مودی سرکار کے بلڈوزر تلے اقلیتوں کے حقوق
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
پروفیسر شاداب احمد صدیقی
جب کوئی قوم اپنی وفاداری کی قیمت اپنے خون سے ادا کرے ، اپنے بزرگوں کی قربانیاں تاریخ میں رقم کر دے ، اور پھر بھی اس پر غداری کے الزام لگیں، تو سمجھ لیجیے کہ انصاف صرف کتابوں میں باقی رہ گیا ہے ۔ بھارت کی وہ سرزمین، جو کبھی گنگا جمنی تہذیب کی علامت کہلاتی تھی، آج تعصب، نفرت اور مذہبی انتقام کے شور میں ڈوب چکی ہے ۔ مسلمانوں نے اس ملک کی تعمیر، ترقی اور دفاع میں اپنی نسلیں قربان کر دیں، لیکن ان کی محبت کے جواب میں نفرت کا انعام دیا گیا۔ کبھی مسجدوں کو مندروں کے نام پر شہید کیا گیا، کبھی ”گاؤ رکشا” کے بہانے بے گناہ نوجوانوں کا خون بہایا گیا، مگر حب الوطنی کے امتحان میں وہی لوگ مجرم ٹھہرائے گئے جنہوں نے اس دھرتی کو اپنا وطن مان کر اس سے اپنی پہچان جوڑی۔ آج بھارت کے مسلمان اپنی وفاداری کے ثبوت نہیں، بلکہ اپنے وجود کے حق کی جنگ لڑ رہے ہیں۔بھارت میں انصاف کے نام پر طاقت کا مظاہرہ اور قانون کے پردے میں انتقام کا کھیل اب کھلے عام جاری ہے ۔ مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلانے کا سلسلہ جس شدت سے بڑھا ہے ، وہ نہ صرف جمہوری اقدار بلکہ انسانی حقوق کی بنیادی روح پر سوالیہ نشان بن چکا ہے ۔ بھارتی سپریم کورٹ نے بارہا کہا ہے کہ کسی شہری کی جائیداد بغیر عدالتی نوٹس یا قانونی طریقۂ کار کے منہدم کرنا غیر آئینی ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ عدالت کے ان احکامات کو کوئی اہمیت نہیں دی جا رہی ہے ۔ بلڈوزر اب محض تعمیراتی مشین نہیں بلکہ ایک سیاسی علامت بن چکا ہے وہ علامت جو مسلم محلّوں پر انتقام، خوف اور ظلم کے نشان چھوڑ جاتی ہے ۔اتر پردیش، مدھیہ پردیش، دہلی، گجرات اور ہریانہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) حکومتوں کے تحت بلڈوزر کارروائیاں ایک منظم انداز میں کی جا رہی ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ان کارروائیوں سے پہلے متاثرین کو کوئی نوٹس نہیں دیا جاتا، نہ انہیں دفاع کا موقع ملتا ہے ۔ تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے اپنی رپورٹ میں ان کارروائیوں کو ”اجتماعی سزا” قرار دیا ہے ، جو بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی ہے ۔ تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق 2022ء کے بعد سے بھارتی ریاستیں ”قانون کی آڑ میں مذہبی امتیاز” کو عملی جامہ پہنا رہی ہیں۔ستمبر 2023ء میں اتر پردیش کے علاقے بریلی میں پیغمبرِ اسلام ۖ کے یومِ ولادت کے موقع پر کچھ نوجوانوں نے دیواروں پر ”محمد سے محبت” کے پوسٹر لگائے ۔ چند دن بعد ہی وہاں بلڈوزر پہنچ گئے جنہوں نے درجنوں گھر منہدم کر دیے ، اور 100 سے زائد مسلمانوں پر مذہبی منافرت پھیلانے کے مقدمات درج کر دیے گئے ۔ مقامی انتظامیہ نے دعویٰ کیا کہ یہ گھر غیر قانونی تعمیرات تھے ، لیکن متاثرہ خاندانوں نے عدالت میں بیان دیا کہ ان کے پاس مکمل رجسٹرڈ دستاویزات موجود تھیں۔ عدالت نے انہدام روکنے کے احکامات جاری کیے ، مگر جب تک فیصلہ آیا، سب کچھ مٹی میں مل چکا تھا۔اخبار انڈین ایکسپریس اور ویب سائٹ سکرول ڈاٹ ”سکرول ڈاٹ اِن”(Scroll.
یہ وہ پلیٹ فارم ہے جو سرکاری مؤقف کے برعکس بھی تحقیقی سچائی سامنے لاتا ہے خصوصاً وہ خبریں جنہیں بھارت کے بڑے مین اسٹریم میڈیا ادارے اکثر نظرانداز کر دیتے ہیں۔اِن کی مشترکہ تحقیق کے مطابق اپریل تا جون 2022ء کے دوران 5 بھارتی ریاستوں میں مجموعی طور پر 128 عمارتیں گرائی گئیں، جن میں 80 فیصد عمارتیں مسلمانوں کی ملکیت تھیں۔ ان کارروائیوں کے نتیجے میں 600 سے زائد افراد اپنے گھروں، کاروباروں اور عبادت گاہوں سے محروم ہو گئے ۔ اقوامِ متحدہ کے تین خصوصی نمائندوں نے بھارتی حکومت کو خط لکھا اور کہا کہ بلڈوزر کارروائیاں ”قانونی عمل” کے بغیر ہو رہی ہیں، جو بین الاقوامی قانون کے تحت غیر قانونی اور امتیازی ہیں۔
تازہ اعدادوشمار کے مطابق 2019ء سے 2023ء کے درمیان 7,38,000 سے زائد افراد بھارت میں بے گھر ہوئے ، جن میں بڑی تعداد مسلم اکثریتی علاقوں کی ہے ۔ تنظیم سِٹیزنز فار جسٹس اینڈ پیس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انہدامات کی زیادہ تر کارروائیاں احتجاج یا مذہبی تقریبات کے فوراً بعد ہوئیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ واقعات منصوبہ بندی کے تحت کیے گئے ، نہ کہ انتظامی ضرورت کے تحت۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ سب کچھ تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے نظریے کا تسلسل ہے ۔ آر ایس ایس ہمیشہ سے بھارت کو صرف ایک ہندو ریاست کے طور پر دیکھنے کی خواہش رکھتی ہے ۔ نریندر مودی اسی تنظیم سے وابستہ رہا ہے اور اس کی حکومت نے پچھلے چند برسوں میں اسی نظریے کو عملی جامہ پہنایا ہے ۔ شہریت ترمیمی قانون، نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز، مساجد کے خلاف کارروائیاں اور احتجاج پر پابندیاں یہ سب اسی ذہنیت کا تسلسل ہیں جس میں ”اقلیت” ہونا ایک جرم بن چکا ہے ۔
بلڈوزر اب بی جے پی کا سیاسی استعارہ بن چکا ہے ۔ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ نے کھلے عام اسے ”بی جے پی طرزِ حکمرانی” کہا۔ انتخابی جلسوں میں بلڈوزر کی تصویریں بینرز پر لگائی جاتی ہیں اور ہجوم کے نعرے ہوتے ہیں کہ ”بلڈوزر بابا زندہ باد”۔ یہ وہی سیاسی ماڈل ہے جو مذہبی تفریق پر مبنی ہے ۔ اس کا مقصد صرف خوف پیدا کرنا نہیں بلکہ مسلمانوں کو شہری حیثیت سے محروم کرنا ہے تاکہ وہ سیاسی، سماجی اور معاشی طور پر کمزور رہیں۔
بھارتی سپریم کورٹ نے گزشتہ برس سماعت کے دوران کہا کہ ”اگر انہدام کا مقصد سزا دینا ہے ، تو یہ آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم ہے” ۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ عدالت کے ریمارکس محض کاغذوں میں محدود ہیں۔ مودی حکومت کے تحت ریاستی مشینری اتنی طاقتور ہو چکی ہے کہ عدالتی احکامات بھی اکثر انتظامی سطح پر نظر انداز کر دیے جاتے ہیں۔ اتر پردیش، گجرات اور دہلی میں کئی ایسے کیس درج ہیں جن میں متاثرین کو عدالت سے ریلیف ملا، مگر مقامی انتظامیہ نے انہدامات پہلے ہی مکمل کر لیے تھے ۔اخبارات گارڈین، بی بی سی، الجزیرہ اور واشنگٹن پوسٹ جیسے عالمی ذرائع ابلاغ اس رجحان کو ”بلڈوزر انصاف” قرار دیتے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ نے اپنی 2024ء کی رپورٹ میں لکھا کہ ”بھارت میں بلڈوزر اب انصاف کا نہیں بلکہ مذہبی انتقام کا استعارہ بن چکا ہے” ۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ انہدامی کارروائیوں کا سب سے بڑا اثر عورتوں اور بچوں پر پڑ رہا ہے ، جن کے لیے عارضی پناہ گاہوں میں زندگی گزارنا ایک مستقل اذیت بن چکا ہے ۔
انسانی حقوق کے کارکنان اس بات پر متفق ہیں کہ یہ سلسلہ اگر جاری رہا تو بھارت میں مذہبی ہم آہنگی کا وجود باقی نہیں رہے گا۔ اقوامِ متحدہ کے نمائندوں نے 2025ء کے آغاز میں مودی حکومت کو ایک اور مراسلہ بھیجا جس میں ان سے مطالبہ کیا گیا کہ ”بلڈوزر کارروائیاں فوری روکی جائیں، متأثرہ خاندانوں کو معاوضہ دیا جائے ، اور آئینی عدل کو بحال کیا جائے” ۔ لیکن تاحال اس مطالبے پر کوئی عملی پیش رفت نہیں ہوئی۔بھارت کا آئین تمام شہریوں کو مذہب، ذات یا عقیدے کی بنیاد پر مساوی حقوق دیتا ہے ۔ دفعہ 14، 15 اور 21 کے مطابق کسی شہری کو اس کے مذہب کی بنیاد پر جائیداد سے محروم نہیں کیا جا سکتا، اور ہر شخص کو رہائش، تحفظ اور عزت کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہے ۔ مگر موجودہ حالات میں آئین محض کتابی الفاظ بن کر رہ گیا ہے ۔ جہاں قانون کی جگہ تعصب لے لے ، وہاں ریاست انصاف نہیں بلکہ خوف کی علامت بن جاتی ہے ۔بھارتی معاشرے کے اندر ایک خاموش تبدیلی آ رہی ہے ، جہاں اکثریت کی سیاست اقلیت کے وجود کو محدود کرنے پر تلی ہے ۔ میڈیا کا ایک بڑا حصہ بھی ان مظالم پر خاموش ہے ، بلکہ بعض اوقات انہدامات کو ”قانونی کارروائی” قرار دے کر جواز فراہم کرتا ہے ۔ مگر ان خاموش دیواروں کے پیچھے وہ خاندان ہیں جن کے گھر، خواب اور تاریخیں مٹی میں ملا دی گئی ہیں۔ ان کے لیے بلڈوزر صرف ایک مشین نہیں بلکہ ان کے وجود کے خلاف فیصلہ بن چکا ہے ۔
اب ضرورت ہے کہ عالمی برادری، خصوصاً اسلامی ممالک، اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھائیں۔ اقوامِ متحدہ کو چاہیے کہ وہ
بھارت پر دباؤ ڈالے تاکہ مذہب کی بنیاد پر کی جانے والی انہدامی کارروائیاں روکی جائیں۔ بھارت کے اندر بھی سیکولر قوتوں کو آواز بلند
کرنی ہوگی کہ یہ ملک گاندھی اور نہرو کا ہے ، جہاں سب کے لیے مساوات کا وعدہ کیا گیا تھا۔ اگر یہی روش جاری رہی تو بلڈوزر صرف
عمارتیں نہیں بلکہ بھارت کے جمہوری چہرے کو بھی مٹا دے گا۔حقیقی اصلاح کا راستہ اسی وقت ممکن ہے جب سپریم کورٹ اپنے فیصلوں پر سختی
سے عملدرآمد کرائے ، متاثرہ خاندانوں کو فوری معاوضہ دیا جائے ، اور ریاستی مشینری کو سیاسی انتقام کے آلے کے طور پر استعمال کرنے
والوں کے خلاف قانونی کارروائی ہو۔ انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ مذہب کے بجائے قانون کی بنیاد پر فیصلے کرے ، تاکہ بھارت دوبارہ انصاف
اور مساوات کے اصولوں پر کھڑا ہو سکے ۔ کیونکہ انصاف کا مطلب صرف قانون کا نفاذ نہیں بلکہ خوف کے سائے میں جینے والوں کو اعتماد
واپس دینا ہے اور یہی وہ عمل ہے جو کسی بھی ریاست کو حقیقی جمہوریت بناتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: کی بنیاد پر بھارت میں نہیں بلکہ رپورٹ میں بن چکا ہے بھارت کے کے مطابق کے تحت کے لیے
پڑھیں:
گراما کی عظمت: ایک کچھوے کو الوداع، اور ایک گرم ہوتی دنیا کے لیے بیداری کا پیغام
گراما کی عظمت: ایک کچھوے کو الوداع، اور ایک گرم ہوتی دنیا کے لیے بیداری کا پیغام WhatsAppFacebookTwitter 0 13 December, 2025 سب نیوز
ایسل الہام
موسمیاتی گورننس تجزیہ کار
ایک ایسی دنیا میں جہاں ہر چیز تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے، گراما نامی کچھوا اپنی ہی رفتار سے چلتی رہی آہستہ، پُرسکون، اور وقار کے ساتھ۔ 1884 میں پیدا ہونے والی گراما نے 2025 میں وفات پائی، اور یوں تین صدیوں پر محیط زندگی گزار کر وہ نہ صرف ایک جاندار بلکہ ایک زندہ تاریخ بن گئی۔ اس نے سلطنتوں کے عروج و زوال، ہوائی جہاز اور انٹرنیٹ کی ایجاد، اور زمین کے بدلتے موسموں کو خاموشی سے دیکھا۔ اس کی زندگی صرف طویل نہیں تھی، بلکہ زمین کے بدلتے ہوئے مزاج کی ایک خاموش گواہی بھی تھی۔
جب سان ڈیاگو چڑیا گھر نے اپنی سب سے معمر رہائشی کو الوداع کہا، تو دنیا نے ایک لمحے کو رک کر سوچا۔ گراما صرف ایک کچھوا نہیں تھی وہ استقامت، پُرامن بڑھاپے، اور اس خاموش حکمت کی علامت تھی جو صرف وقت کے ساتھ آتی ہے۔ اس کی موت صرف ماہرینِ حیوانات یا جانوروں سے محبت کرنے والوں کے لیے نقصان نہیں، بلکہ ہم سب کے لیے ایک اجتماعی لمحۂ فکریہ ہے جو اس نازک سیارے پر سانس لیتے ہیں۔
گراما کا تعلق گیلاپیگوس کچھووں کی نسل سے تھا، جو کبھی ہزاروں کی تعداد میں ایکواڈور کے آتش فشانی جزیروں پر پائے جاتے تھے۔ مگر انسانی مداخلت، غیر ملکی انواع، اور موسمیاتی تبدیلی نے ان کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا۔ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت، بارشوں کے غیر متوقع پیٹرن، اور سمندر کی سطح میں اضافہ اب ان نازک ماحولیاتی نظاموں کو متاثر کر رہے ہیں جنہوں نے گراما جیسے جانداروں کو صدیوں تک پناہ دی۔ اس کی موت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ حتیٰ کہ سب سے زیادہ پائیدار مخلوقات بھی ایک ایسی دنیا میں غیر محفوظ ہو سکتی ہیں جو توازن کھو چکی ہو۔
پاکستان میں بھی ہم اسی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ 2022 کے تباہ کن سیلاب ہوں یا حالیہ برسوں کی شدید گرمی کی لہریں موسمیاتی تبدیلی اب کوئی دور کا خطرہ نہیں بلکہ ایک روزمرہ حقیقت بن چکی ہے۔ ہمارے گلیشیئرز پگھل رہے ہیں، دریا سکڑ رہے ہیں، اور حیاتیاتی تنوع خطرے میں ہے۔ سندھ ڈیلٹا، جو کبھی زندگی کا گہوارہ تھا، اب سمندر کی چڑھتی سطح اور اوپر کی سطح پر پانی کی غیر منصفانہ تقسیم کے باعث پیچھے ہٹ رہا ہے۔ کئی بستیاں صرف جنگ یا سیاست نہیں بلکہ پانی کی زیادتی یا قلت کے باعث اجڑ رہی ہیں۔ ایسے میں گراما کی یاد ہمیں ایک اور سبق دیتی ہے: کہ بقا کی کنجی تیز رفتاری میں نہیں بلکہ ہم آہنگی میں ہے۔
گراما کی زندگی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ ہمیں بھی اپنے فیصلوں میں ٹھہراؤ اور دور اندیشی اپنانی ہوگی۔ ایک ایسے ملک میں جہاں ترقی اکثر پائیداری سے آگے نکل جاتی ہے، ہمیں سست روی میں حکمت تلاش کرنی ہوگی۔ ہمیں اگلے انتخابات نہیں بلکہ اگلی صدی کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔ پاکستان نے کچھ اہم اقدامات کیے ہیں جیسے بلین ٹری سونامی، لیونگ انڈس انیشی ایٹو، اور موسمیاتی لحاظ سے مضبوط انفراسٹرکچر کی کوششیں۔ یہ صرف پالیسی نہیں بلکہ امید کے بیج ہیں۔ مگر ہمیں مزید آگے بڑھنا ہوگا۔
ہمیں ہر شہر میں شہری جنگلات اور سبز راہداریاں درکار ہیں صرف خوبصورتی کے لیے نہیں بلکہ ماحولیاتی تحفظ کے لیے۔ ہمیں قدرتی حل اپنانے ہوں گے جیسے دلدلی علاقوں کی بحالی، بارش کے پانی کو محفوظ کرنا، اور ایسے جنگلی حیات کے راستے بنانا جو بدلتے موسموں میں جانوروں کو نقل مکانی کی سہولت دیں۔ ہمیں ایسی ماحولیاتی تعلیم کی ضرورت ہے جو صرف سائنسی معلومات نہ دے بلکہ فطرت کے لیے احترام بھی سکھائے خاص طور پر ان جانداروں کے لیے جو آہستہ چلتے ہیں، طویل جیتے ہیں، اور خاموشی سے ہمیں زندگی کے گہرے سبق سکھاتے ہیں۔
گراما کی موت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ سب سے طاقتور وجود ہمیشہ شور مچانے والے نہیں ہوتے۔ اس کی خاموشی میں ایک ٹھنڈی، پُرسکون زمین کی یاد تھی۔ اس کی مضبوطی میں یہ پیغام تھا کہ اصل طاقت غلبے میں نہیں بلکہ بقائے باہمی میں ہے۔ اس کی زندگی صدیوں کو جوڑنے والا ایک پل تھی زمین کی برداشت کی زندہ علامت اور ایک انتباہ کہ اگر ہم نے احتیاط نہ کی تو یہ طویل زندگیاں بھی وقت سے پہلے ختم ہو سکتی ہیں۔
آئیے ہم اسے صرف الفاظ سے نہیں بلکہ عمل سے خراجِ تحسین پیش کریں۔ آئیے ایسا پاکستان بنائیں جہاں آنے والی نسلیں انسان ہوں یا دیگر مخلوقات سکون، حکمت، اور ہم آہنگی سے جی سکیں۔ آئیے یاد رکھیں کہ موسمیاتی تبدیلی کی دوڑ میں شاید جیت اب بھی کچھوے کی ہو۔ گراما کی یاد میں، ہمیں چاہیے کہ ہم رکیں، سنیں، اور عمل کریں نہ کہ جلد بازی میں، بلکہ اس دانائی کے ساتھ جو صرف وقت اور زمین سے محبت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرانتہا پسندانہ نظریات اور تقسیم پسند قوتوں سے نمٹنے کےلیے مکمل تیار ہیں، فیلڈ مارشل میدان کے ہیرو میاں جی اور موبائل فون بھارتی طیاروں کا بحران: جنگ سے ایئر شو تک بت شکنوں کا بت پرستوں سے سودا نظام بدلنا ہوگا۔ صدارتی استثنیٰ: اختیار اور جواب دہی کے درمیان نازک توازنCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم