Express News:
2025-11-03@08:10:02 GMT

کوٹ لکھ پت سے آنے والا خط

اشاعت کی تاریخ: 6th, July 2025 GMT

پی ٹی آئی کا سیاسی قافلہ اب کہاں جا کر ٹھہرے گا؟ کوٹ لکھپت جیل سے آنے والے خط کے بعد اس سوال پر غور ضروری ہے۔ اس سوال پر غور کرتے ہوئے بہتر ہے ایک نگاہ پی ٹی آئی کے سرکاری مؤقف پربھی ڈال لی جائے۔پی ٹی آئی کا تصدیق شدہ سرکاری مؤقف کیا ہے؟ یہ سوال پریشان کر دینے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔

پی ٹی آئی کے مخالفین نہیں بلکہ اس کے اپنے متعلقین بھی یقین رکھتے ہیں کہ یہ جماعت بری طرح اختلافات کا شکار ہے جس کے مظاہر سامنے آتے رہتے ہیں۔ یہ اختلافات اپنی جگہ لیکن ایک تاثر ایسا ہے جس پر اس جماعت کے حامی اور مخالفین مکمل طور پر یک سو ہیں۔ یہ ہے عمران خان کا انداز فکر۔ وہ آج بھی اپنے اسی مؤقف پر چٹان کی طرح جمے ہوئے ہیں جسے تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد انھوں نے اختیار کیا تھا۔ 

ان کا انداز فکر کیا ہے؟ اس تک براہ راست رسائی ممکن نہیں ہے۔ اس لیے وہ قیادت جسے انھوں نے اپنی جگہ بٹھایا ہے، اس کی کہی ہوئی بات کو ان کا مؤقف سمجھا جا سکتا ہے یا پھر ان لوگوں کی گفتگو یہ سمجھنے میں مدد دے سکتی ہے جو جیل میں ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے ہیں جیسے ان کی قابل احترام بہنیں، محترمہ علیمہ خان وغیرہ۔ دشواری یہ ہے کہ ان خواتین کی بات چیت اکثر مشکل میں ڈال دیتی ہے۔ اس کے بعد پارٹی مؤقف کو سمجھنے کا ایک ہی ذریعہ باقی رہ جاتا ہے، وہ ہے پارٹی کا طرز عمل۔

پی ٹی آئی کا طرز عمل سمجھنے کا طریقہ پارٹی کی سیاسی پوزیشن ہے۔ پوزیشن سے مراد اس کی سیاسی حکمت عملی ہے جو پارٹی راہ نماؤں کے باہمی اختلافات اور مخالفانہ بیان بازی کے باوجود برقرار ہے۔ اسے یوں بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے جو مؤقف آتا ہے، وہی پارٹی کا تصدیق شدہ مؤقف ہے۔ یہ مؤقف ہے، موجودہ حکومت کے بارے میں غیر لچک دار پالیسی یعنی اس کے لیے بانی پی ٹی آئی کوئی گنجائش نہیں رکھتے اور وہ صرف اور صرف اسی فریق کے ساتھ رابطوں اور مذاکرات کے متمنی ہیں جسے وہ طاقت کا مرکز قرار دیتے ہیں یعنی اسٹیبلشمنٹ۔ 

 بانی پی ٹی آئی نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے محروم ہونے کے بعد یہ مؤقف اختیار کیا تھا اور اب پلوں تلے سے کروڑوں کیوسک پانی گزر جانے کے باوجود بھی وہ اسی مؤقف پر کھڑے ہیں۔ مستقل مزاجی اسی کو کہتے ہیں۔ وہ اس تمام عرصے میں اپنے مؤقف پر قائم رہے ہیں، اس ثابت قدمی کے لیے وہ یقینا داد کے مستحق ہیں۔ وہ اگر ثابت قدم ہیں تو پھر اس جماعت کو پریشان نہیں ہونا چاہیے اور اسیران کوٹ لکھ پت م کو خط نہیں لکھنا چاہیے تھا۔ سوال یہ ہے کہ ان راہ نماؤں نے خط کیوں لکھا؟
اس سوال کا ایک ہی جواب ہے۔ جواب یہ ہے کہ سیاست میں مستقل مزاجی تو یقینا خوبی ہے لیکن حکمت عملی میں لچک بھی ناگزیر ہے۔ لچک دریا میں کشتی چلانے جیسی ہوتی ہے جسے ماہر القادری نے بڑی خوبی سے بیان کیا ہے  ؎

جہاں جس کی ضرورت تھی وہی تدبیر کی تو نے
کبھی کشتی کو جنبش دی کبھی موجوں کو ٹھہرایا 

خط لکھنے والے راہ نما محسوس کرتے ہیں کہ یہی واحد معاملہ ہے جو پارٹی کی کمزوری بھی ہے اور اس کے بانی کی کمزوری بھی یعنی پارٹی کو حکمت سے نہیں چلایا گیا۔ بانی پی ٹی آئی کے غیر لچک دار مزاج کی وجہ سے پارٹی کارکن بھی یک رخے ہو گئے ہیں۔ اپنے مخالفین کے خلاف مزاحمت میں وہ ریاست اور سیاست کا فرق سمجھ نہیں پائے لہٰذا وہ ایسا بہت کچھ کر بیٹھے ہیں جس کی وجہ سے پارٹی کو مسلسل نقصان ہو رہا ہے۔

خط کے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اسیر راہ نما محسوس کرتے ہیں کہ پارٹی کے بانی اس نقصان کو سمجھ نہیں پا رہے ہیں اور انھوں نے پی ٹی آئی کو تصادم کی طرف دھکیل کر اس کا مستقبل مخدوش کر دیا ہے۔ یہی سبب ہے کہ انھوں نے اپنی رائے کے اظہار کے لیے پارٹی کے اندرونی فورم کے سامنے اپنا مؤقف پہنچانے کے بہ جائے کھلا خط لکھنا پسند کیا۔

ایسا کھلا خط لکھنے کی ضرورت تب ہی پیش آتی ہے جب کوئی دوسرا راستہ نہ بچا ہو۔ اس لیے انتہائی محتاط الفاظ میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ خط پارٹی کے سرکاری مؤقف اور اس مؤقف کے موجد پر عدم اعتماد ہے۔ پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں، ان سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اسے بھی اس خط کے مندرجات کے ساتھ اتفاق ہے۔ فریق مخالف کا اس ضمن میں طرز عمل کیا ہو گا؟ ابھی اس کا انتطار ہے لیکن اندازہ یہی ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنے راستے پر چلتے رہیں گے، اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ خط پی ٹی آئی میں پہلی بڑی تقسیم کو بنیاد فراہم کر رہا ہے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علامہ عبدالستار عاصم کی ـ’ماں‘

ماں ایک ایسا موضوع ہے، کسی بھی انسانی سماج میں جس پر اختلاف نہیں ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ماں سے تعلق اور محبت ایک مسلمہ انسانی قدر ہے، ذوق سلیم رکھنے والے لوگ ہی نہیں بلکہ گناہ گار اور عرف عام میں برے لوگ بھی ماں کے تعلق سے جذباتی ہو جاتے ہیں۔ سبب کیا ہے، سبب وہی ہے جس کا ذکر قرآن حکیم میں کیا گیاکہ ماں نے تمھیں نو ماہ پیٹ میں رکھا پھر جب تم پیدا ہوئے اور کچھ کرنے کے قابل نہیں تھے، اس نے تمھیں پال پوس کر بڑا کر دیا۔ 

ماں کے ساتھ انسان کا یہ تعلق ہی ہے کہ سخت سے سخت جا ن انسان بھی اس کے ذکر پر پسیج جاتا ہے۔ علامہ عبد الستار عاصم نے اسی موضوع کے درجنوں پہلو ؤں پر قلم اٹھا کر ایک کتاب میں یک جا کر دیاہے۔ علامہ صاحب کا تعارف تو پبلشر کا ہے لیکن ان کی یہ کتاب دیکھیں تو وہ ایک محقق کے روپ میں سامنے آتے ہیں۔

انھوں نے اِ س موضوع پر قرآن و سنت اور دیگر مذہبی متون سے ہی ماں کے کردار اور حیثیت کا جائزہ پیش نہیں کیا بلکہ سائنس، ٹیکنالوجی، عمرانیات، سماجیات حالاں کہ فنون لطیفہ کے تعلق سے بھی ماں کے بارے میں انسانی احساسات اور جذبات کا جامعہ مطالعہ پیش کر دیا ہے۔

وہ لوگ جو زندگی کے مختلف شعبوں میں ماں کے بارے میں جذبات اور احساسات کوسمجھنے کے خواہش مند ہیںِ ان کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ مثال کے طور پر فلم کو لے لیں، اس تفریحی شعبے میں ماں کا کردار ہمیشہ زیر بحث آتا ہے جسے دیکھ کر گاہے محسوس ہوتا ہے کہ کہانی نویس اور پروڈیوسر کا مطالعہ اور مشاہدہ اس شعبے میں ناقص تھا۔ ایسے مظاہر کا ایک سبب ان شعبوں میں بھیڑ چال ہے لیکن اگر متعلقہ شعبوں کے لوگ کم از کم اس کتاب کا مطالعہ ہی کر لیں تو وہ موضوع کے ساتھ انصاف کر سکیں گے۔ خیر یہ تو ایک مثال ہے ، یہ کتاب ہر صاحب دل اور صاحب ایمان کے لیے ہے جو ماں کے بارے میں اس کے علم میں اضافہ کرے گی۔ قلم فاؤنڈیشن نے یہ کتاب روایتی اہتمام کے ساتھ شایع کی ہے۔
 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بانی پی ٹی ا ئی کے بارے میں انھوں نے ا پی ٹی آئی پارٹی کے یہ ہے کہ ہے لیکن ہوتا ہے سکتا ہے کے ساتھ ماں کے کے بعد کیا ہے کے لیے

پڑھیں:

جماعت اسلامی کا احتجاجی مارچ ‘ ریڈ لائن منصوبہ فوری مکمل و حتمی تاریخ دینے کا مطالبہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251102-01-21
کراچی(اسٹاف رپورٹر) سندھ حکومت کی نا اہلی ، ریڈ لائن بی آر ٹی کی مسلسل تاخیر کے باعث لاکھوں شہریوں ، طلبہ و طالبات ، دکانداروں و تاجروں کی مشکلات و پریشانیوں کے خلاف جماعت اسلامی پبلک ایڈ کمیٹی کی ریڈ لائن عوامی ایکشن کمیٹی کے تحت ہفتہ کو امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان کی زیر قیادت مین یونیورسٹی روڈ پر بیت المکرم مسجد سے حسن اسکوائر تک احتجاجی مارچ کیا گیا اور سندھ حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ریڈ لائن منصوبہ فی الفور مکمل اور حتمی تاریخ کا اعلان کیا جائے ۔ روزانہ سفر کرنے والے لاکھوں افراد کے لیے متبادل راستے بنائے جائیں ، تاجروں کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے اور منصوبے کی تعمیر میں غیر معمولی تاخیر کے دوران جاں بحق و زخمیوں سمیت تمام متاثرین کو ہر جانہ ادا کیا جائے ، مارچ سے امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان ، نائب امیر کراچی و اپوزیشن لیڈر کے ایم سی سیف الدین ایڈووکیٹ ، امیر ضلع شرقی نعیم اختر ، ایکشن کمیٹی کے کنونیئر نجیب ایوبی و دیگر نے بھی خطاب کیا ۔مارچ کے شرکا نے ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈز اٹھائے ہوئے تھے جس پر کراچی دشمنی بند کرو، ریڈ لائن فوری مکمل کرو،اہل کراچی کو ان کا حق دو ، سمیت دیگر نعرے درج تھے ۔ منعم ظفر خان نے حسن اسکوائر پر مارچ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی بد ترین نااہلی اور کرپشن کا امتزاج ہے۔پیپلز پارٹی کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ تاجروں کا روزگار تباہ ہو یا عام شہری اور طلبہ و طالبات شدید مشکلات و اذیت کا سامنا کریں ۔ کراچی وہ واحد شہر ہے جہاں منصوبے کی تکمیل کی کوئی حتمی تاریخ نہیں دی جاتی۔ منصوبے سے متاثرہ افراد کے لیے بھی کوئی انتظام نہیں کیا جاتا ۔ یونیورسٹی روڈ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور شہریوں کے لیے کوئی متبادل راستہ نہیں ، جن لوگوں کا کاروبار تباہ ہورہا ہے انہیں معاوضہ نہیں دیا جارہا بلکہ ٹھیکے والوں کے نام پر جعلی لسٹ بنائی جارہی ہے۔ ریڈ لائن منصوبے کی مسلسل تاخیر سے لاکھوں شہری متاثر ہورہے ہیں۔ گلشن اقبال کاروباری مرکز ہے، یہاں تعلیمی ادارے اور جامعات ہیں، ایشین ڈیولپمنٹ بینک نے اربوں روپے کے فنڈز دیے اور 2019 میں منصوبے پر کام شروع کیا گیا لیکن منصوبہ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا اور ہر بار نئی تاریخ دی جاتی ہے۔ جماعت اسلامی نے ریڈ لائن بی آر ٹی مکمل کرو مہم کا آغاز کردیا ہے جو تعمیر مکمل ہونے تک جاری رہے گی ، آج کا احتجاج علامتی ہے اگر مسائل حل نہ ہوئے تو اس سے بڑا احتجاج کریں گے۔ جدوجہد اور مزاحمت کو آگے بڑھائیں گے اور شہر کراچی کا مقدمہ لڑتے رہیں گے۔ کراچی کو قابض پیپلز پارٹی کی فسطائیت سے نجات دلانے کے لیے عوام جماعت اسلامی کا دست و بازو بنیں۔ سیف الدین ایڈووکیٹ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کی 17 سالہ حکومت کراچی کے عوام کے لیے مسلسل مصیبت اور اذیت بنی ہوئی ہے ، پورے کراچی کو کھنڈر بنادیا ہے اور پوری یونیورسٹی روڈ کھدی پڑی ہے ، سندھ حکومت اربوں کھربوں روپے کا فنڈز لینے کے باوجود کام کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کو صرف اور صرف کمیشن کی فکر ہے۔ ریڈ لائن منصوبے سے متاثرہ کسی بھی فرد کو معاوضہ ادا نہیں کیا گیا۔ٹھیکے والوں کی جعلی لسٹیں بنائی جا رہی ہیں لیکن اصل حق دار کو معاوضہ نہیں دیا جارہا۔نعیم اختر نے کہا کہ بی آر ٹی منصوبہ کرپشن اور نااہلی کا شاہکار ہے۔ منصوبہ صرف 6 فیصد لوگوں کی ضروریات پوری کرے گا۔ پنجاب کے منصوبے مقررہ وقت پر مکمل کردیے جاتے ہیں لیکن بی آر ٹی منصوبہ 3 سال سے مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت بے حس ہوچکی ہے اسے عوام کی پریشانی سے کوئی سروکار نہیں ہے۔

امیر جماعت اسلامی کراچی منعم ظفر خان کی زیر قیادت مین یونیورسٹی روڈ پر ریڈ لائن بی آرٹی کی مسلسل تاخیر کے خلاف احتجاجی مارچ کیا جارہا ہے

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • پی پی اور ن لیگ کی سیاسی کشمکش؛ آزاد کشمیر میں اِن ہاؤس تبدیلی تاخیر کا شکار
  • گورنر کے امیدوار کیلئے 8 ،10 نام؛ پارٹی فیصلہ کرے گی : گورنر کے پی کے فیصل کریم کنڈی
  • پیپلز پارٹی نے کراچی کی نوکریوں پر قبضہ کر رکھا ہے: حافظ نعیم
  • پیپلز پارٹی نے کراچی کی نوکریوں پر قبضہ کر رکھا ہے، شہر کو لوٹ مار سے آزاد کرائیں گے: حافظ نعیم
  • جماعت اسلامی کا احتجاجی مارچ ‘ ریڈ لائن منصوبہ فوری مکمل و حتمی تاریخ دینے کا مطالبہ
  • فلسطین کے حق میں کیے گئے معاہدے دراصل سازش ثابت ہو رہے ہیں، ایاز موتی والا
  • پیپلز پارٹی نااہلی اور کرپشن کا امتزاج، احتجاجی مہم کا آغاز کر دیا۔ منعم ظفر خان
  • پیپلز پارٹی کی سب سے بہتر سیاسی پوزیشن
  • وزیراعظم آزاد کشمیر کا اعلان اسلام آباد سے نہیں، کشمیر سے ہوگا، بلاول
  • کالعدم ٹی ایل پی کے ٹکٹ ہولڈرز کا پارٹی سے لاتعلقی کا اعلان