جماعت اسلامی ہند وفد کا بریلی کے بلڈوزر متاثرہ علاقوں کا دورہ، زمینی حالات کا جائزہ لیا گیا
اشاعت کی تاریخ: 29th, October 2025 GMT
جائزے کے دوران یہ بات بھی بات سامنے آئی کہ جائیداد کے انہدام اور انکو بند کئے جانے کے نوٹس بغیر کسی قانونی کارروائی کے جاری کئے گئے ہیں جبکہ بیشتر متاثرین کے پاس ملکیت کے درست دستاویزات اور ڈیجیٹل ثبوت موجود ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ اترپردیش کے بریلی میں ہونے والی حالیہ یک طرفہ گرفتاریوں، انہدامی نوٹسوں اور دکانوں کے بند کئے جانے کے واقعات کی زمینی صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے جماعت اسلامی ہند کے ایک اعلیٰ سطحی وفد نے بریلی کا دورہ کیا۔ وفد کی قیادت جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک معتصم خان نے کی۔ وفد میں جماعت کے مرکزی ذمہ داران آئی کریم اللہ، ندیم خان، لئیق احمد، مغربی یو پی کے امیر حلقہ ضمیر الحسن فلاحی اور کئی وکلاء و سماجی کارکنان شامل تھے۔ وفد نے کئی علاقوں کا دورہ کیا اور متاثرہ خاندانوں سے ملاقاتیں کیں۔ وفد نے ان متاثرہ خاندانوں سے بھی ملاقات کی جن کے بچے ابھی تک جیلوں میں بند ہیں۔ وفد نے متاثرہ خاندان کو درپیش مسائل کے بارے میں تفصیلی معلومات حاصل کی۔ جائزے کے دوران یہ بات بھی بات سامنے آئی کہ جائیداد کے انہدام اور ان کو بند کئے جانے کے نوٹس بغیر کسی قانونی کارروائی کے جاری کئے گئے ہیں جبکہ بیشتر متاثرین کے پاس ملکیت کے درست دستاویزات اور ڈیجیٹل ثبوت موجود ہیں۔
اس بات کے شواہد بھی موجود ہیں کہ بہت سے افراد جن پر کاروائیاں کی گئیں ہیں وہ بریلی احتجاج واقعے کے دن وہاں موجود ہی نہیں تھے اور نہ ہی کسی قسم کی امن و قانون کی خلاف ورزی میں ملوث تھے، اس سب کے باوجود بے گناہوں پر پولیس کی من مانی کارروائیاں اور سیاسی انتقام کا سلسلہ جاری ہے۔ وفد نے وکلاء سے مشاورت کے بعد قانونی پہلوؤں کا جائزہ لیا تاکہ ان معاملوں میں مناسب قانونی چارہ جوئی کے ذریعے انصاف حاصل کیا جا سکے۔ ٹیم نے ضلع مجسٹریٹ اور سپرنٹنڈنٹ آف پولیس سے ملاقات کرنے کی بھی کوشش کی تاکہ اپنے خدشات اور گزارشات انتظامیہ کے سامنے پیش کی جا سکیں، تاہم اس سلسلے میں انتظامیہ کا رویہ مثبت نہیں رہا۔ جماعت اسلامی ہند نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ انصاف، آئینی اقدار اور پُرامن شہری جدوجہد کے اصول پر قائم رہے گی۔
جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ملک متعصم خان نے سیاسی محرکات پر مبنی ایف آئی آر کو فوراً واپس لینے، ٹھوس شواہد کے بغیر گرفتار کئے گئے افراد کی فوری رہائی اور پولیس زیادتیوں پر عدالتی جانچ کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ غیر جانب دارانہ تفتیش کو یقینی بنائیں، شہریوں کے حقوق کا تحفظ کریں اور متاثرہ خاندانوں کو فوری ریلیف فراہم کریں۔ وفد میں شامل اے پی سی آر کے قومی سکریٹری ندیم خان نے بتایا کہ 27 خاندانوں کو مکانات کے انہدام کے نوٹس ملے ہیں جبکہ 32 دکانیں سیل کر دی گئی ہیں۔ اے پی سی آر ان معاملوں کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔ ندیم خان نے کہا کہ امید ہے کہ عدالتیں بے گناہ افراد کو فوری انصاف اور ریلیف فراہم کریں گی۔اس نازک موقع پر جماعت اسلامی ہند عوام سے اپیل کرتی ہے کہ وہ ثابت قدم، متحد اور پُرعزم رہیں، ہر طرح کے دباؤ کا مقابلہ کریں اور انصاف کی جدوجہد کو آئینی و قانونی دائرے میں رہتے ہوئے جاری رکھیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: جماعت اسلامی ہند وفد نے
پڑھیں:
جماعت اسلامی کا کُل پاکستان اجتماعِ عام۔ 1963ء کی یادیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251027-03-7
متین فکری
جماعت اسلامی کا کُل پاکستان اجتماع 21,22,23 نومبر کو مینار پاکستان پارک لاہور میں منعقد ہورہا ہے جس میں جماعت کے ارکان و کارکنان تو شریک ہوں گے ہی عام لوگوں کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے جبکہ دنیا بھر سے تحریک اسلامی کے قائدین بھی اس تاریخی اجتماع میں شرکت کریں گے۔ ملک گیر اجتماع کی روایت تبلیغی جماعت کے سوا کسی اور مذہبی و سیاسی جماعت میں موجود نہیں ہے۔ البتہ تبلیغی جماعت اپنا ملک گیر سالانہ اجتماع رائے ونڈ تبلیغی مرکز میں بڑی باقاعدگی سے منعقد کرتی ہے اس کی آخری نشست میں جو دعائیہ سیشن ہوتا ہے اس میں شرکا کی تعداد بڑھ جاتی ہے اور وفاقی و صوبائی حکام بھی اس میں اہتمام سے شریک ہوتے ہیں، اگرچہ وہ دعا کا اثر کم ہی قبول کرتے ہیں۔ رہا جماعت اسلامی کا ملک گیر اجتماع تو اگرچہ ہر سال نہیں ہوپاتا لیکن جب بھی ہوتا ہے ملک کے حالات پر اثر ضرور ڈالتا ہے۔ جماعت اسلامی در حقیقت اقامت دین کی ایک تحریک ہے جس کے اثرات پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس تحریک کو روکنے اور اس کے اثرات کو محدود کرنے کے لیے ملکی اور عالمی سطح پر بھرپور کوششیں ہوتی رہی ہیں اور یہ کوششیں اب بھی جاری ہیں۔ جماعت اسلامی کا واحد نصب العین پاکستان میں نفاذ اسلام کو یقینی بنانا ہے اس مقصد کے لیے بانی جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی نے قیام پاکستان کے فوراً بعد مطالبہ نظام اسلامی کی تحریک شروع کردی تھی۔ انہوں نے اس سلسلے میں (سابق) مشرقی پاکستان سمیت پورے ملک کا دورہ کیا اور اپنی تقریروں کے ذریعے عوام کو اس مطالبے کے حق میں اُٹھا کھڑا کیا۔ تاہم اس دوران قائداعظم محمد علی جناح انتقال کرگئے جو اسلامی نظام کے بارے میں واضح ذہن رکھتے تھے اور اپنی تقریروں میں اس کا برملا اظہار کرچکے تھے۔ پھر قائدملت لیاقت علی خان کو بھی ایک سازش کے تحت شہید کردیا گیا جن کے عہد حکومت میں دستور ساز اسمبلی قرار داد مقاصد منظور کرچکی تھی اور لیاقت علی خان اس پر عملدرآمد کا عزم ظاہر کرچکے تھے۔ لیکن انہیں رستے سے ہٹادیا گیا۔ لیاقت علی خان کا قتل امریکی سازش کا نتیجہ تھا جو پاکستان کو ایک سیکولر ملک بنانا چاہتا تھا اس سازش میں اس وقت کی پاکستانی اسٹیبلشمنٹ بھی شریک تھی۔ یہی وجہ ہے کہ لیاقت علی خان کے قاتل سید اکبر کو موقع پر گولی مار دی گئی اور اس کی بیوہ کو پنشن اور دیگر مراعات سے نوازا گیا۔ بیوہ کا حال ہی میں ایک سو نو سال کی عمر میں انتقال ہوا ہے جبکہ اس کے دونوں بیٹے امریکا میں پُرتعیش زندگی گزار رہے ہیں، ایک کی عمر 80 سال اور دوسرے کی 72 سال ہے۔
لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اگرچہ سیکولر عناصر حکومت پر حاوی آگئے لیکن ملک کو سیکولر بنانے کی جانب زیادہ پیش رفت نہ ہوسکی کیونکہ جماعت اسلامی ان کے راستے میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی۔ چنانچہ امریکا نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ سے اپنے خاص مہرے کو آگے بڑھایا اور جنرل ایوب خان نے 1958ء سول حکومت کو برطرف کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ اس کے ہاتھ میں امریکی ایجنڈا تھا اور وہ ہر حال میں ملک کو اسلام سے توڑ کر سیکولر ملک بنانا چاہتا تھا۔ اس نے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کا نام تبدیل کرکے اسے ’’عوامی جمہوریہ پاکستان‘‘ بنانا چاہا لیکن جماعت اسلامی اسلامی کی ممکنہ مخالفت کے سبب ایسا نہ کرسکا۔ چنانچہ اس نے جماعت اسلامی کو سیاست سے بے دخل کرنے کی پوری کوشش کی۔ پہلے خوشامدانہ رویہ اپنایا، اور امیر جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی سے ملاقات کرکے ان سے کہا ’’آپ جیسا پاکیزہ سیرت عالم دین سیاست میں کیسے آگیا۔ سیاست تو نرا گند ہے ہم آپ کو ایک اسلامی یونیورسٹی بنائے دیتے ہیں اس کے وائس چانسلر کا عہدہ سنبھالیں اور وہاں بیٹھ کر اپنا علمی و تحقیقی کام کریں۔ اس کے لیے آپ کو جتنا بھی فنڈ درکار ہو ہم دینے کو تیار ہیں‘‘۔ مولانا مودودی نے اس کے جواب میں فرمایا ’’آپ کے مشورے کا شکریہ۔ سیاست میں اگر گند بھرا ہوا ہے تو اسے صاف کرنا اور سیاست کو پاک کرنا بھی کسی کی ذمے داری ہے۔ ہم یہی ذمے داری نبھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ رہا علمی و تحقیقی کام تو میں وہ بھی اپنی بساط کے مطابق کررہا ہوں اس کے لیے مجھے نہ کسی فنڈ کی ضرورت ہے، نہ کسی منصب کی‘‘۔ مولانا کا یہ دو ٹوک جواب سن کر جنرل ایوب خان کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا اور نے جماعت اسلامی کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
ملک کے حالات کشیدہ تھے۔ جنرل ایوب خان نے اپنی آمریت کو مستحکم کرنے کے لیے اظہار رائے کی آزادی کا گلا گھونٹ دیا تھا۔ پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈیننس کے ذریعے اخبارات کو سرکاری گزٹ بنادیا گیا تھا، تعلیمی اداروں میں اسلامی جمعیت طلبہ کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ کو روکنے کے لیے طلبہ یونینوں پر پابندی لگادی گئی تھی، رسوائے زمانہ ایبڈو قانون کے تحت مخالف سیاستدانوں کو نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ البتہ جماعت اسلامی پر ہاتھ نہیں پڑ رہا تھا کیونکہ اس کی کوئی کمزوری، کوئی خلافِ قانون حرکت حکومت کی گرفت میں نہیں آپائی تھی اس کا علاج حکومتی بزر جمہروں نے یہ نکالا کہ مولانا مودودی پر جہاد کشمیر کے خلاف فتویٰ دینے کا الزام لگا کر مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک طوفان برپا کردیا گیا۔ یہ تھے وہ حالات جس میں جماعت کی مجلس شوریٰ نے لاہور میں کُل پاکستان اجتماع عام منعقد کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے لیے 25 تا 27 اکتوبر 1963 کی تاریخ طے کی گئی۔ جماعت اسلامی نے سہ روزہ اجتماع عام کے لیے منٹو پارک کا انتخاب کیا۔ اُس وقت تک وہاں مینار پاکستان تعمیر نہیں ہوا تھا۔ یہ وسیع سبزہ زار اجتماع عام کی خیمہ بستی کے لیے نہایت موزوں تھا لیکن حکومت نے اجازت دینے سے انکار کردیا۔ بڑی تگ و دو کے بعد باغ بیرون بھائی گیٹ اجتماع کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ جگہ اگرچہ بہت محدود تھی اور اجتماع میں مشرقی پاکستان سمیت پورے ملک سے لوگ بھاری تعداد میں شرکت کرنے والے تھے لیکن جماعت کے منتظمین نے اسے ایک چیلنج سمجھ کر قبول کرلیا اور شب و روز محنت کرکے وہاں ایک عظیم الشان خیمہ بستی کھڑی کردی۔ سب انتظامات مکمل ہوگئے تو حکومت نے نیا گل کھلایا اور اجتماع میں لائوڈ اسپیکر کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ یہ گویا اجتماع کو ناکام بنانے کی واردات تھی لیکن جماعت اسلامی اس سے بھی دل برداشتہ نہ ہوئی اس نے یہ چیلنج بھی حوصلے سے قبول کرلیا۔
اجتماع شروع ہوا تو لاہور کے وسط میں ایک ’’مِنی پاکستان‘‘ اپنی بہاریں دکھا رہا تھا۔ افتتاحی خطاب امیر جماعت سید ابوالاعلیٰ موودی کا تھا اس کے لیے ایک وسیع جلسہ گاہ بنائی گئی تھی لاہوریے ویسے بھی جلسے سننے کے بڑے شوقین ہیں وہ بھی مولانا مودودی کی تقریر سننے کے لیے اُمڈ آئے تھے لیکن لائوڈ اسپیکر تو تھا نہیں، اس لیے مولانا مودودی نے تقریر کو تحریر کی شکل دے دی تھی اور اس تحریر کی فوٹو اسٹیٹ کاپیاں جلسہ گاہ میں جگہ جگہ کھڑے مکبرین کے حوالے کردی گئی تھیں۔ مولانا مودودی اسٹیج سے اپنی تحریر کا کچھ حصہ پڑھتے پھر مکبرین وہی حصہ جلسے میں دہراتے اس طرح مولانا کا خطاب جاری تھا کہ اچانک جلسہ گاہ فائرنگ سے گونج اُٹھی۔ کچھ غنڈوں نے پولیس کی نگرانی میں جلسے پر حملہ کردیا تھا ان کی فائرنگ کا رُخ براہِ راست اسٹیج کی جانب تھا۔ مولانا مودودی سے کہا گیا کہ آپ بیٹھ جائیں اور تقریر موقوف کردیں۔ مولانا نے بیٹھنے سے انکار کرتے ہوئے یہ تاریخی جملہ کہا ’’اگر میں بیٹھ گیا تو یہاں کھڑا کون رہے گا‘‘۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی تقریر جاری رکھی اور سامعین بھی اپنی جگہ جمے رہے۔
ہم مولانا مودودی کی تقریر براہ راست سننے کے شوق میں اسٹیج کے بالکل سامنے دری پر بیٹھے تھے۔ سچی بات ہے ہمیں کچھ پتا نہیں چلا کہ فائرنگ کب شروع ہوئی کب ختم ہوئی کیونکہ ماحول میں کوئی ہلچل نہیں تھی۔ جلسہ ختم ہوا تو پتا چلا کہ فائرنگ سے گوجرانوالہ کا ایک کارکن اللہ بخش شہید ہوگیا ہے اور غنڈے پولیس کی حفاظت میں فرار ہوگئے ہیں۔
جماعت اسلامی کے اجتماع میں فائرنگ کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے لاہور میں پھیل گئی۔ بعض شرپسندوں نے مولانا مودودی کے بارے میں بھی بے بنیاد افواہ پھیلا دی اور لاہوریے مولانا کی خیریت دریافت کرنے کے لیے خیمہ بستی پر ٹوٹ پڑے۔ انہیں بتایا گیا کہ مولانا مودودی بالکل خیریت سے ہیں انہیں کوئی گولی نہیں لگی۔ 27 اکتوبر اجتماع کا آخری دن تھا اس دن امیر جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی کا اختتامی خطاب تھا۔ یہ خطاب بھی تحریری شکل میں تیار کرلیا گیا تھا۔ جلسہ گاہ میں مکبرین جگہ جگہ کھڑے تھے اور ان کے ہاتھ میں تحریری تقریر موجود تھی، جلسے میں شرکا کی تعداد بھی بہت زیادہ تھی اور منتظمین کی طرف سے سیکورٹی کا انتظام بھی خاطر خواہ تھا۔ انہوں نے کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے پولیس کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ مولانا مودودی نے حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا۔
’’میرے عزیز رفقا میں اس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس نے جس آزمائش میں ہمیں ڈالا تھا اس سے بخیریت گزرنے اور فاتحانہ گزرنے کی توفیق بھی اسی نے دی اور اسے جماعت کی پہلے سے زیادہ دھاک بٹھادینے کا ذریعہ بنادیا۔ دوستو اس آزمائش کے موقع پر ہمیں ایک قیمتی قربانی دینی پڑی ہے۔ ہمارے دل زخمی ہیں اور ہم سب اس کی ٹیس بری طرح محسوس کررہے ہیں۔ ہمارے ایک مخلص کارکن اللہ بخش کا بے گناہ قتل ہے۔ ہمیں اس کی کوئی پروا نہیں کہ قاتل پکڑا جاتا ہے یا نہیں اور اسے کوئی سزا ملتی ہے یا نہیں۔ یہ مقدمہ کہیں اور درج ہوچکا ہے اس کا فیصلہ ان شاء اللہ وہیں سے ہوگا اور ایسا فیصلہ ہوگا جس کا تصور وہ لوگ نہیں کرسکتے جو اللہ کی صفت انتقام کو بھول چکے ہیں‘‘۔
پھر دُنیا نے دیکھا کہ جنرل ایوب خان ذلیل ہو کر اقتدار سے نکالا گیا اور فائرنگ کے واقعے کا ماسٹر مائنڈ گورنر پنجاب نواب کالا باغ اپنے گھر میں بے دردی سے مارا گیا اور اس کی لاش دو دن تک فرش پر پڑی سڑتی رہی۔ 1963ء کے بعد ملک میں کئی تبدیلیاں آئیں۔ جماعت اسلامی کے کئی کُل پاکستان اجتماعات ہوئے لیکن 1963ء کے اجتماع کی یاد ذہن میں چپک کر رہ گئی۔