کو سڑکوں پر لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ اگرچہ صوبہ خیبر پختونخوا کے نوخیز وزیراعلیٰ سرکاری وسائل، اپنے یوتھ ونگ کے جذبے اور کچھ دیوانے سپورٹرز کی بدولت ایک قافلے کا انتظام تو کر ہی لیں گے لیکن سابقہ احتجاجی جلوسوں کی ناکامی اور اس دوران ہونے والے تشدد کے پیش نظر پی ٹی آئی کے بیشتر حامی یا تو خود یا پھر اپنے خاندانوں کے دباؤ کے تحت ایسی سرگرمیوں سے کنارہ کش ہی رہیں گے۔
سونے پہ سہاگہ جو بیانات وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا بذات خود دے رہے ہیں ان کے بعد ادارے فی الوقت ان سے کسی طرح کی رعایت برتنے کے حق میں بالکل نہیں ہوں گے۔ سو اگر فواد چوہدری اور ان کے ساتھیوں کی خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچنا ہے تو اس کے لیے جہاں حکومت کو کچھ لچک دکھانی ہے وہیں پی ٹی آئی کو اپنے طرز عمل میں واضح تبدیلی لانا پڑے گی۔
حکومت کا کہنا یہ ہے کہ اس نے ماضی میں بھی کئی بار بات چیت کے ذریعے معاملات بہتر بنانے کی کوشش کی لیکن جب بھی مسائل کے حل کی طرف پیشرفت ہوتی عمران خان کوئی ایسا اعلان کردیتے جس سے مذاکرات کا عمل رک جاتا۔
اب بھی جب تک عمران خان کی طرف سے ضمانت نہیں آئے گی یہ بیل منڈھے چڑھنے کے لیے تیار نہیں ہوگی۔ بالخصوص ان حالات میں جب ریاستی ادارے بھی 9 مئی اور دیگر سنگین مقدمات پر پیچھے ہٹنے کو آمادہ نہیں ہورہے۔
تو پھر حل کیسے نکلے گا؟
فواد چوہدری اور حکومتی ترجمانوں کے بیانیے ایک طرف لیکن پاکستان کی سیاست کے کچھ حقائق ایسے ہیں جن کو مدنظر رکھ کر اور فیصلوں کی بنیاد بنا کر ہی تمام فریقین اپنے مقاصد حاصل کرسکتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومتی انتظام کے حق میں بہتر یہی ہے کہ عمران خان جیل میں رہیں اور پی ٹی آئی سے اگر کوئی بات چیت ہوتی ہے تو اس کا مطمع نظر یہی ہو کہ اس کو احتجاج سے باز اور خاموش رکھا جائے۔ لہٰذا یہ حکومت کبھی بھی عمران خان کی رہائی یا تحریر و تقریر کی آزادی کی طرف بڑھنا نہیں چاہے گی یہاں تک کہ ریاستی ادارے خود یہ فیصلہ نہ کرلیں کہ قیدی نمبر 804 کو اب کچھ رعایت دے دی جائے۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ اڈیالہ کے باسی کا اب تک کا طرز عمل بالکل بھی ایسا نہیں رہا کہ بااختیار لوگ اپنے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے اس کے گرد کسے گئے شکنجے کی کچھ زنجیریں ہلکی سی ڈھیلی کردیں۔ بالخصوص ان حالات میں جب اس کو دی گئی رعایت خود ان کے لیے مشکل بن کر سامنے آئے۔
ایسے میں گرہیں تبھی کھلیں گی جب ان میں بندھا ہوا ان کو دانتوں سے کاٹنے کے بجائے اپنی حرکت سے ان کو ڈھیلا کرے اور رویے کی چاشنی سے سخت رسیوں کو نرم کردے۔
فواد چوہدری کی اعمتاد سازی اور سیاسی درجہ حرارت میں کمی کی کوششیں بھی تبھی کامیاب ہوں گی جب اس درجہ حرارت کو بڑھانے والے اڈیالہ جیل کے الاؤ کی شدت وہاں کا باسی کم کرے گا۔ جب اس کو اندازہ ہوجائے گا کہ اس وقت اس کے گرد چلنے والی تیز ہوائیں اونچے شعلوں کو بھجانے کی سکت رکھتی ہیں اور اس کو فی الوقت بلند و بالا شعلوں پر نہیں بلکہ ہلکی آنچ پر بھروسہ کرنا ہے۔
اس آنچ کو اتنا ٹھنڈا کرنا ہے کہ شعلوں کو بھجانے کی سکت رکھنے والی ہوائیں جامد ہوجائیں، درجہ حرارت اتنا نیچے چلا جائے کہ اس کے شکنجے کو زنگ لگ جائے اور اس پر پڑا ہوا تالہ ناکارہ ہوکر خود ہی کھل جائے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں