پیپلز پارٹی کی سب سے بہتر سیاسی پوزیشن
اشاعت کی تاریخ: 1st, November 2025 GMT
پیپلز پارٹی ملک کی تمام سیاسی جماعتوں میں اس لیے سب سے بہتر پوزیشن میں ہے کہ اقتدار پر اقتدار اسے حاصل ہو رہا ہے مگر اس کے مطابق وہ وفاقی حکومت میں شامل نہیں، مگر ملک کے دو بڑے اور دو چھوٹے وفاقی عہدے اور دو صوبوں کی حکومتیں اس کے پاس تو تھیں ہی مگر اس نے حصول اقتدار میں اضافے کے لیے 8 ماہ کی بچی ہوئی آزاد کشمیرکی حکومت بھی حاصل کر لی مگر پھر بھی مطمئن نہیں، کیونکہ اسے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے اقتدار میں حصہ نہیں مل رہا۔
صوبہ سندھ میں اس کی واضح اکثریت ہے کہ جہاں اس نے اپنے تمام بڑے لیڈروں کو وزارتوں سے نواز رکھا ہے اور تھوک کے حساب سے سندھ حکومت کے ترجمان مقرر کر رکھے ہیں بلکہ بعض کو کئی کئی عہدوں اور محکموں سے نواز رکھا ہے جس کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ اس نے سکھر کے میئر کو سندھ حکومت کا ترجمان بھی بنا رکھا ہے۔ سندھ حکومت نے پی پی سے باہر صرف ایک عہدہ مسلم لیگ (ق) کے رہنما اور کراچی کے سابق ڈپٹی ناظم کو دیا ہے۔ سندھ کی تمام میونسپل کارپوریشنوں کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے۔ سندھ حکومت نے ان شہروں میں بھی اپنے میئر منتخب کرا رکھے ہیں، جہاں پہلے ایم کیو ایم کے میئر منتخب ہوا کرتے تھے۔
پہلی بار سندھ کابینہ کی تشکیل میں بلاول بھٹو ہی کا اہم کردار ہے مگر نہ جانے کیوں انھوں نے لاڑکانہ ڈویژن کو نظرانداز کیا اور وہاں سے سندھ کابینہ میں کوئی وزیر شامل نہیں کیا۔ مرحوم آغا سراج درانی پیپلز پارٹی کی سندھ کی پانچ حکومتوں میں اہم وزارتوں اور سندھ اسمبلی کے اسپیکر کے عہدے پر رہے مگر پہلی بار انھیں موجودہ سندھ حکومت میں کوئی عہدہ نہیں دیا گیا تھا جن کا تعلق شکارپور ضلع سے تھا اور اس بار آغا سراج پہلی بار کسی عہدے سے محروم رہے اور بلاول بھٹو ان کی وفات پر تعزیت کے لیے ان کے آبائی گھر گڑھی یاسین ضرور گئے ہیں۔
بھٹو صاحب سے بے نظیر بھٹو تک سندھ میں پیپلز پارٹی کی مختلف سالوں میں تین حکومتیں رہیں مگر پی پی کی سربراہی آصف زرداری کو ملنے کے بعد 2008 سے 2024 تک سندھ میں مسلسل پیپلز پارٹی کو اقتدار ملتا رہا اور سندھ میں پیپلز پارٹی کو اتنی بڑی کامیابی بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کے دور میں نہیں ملی، جتنی آصف زرداری نے دلوائی اور انھوں نے سندھ کے تمام بڑے سرداروں، پیروں اور وڈیروں کو پیپلز پارٹی میں شامل کرا رکھا ہے۔ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا صفایا ہی ہو چکا ہے اور پیپلز پارٹی اپنے ارکان اسمبلی ان علاقوں سے بھی پہلی بار منتخب کرانے میں کامیاب رہی جہاں سے پہلے ایم کیو ایم اور مسلم لیگ فنکشنل کامیاب ہوا کرتی تھی۔ اس وقت سندھ کے اقتدار پر پیپلز پارٹی کا مکمل کنٹرول ہے اور اندرون سندھ تو پی پی کا مکمل گڑھ ہے۔
سندھ کے قریب بلوچستان کا صوبہ ہے جہاں کئی بار پیپلز پارٹی کا وزیر اعلیٰ رہا۔ بلوچستان سے پیپلز پارٹی اور (ن) لیگ کو ایک جیسی نشستیں ملی تھیں مگر 2024کے (ن) لیگ سے انتخابی معاہدے میں آصف زرداری نے بلوچستان کا وزیر اعلیٰ پیپلز پارٹی کا بنوایا اور پنجاب و کے پی کے گورنروں، چیئرمین سینیٹ، ڈپٹی اسپیکر، قومی اسمبلی کے عہدے جو آئینی ہیں پیپلز پارٹی نے حاصل کر رکھے ہیں۔پیپلز پارٹی کی طرف سے حکومت کی حمایت ترک کرنے اور اپوزیشن میں بیٹھنے کے بیانات اس لیے آئے دن آتے ہیں کہ پی پی چاہے تو حکومت کی حمایت ترک کر کے (ن) لیگی حکومت ختم کرا سکتی ہے مگر (ن) لیگ پیپلز پارٹی کو کوئی نقصان پہنچانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی کوئی آئینی عہدہ مسلم لیگ (ن) پی پی سے لے سکتی ہے اور پی پی رہنماؤں کے مطابق دونوں پارٹیوں کا اتحاد مجبوری کا اتحاد ہے جو کسی وجہ سے اب تک قائم ہے مگر مسلم لیگ پر پیپلز پارٹی کو سبقت حاصل ہے۔
اس لیے پی پی دھمکیاں بھی دیتی رہتی ہے مگر (ن) لیگ پی پی کو دھمکی دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے اس لیے پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) سے زیادہ بہتر سیاسی پوزیشن میں ہے۔ پیپلز پارٹی نے وفاقی حکومت کو دھمکیاں دے کر اپنے کئی مطالبے منوائے ہیں جن میں دریائے سندھ سے کینالز نکالنے کا اہم مسئلہ بھی شامل تھا جو تسلیم نہ کیے جانے سے سندھ میں پی پی کو سیاسی نقصانات پہنچا سکتا تھا۔
پیپلز پارٹی اپنی سیاسی برتری کے باعث اب تک پنجاب میں ہوئے پاور شیئرنگ معاہدے پر (ن) لیگ سے عمل نہیں کرا سکی، کیونکہ (ن) لیگ کو پنجاب اسمبلی میں برتری حاصل ہے اور وہ پی پی کی محتاج تو نہیں مگر دونوں پارٹیوں کے درمیان معاہدے میں پنجاب حکومت میں پی پی رہنماؤں کو شامل کرنے کا معاہدہ موجود ہے جس پر عمل نہیں ہو رہا جس پر پی پی رہنما کہتے ہیں کہ اس سے وفاقی حکومت خطرے میں ڈالی جا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق وفاق میں مسلم لیگ (ن) کے پاس اپنی حکومت برقرار رکھنے کے لیے واضح اکثریت موجود ہے اور وہ اب پیپلز پارٹی کی محتاج نہیں ہے اور بلوچستان حکومت سے الگ ہو کر وہاں پی پی کی حکومت ضرور ختم کرا سکتی ہے مگر 27 ویں ترمیم منظور کرانے کے لیے اسے پی پی کی ضرورت ہے اس لیے بلاول بھٹو مولانا سے ملنے گئے تھے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پیپلز پارٹی کو پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت پوزیشن میں مسلم لیگ پہلی بار پی پی کی رکھا ہے میں پی ہے اور اس لیے کے لیے ہے مگر
پڑھیں:
کراچی ملک کی لائف لائن ہے پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے کھنڈر بنادیا، منعم ظفر
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: جماعت اسلامی کے امیر کراچی منعم ظفر خان نے کہا ہے کہ کراچی پورے ملک کی لائف لائن ہے لیکن اسے جان بوجھ کر نظر انداز کیا جا رہا ہے، پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت کی نااہلی اور کرپشن نے شہر کو کھنڈر میں تبدیل کر دیا ہے، سڑکیں ٹوٹی ہوئی ہیں، پانی ناپید ہے، سیوریج کا نظام درہم برہم اور انفراسٹرکچر تباہ حال ہے۔
انہوں نے کہا کہ ای چالان کے نام پر شہریوں کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالا جا رہا ہے اور صرف گزشتہ 24 گھنٹوں میں ساڑھے چھ کروڑ روپے کے چالان کیے گئے، وفاقی و صوبائی حکومتوں نے مل کر کراچی کو تباہ کیا ہے جبکہ سندھ حکومت نے شہر کے ترقیاتی فنڈز اور 2010 تا 2025 کے دوران کراچی کے حصے کے 3 ہزار 360 ارب روپے ہڑپ کیے۔
انہوں نے کہا کہ انفراسٹرکچر سیس کے نام پر ایک ہزار ارب روپے وصول کیے گئے مگر شہر کی تعمیر پر خرچ نہیں کیے گئے، جماعت اسلامی اقامتِ دین، عدل کے قیام اور ظلم کے نظام کے خاتمے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے، جماعت اسلامی ہی واحد جماعت ہے جو عوام کے حق کی جدوجہد کر رہی ہے اور اختیارات و وسائل نہ ہونے کے باوجود گزشتہ دو سال میں 171 سے زائد پارک بحال، 43 سرکاری اسکولوں کی تعمیرِ نو، ایک لاکھ سے زائد اسٹریٹ لائٹس نصب اور 6 لاکھ افراد تک پانی پہنچایا۔
امیر کراچی نے کہا کہ لیاری میں قائم ہونے والی 200 عوامی کمیٹیاں محلے اور گلی کی سطح پر عوامی خدمت کریں گی، صفائی ستھرائی کی بہتری، قانون شکنی کی روک تھام اور منشیات کے خاتمے میں کردار ادا کریں گی۔
انہوں نے شرکاء کو جماعت اسلامی کے اجتماعِ عام لاہور میں شرکت کی دعوت دی، جو 21، 22 اور 23 نومبر کو منارِ پاکستان لاہور میں ہوگا، اجتماع عام کا پیغام ہے بدل دو نظام کو اور پورے ملک سے نوجوان، خواتین، بچے اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد اس میں شریک ہوں گے۔
نائب امیر ضلع جنوبی سفیان دلاور نے کہا کہ جماعت اسلامی ظلم کے مقابلے میں عدل و انصاف کے قیام کی جدوجہد کر رہی ہے، لیاری کے عوام بجلی، پانی، سڑکوں اور منشیات جیسے سنگین مسائل سے دوچار ہیں مگر حکمرانوں نے عوامی مسائل سے چشم پوشی اختیار کر رکھی ہے، جماعت اسلامی خدمت، امانت اور دیانت کی علامت ہے اور کراچی کے عوام کے چہروں پر مسکراہٹ لوٹانا ہمارا مشن ہے۔