ایران، اسرائیل جنگ کا نامکمل وقفہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
12 دن کی ہولناک جنگ، جو بظاہر تھم چکی ہے، مگر اس کے بطن میں چھپے سوالات اور خدشات آئندہ کسی بڑے طوفان کی تمہید بن سکتے ہیں۔
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں جو جنگ بندی ایران اور اسرائیل کے درمیان عمل میں آئی، اس کا آغاز اور انجام دونوں ہی متنازع، غیر متوازن اور ناپائیدار دکھائی دیتے ہیں۔ ٹرمپ نے اسے (The 12 Day War) کہا، مگر کیا صرف 12 دن کی جھڑپیں اس خطے کے دیرینہ زخموں پر مرہم رکھ سکتی ہیں؟
اس تنازع کا ایک اہم پہلو 22 جون کی درمیانی شب بنی جب اسرائیل کی درخواست پر امریکا نے ایران کی نیوکلیئر تنصیبات فردو، نطنز اور اصفہان پر حملے کیے۔ ٹرمپ کے الفاظ میں یہ حملے ان تنصیبات کو ’مکمل طور پر تباہ‘ کرنے کے لیے کیے گئے تھے۔
جواب میں ایران نے قطر میں واقع امریکا کے سب سے بڑے فوجی اڈے ’العدید‘ پر میزائل داغے، اور یوں ایسا لگا کہ مشرقِ وسطیٰ ایک وسیع تر جنگ کے دہانے پر آ گیا ہے۔ لیکن چند گھنٹوں بعد ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ’مکمل اور جامع جنگ بندی‘ کا اعلان کر دیا۔
جنگ بندی کے محض 4 گھنٹے بعد اسرائیل نے ایران پر ایک اور حملہ کیا، جس کے جواب میں اسرائیل نے دعویٰ کیا کہ وہ میزائل اس کی جانب سے نہیں تھے۔ ٹرمپ، جو ثالثی کے کردار میں تھے، اس واقعے پر برہم دکھائی دیے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دونوں ممالک اتنی شدت سے لڑ رہے ہیں کہ اب انہیں خود نہیں پتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔
اس کے بعد پھر ایک رسمی ’سیز فائر‘ بحال ہوا۔ ٹرمپ نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا کہ اسرائیلی طیارے واپس جا رہے ہیں اور ایران کو ’دوستانہ ہاتھ ہلا‘ رہے ہیں۔
پہلی بار اسرائیل نے ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پر براہ راست حملہ کیا۔ نطنز اور اصفہان کو نشانہ بنا کر اسرائیل نے یہ پیغام دیا کہ وہ چاہے جتنا دور ہو، کاروائی کرسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، اسرائیل نے امریکا کو عملی جنگ میں شامل کرکے یہ ظاہر کیا کہ وہ واشنگٹن کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
لیکن کیا یہ قانونی تھا؟ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ یہ ’متوقع دفاع‘ تھا، جبکہ عالمی سطح پر اسے خلافِ ضابطہ اقدام سمجھا جا رہا ہے۔
اگرچہ اسرائیلی اور امریکی ذرائع ان حملوں کو مؤثر قرار دے رہے ہیں، تاہم بین الاقوامی جوہری ادارے (IAEA) سمیت کسی غیر جانبدار ادارے نے ابھی اس نقصان کی تصدیق نہیں کی۔ ایرانی ایٹمی توانائی تنظیم کے سربراہ محمد اسلامی نے کہا ہے کہ تنصیبات کو بحال کرنے کی تیاری پہلے سے موجود تھی، اور کوئی تعطل نہیں آئے گا۔
تاہم ایک بڑا سوال یہ بھی ہے کہ 400 کلوگرام افزودہ یورینیم، جس کی موجودگی IAEA نے تسلیم کی ہے، وہ کہاں ہے اور کیا وہ محفوظ ہے؟
جنگ بندی ہوئی ہے، لیکن امن نہیں۔ نہ اسرائیل پیچھے ہٹا ہے، نہ ایران جھکا ہے۔ اگرچہ یورپی طاقتیں ایران کے ساتھ سفارتی مصالحت کی کوشش کر رہی ہیں، مگر اسرائیل ہر ایسے معاہدے کی راہ میں رکاوٹ رہا ہے۔ دوسری طرف، ایران بھی JCPOA جیسے سابق معاہدے سے امریکی دستبرداری کو بھلا نہیں پایا۔
ایران کی پارلیمان کی سیکیورٹی کمیٹی نے IAEA سے تعاون معطل کرنے کا بل منظور کیا ہے، جو واضح پیغام ہے کہ ایران اب بین الاقوامی نگرانی کی حدود سے نکلنے کو تیار ہے۔
اگرچہ ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ رک چکی ہے، لیکن ایک غیر اعلانیہ سرد جنگ اب بھی جاری ہے۔ یہ ایک ایسی جنگ ہے جو بارود سے زیادہ اعتماد، سفارتکاری، اور بین الاقوامی توازن کو نگلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ جنگ ختم ہوئی یا نہیں، بلکہ یہ ہے کہ یہ سیز فائر کتنی دیر کا وقفہ ہے، امن کی دستک یا خاموشی سے پہلے کا شور؟
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکہ مردہ باد اسرائیل مردہ باد اسرائیل امریکا ایران مشکورعلی اسرائیل نے رہے ہیں
پڑھیں:
ایرانی ایٹمی تنصیبات پر امریکی حملہ
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعتراف کیا ہے کہ ایران نے بہادری سے جنگ لڑی۔ جنگ کے آخری دنوں میں اسرائیل کو ایران سے بہت مار پڑی۔ اس کے بیلسٹک میزائلوں نے کافی تباہی پھیلائی ۔اگلے ہفتے ایران سے مذاکرات اور معاہدہ ہو سکتا ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ ایران کو تعمیر نو کے لیے پیسوں کی ضرورت ہے ۔ چین چاہے تو ایران سے تیل خرید سکتا ہے ۔ ٹرمپ نے ایرانی جوہری تنصیبات کو پہنچنے والے نقصانات پر میڈیا رپورٹ کو مسترد کردیا ۔انھوں نے کہا کہ FBIکے ساتھ مل کر انٹیلی جینس لیک کی تحقیقات کر رہے ہیں ۔
CNN، نیویارک ٹائمز وغیرہ امریکی میڈیا ایک گند ہے جو امریکی فوج کی شاندار کامیابی کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔یہ بُرے لوگ ہیں جو جھوٹ پھیلا رہے ہیں ۔ جب کہ امریکی میڈیا کے ایک حصے کا دعویٰ ہے کہ ایرانی جوہری تنصیبات کو اتنا نقصان نہیں پہنچا جتنا صدر ٹرمپ دعویٰ کر رہے ہیں ۔ امریکی انٹیلی جینس رپورٹ کے مطابق ایرانی ایٹمی پلانٹ تباہ نہیں ہوئے ۔ سیٹلائٹ تصاویر بھی اس بات کی گواہی دے رہی ہیں ۔
مشہور امریکی نیوز چینل CNNاور نیویارک ٹائمز بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ مکمل تباہی نہیں ہوئی ۔ ذرایع کے مطابق امریکیوں نے تین ایٹمی تنصیبات پر حملے سے ایران کو پیشگی آگاہ کردیا تھا۔ ورنہ ان ایٹمی تنصیبات کی تباہی سے اتنی ایٹمی تابکاری پھیلتی کہ پورے مشرق وسطیٰ سے لے کر پاکستان برصغیر تک کا علاقہ شدید متاثر ہوتا، لاکھوں افراد ہولناک بیماریوں کا شکار ہوکر اذیت ناک موت سے دوچار ہوتے ۔ ویسے بھی ایران کا کہنا ہے کہ ہمیں واضح طور پر اندازہ ہی نہیں بلکہ یقین تھا کہ امریکا اوراسرائیل ایرانی جوہری تنصیبات کو ہر صورت نشانہ بنائیں گے ۔ اس لیے افزودہ یورینیم کو حملے سے پہلے ہی دوسرے محفوظ مقامات پر منتقل کردیا گیا تھا۔ کسی بھی ایرانی جوہر ی تنصیب سے تابکاری کا اخراج نہ ہونا ہی اس بات کا سب سے بڑا ثبوت ہے ۔
ایران نے علامتی طور پر قطر میں امریکی فوجی اڈے پر حملہ کیا لیکن اس کی پیشگی اطلاع امریکا کو دے دی ۔ جس کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا ۔ خطے میں دوسرے عرب ملکوں کے علاوہ امریکا کا سب سے بڑا فوجی اڈہ قطر میں ہے ۔ جہاں 10ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ یہ تمام امریکی فوجی اڈے ایران پر حملے کے لیے قائم کیے گئے ہیں ۔ وکی لیکس کے مطابق صدرٹرمپ کا خلیجی ممالک کا حالیہ دورہ بظاہر جو بھی مقاصد لیے ہوئے تھا لیکن اصل مقصد تیل کی دولت سے مالامال ان ممالک کو براہ راست یہ حکم پہنچانا تھا کہ ایران اسرائیل جنگ کے تمام اخراجات یہ ملک اٹھائیں گے ۔ ایران پر حملے کا فیصلہ 10جو ن کو ہی ہو گیا تھا ۔ ٹرمپ نے پہلے دودن کا کہا پھر ایران کو دھوکا دینے کے لیے دو ہفتے کا کہا اور مذاکرات کی شکل میں دھوکا دہی کا آغاز کردیا گیا۔
ہر معاملے میں ٹوویک ٹرمپ کی پسندیدہ حکمت عملی یا چالبازی ہے ۔ جس کا مظاہرہ انھوں نے ایران پر حملے کے دوران کیا ۔ ٹرمپ کی اسی چالبازی کے پیش نظر ایران نے عالمی جوہری توانائی ایجنسی کے ساتھ تعاون معطل کرنے کی منظوری دے دی ہے ۔ یاد رہے کہ امریکا اور اسرائیل ہی تھے جنھوں نے اس ادارے پر دباؤ ڈال کر ایک جھوٹی رپورٹ جاری کروائی کہ ایران ایٹم بم بنا رہا ہے جب کہ یہی ادارہ پہلے یہ بیان جاری کر چکا تھا کہ ایسے کوئی شواہد نہیں ملے کہ ایران ایٹم بم بنا رہا ہے ۔ ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر نے کہا کہ اس ادارے نے اپنی عالمی ساکھ سرعام نیلام کردی ہے ۔
صدر ٹرمپ نے اس سال 21جنوری کو حلف لیا اور جیسے ہی 5 مہینے پورے ہوئے انھوں نے 22جون کو ایران پر حملہ کر دیا ۔ اس طرح میری مسلسل چوتھی بار پیشنگوئی پوری ہوئی۔ اس طرح ایک مہینے 37دن میں 5ویں پیشنگوئی ایران اسرائیل جنگ بندی کی شکل میں پوری ہوئی۔
حالیہ ایران اسرائیل جنگ بندی کے حوالے سے کسی خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کیونکہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ خاص طورپر جولائی کے آخر تک کا وقت انتہائی نازک ہے ۔ اس کے بعد بھی صورت حال غیر یقینی ہی رہے گی۔
صدر ٹرمپ کا مستقبل کیا ہے اس کا پتہ ستمبر ، اکتوبرسے چلنا شروع ہو جائے گا۔