ممدانی کی مقبولیت: نظام سے بیزاری کا اظہار!
اشاعت کی تاریخ: 1st, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ممکن ہے ممدانی منافقت کر رہے ہوں، یا جو کچھ وہ بیان کرتے ہیں اس پر خود پورا یقین نہ رکھتے ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی سوچ کو عملی جامہ پہنانا ان کے بس کی بات نہ ہو۔ ممکن ہے کہ شور دریا میں ہو اور بیرون دریا کچھ نہیں۔ حتیٰ کہ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ نیویارک کے ناکام ترین میئر ثابت ہوں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آج وہ مقبولیت کا دوسرا نام بن چکے ہیں۔ بلکہ دنیا کے مقبول سیاستدانوں میں ان کا شمار ہونے لگا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ میں کئی روز تک اس مقبولیت کی وجہ سمجھنے سے قاصر رہا۔ 31 سالہ رکن اسمبلی ممدانی کو مختلف مواقع پر خطاب کرتے دیکھا، تو ہمیشہ ایک سنجیدہ، باشعور اور باوقار انداز نمایاں نظر آیا۔ خاص طور پر جب بھی فلسطین کے حق میں مظاہرے ہوئے، ظہران ممدانی نے اپنی سیاسی حیثیت کی پروا کیے بغیر کھل کر اسرائیل کے جرائم کے خلاف آواز بلند کی۔ اْس وقت بہت کم لوگوں نے ان کے اس جرأت مندانہ مؤقف پر توجہ دی۔
مجھے بخوبی یاد ہے کہ ایک موقع پر ان کے حلقے کی ایک مسجد میں ہمیں اسکول بیگ تقسیم کرنے تھے۔ میں نے اس سلسلے میں ممدانی کے دفتر سے رابطہ کیا اور انہیں دعوت دی کہ وہ بھی اس مہم میں شریک ہوں۔ وہ فوراً رضامند ہوگئے۔ لیکن جب میں نے مسجد کی انتظامیہ کو بتایا کہ میں ظہران ممدانی کو مدعو کر رہا ہوں، تو ابتدا میں اْنہوں نے کچھ ہچکچاہٹ کا اظہار کیا۔ اْن کا کہنا تھا کہ ممدانی کے چند خیالات مین اسٹریم مسلمانوں سے مختلف ہیں۔ میں نے وضاحت کی کہ میں اْن سے بات کر چکا ہوں۔ میں انہیں ذاتی طور پر دعوت دے چکا ہوں، اور دوسرا یہ کہ فلسطین کے مسئلے پر اْن کا مؤقف بالکل واضح اور دو ٹوک ہے۔
آخرکار، مسجد کی انتظامیہ نے وسعت ِ قلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اْن کا خیرمقدم کیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے کہ اْس وقت بہت کم لوگ اْنہیں پہچانتے تھے، حالانکہ وہ اسی علاقے کے منتخب نمائندہ تھے۔ ہم دونوں نے مل کر اسکول بیگ تقسیم کیے، اور اْس لمحے کوئی خاص ہجوم یا میڈیا کی توجہ نہیں تھی۔ ان سے میری ملاقات مسجدوں، مسلم کمیونٹی کے اجتماعات کے علاوہ کہیں نہیں ہوئی اس لیے سوچتا رہا کہ ان کی مقبولیت کی بنیاد صرف مسلمان ہونا، سوشلسٹ ہونا، پرکشش شخصیت یا خوبصورت مسکراہٹ نہیں ہے۔ مگر گزشتہ روز کے جلسے نے میری تمام سابقہ تشریحات بدل دیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ میرے گھر سے صرف دو میل دور جس اسٹیڈیم میں خطاب کرنے جا رہے تھے وہ بہت بڑا نہ ہوگا؛ کیونکہ میں بھی کبھی وہاں نہیں گیا تھا۔ مگر جب میں وہاں پہنچا تو دیکھا کہ وہ درحقیقت تیرہ ہزار افراد گنجائش رکھنے والا اسٹیڈیم تھا۔ دیکھا کہ لوگ جوق در جوق جلسہ گاہ میں آرہے ہیں ہزاروں لوگ داخل ہونے سے قاصر رہ گئے۔ جلسے میں جانے سے قبل میرا خیال تھا کہ وہاں شرکاء کی اکثریت بنگلا دیشیوں پر مشتمل ہوگی، اس کے بعد پاکستانی، پھر گورے، ہسپانوی اور دیگر قومیتوں کے افراد ہوں گے۔ یہ اندازہ اس لیے تھا کہ اس انتخابی مہم میں بنگلا دیشی کمیونٹی نے غیر معمولی طور پر سرگرم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن جب میں وہاں پہنچا تو منظر بالکل مختلف تھا۔ توقعات کے برعکس، سامعین میں نسل، رنگ اور قومیت کا ایسا حسین امتزاج تھا جو نیویارک کے بدلتے سیاسی مزاج کا آئینہ دار تھا۔ جلسے میں خطاب کے لیے گورنر ہوگو اور اسپیکر کارل یسٹی کی طرح کی روایتی سیاسی شخصیات بھی تھیں، مگر جب انہوں نے خطاب کیا تو سامعین نے ان کا خیرمقدم نہیں کیا؛ ان کے نعروں سے بڑھ کر ایک ہی صدا بلند ہوئی: ’’امیروں پر ٹیکس لاؤ‘‘۔
یہ منظر واضح کر گیا کہ ممدانی کی مقبولیت خود ممدانی کی نہیں؛ بلکہ اس نظام کے خلاف ایک اجتماعی نفرت، ایک ناخوشگوار بے چینی ہے۔ ہم جیسے بہت سے مہاجرین اور وہ لوگ جو ماضی میں نسبتاً کم توقعات کے ساتھ یہاں آئے تھے، معمولی بہتری پر خوش ہوجاتے ہیں؛ مگر جن نوجوانوں نے یہاں جنم لیا، جنہوں نے خواب دیکھے، ان کی زندگی مشکلات میں پھنستی جا رہی ہے۔ مہنگائی، روزگار کے مسائل، بے بسی، درمیانی طبقے کا خاتمہ اور امیروں کا مزید امیر بننا یہ وہ کیفیات ہیں جنہوں نے نوجوانوں کو ناراض کیا ہے۔ یہ غم و غصہ اور بے چینی زبانی شکل میں ظہران ممدانی کے نعروں کے ذریعے نمودار ہوئی۔ وہ تبدیلی کا نعرہ دے رہے ہیں۔ ایسا نعرہ جو نسل، مذہب اور رنگ سے بالاتر ہو کر لوگوں کو متحد کر رہا ہے۔ نوجوان ڈیموکریٹک سوشلسٹ کے ورکرز کے ساتھ کھڑے ہیں اور روایتی سیاست دان پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ حتیٰ کہ بعض روایتی پارٹی لیڈرز مجبور ہو کر ممدانی کی حمایت کرنے پر راغب ہوئے یا انہیں انڈورس نہ کرنے کی صورت میں ممکنہ مقابلے کا خدشہ لاحق ہوا۔
یہ معاملہ مسلمانوں یا سوشلسٹس کا نہیں؛ معاملہ تبدیلی کا ہے۔ اس تبدیلی کا جو امتیازی، سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف ایک بغاوت ہے۔ ایسا رجحان ہم نے دنیا کے مختلف حصوں میں بھی دیکھا ہے۔ نوجوان نسل کی بغاوت، مطالباتِ انصاف اور نظام سے ناپسندیدگی۔ شاید یہ وہی جذبہ ہے جس نے کہیں یا دیگر مقبول تحریکوں کو جنم دیا، نعرہ دیا گیا اور لوگوں نے اس نعرے کے پیچھے کھڑا ہونا شروع کر دیا۔ یقینا اس راستے میں مشکلات اور غیر یقینی کا پہلو موجود ہے۔ انتخابات میں کامیابی بسا اوقات ایک آزمائش بنتی ہے اور ناکامی بھی سامنے آ سکتی ہے۔ آنے والا وقت سخت بھی ہو سکتا ہے اور پیچیدہ بھی۔ مگر فی الحال حقیقت یہی ہے کہ لوگ نظام سے نالاں ہیں اور ممدانی نے اْن جذبات کو زبان دی ہے۔ یہ جنگ مذہب یا نظریے کی نہیں؛ یہ ایک سماجی و اقتصادی تبدیلی کی جنگ ہے اور اس میں کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ مستقبل کرے گا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ممدانی کی ہے کہ ا کہ میں تھا کہ
پڑھیں:
مخلوط تعلیمی نظام ختم کیا جائے،طلبہ یونین بحال کی جائے،احمد عبداللہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(صباح نیوز)ناظم اسلامی جمعیت طلبہ صوبہ پنجاب احمد عبداللہ نے پنجاب میں تعلیمی ریفرنڈم کی تحریک شروع کرنے کااعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ صوبہ پنجاب کے تعلیمی اداروں میں سال 2018سے اب تک 4500ہراساں کئے جانے کے کیس سامنے آئے ہیں جبکہ اس سے دس گنا ہراسگی کے واقعات رپورٹ ہی نہیں ہوئے ،حراسگی کی کیسوں کی بنیادی وجہ مخلوط تعلیمی نظام ہے، مخلوط تعلیمی نظام ختم کیا جائے، تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کو بحال اور فعال کیا جائے حکومت نے نوجوانوں کی ذہن سازی پر پابندی عائد کی ہوئی ہے۔ان خیالات کااظہارناظم اسلامی جمعیت طلبہ صوبہ پنجاب احمد عبداللہ نے میلوڈی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ناظم اسلامی جمعیت طلبہ صوبہ پنجاب احمد عبداللہ نے کہاکہ پنجاب میں تعلیمی ریفرنڈم کی تحریک شروع کر رہے ہیں پاکستان میں عوام مسائل کا شکار ہیں، پاکستان میں چند خاندان خوشحال ہیں ،عوام مسائل کا شکار ہے، پنجاب میں تعلیم سے متعلق بہت مسائل ہیں ،اسٹیبلشمنٹ کی ترجیحات میں تعلیم شامل نہیں ہیے، طلبہ کے ساتھ حکومت کارویہ اچھا نہیں ہے ،تعلیم پر کم ازکم مجموعی جی ڈی پی چار فی صد حصہ مختص کیا جائے، تعلیمی اداروں میں بڑھتی ہوئی فیسیں پریشانی میں اضافہ کررہی ہیں ،تعلیم ادارے دوران تعلیم فیسوں میں اضافے کردیتے ہیں ،نجی تعلیمی ادارے اس سے بڑھ کر ظلم کررہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کو بحال اور فعال کیا جائے حکومت نے نوجوانوں کی ذہن سازی پر پابندی عائد کی ہوئی ہے پنجاب حکومت رائے ونڈ کی جاگیر بن چکی ہے ۔ایرڈ(بارانی ) یونیورسٹی راولپنڈی میں درس قرآن دینے پر طلبہ کے خلاف کارروائی کی گئی ایرڈ یونیورسٹی میں ویلکم پارٹی پر کوئی پابندی نہیں ہے ،پنجاب یونیورسٹی میں طالب علم نے صوبائی وزیر تعلیم سے سوال کیا اس کا جواب نہیں دے سکا۔انہوں نے کہاکہ تعلیمی اداروں میں منشیات نوجوانوں کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہے ،تعلیمی اداروں سے منشیات کا خاتمہ کیا جائے، تعلیمی اداروں میں کو ایجوکیشن (مخلوط تعلیم)کا نظام ختم کیا جائے تعلیمی اداروں میں ہراسگی کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔