جماعت اسلامی ویمن ونگ کراچی کا میڈیا اجلاس
اشاعت کی تاریخ: 1st, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (اسٹاف رپورٹر)جماعت اسلامی ویمن ونگ کراچی کی ناظمہ جاوداں فہیم کی زیر صدارت میڈیا ڈپارٹمنٹ کا ایک اہم اجلاس ادارہ نورِ حق میں منعقد ہوا، جس میں شہر بھر سے میڈیا کی ذمے دار خواتین و کارکنان نے شرکت کی۔ اجلاس میں اجتماعِ عام کے حوالے سے جاری میڈیا مہمات، حکمت عملی اور مختلف پلیٹ فارمز پر ہونے والی سرگرمیوں کا تفصیلی جائزہ لیا گیا اور میڈیا ٹیموں کی رپورٹس پیش کی گئیں۔اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ سوشل میڈیا اور دیگر ایپس پر کام کی رفتار مزید تیز کی جائے، ہر پلیٹ فارم پر مربوط انداز میں پیغام پہنچایا جائے اور میڈیا کے سامنے آنے والے چیلنجز کو سمجھ کر ان کے حل کے لیے منظم منصوبہ بندی اختیار کی جائے۔ میڈیا ورکرز کو اجتماعِ عام کی کامیابی میں بڑا کردار ادا کرنے پر زور دیا گیا اور کہا گیا کہ ہر میڈیا کارکن اپنی تمام صلاحیتوں کے ساتھ اس اہم مہم میں حصہ لے۔اس موقع پر جماعت اسلامی ویمن ونگ کراچی کی ناظمہ جاوداں فہیم نے کہا کہ یہ محض ایک اجتماع عام نہیں بلکہ فکری و عملی جہاد ہے جو اس دور کے چیلنجز اور کرپٹ نظام کے خلاف کیا جارہا ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک متبادل قیادت ناگزیر ہے۔ ایسی قیادت جو عوام کے مسائل کو سمجھے، ان کی ضروریات کا خیال رکھے اور عالمی سطح پر پاکستان کے وقار کو بحال کرتے ہوئے امت مسلمہ کے ساتھ مل کر آگے بڑھے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو جس قیادت کی ضرورت ہے وہ جلد سامنے آئے گی۔عوام بھی اس ناکام نظام سے نجات چاہتے ہیں اور بدل دو نظام کا نعرہ اب ہر دل کی آواز بن چکا ہے۔ جب تک موجودہ نظام درست نہیں ہوگا، عوام کی فلاح و بہبود اور انسانیت کی ترقی ممکن نہیں۔ جماعت اسلامی اس کوشش میں مصروف ہے کہ عوامی طاقت کے ذریعے ایک منصفانہ اور منظم نظام قائم کیا جائے جو پاکستان کے وقار کو بلند اور تابندہ کرسکے۔ اجلاس میں نائب ناظمہ کراچی ندیمہ تسنیم، نگران میڈیا ڈپارٹمنٹ کراچی ثمرین احمد، ڈپٹی سیکرٹری میڈیا ڈپارٹمنٹ صائمہ عاصم، سمیہ عامر اور رضوانہ قطب سمیت دیگر ذمے داران بھی موجود تھیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی
پڑھیں:
نااہلی کا اعتراف ناممکن
جماعت اسلامی پاکستان کے سب سے کم عمر امیر حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ ملک پر نااہل لوگ قابض رہے اور ہیں انھیں 78 سال کی ناکامی کا اعتراف کرنا چاہیے۔ اب تک آمر، سیاستدان، جاگیردار اور سرمایہ دار حکمران رہے مگر کسی نے بھی ملک کو درست طریقے سے نہیں چلایا، اب ہم نومبر میں ’ نظام بدلو تحریک‘ کی بنیاد رکھیں گے۔
ملک کے نوجوانوں کو پاکستان سے مایوس کیا جاتا ہے جب کہ ملک میں سب کچھ موجود ہے اور آیندہ مستقبل سیاسی قبضہ گروپوں کا نہیں، نوجوانوں کا ہے۔
حافظ نعیم کراچی میں ایک بار پھر خود کو جماعت اسلامی کا میئر لانے کی کوشش کر رہے تھے اور انھوں نے جماعت اسلامی کو بطور امیر کراچی خاصہ متحرک کیا تھا جس کے نتیجے میں جماعت اسلامی سب سے زیادہ یوسی چیئرمین اور کونسلر منتخب اس لیے کرا سکی تھی کہ ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے مایوس کراچی کے لوگوں نے بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی پر اعتماد کیا تھا اور حافظ نعیم کے میئر بننے کا امکان بھی تھا مگر 2008ء سے سندھ میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی کی حکومت نے اندرون خانہ پی ٹی آئی کے منتخب یوسی چیئرمینوں کی ملی بھگت سے پہلی بار پی پی کا بلدیہ عظمیٰ کراچی کا میئر منتخب کرا لیا تھا۔
بلدیاتی انتخابات کے بعد گزشتہ سال ملک میں عام انتخابات منعقد ہوئے تھے جن میں ایم کیو ایم نے حصہ لیا تھا جس میں جماعت اسلامی سے حافظ نعیم اور ایک اور صاحب سندھ اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے مگر حافظ نعیم نے سندھ اسمبلی کی رکنیت کا حلف اس لیے نہیں اٹھایا تھا کہ ان کی مذکورہ نشست پر پی ٹی آئی جیتی تھی مگر الیکشن کمیشن نے انھیں کامیاب قرار دیا تھا جسے حافظ نعیم نے قبول نہیں کیا اور حلف نہ اٹھانے کے باعث سندھ اسمبلی کی یہ نشست اب تک متنازعہ ہے جس پر حال ہی میں میئر کراچی نے اعتراض بھی کیا ہے۔ حافظ نعیم ایک یوسی کے چیئرمین بھی منتخب ہوئے تھے جس کے بعد انھیں جماعت اسلامی پاکستان کا امیر منتخب کر لیا گیا تھا جس کے بعد وہ ملک بھر کے دورے اور جماعت اسلامی کی مقبولیت کے لیے بنو قابل پروگرام چلا رہے ہیں۔
1970 کے الیکشن میں پورے پاکستان سے صرف چار قومی اسمبلی کی نشستیں ملی تھیں جن میں دو نشستیں کراچی سے تھیں۔ کے پی میں 2002کے الیکشن میں جماعت اسلامی کو کچھ نشستیں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے ملی تھیں اور جے یو آئی کے وزیر اعلیٰ اکرم درانی کی کابینہ میں سراج الحق سمیت جماعت اسلامی کے وزرا شامل تھے۔
ایم کیو ایم بننے سے پہلے کراچی میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان بڑی سیاسی قوت تھیں جو بعد میں ختم ہوگئی تھی۔ کراچی سے سید منور حسن جماعت اسلامی کے مرکزی امیر منتخب ہوئے مگر 1970 کے بعد کراچی سے جماعت اسلامی اپنا کوئی رکن اسمبلی منتخب نہیں کرا سکی تھی البتہ عبدالستار افغانی جماعت اسلامی کے جنرل ضیا دور میں میئر کراچی منتخب ہوئے تھے اور مشرف کے سٹی حکومت نظام میں جماعت اسلامی کے نعمت اللہ خان ایم کیو ایم کے بائیکاٹ کے باعث کراچی کے ایک کامیاب سٹی ناظم رہے تھے۔
جماعت اسلامی پورے ملک میں موجود ہے مگر اسے کبھی کسی صوبے کا اقتدار بھی نہیں ملا۔ جنرل ضیا الحق نے مارشل لا لگا کر جب وفاقی کابینہ بنائی تھی اسی جماعت اسلامی، جے یو آئی، پی ڈی پی کے رہنماؤں کو شامل کیا گیا تھا جو عام انتخابات نہ کرائے جانے پر مستعفی ہو گئے تھے۔
78 سالوں میں کوئی دینی و سیاسی جماعت وفاقی اقتدار میں نہیں رہی اور جماعت اسلامی بھی اقتدار سے باہر رہی اس لیے حافظ نعیم ساری جماعتوں کو قابض اور سابق حکمرانوں کو نااہل قرار دے کر انھیں ناکامی کا اعتراف کرنے کا کہہ رہے ہیں جن کے اقتدار میں ملک دولخت ہوا، کبھی انھوں نے بھی اپنی نااہلیت کا اعتراف نہیں کیا۔ ملک دولخت ہونے کے بعد جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف طویل عرصہ اقتدار میں رہے۔
2008 میں پیپلز پارٹی اور 2018 میں مسلم لیگ (ن) نے اپنی اپنی مدت پوری کی تھی جب کہ اس سے قبل پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ فنکشنل کا کوئی وزیر اعظم اپنی مدت پوری نہ کر سکا تھا اور 58-2/B کے تحت برطرف ہوتا رہا جن پر مختلف الزامات لگے جو ثابت ہوئے نہ تسلیم کیے گئے تھے۔
حکومتیں بنانے اور بگاڑنے والے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی حکمرانی سے مطمئن نہیں تھے اور دونوں کو نااہل سمجھ کر انھوں نے پی ٹی آئی کی حکومت وفاق، پنجاب اور کے پی میں لا کر نیا تجربہ کیا تھا اور پہلی بار ایک نئے شخص پر اعتماد کرکے وزیر اعظم بنایا گیا تھا جو حقیقی طور پر عوام سے منتخب نہیں ہوئے تھے بلکہ دوسری جماعتوں کو پیچھے کرکے پی ٹی آئی کو اقتدار دلایا گیا تھا جو پہلی بار ساڑھے تین سال بعد اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائی ۔
اس سے قبل جو حکومتیں ہٹائی گئیں ان سب نے اپنی برطرفی تسلیم کی تھی مگر چیئرمین پی ٹی آئی واحد حکمران تھے جنھوں نے اپنی آئینی برطرفی اب تک تسلیم نہیں کی تھی تو وہ خود کو نااہل کیسے مان سکتے تھے۔اس ملک میں جب آئینی برطرفی تسلیم نہیں کی جاتی اور نا 58-2/B کے تحت حکومتی برطرفیاں تسلیم ہوئیں تو کون خود کو قابض اور اپنی حکومتی ناکامی تسلیم کرے گا۔
صرف محمد خان جونیجو حکومت کی برطرفی عوام نے قبول نہیں کی تھی کیونکہ ایک شریف النفس وزیر اعظم غلط ہٹایا گیا تھا جب کہ بے نظیر بھٹو اور نواز شریف ایک دوسرے کی حکومتوں کی برطرفی کا خیر مقدم کیا کرتے تھے۔ ان دونوں، چیئرمین پی ٹی آئی اور کسیآمر حکمران نے کبھی خود کو قابض تسلیم کیا اور نہ ہی کبھی اپنی ناکامیوں کو تسلیم کیا۔ ہر حکمران اپنے منہ میاں مٹھو بنا رہا اور خود کو دوسروں سے زیادہ اہل اور سابق کو نااہل قرار دیتا آیا ہے تو حافظ نعیم جو خواب دیکھ رہے ہیں جس کی تعبیر ممکن ہی نہیں ہے۔