اسرائیل کیجانب سے حزب اللہ کی رضوان فورس کے انٹیلیجنس کمانڈر عباس الوہبی کو شہید کرنیکا دعویٰ
اشاعت کی تاریخ: 30th, June 2025 GMT
صیہونی فوج کا کہنا ہے کہ عباس الوہبی حزب اللہ کی دفاعی صلاحیتوں کو بحال کرنے اور ہتھیاروں کی منتقلی جیسے اقدامات میں سرگرم تھے۔ اسرائیلی فوج کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ عباس الوہبی رضوان فورس کی انٹیلیجنس کارروائیوں کا اہم حصہ تھے۔ اسلام ٹائمز۔ اسرائیل نے ڈرون حملے میں حزب اللہ کی رضوان فورس کے انٹیلی جنس کمانڈر عباس الوہبی کو شہید کرنے کا دعویٰ کر دیا۔ اسرائیلی فوج (IDF) کے مطابق جنوبی لبنان کے علاقے محروانہ میں کیے گئے ایک ڈرون حملے میں حزب اللہ کے رضوان فورس بٹالین کے انٹیلی جنس کمانڈر عباس الحسن الوہبی کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ عباس الوہبی حزب اللہ کی دفاعی صلاحیتوں کو بحال کرنے اور ہتھیاروں کی منتقلی جیسے اقدامات میں سرگرم تھے۔ اسرائیلی فوج کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ عباس الوہبی رضوان فورس کی انٹیلی جنس کارروائیوں کا اہم حصہ تھے۔ اسرائیلی فوج کے مطابق یہ حملہ ہفتے کی صبح کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ ڈرون حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان سرحدی کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیلی فوج حزب اللہ کی رضوان فورس
پڑھیں:
اسرائیلی حملوں میں شہید سائنسدانوں، فوجی کمانڈرز کی نماز جنازہ تہران میں ادا کردی گئی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
تہران: اسرائیلی جارحیت کا نشانہ بننے والے ایرانی سائنسدانوں، فوجی افسران اور عام شہریوں کی نمازِ جنازہ تہران کے مرکزی علاقے میں ادا کی گئی، جہاں ہزاروں سوگواروں نے اشکبار آنکھوں کے ساتھ شہداء کو الوداع کہا۔
ایرانی خبررساں ادارےکے مطابق شہداء کی آخری رسومات کے لیے تہران کی سڑکیں انسانی سمندر میں تبدیل ہو گئیں۔ جنازے کا جلوس مرکزی انقلاب چوک سے شروع ہو کر تہران یونیورسٹی تک پہنچا، جہاں صدر مسعود پزشکیان، کابینہ کے اراکین، اعلیٰ عسکری قیادت اور ہزاروں شہریوں نے شہداء کے تابوتوں کو قومی پرچم میں لپٹا دیکھ کر احترام میں سر جھکا دیے۔
فضا نعرہ تکبیر، لبیک یا حسین اور اسرائیل مخالف نعروں سے گونجتی رہی۔ جنازے کے موقع پر عوامی جوش و جذبے نے ثابت کر دیا کہ ایرانی قوم اپنے شہداء کو بھولنے والی نہیں، اور ہر قدم پر ان کے خون کی حرمت کا دفاع کرے گی۔
شہداء میں وہ اعلیٰ جوہری سائنسدان اور فوجی کمانڈرز بھی شامل تھے جو 13 جون کو اسرائیل کے اُس فضائی حملے میں شہید ہوئے، جس نے مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کا آغاز کیا تھا۔ حملے کے ردعمل میں ایران نے فوری طور پر جوابی کارروائی شروع کی، جس میں تل ابیب، حیفہ اور دیگر اسرائیلی علاقوں میں حساس تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔
12 دن تک جاری رہنے والی شدید جھڑپوں میں دونوں جانب سے تابڑ توڑ حملے کیے گئے۔ 22 جون کو حالات اس وقت مزید بگڑ گئے جب امریکا نے کھل کر اسرائیل کا ساتھ دیا اور ایرانی شہروں فردو، نطنز اور اصفہان میں جوہری مراکز پر بمباری کی۔
اس کے اگلے ہی روز، ایران نے آپریشن “بشارتِ فتح” کے تحت عراق اور قطر میں موجود امریکی فوجی اڈوں کو بیلسٹک میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ خوش قسمتی سے ان حملوں میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، تاہم مشرقِ وسطیٰ کی فضا مزید کشیدہ ہو گئی۔
صورتحال میں تبدیلی اس وقت آئی جب قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن آل ثانی نے تہران اور واشنگٹن کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا، جس کے بعد ایرانی قیادت نے جنگ بندی پر آمادگی ظاہر کی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تجویز پر اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے بھی جنگ روکنے پر رضامندی ظاہر کی۔
فی الوقت ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ نافذ العمل ہے اور خطے میں ایک عارضی سکون قائم ہو چکا ہے، تاہم عوامی غم و غصے اور تہران کی سڑکوں پر امڈتے ہوئے ہجوم اس تلخ حقیقت کے گواہ ہیں کہ یہ جنگ صرف ہتھیاروں کی نہیں، عزت و وقار اور خودمختاری کی جنگ بھی تھی۔