خواجہ نظام الدین کا تاریخ میں نام سنہری حرفوں میں درج ہے، وسیم شیخ
اشاعت کی تاریخ: 31st, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ٹنڈوالہیار(نمائندہ جسارت) دی ایجوکیٹر اسکول کے ڈائٹر یکٹر محمد وسیم شیخ نے طلبہ و طالبات کو لیکچر دیتے ہو ئے کہا کہ خواجہ ناظم الدین وہ نام ہے جو تاریخِ پاکستان کے ابتدائی ابواب میں سنہری حروف سے رقم ہے، وہ ایک ایسے رہنما تھے جنہوں نے سیاست کو عبادت سمجھ کر انجام دیا، اور خدمتِ خلق کو ایمان کا حصہ جانا۔ ان کی زندگی کی ابتدا دولت سے ہوئی مگر اختتام سادگی پر، وہ بنگال کی زمین کے فرزند تھے مگر دل ان کا پورے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے دھڑکتا تھا۔ ان کے لہجے میں نرمی تھی، کردار میں وقار، اور ارادوں میں فولاد کی سی مضبوطی۔ انہوں نے نہ صرف مسلم لیگ کے قیام میں اپنی بصیرت عطا کی بلکہ تحریکِ پاکستان کی روح کو بھی اپنی عمل سے تازہ رکھا۔زمانے نے دیکھا کہ جب اقتدار کی کرسی ان کے سامنے آئی تو وہ غرور میں نہیں ڈوبے، بلکہ عاجزی ان کا زیور رہی۔ انہوں نے وزارتِ اعلیٰ بنگال کے زمانے میں عوام کی خدمت کو مقصدِ حیات بنایا۔ قحط بنگال کا وقت تھا، لوگ بھوک سے نڈھال تھے، ناظم الدین نے دن رات محنت کی، خوراک کی تقسیم کے انتظامات کیے، لوگوں کے زخموں پر مرہم رکھا۔ ان کے نزدیک حکومت رعایا کے لیے تھی، حکمران کے لیے نہیں۔قیامِ پاکستان کے بعد جب ملک کے پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح دنیا سے رخصت ہوئے، اور پھر لیاقت علی خان شہید ہوئے، تب قوم پر قیادت کا خلا چھا گیا۔ ایسے وقت میں خوجہ ناظم الدین نے قدم بڑھایا اور وزارتِ عظمیٰ کی ذمہ داری سنبھالی۔ ان کا دور مشکلات سے بھرا تھا، مگر ان کا حوصلہ نہ ٹوٹا۔ وہ جانتے تھے کہ نوزائیدہ مملکت کو استحکام دینا آسان نہیں، لیکن وہ صبر اور تحمل کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرتے رہے۔ ان کا ایمان تھا کہ قربانی کے بغیر ترقی ممکن نہیں، اور ایمان کے بغیر سیاست بے روح ہے۔ان کی سیاست کی بنیاد مفاہمت پر تھی، وہ اختلاف کو دشمنی نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے لبوں پر ہمیشہ شائستگی تھی، اور دل میں قوم کے لیے خلوص۔ وہ جانتے تھے کہ ایک رہنما کا اصل کام صرف حکومت کرنا نہیں بلکہ قوم کو متحد رکھنا ہے۔ ان کے دور میں تعلیمی اداروں کی بہتری کے لیے اقدامات کیے گئے، ثقافت اور قومی شناخت کے فروغ کے لیے پالیسیاں بنیں۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے لیے
پڑھیں:
یادداشت کے بغیر وجود بانجھ ہو جاتاہے !
اونچ نیچ
 ۔۔۔۔
 آفتاب احمد خانزادہ
۔۔۔
 انیسویں صدی کے جرمن تاریخ دان لیو پولڈوان رینکے نے اپنی تصنیف میں ماضی کو طاقت کی تاریخ قراردیا۔ طاقت بنیادی طورپر وہی قوت محرکہ ہے جس کی بات چارلس ڈارون اور کارل مارکس نے کی۔ ایک نے اس کو حیاتیا ت میں جبکہ دوسرے نے اس کو معاشیات میں کارفرمار دیکھا ۔ نطشے کہتا ہے فرد ہمیشہ طاقت کا طلب گار ہوتاہے۔ ہر دور نے طاقت کی سیاست کے مضمرات دیکھے ہیں۔”اقتدار کی ہوس”ٹیکی ٹس لکھتا ہے تمام جذبوں سے زیادہ شدید ہے یہ ایک ایسی بھوک ہے جس کی تسکین کبھی نہیں ہوتی۔ انصاف طاقتور کی صوابدید ہے ۔کمزور ریاستیں،جارحیت کو دعو ت دیتی ہیں۔ یہ اصول اگر چہ انتہائی مکروہ ہے لیکن دنیا کے واقعات کو اکثر و بیشتر اسی نے جنم دیا ہے۔
 یہ تصور کہ طاقت کو انصاف پر فوقیت حاصل ہے یورپ کے بہت سے مفکر ین کو پسند نہ آیا ان سب کا اصرار تھا کہ انسانی افعال چاہے سیاسی ہوں ،طا قت نہیں بلکہ اخلاقیات کے زیر اثر ہونے چاہئیں۔ ان سب نے طاقت کی برتری کی مذمت کی انہوں نے کہا طاقت، اختیار بدعنوانی کا پیش خیمہ ہے اور مطلق اختیارمطلق بدعنوانی کو جنم دیتا ہے۔ طاقت ایک زہر ہے، تاریخ بتاتی ہے کہ یہ زہر مسو لینی، ہٹلر، اسٹالن اور ماضی قریب کے دیگرآمروں کی زندگیوں نے اگلا اور لاکھوں انسانوں کو سنگدلی سے موت کی وادی میں اُتار دیا ۔ ہمارا ماضی اور حال بھی طاقت کی تاریخ ہے۔ ہم نے بھی طاقت کی طلب گاری کی خواہش مندی کے ہاتھوں بہت زخم اٹھائے ہیں۔ آج ہم جن عذابوں سے دوچار ہیں ان کے خالق و ہی طاقت کے طلبگا رہی ہیں ۔ طاقت کی خواہش مندی ایک ذہنی بیماری ہے ۔یہ بیماری احساس محرومی یا کمتری سے جنم لیتی ہے ۔ اس بیماری میں مبتلا انسان انتہائی خطرناک اور زہریلا ہوجاتا ہے جبکہ نارمل آدمی طاقت (اختیارات) اپنی ذات میں جمع کرنے کے بجائے اس کی تقسیم پر یقین رکھتاہے ۔کیونکہ طاقت (اختیارات ) کے اصل مالک عوام ہوتے ہیں اور فرد عوام کا ہی ایک جزہے ۔جب عوام طاقتور ہوتے ہیں تو ملک اور اس کے تمام ادارے خو د بخود طاقت ور ہوجاتے ہیں اور جب عوام کمزور اور لاغر ہوتے ہیں تو بظاہر طاقتور نظر آنے والی ریاست اور اس کے ادارے حقیقتاًانتہائی کمزور ہوتے ہیں ۔
 دنیا میں ایک اور طاقت بھی ہے جس نے آج خود کو تلوار اور طاقت سے زیادہ موثر ثابت کیا ہے۔ انجیل کہتی ہے ابتداء میں صرف کلام تھا۔ رو م نے پہلے یور پ کو تلوار سے فتح کیا لیکن پھر زیادہ وسعت سے حضر ت عیسیٰ کے کلام کے ذریعے ۔ حضرت محمد ۖ ، حضرت عیسیٰ السلام ، لوتھر ، مارکس کے پاس کوئی لشکر نہیں تھا ،کوئی خزانہ نہیں تھا۔ لیکن ان کے لفظوں (نظریات ) نے تاریخ بدل کر رکھ دی ۔ آج (حال ) لفظوں (نظریات) کی طاقت کی صدی ہے ۔ لفظوں (نظریات) کی طاقت نے آج وہ کچھ کر دکھا یا ہے جسے ماضی میں طاقت نے برباد کر ڈالا تھا۔ اسی طاقت کی وجہ سے انسان نے اپنی تباہ شدہ زندگیوں میں ایسی بے زبان شجاعت کا ظہور دیکھا ہے جو تشدد کرنے والی شیطانیت کو غارت گر ،تشدد کو اور بے مقصد اوچھے پن کو اپنی خاموشی سے للکارتی ہے ۔
 سقراط نے کہا ہے ایسی زندگی جس کا جائز ہ نہیں لیا گیا رہنے کے قابل نہیںہوتی ۔دنیا بھر میں نئی صبح کاآغاز ہوچکا ہے۔ نفرت ، تعصب ، دوسروں کو کم ترسمجھنے کی تمام دیواریں گرادی گئیں ہیں۔انسان اپنے تلخ ماضی کو بھلا کر محبت کے اجالے میں ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر آگے بڑھ رہا ہے۔ انسانوں کے اصل دشمن، جہالت ، بیماریوں ، نفرتوں ، تعصب ، انتہاپسندی ، رجعت اور قدامت پسندی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے ، جبکہ دوسری طرف جہالت، نفرتوں ، تعصب کی خواہش ، رجعت و قدامت پرستی کے مردوں کو دفن کر نے کے بجائے ہم اسے زندہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ آئیں ہم مل جل کر ایسے مستقبل کی تعمیر کریں جو ہمارے ارفع خوابوں جیسا عظیم ہو۔آئیے Terentius (قبل مسیح کے مشہور ڈرامہ نگار ، کے الفاظ سے استفادہ کرتے ہیں ”آدمی ، انسان ہونے کے ناطے جو کچھ انسانیت کو درپیش ہے اس سے پہلو تہی نہیں کر سکتا ”۔ یادداشت کے بغیر ہمارا وجود بانجھ اور تاریک ہوجاتا ہے قید کے اس کوٹھری کی طرح جہاں روشنی بھی نہیں پہنچ پاتی ۔ کسی مقبرے کی طرح جو زندگی کو مسترد کرتا ہے جس طرح آدمی خوابوں کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا، اسی طرح وہ امید کے بغیر بھی نہیں ر ہ سکتا۔ اگر خواب ماضی کی یاد دلاتے ہیں تو امید مستقبل کو طلب کرتی ہے ۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا مستقبل ماضی کے مستر د کرنے کی بنیاد پر بنے گا ۔یہ دونوں ایک دوسرے کے لیے موزوں نہیں، ماضی کا مقابل مستقبل نہیں بلکہ ماضی کی غیر موجودگی ہوتاہے۔ مستقبل کا مقابل ماضی نہیں بلکہ ماضی کی غیر موجودگی ہوتا ہے۔ بلاشبہ ہم ماضی کو بھلانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ کیا انسان کے لیے یہ فطری نہیں کہ جو کچھ اس کو دکھ پہنچا ئے یااسے شرمندہ کرے وہ اس کو دبائے ۔ تاریخ ہر عہد کے ذہن کی عکاسی و نمائندگی کرتی ہے۔ آج دنیا میں یہی دونوں طاقتیں یعنی تلوار اور الفاظ ( نظریات) ایک دوسرے کے خلاف بر سرپیکار ہیں ۔دنیا کے ساتھ ساتھ ہمیں بھی ا س جنگ کا سامنا ہے۔ نپو لین کے ہاتھوں یورپ کی بڑی طاقتوں میں سے صرف انگلستان تباہی سے بچ سکا۔ سمندر جو نپولین کے لیے ایک معمہ ہوتا تھا اس کے اور انگلستان کے درمیان حائل تھا۔ انگلستان کو سمندر نے بچا لیا۔ سمندر سے ملے ہوئے تحفظ نے انگلستان کو عظیم اور دشمن سے بے نیاز بنا دیا۔ نپولین کی مہم جوئی کے آغاز ہی میں نیلسن نے جنگ نیل میں نپولین کا بحری بیڑہ تباہ کر دیا تھا۔ 21 اکتوبر1805 کو نیلسن نے ایک اوربحری تصادم میں اسپین کے جنوبی ساحل کے قریب اور کیپ ٹر یفلگر کے سامنے فرانس اور اسپین کے مشترکہ بحری بیڑے کو تباہی سے د و چار کیا۔ اس بحری جنگ سے کچھ دیر پہلے نیلسن نے اپنے بحری بیڑے کے عملہ کو مشہور پیغام دیا تھا کہ ” انگلستان توقع کرتاہے کہ ہر شخص اپنا فرض ادا کر یگا ”۔
 نیلسن کا وہی مشہور پیغام آج پاکستانیوں کے لیے ہے کہ ”پاکستان توقع کر تا ہے کہ ہر شخص اپنا فرض ادا کریگا ” ۔ اور وہ طاقت کے بجائے الفاظ (نظریات ) کی طاقت پر یقین رکھنے والوں کا ساتھ دے گا ۔کیونکہ طاقت اور الفاظ (نظریات ) کی جنگ فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے ۔
 ٭٭٭
 پاکستان میں اسموگ کے زراعت پر اثرات  اور ممکنہ حل
پاکستان میں اسموگ کے زراعت پر اثرات  اور ممکنہ حل