پاکستان طویل عرصے سے دنیا کے سامنے یہ مقدمہ رکھ رہا تھا کہ افغانستان سے مسلسل دہشتگردی کے واقعات ہورہے اور وہاں موجود طالبان حکومت ان دہشتگردوں کی پشت پناہی کررہی ہے، تاہم جب تمام تر کوششوں کے باوجود حالات قابو میں نہ آئے تو پاکستان نے اپنے دفاع میں کارروائی شروع کی جس کے بعد افغانستان مذاکرات کرنے پر مجبور ہوا اور اب اس صورتحال میں گزشتہ روز ایک مثبت پیشرفت یہ ہوئی ایک ہزار علما پر مشتمل جرگے نے اعلان کیا کہ افغانستان سے کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے والے باغی تصور ہوں گے اور چند ہی گھنٹوں بعد طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے واضح کیا ہے کہ افغان شہریوں کو افغانستان سے باہر کسی بھی قسم کی عسکری سرگرمی میں حصہ لینے کی اجازت نہیں، اور اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے والے باغی تصور ہوں گے، افغان علما کا اعلان

گزشتہ روز کابل یونیورسٹی میں ہونے والے اجلاس میں افغانستان کے ایک ہزار سے زائد علما اور مذہبی عمائدین کا جرگہ منعقد ہوا جس میں خوش آئند طور پر واضح مؤقف اختیار کیا گیا کہ افغانستان سے کسی بھی دوسرے ملک پر حملہ کرنے والے باغی تصور ہوں گے اور ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔

علما کا یہ مؤقف بلاشبہ پاکستان میں امن کے حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور نتیجے کے طور پر دونوں برادر ممالک کے درمیان محبت و تعاون میں اضافے کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔

علما اور مذہبی کے اہم اجتماع میں اسلامی امارت کو تنبیہ کی گئی کہ کوئی بھی شخص عسکری سرگرمیوں کے لیے ملک سے باہر نہ جانے پائے اور افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے۔

Sources confirmed to TOLOnews that a gathering of the country’s ulema and religious elders, in response to what they described as a violation of Afghanistan’s sovereignty, decided that defending their rights, values, and the Sharia system is an individual obligation (fard ayn),… pic.

twitter.com/gU5VX0psHN

— TOLOnews English (@TOLONewsEnglish) December 10, 2025

قابل توثیق طور پر ان باتوں کو عملی جامہ پہنایا گیا تو افغانستان میں داخلی استحکام، پاکستان کی سیکیورٹی اور علاقے میں وسیع تر امن ممکن ہوسکے گا۔ افغان علما کے تازہ بیان سے پاکستان کا دیرینہ مطالبہ بھی ایک بار پھر درست ثابت ہوگیا۔

مزید پڑھیے: چین کی پاکستان اور افغانستان سے کشیدگی کم کرنے کی اپیل

ایکس پر جاری ’ٹولو نیوز‘ کی خبر کے مطابق کابل میں منعقدہ اس اجلاس میں ملک کے مختلف حصوں سے شرکت کرنے والے تقریباً ایک ہزار علما اور مذہبی بزرگوں نے افغانستان کی خودمختاری کو لاحق مبینہ خدشات پر تفصیلی غور کیا۔

علما نے قرار دیا کہ افغانستان کے حقوق، قومی اقدار اور شرعی نظام کے تحفظ کو ہر شہری پر فرض عین کی حیثیت حاصل ہے اور کسی بھی بیرونی جارحیت کے خلاف کھڑا ہونا ’مقدس  جہاد‘ شمار ہوگا۔ اجتماع نے اسلامی امارت سے مطالبہ کیا کہ امارت کے رہبر کے حکم کے بغیر کسی شخص کو ملک سے باہر کسی قسم کی عسکری کارروائیوں میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔

علما نے زور دیا کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور جو کوئی اس فیصلے کی خلاف ورزی کرے گا اسلامی امارت کو اس کے خلاف اقدام کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ خبر کے مطابق اجلاس کے اختتام پر مذکورہ نکات پر مبنی ایک قرارداد بھی پیش کی گئی جس میں امن، خودمختاری کے احترام اور افغانستان کے اندرونی نظم سے متعلق اصولوں کا اعادہ کیا گیا۔

دوسری طرف کابل میں علما کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے طالبان وزیر خارجہ نے کہا کہ علما کی قرارداد کے مطابق موجودہ نظام کا دفاع صرف سیکیورٹی فورسز یا سرکاری اہلکاروں کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر مسلمان شہری پر لازم ہے کہ وہ امارتِ اسلامی کے نظام کو داخلی اختلافات سے بچائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی فرد یا گروہ افغانستان کی خودمختاری یا طالبان حکومت پر حملہ کرتا ہے تو اس کے خلاف جہاد عوام پر فرض ہو جاتا ہے۔

افغان طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے علما کے اس فتوے کی توثیق کر دی ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتی۔ یہ فیصلہ موجودہ صورتحال کے عین مطابق ہے اور اب یہ طالبان حکومت کی سرکاری پالیسی کا حصہ بن چکا ہے۔ pic.twitter.com/a2bAZeP3u7

— The Khyber Chronicles (@TKCkhyber) December 11, 2025

 

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان طاہر اندرا بی کا اس پوری صورتحال پر کہنا ہے کہ اگرچہ یہ پیشرفت مثبت ہوسکتی ہے لیکن پاکستان طالبان حکومت اور ملا ہیبت اللہ دونوں سے تحریری ضمانت چاہتا ہے کہ افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی کی کارروائیاں نہیں ہوں گی۔

افغانستان میں علما اجلاس، طالبان کا پاکستان کے لیے ممکنہ پیغام  ہے،جنرل (ر) غلام مصطفیٰ

دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ نے وی نیوز سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان میں ہزار سے زائد علما کا اجتماع محض اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے مقصد کے تحت بلایا گیا ہے۔

ان کے مطابق اس اجتماع کے ذریعے طالبان نے پاکستان کو ایک پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ طالبان اس وقت معاشی دباؤ میں ہیں اور پاکستان کے ساتھ تجارت کی بحالی چاہتے ہیں ممکن ہے کہ اس اجلاس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان براہ راست رابطے کا کوئی راستہ نکالنا ہو۔

انہوں نے کہا کہ یہ سوال بھی اہم ہے کہ ان علما کی اصل حیثیت کیا ہے اور ان میں سے کن افراد کا طالبان کے فیصلوں پر حقیقتاً اثرانداز ہونے کا اختیار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ علما ازخود جمع نہیں ہوتے تاہم اب یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ طالبان کی مرکزی قیادت کے کس قدر قریب ہیں۔

جنرل (ر) غلام مصطفیٰ کے مطابق صرف علما کے بیانات کی بنیاد پر کسی بڑی پالیسی تبدیلی کی توقع رکھنا درست نہیں۔ طالبان خطے کی صورت حال اور بین الاقوامی دباؤ کو دیکھتے ہوئے وقتی طور پر کچھ اقدامات روک سکتے ہیں لیکن یہ مستقل پالیسی تبدیلی نہیں ہوگی۔

کابل یونیورسٹی میں بڑا اجتماع
ملک بھر کے 34 صوبوں سے 1000 علما و مشائخ کی شرکت
افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی
خلاف ورزی کرنے والے افراد کو باغی اور مخالف تصور کیا جائے گا
پانچ نکاتی قرارداد منظور pic.twitter.com/gpsoVjdqgQ

— افغان اردو (@AfghanUrdu) December 10, 2025

انہوں نے مزید کہا کہ چین بھی پاکستان اور افغانستان کو مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کا مشورہ دے رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیجنگ طالبان پر کشیدگی کم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان شاید کچھ عرصے کے لیے اپنی سرزمین سے پاکستان مخالف سرگرمیاں رکوا دیں لیکن یہ واضح نہیں کہ یہ صورتحال طویل مدت تک برقرار رہ سکے گی۔ جب طالبان اندرونی طور پر زیادہ مستحکم ہوں گے تو حالات دوبارہ تبدیل بھی ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: افغانستان اور تاجکستان بارڈر پر چینی شہریوں کے خلاف سنگین دہشتگرد منصوبہ بے نقاب

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ علما کا یہ مؤقف دونوں ممالک کے بیچ موجودہ فضا میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہوسکتا ہے اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر افغان طالبان رجیم اپنی سرزمین سے پاکستان میں حملہ کرونے والے عناصر کو روک لے تو پاکستان کو برادر پڑوسی ملک سے جو گلے شکوے ہیں وہ دور ہوجائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغان طالبان رجیم افغان علما کی قرارداد پاک افغان تعلقات پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف قرارداد

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: افغان طالبان رجیم افغان علما کی قرارداد پاک افغان تعلقات پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف قرارداد ملک کے خلاف استعمال کسی دوسرے ملک طالبان حکومت افغانستان کی افغانستان سے کہ افغانستان افغان علما کرنے والے اور افغان علما اور کہ افغان انہوں نے کے مطابق نہیں ہو علما کا کسی بھی پر حملہ کے لیے ہے اور کہا کہ ہوں گے

پڑھیں:

افغانستان کے علاقے پنجشیر میں چیک پوسٹوں پر حملہ، 8 طالبان ہلاک

تاحال کسی شدت پسند گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور طالبان حکام نے بھی کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ طالبان حکومت کے خلاف ملک کے دیگر حصوں میں ایسی کارروائیوں میں داعش خراسان جبکہ پنجشیر میں مزاحمتی گروپ متحرک رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ افغانستان کے صوبے پنجشیر میں طالبان حکومت کے خلاف مزاحمت کا زور اب بھی جاری ہے، جہاں دو سکیورٹی چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق پنجشیر کی دو سکیورٹی چیک پوسٹوں پر ہونے والے دھماکوں میں کم از کم آٹھ طالبان ہلاک اور چار زخمی ہوگئے۔ مقامی میڈیا کا کہنا ہے کہ یہ حملہ عبداللہ خیل وادی کے منجنستو علاقے میں تقریباً 7:40 بجے ہوئے، جہاں طالبان کا ایک مرکزی آؤٹ پوسٹ واقع ہے۔ دھماکے ایک ایسے کمپاؤنڈ میں ہوئے، جو مولوی ملک کے نام سے جانے جانے والے شخص کی ملکیت میں تھا۔ دھماکوں کے بعد طالبان نے وادی کے کچھ حصوں کو سیل کر دیا، گزرنے والے راستے بند کر دیئے اور مقامی لوگوں سے پوچھ گچھ شروع کر دی۔

تاحال کسی شدت پسند گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور طالبان حکام نے بھی کوئی بیان جاری نہیں کیا۔ طالبان حکومت کے خلاف ملک کے دیگر حصوں میں ایسی کارروائیوں میں داعش خراسان جبکہ پنجشیر میں مزاحمتی گروپ متحرک رہے ہیں۔ یاد رہے کہ فغانستان میں پنجشیر وادی واحد علاقہ ہے، جہاں طالبان کے خلاف مزاحمت اب بھی جاری ہے۔ 70 اور اسّی کی دہائیوں کے دوران سویت یونین اتحاد کے خلاف محمود درہ وادی مزاحمت نے سر اُٹھایا تھا اور غیر ملکی فوج کو بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ "شیر پنجشیر" کے نام سے معروف احمد شاہ مسعود نے طالبان کی پہلی حکومت کے خلاف بھی مزاحمت کی تھی اور وادی کو اپنی مضبوط ٹھکانہ بنایا تھا۔

احمد شاہ مسعود صحافیوں کے بھیس میں آنے والے خودکش بمبار کے حملے میں مارے گئے تھے، لیکن اس کے باوجود طالبان اپنے پہلے دور حکومت میں پنجشیر پر قبضہ نہیں کرسکے تھے۔ بعد ازاں طالبان کی پہلی حکومت کے خاتمے اور ملک میں حامد کرزئی و اشرف غنی کی حکومتوں میں بھی پنجشیر نے ان حکومتوں کی مدد کرتے ہوئے بھی اپنی علیحدہ حیثیت کو برقرار رکھا۔ اگست 2021ء میں طالبان کے دوبارہ افغانستان میں اقتدار سنبھالنے کے بعد پنجشیر میں تاحال مزاحمت جاری ہے۔ گذشتہ ایک برس میں پنجشیر میں بار بار دھماکے اور حملے دیکھنے میں آئے ہیں، جو طالبان کے مضبوط قبضے کے باوجود مزاحمت کی علامت ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • افغان سرزمین بیرونی عسکری سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں، طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی
  • افغانستان: عالمی دہشت گردوں کا ہیڈ کوارٹر
  •  فیض حمید کے خلاف فیصلہ تاریخی اور غیر قانونی کام کرنے والوں کو پیغام ہے، بلاول
  • افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہو، افغان علما کا دوٹوک مطالبہ
  • افغانستان کے علما اور مذہبی رہنماؤں کی میٹنگ، عسکریت پسندی کیلیےسرحد عبور نہ کرنے پر زور
  • پاکستان کے دیرینہ مطالبےکی توثیق، افغان علماکا افغان حکومت پر اپنی سرزمین کسی ملک کیخلاف استعمال نہ کرنے پرزور
  • افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، فغان علما کا اعلان
  • افغان علماء، مشائخ کا مشترکہ اعلامیہ، بیرون ملک فوجی سرگرمیاں ممنوع قرار
  • افغانستان کے علاقے پنجشیر میں چیک پوسٹوں پر حملہ، 8 طالبان ہلاک