data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251214-03-4

 

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

 

 

جنوبی ایشیا میں دفاعی حکمت ِ عملی اور طاقت کے توازن پر حالیہ برسوں میں کئی عوامل نے اثر ڈالا ہے، مگر لندن کے معتبر جریدے اکانومسٹ کی تازہ رپورٹ کے مطابق بھارت کی جنگی ٹیکنالوجی کی صنعت نے ایک غیر معمولی رفتار سے ترقی دکھائی ہے۔ پاکستان کے ساتھ حالیہ چار روزہ فضائی و میزائل کشیدگی نے اس پورے منظرنامے کو غیر مبہم انداز میں سامنے رکھ دیا ہے اور واضح کر دیا ہے کہ خطے میں اب جنگ کا تصور صرف عسکری قوت نہیں بلکہ تکنیکی مہارت، صنعتی رفتار، ڈیجیٹل جنگی صلاحیت اور جدید تحقیق کے امتزاج سے جڑے گا۔ اکانومسٹ کی رپورٹ کا سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ بھارت کی دفاعی صنعت اس مختصر مگر شدید تصادم کے بعد ایک نئی جہت میں داخل ہو گئی ہے۔ فضائی دفاع کے نظام، ڈرون ٹیکنالوجی، الیکٹرونک وارفیئر اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبے، جو چند سال پہلے تک بھارت کے دفاعی ڈھانچے کے ذیلی حصے سمجھے جاتے تھے، آج سرمایہ کاری، حکومتی ترجیحات اور عالمی ہتھیار ساز کمپنیوں کی توجہ کا مرکز بنتے جا رہے ہیں۔ خاص طور پر بنگلور کے اسٹارٹ اپس، جنہوں نے جنگ کے دوران تکنیکی معاونت فراہم کی، اب سرمایہ کاروں کے لیے پرکشش ترین انتخاب بن چکے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق چار روزہ تصادم میں بھارت کا فضائی دفاع ڈرون حملوں کے غیر متوقع دباؤ کے سامنے ہچکچاہٹ کا شکار رہا۔ درجنوں کی تعداد میں سستے ڈرونز نے نہ صرف اس کے سنسرز اور انٹرسیپٹرز پر دباؤ بڑھایا بلکہ اس کے دفاعی نظام کی کمزوریوں کو بے نقاب بھی کیا۔ کم لاگت والے ڈرونز کے جواب میں قیمتی انٹرسیپٹر میزائلز کا استعمال نہ صرف اقتصادی طور پر نقصان دہ ثابت ہوا بلکہ حکمت ِ عملی کے لحاظ سے بھی غیر مؤثر رہا۔ یہ وہ خامی ہے جس نے بھارت کو مجبور کیا کہ وہ کشیدگی کے فوراً بعد 5 ارب ڈالر کی ایمرجنسی جنگی خریداری کا فیصلہ کرے ایک ایسا بڑا قدم جس کا مقصد میزائلوں، گولہ بارود اور دفاعی ذخائر کی فوری بحالی ہے۔ یہ پہلو بھی قابل ِ توجہ ہے کہ بھارتی فضائی دفاع جدید میزائلوں کی تکنیکی صلاحیت کے باوجود جعلی اہداف (decoys) سے الجھ گیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ٹیکنالوجی خواہ کتنی ہی جدید کیوں نہ ہو، اگر ڈیجیٹل جنگی ماحول میں مصنوعی ذہانت اور ریئل ٹائم ڈیٹا فِلٹریشن مضبوط نہ ہو تو ہائی ٹیک دفاعی نظام بھی غلط سمت میں گولی چلا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اب باتھموی AI-assisted air defence systems کی طرف تیزی سے بڑھ رہا ہے، تاکہ کوئی بھی سسٹم حقیقی اور جعلی اہداف میں فوری فرق کر سکے۔

بنگلور کے اسٹارٹ اپس نے بھی اس پورے واقعے کے بعد غیر معمولی توجہ حاصل کی ہے۔ جنگ کے دوران کئی نجی کمپنیوں نے سافٹ ویئر، رئیل ٹائم ڈیٹا اینالیسز، ڈرون آپریشنز اور الیکٹرونک وارفیئر میں تکنیکی مدد فراہم کی تھی۔ اب انہی کمپنیوں پر سرمایہ کاری کی بارش ہو رہی ہے۔ یہ وہ تبدیلی ہے جو بھارت کے دفاعی شعبے پر نجی ٹیکنالوجی انڈسٹری کی گرفت مزید مضبوط کرے گی۔ دفاعی خود کفالت کے حکومتی پروگرام (جیسے Make in India اور Atmanirbhar Bharat) بھی اسی سمت قدم بڑھا رہے ہیں، جس سے مقامی صنعت کو ایک مضبوط بنیاد مل رہی ہے۔ ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ بھارت نے نہ صرف ابھرتی ٹیکنالوجی بلکہ کلاسیکی دفاعی سامگری (missile stockpile, artillery rounds اور radar upgrades) میں بھی فوری سرمایہ کاری کی ہے۔ اس ہنگامی فیصلے نے دنیا کو واضح پیغام دیا ہے کہ بھارت مستقبل میں اس طرح کی کسی بھی کشیدگی کے لیے مکمل تیاری چاہتا ہے۔ اس کا براہِ راست اثر خطے کی اسلحہ دوڑ اور تزویراتی ماحول پر پڑنا یقینی ہے۔

اگر مجموعی صورتِ حال کا جائزہ لیا جائے تو بھارت کی دفاعی صنعت کی تیز رفتار ترقی کئی سطحوں پر اثر ڈال رہی ہے۔ ایک طرف مقامی ٹیکنالوجی انڈسٹری کو عالمی ساکھ مل رہی ہے، نجی اسٹارٹ اپس کو سرمایہ کار مل رہے ہیں، اور تحقیق و ترقی کے میدان میں نئی راہیں کھل رہی ہیں۔ دوسری طرف یہ ترقی خطے میں عدم توازن کو بھی بڑھا رہی ہے، خصوصاً اس وقت جب کم لاگت والے ڈرون سوارمز، اے آئی اور الیکٹرونک وارفیئر جیسے ہتھیار جنگ کے تصور کو بدل رہے ہوں۔ اس پورے منظرنامے سے سب سے اہم سبق یہ سامنے آتا ہے کہ مستقبل کی جنگیں وسائل کے حجم سے زیادہ ٹیکنالوجی، رفتار، ڈیٹا اور خودکار دفاعی نظاموں کی بنیاد پر لڑی جائیں گی۔ بھارت اس دوڑ میں بے شک تیزی دکھا رہا ہے، لیکن اس نے اپنی کئی کمزوریاں بھی کھلی چھوڑی ہیں جن میں فضائی دفاع کی کمزور electronic discrimination، مہنگے انٹرسیپٹرز پر انحصار، ڈیجیٹل جنگی ماحول میں اے آئی کا محدود کردار، اور decoys کے سامنے سسٹم کی کنفیوژن شامل ہیں۔

اکانومسٹ کی رپورٹ ہمیں بتاتی ہے کہ جنوبی ایشیا میں دفاعی طاقت صرف روایتی ہتھیاروں کی نہیں بلکہ اس پوری تکنیکی دنیا کی کشمکش ہے جہاں ڈرونز، سنسرز، الگورتھمز، ڈیٹا سسٹمز، اور خودکار میزائل پلیٹ فارمز ایک نئی جنگی ترتیب لکھ رہے ہیں۔ بھارت کی تیز رفتار پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے کہ ریاستیں اب اس مقابلے کو محض عسکری نہیں بلکہ صنعتی، تکنیکی اور معاشی جنگ سمجھ کر آگے بڑھا رہی ہیں۔ ایک ہزار میل دور بیٹھے عالمی سرمایہ کار، جنوبی ایشیا کے یہ بدلتے حالات دیکھتے ہوئے صاف سمجھ رہے ہیں کہ نئی عالمی اسلحہ منڈی کا مرکز اب صرف بڑے ممالک نہیں بلکہ ٹیکنالوجی سے چلنے والے خطے بننے جا رہے ہیں اور بھارت اسی ابھرتے منظرنامے کا اہم حصہ بنتا جا رہا ہے۔

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ہے کہ بھارت فضائی دفاع نہیں بلکہ بھارت کی رہے ہیں رہی ہے

پڑھیں:

چین سے جنگ ہوئی تو امریکا بری  طرح ہارے گا ،پینٹاگون کی خفیہ رپورٹ لیک

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251214-8-9

 

 

واشنگٹن (مانیٹرنگ ڈیسک) پینٹاگون کی خفیہ رپورٹ کے مطابق اگر امریکا تائیوان پر جنگ کی صورت میں مداخلت کرے تو چین کے ہاتھوں اس کی شکست کا امکان بہت زیادہ ہو گا۔ پینٹاگون کی جنگی مشقوں میں تائیوان پر چینی حملے کے مختلف منظرنامے تشکیل دیے گئے جن میں دیکھا گیا کہ چین امریکی لڑاکا طیاروں کے اسکواڈرن، بڑے جنگی بحری جہازوں اور سیٹلائٹ نیٹ ورکس کو مؤثر انداز میں تعیناتی سے قابل ہی مفلوج کرسکتا ہے، یہ انتباہ خفیہ دستاویز اوورمیچ بریف میں دیا گیا ہے۔ نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق یہ دستاویز پینٹاگون کے آفس آف نیٹ اسسمنٹ نے تیار کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ امریکا کا مہنگے اور جدید ہتھیاروں پر انحصار اسے چین کے تیزی سے بننے والے سستے ہتھیاروں کے مقابلے میں کمزور بناتا ہے‘ چین نے ایسی صلاحیت حاصل کرلی ہے جو کسی بھی ممکنہ تنازع کے آغاز ہی میں امریکا کے اہم عسکری اثاثوں کو ناکارہ بنا سکتی  ہے۔ وائٹ ہاؤس کے اعلیٰ حکام تک پہنچائی گئی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین کا تیزی سے ترقی کرتا ہوا اسلحہ خانہ، خصوصاً اس کے طویل فاصلے تک مار کرنے والے درست نشانہ زن میزائل، جدید طیاروں کا پھیلتا ہوا بیڑا، بڑے بحری جہاز اور خلا میں کارروائی کی صلاحیت نے اسے خطے میں امریکی افواج پر واضح آپریشنل برتری دلادی ہے۔رپورٹ کے مطابق چین کے پاس تقریباً 600 ہائپرسونک ہتھیاروں کا ذخیرہ موجود ہے جو آواز کی رفتار سے 5 گنا زیادہ تیزی سے سفر کرسکتے ہیں اور انہیں روکنا انتہائی مشکل ہے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق جب بائیڈن انتظامیہ کے ایک سینئر عہدیدار کو 2021 ء میں یہ ’اوورمیچ‘ بریفنگ دی گئی تو انہیں احساس ہوا کہ ’ہماری ہر حکمت عملی کے مقابلے میں چین کے پاس کئی متبادل موجود ہیں جس پر ان کا چہرہ اتر گیا تھا۔

مانیٹرنگ ڈیسک

متعلقہ مضامین

  • مودی حکومت کی پالیسیوں کے باعث مقبوضہ کشمیر میں بھارت مخالف جذبات تیزی سے پھیلنے لگے
  • چین سے جنگ ہوئی تو امریکا بری  طرح ہارے گا ،پینٹاگون کی خفیہ رپورٹ لیک
  • دنیا میں تیزی سے فروغ پا رہا سود سے پاک مالیاتی نظام
  • فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کا گوجرانوالہ اور سیالکوٹ گیریژنز کا دورہ، جنگی تیاریوں کا جائزہ
  • پاک ترکیہ تعلقات میں اقتصادی و دفاعی تعاون کا نیا باب
  • 100 خودکش ڈرون لے جانے والا جیو تیان، چین کی نئی ٹیکنالوجی نے دنیا بھر کے دفاعی ماہرین کو چونکا دیا
  • پہاڑ ہمارے سیارے کے توازن اور خوبصورتی کے ضامن ہیں،مریم نواز
  • پہاڑزمین کے توازن اور خوبصورتی کے ضامن ہیں: مریم نوازشریف
  • بھارت مقبوضہ کشمیر میں سنگین جنگی جرائم میں ملوث ہے، مقررین