انتہاء پسندی کا نیٹورک افغانستان سے چل رہا ہے، جان اچکزئی
اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT
ایکس پر اپنے پیغام میں جان اچکزئی نے کہا کہ جب تک افغانستان دہشتگردی کی نظریات کیلئے محفوظ آماجگاہ کے طور پر رہیگا، سیڈنی سے ماسکو تک اس کی قیمت ادا کرتے رہینگے۔ اسلام ٹائمز۔ بلوچستان کے سابق نگران وزیر جان اچکزئی نے آسٹریلیا کے شہر سیڈنی میں صہیونی تہوار پر حملے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ انتہاء پسندی کی عالمی صورت ہے جو طالبان کے زیر حکومت افغانستان سے چل رہا ہے۔ انہوں نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے پیغام میں کہا کہ افغانستان اس وقت داعش جیسے خطرناک دہشتگرد تنظیم کا مرکز ہے۔ طالبان ہی اس نیٹورک کو کام کرنے دیتا ہے اور آنلائن نفرت پھیلانے کی اجازت دیتا ہے، جو ہزاروں میل دور بھی دوسروں پر حملے کو فروغ دیتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ جب تک افغانستان دہشتگردی کی نظریات کے لئے محفوظ آماجگاہ کے طور پر رہے گا، سیڈنی سے ماسکو تک اس کی قیمت ادا کرتے رہیں گے۔ دنیا کو اس کی بنیاد کا مقابلہ کرنا ہوگا۔
.ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
طالبان دور میں خواتین پر بے مثال جبر، اقوام متحدہ سمیت دنیا کا شدید احتجاج
افغانستان میں طالبان حکومت کے تحت خواتین اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر عالمی برداری نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
افغان میڈیا ’’آماج نیوز‘‘ کے مطابق 56 ممالک نے مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ افغانستان میں خواتین کو منظم امتیازی سلوک، بے توقیری اور بنیادی حقوق کی شدید پابندیوں کا سامنا ہے۔
مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ملک میں خواتین کی تعلیم، ملازمت اور آزادانہ نقل و حرکت پر سخت پابندیاں عائد ہیں، جبکہ لڑکیوں کی ثانوی اور اعلیٰ تعلیم پر چار سال سے مکمل پابندی جاری ہے۔ اقوام متحدہ کی نائب خصوصی نمائندہ برائے افغانستان جیورگیٹا گیگنن نے کہا کہ طالبان حکومت خواتین اور لڑکیوں کو عوامی زندگی کے تمام شعبوں سے باہر کر چکی ہے۔
اقوام متحدہ کے معاون سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بھوک سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک کروڑ 74 لاکھ تک جا پہنچی ہے۔ سلووینیا کی نمائندہ ٹانجا فایون نے کہا کہ طالبان انتظامیہ میں مسائل کے حل کی کوئی سنجیدہ کوشش دکھائی نہیں دیتی۔
چین کے مستقل نمائندے فو کانگ نے افغانستان میں انسانی بحران اور دہشت گردی کے خطرات پر گہری تشویش ظاہر کی۔ کوریا کے نمائندے نے کہا کہ طالبان کے سخت اقدامات خواتین کو اقوام متحدہ اور دیگر امدادی تنظیموں میں کام کرنے سے روک رہے ہیں۔
روسی نمائندے واسلی نیبنزیا نے افغانستان میں بنیادی آزادیوں کے تحفظ کی فوری ضرورت پر زور دیا، جبکہ یونانی نمائندے کے مطابق خواتین، لڑکیوں اور اقلیتی گروہوں کیلئے حالات نہایت خطرناک ہو چکے ہیں۔ ڈنمارک کی نمائندہ کرسٹینا مارکس لسن نے کہا کہ بین الاقوامی سطح پر طالبان سے متعلق فیصلوں میں خواتین کے حقوق کو مرکزی اہمیت دینا ضروری ہے۔
برطانوی نمائندے نے کہا کہ طالبان کے چار سالہ دور میں خواتین پر جبر میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ پانامہ کے نمائندے ایلوی الفارو ڈی البا کے مطابق افغان خواتین اس وقت دنیا کی سب سے سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سامنا کر رہی ہیں۔ ایرانی نمائندے نے کہا کہ تعلیم اور روزگار پر پابندیاں اسلامی تعلیمات اور انسانی وقار کے منافی ہیں۔
عالمی برداری نے مشترکہ طور پر واضح کیا کہ طالبان کی آمرانہ پالیسیاں آزادی اظہار، انسانی حقوق اور خواتین کے مستقبل کو شدید خطرات میں ڈال رہی ہیں۔