موضوع: پاک افغان صلح اور ہندوستان کی بڑھتی سرگرمیاں
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
تجزیہ ایک ایسا پروگرام ہے جس میں تازہ ترین مسائل کے بارے میں نوجوان نسل اور ماہر تجزیہ نگاروں کی رائے پیش کی جاتی ہے۔ آپکی رائے اور مفید تجاویز کا انتظار رہتا ہے۔ یہ پروگرام ہر اتوار کے روز اسلام ٹائمز پر نشر کیا جاتا ہے۔ متعلقہ فائیلیںہفتہ وار تجزیہ انجم رضا کے ساتھ
موضوع: پاک افغان صلح اور ہندوستان کی بڑھتی سرگرمیاں
تجزیہ نگار: پروفیسر ڈاکٹر عائشہ طلعت وزارت (سابق چیئرپرسن جامعہ کراچی شعبہ بین الاقوامی تعلقات
میزبان: سید انجم رضا
پیشکش: آئی ٹائمز ٹی وی اسلام ٹائمز اردو
خلاصہ گفتگو و اہم نکات:
افغانستان کا پاکستان کے ساتھ رویہ صرف معاندانہ نہیں بلکہ مخالفانہ ہوتا جارہا ہے
افغان عبوری حکومت بھارت کی کٹھ پتلی بنتی جارہی ہے
افغانستان واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا تھا
افغانستان نے ہمیشہ پاکستان سے سرحدی جھگڑا رکھا
روسی جارحیت کے بعد پاکستان نے لاکھوں کی تعداد میں افغان مہاجرین کو پناہ دی
افغانوں کا گلہ ہے کہ ہم نے ان کے ملک میں امریکہ کے مفادات کے لئے کام کیا
افغانستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات پاکستان کے لیے صحیح نہیں ہیں
پاک أفغان حکومتوں کو باہمی انڈر سٹینڈنگ بڑھانے کے لئے کام کرنا ہوگا
پاک أفغان حکومتوں کو آپسی اعتماد اور باہمی بھروسہ کی فضا قائم کرنا ہوگا
امریکی مفادات کے لئے آلہ کار بننا پاکستان کے لئے کسی طرح بھی سود مند نہیں
پاک أفغان تعلقات میں اس علاقے کے ریجنل معاملات اہمیت رکھتے ہیں
پاک أفغان حکومتوں کو چین ایران اور روس کے ساتھ ریجنل تعاون بڑھانا چاہیئے
بھارتی رجیم ہمیشہ سےپاکستان کی سالمیت کا کھلا دشمن ہے
کابل میں بھارتی سفارت خانہ پاکستان دشمن سرگرمیوں کو ہوا دیتا آیاہے
میڈیا پراپیگنڈہ کررہا ہے کہ پاکستان نے امریکہ کے کہنے پر افغانستان کے ساتھ محاذ گرم کیا
افغانیوں کو بھارت کی ایراننکے ساتھ دھوکہ دہی کو ذہن میں رکھنا چاہیئے
بھارت شرف اپنے مذموم عزائم اور مقاصد کے حصول کے لئے مسلم ممالک سے تعلق بناتا ہے
بھارت پہ موجودہ مسلط مودی رجیم مسلمان دشمن اور اسلام مخالف اپروچ رکھتی ہے
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پاک أفغان کے ساتھ کے لئے
پڑھیں:
پاک افغان تجارتی کشیدگی، اصل مسئلہ سرحد نہیں، دہشتگردی ہے
پاکستان نے افغانستان کے ساتھ حالیہ تجارتی تنازع کو صرف بارڈر یا تجارت کا معاملہ نہیں بلکہ سیکیورٹی اور سرحد پار سے بڑھتی دہشت گردی سے جوڑتے ہوئے واضح کیا ہے کہ تعلقات میں تناؤ کی بنیادی وجہ طالبان حکومت کا ٹی ٹی پی اور دیگر پاکستان مخالف گروہوں کے خلاف مؤثر کارروائی سے انکار ہے۔
پاکستان کی جانب سے واضح مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ افغانستان کے ساتھ تجارتی کشیدگی کی اصل وجہ سرحدی امور نہیں بلکہ وہ سیکیورٹی خدشات ہیں جو طالبان حکومت کے غیر تعمیری رویّے کی وجہ سے سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان سرحد کی بندش سے افغانستان کو کتنا تجارتی نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے؟
پاکستان، جو طویل عرصے تک افغانستان کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار رہا ہے، اب اس بات پر شدید تشویش کا اظہار کر رہا ہے کہ کابل کی پالیسیوں اور ڈھانچہ جاتی فیصلوں نے باہمی تجارت کے نظام کو نقصان پہنچایا ہے۔
پاکستانی حکام کے مطابق تعلقات اس وقت بگڑنے شروع ہوئے جب سرحد پار دہشتگردی میں اضافہ ہوا اور طالبان نے ٹی ٹی پی سمیت پاکستان مخالف گروہوں کے خلاف کارروائی سے گریز کیا۔
ثبوت کے طور پر ٹی ٹی پی کی ازسرِنو منظم ہونے کی کوششیں اور افغان سرزمین سے حملوں میں اضافہ سامنے لایا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کی حالیہ سرحدی پابندیوں کا مقصد تجارتی دباؤ نہیں بلکہ دہشتگردوں کے داخلے کے راستے بند کرنا اور اپنے شہریوں کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔
پاکستان نے افغان مہاجرین کے معاملے پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 4 دہائیوں تک 40 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کے باوجود سیکیورٹی خطرات، معاشی دباؤ اور کابل کی عدم تعاون پر مجبور ہو کر اقدامات کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں:پاک افغان تناؤ، جے شنکر کے بیان سے امید باندھیں؟
اس کے باوجود پاکستان کا مؤقف ہے کہ وہ افغان عوام کی انسانی بہبود اور تجارت کی بحالی کے لیے تعاون پر تیار ہے۔ حکام نے یاد دلایا کہ پاکستان نے دہائیوں تک افغانستان کو انسانی، معاشی اور تجارتی سہولتیں فراہم کیں، جن میں بندرگاہ تک رسائی، ٹرانزٹ ٹریڈ اور مہاجرین کی میزبانی شامل ہے۔
دوسری جانب طالبان حکام نے نہ صرف ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے انکار کیا بلکہ الٹا پاکستان کو نشانہ بناتے ہوئے افغان شہریوں کو ملک چھوڑنے کے احکامات بھی جاری کیے۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ طالبان کے ایسے فیصلوں نے افغانستان میں انسانی امداد تک رسائی مزید مشکل بنادی ہے، جب کہ ملک کی نصف سے زیادہ آبادی پہلے ہی انسانی امداد پر انحصار کرتی ہے۔
پاکستان نے زور دیا کہ آگے بڑھنے کا واحد راستہ یہ ہے کہ اصل مسئلے یعنی دہشتگردی کو حل کیا جائے۔ بارڈر یا تجارت پر بات چیت پاکستان کے لیے ممکن ہے، لیکن افغانستان کی سرزمین سے پاکستان مخالف عسکری گروہوں کا خاتمہ ایک غیر متنازع اور لازمی شرط ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغانستان پاک افغان تجارت پاکستان طالبان