WE News:
2025-12-12@08:11:39 GMT

افغان علما کا فتویٰ: ایک خوشگوار اور اہم پیشرفت

اشاعت کی تاریخ: 12th, December 2025 GMT

گزشتہ روز ایک افغان صحافی کا ٹیکسٹ میسج آیا۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں بڑی ڈیولپمنٹ ہوئی ہے اور افغان علما نے ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد گروپوں کے خلاف فتویٰ جاری کیا ہے۔

کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ افغان میڈیا کے مطابق 34 صوبوں سے ایک ہزار علما کابل میں اکٹھے ہوئے ہیں اور انہوں نے ایک اعلامیہ/فتویٰ جاری کیا ہے جس کی شق نمبر 3 اور 4 کے مطابق افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشتگرد حملوں کے لیے استعمال نہیں کی جا سکتی اور ایسا کرنے والوں کے خلاف امارت اسلامیہ (افغان طالبان حکومت) کارروائی کرے گی جبکہ چونکہ امیر شرعی (یعنی مولانا ہبت اللہ) نے کسی افغان کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ کسی بیرونی ملک میں فوجی سرگرمی کے لیے جائے، اس لیے جو افغان ایسا کرے گا اس کے خلاف امارت اسلامیہ کو اقدامات کرنے کا حق حاصل ہے۔

افغان میڈیا طلوع نیوز نے یہ خبر چلائی اور پھر رفتہ رفتہ سوشل میڈیا پر بھی اس حوالے سے خبریں آنے لگیں۔ حتیٰ کہ افغان وزیر خارجہ ملا متقی نے اسے باقاعدہ بیان کے ذریعے کنفرم کردیا۔ مختلف واٹس ایپ گروپس، خاص کر جہاں پاکستانی، افغان صحافی، تجزیہ کار اکٹھے موجود ہیں، اس پر بات شروع ہوگئی، خوشی اور امید کا اظہار بھی کیا گیا کہ اس سے خیر برآمد ہو وغیرہ وغیرہ۔

اس فتوے میں کیا چیزیں اہم ہیں؟

خاکسار نے اس سٹوری پر کام شروع کیا، افغان امور کو جاننے، سمجھنے والے پاکستانی تجزیہ کاروں سے بات کی، بعض افغان سورسز سے بات ہوئی، خاص کر قندھار اور کابل میں ایک دو ذمہ دار جاننے والوں سے اصل حقیقت جاننا چاہی تو دلچسپ صورتحال سامنے آئی۔

3 باتیں اہم ہیں۔ ایک تو یہ کہ افغان طالبان کے سیٹ اپ میں اگر علما کا اجتماع ہوا ہو، حکومتی ذمہ داران اس میں شامل ہوں اور کوئی اعلامیہ جاری ہوا ہو تو وہ اہم تصور ہوتا ہے۔

افغان پس منظر میں یہ اہم بات ہے کیونکہ ماضی میں بھی اہم پالیسی بیانات یا غیر معمولی اہمیت کے فتوے جات کے لیے علما کا اجتماع ہی بلایا جاتا رہا اور انہی کے ذریعے وہ اسٹیٹمنٹ آتی ہے جسے بعد میں اسٹیٹ پالیسی بنا لیا جاتا ہے۔

قارئین میں سے بعض کو شاید یاد ہو کہ 9/11 کے بعد اسامہ بن لادن کی امریکا کو حوالگی کے مطالبہ پر بھی افغان علما کا بڑا اجتماع منعقد ہوا اور اس کنونشن نے اپنی اسٹیٹمنٹ دی کہ اسامہ بن لادن کو امریکا کے حوالے نہ کیا جائے، تاہم وہ اپنے طور پر افغانستان چھوڑ کر چلے جائیں۔ بعد میں طالبان امیر ملا عمر نے یہی بات اسٹیٹ پالیسی کے طور پر کہی اور اگرچہ اس کی قیمت ادا کی مگر علما کے اجتماع کے فیصلے کی پابندی کی۔

کابل کے حالیہ اجتماع میں علما، مشائخ کے علاوہ چیف جسٹس ملا عبدالحکیم حقانی بھی شریک ہوئے۔ یہ ایک طرح سے افغان طالبان کی نظریاتی پالیسی میں اہم ترین آدمی ہیں، ان کی افغان مذہبی اور علما طبقے میں عزت اور احترام ہے اور ان کی آرا کو توقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ افغان سیٹ اپ میں امیر ملا ہبت اللہ سے نیچے جو 3، 4 مختلف ستون یا پلرز ہیں، ان میں نظریاتی، فکری اور مذہبی ستون دراصل چیف جسٹس عبدالحکیم حقانی ہیں۔

علما کنونشن میں افغان وزیراعظم ملا حسن اخوند بھی شریک ہوئے۔ یہ بھی اہم شخصیت ہیں، حکومت سازی میں اور سیاسی طور پر بھی اپنی قوت رکھتے ہیں، عملیت پسند سمجھے جاتے ہیں اور بہت سے معاملات میں سخت گیر اور معتدل عناصر کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔ علما کنونش میں مجلس کی سربراہی 2 علما نے کی، ان میں سے ایک بزرگ عالم دین شیخ حبیب اللہ سمنگانی ہیں۔ ان کا تعلق شمالی صوبے سمنگان سے ہے۔

یہ بھی پتہ چلا کہ علما کا یہ اجتماع درحقیقت امیر ہیبت اللہ کی ہدایت پر ہوا اور اس کے لیے خاصی کوشش کی گئی اور ظاہر ہے دور دراز علاقوں سے مختلف علما دین کو اکٹھا کیا گیا۔ اس مجلس میں کابینہ کے کئی وزرا بھی شریک ہوئے۔

ایک اور دلچسپ بات یہ پتہ چلی کہ دانستہ طور پر اس اجتماع کی میڈیا کوریج نہیں کرائی گئی تاکہ خواہ مخواہ کی غیر ضروری منفی ہائپ نہ ہو اور میڈیا سنسنی نہ پھیلائے۔ علما کا اجتماع کئی گھنٹے جاری رہا اور پھر اس کا اعلامیہ تشکیل دیا گیا جسے سب نے منظور کیا اور اس اعلامیہ کے بھی کئی گھنٹوں بعد اسے بتدریج میڈیا اور پھر سوشل میڈیا پر لیک کیا گیا۔ رفتہ رفتہ اس کی جذئیات سامنے لائی گئیں۔ پھر باقاعدہ اور آفیشل سطح پر وزیرخارجہ امیر خان متقی کے ذریعے اس کی تصدیق کی گئی۔

کابل اور قندھار کے ذمہ دار ذرائع کے مطابق ’اس وقت ایسا مؤقف سامنے آنا خود بڑی پیشرفت ہے۔ امارت اسلامیہ میں علما کا مؤقف درحقیقت حکومت ہی کا موقف ہوتا ہے‘۔

افغان علما کے اس غیر معمولی اجتماع نے اگرچہ یہ بات کہی کہ اگر افغانستان پر کوئی بیرونی قوت حملہ کرے تو تمام افغانوں پر لازم اور فرضِ عین ہے کہ اپنے نظام، اپنی سرزمین اور اپنی اقدار کا دفاع کریں اور یہ دفاع ’جہادِ مقدس‘ شمار ہوگا۔ بعض پاکستان مخالف افغان چینلز اور سوشل میڈیا ہینڈلز نے اس نکتہ کو زیادہ اہمیت دی اور اسے پاکستان کے خلاف بیان قرار دیا۔ ذرائع اس کی نفی کرتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ تو انڈرسٹڈ بات ہے، ظاہر ہے کسی بھی ملک پر حملے کے جواب میں وہاں کےعوام دفاع کریں گے ہی، یہ بات کہنا تو فطری اور منطقی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ  اس اعلامیہ میں زور دے کر، بڑی وضاحت کے ساتھ یہ کہا گیا، ’چونکہ امارتِ اسلامیہ نے یہ عہد کیا ہے کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی، اس لیے تمام مسلمانوں پر واجب ہے کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کریں، اور اس عہد پر عمل کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے۔ جو شخص اس عہد کی پابندی نہیں کرتا، وہ نافرمان اور خلاف ورزی کرنے والا سمجھا جائے گا اور امارتِ اسلامیہ کو حق حاصل ہے کہ ایسے شخص کے خلاف ضروری اقدامات کرے‘۔

یہاں پر غور کریں کہ لفظ ’تمام مسلمانوں‘ استعمال کیا گیا یعنی ضروری نہیں کہ وہ مسلمان افغان ہو، وہ غیر افغان بھی ہوسکتا ہے، مگر اسے بھی اس کی پابندی کرنا پڑے گی۔

اگلے اور آخری نکتے میں یہ بات کہی گئی: ’چونکہ امیرِ شرعی نے کسی افغان کو یہ اجازت نہیں دی کہ وہ کسی بیرونی ملک میں فوجی سرگرمی کے لیے جائے، لہٰذا اگر کوئی شخص اس حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کا جانا جائز نہیں۔ امارتِ اسلامیہ کو حق حاصل ہے کہ وہ ایسے افراد کی روک تھام کے لیے مناسب اقدامات کرے‘۔

آپ غور کریں تو تیسرے نکتے میں ’تمام مسلمانوں‘ کی بات کہی گئی، چوتھے نکتے میں افغان شہری کی بات کہی گئی۔ یعنی ان دونوں نکات میں افغانستان میں رہنے والے ہر غیر افغان مسلمان اور ہر افغان شہری پر یہ لازم قرار دیا گیا کہ وہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشتگردی کے لیے استعمال نہیں کرسکتا اور جو ایسا کرے گا اس کے خلاف افغان حکومت (امارت اسلامیہ) کارروائی کرے گی۔

اس طرح سے بظاہر یہ لگ رہا ہے کہ افغان علما کا اعلامیہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد گروہوں کے خلاف فتویٰ ہے۔ ایک واضح اعلان ہے کہ وہ اپنی سرگرمیاں بند کردیں، ورنہ ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔

فتوے کے حوالے سے مزید کیا ہوسکتا تھا؟

میرے خیال میں 2، 3 چیزیں ہونی چاہییں تھیں، تب شاید اس فتوے کا امپیکٹ بڑھ جاتا۔ پہلا یہ کہ اجتماع قندھار میں منعقد ہوتا کیونکہ افغان طالبان کے سیٹ اپ میں قندھار طاقت کا اصل مرکز ہے اور نظریاتی، مذہبی رہنمائی خاص طور سے قندھار سے جنم لیتی ہے۔ ملا عمر کے دور میں بھی قندھار کی اصل اہمیت تھی اور موجودہ طالبان رجیم میں بھی قندھار ہی فیصلہ کن اہمیت رکھتا ہے۔ ممکن ہے کسی تکنیکی یا لاجسٹک وجوہات کی بنا پر کابل کا انتخاب کیا گیا ہو، ورنہ قندھار کا انتخاب بہتر رہتا۔

دوسرا بہتر ہوتا کہ اگر ایک ہزار علما شریک ہوئے تو اعلامیہ میں بھی ایک ہزار علما کے الفاظ شامل کیے جاتے، اس کا نفسیاتی اثر ہوتا ہے۔ اس کے بجائے یہ لکھا گیا، ’ہم علمائے دین، مفتیان و مشایخ، افغانستان کے طول و عرض سے یہاں جمع ہوئے ہیں۔۔۔۔۔۔‘ یہاں ایک ہزار کا عدد آنا چاہیے تھا۔

تیسرا یہ کہ بے شک میڈیا کو کوریج سے باہر رکھا جاتا، مگر ان ایک ہزار علما کے اس اجتماع کی ویڈیو بنالی جاتی، جو بعد میں ریلیز کردی جاتی۔ اس سے تمام شکوک دور ہوجاتے اور پتہ چل جاتا کہ افغانستان کے طول وعرض سے تمام اہم، نمایاں اور بڑے علما کرام، مفتیان عظام شریک ہوئے ہیں۔ ویڈیو سے بڑا ثبوت اور کیا ہوتا ہے؟ افغان طالبان نے میڈیا کے حوالے سے کئی چیزیں سیکھ لی ہیں۔ اب وہ حکومت سازی اور اعلانات کے حوالے سے کیمرے، ویڈیوز وغیرہ کے مخالف بھی نہیں۔ انہیں آئندہ ایسے اہم اور بڑے اعلانات ویڈیوز پر ریکارڈ کرکے افغان میڈیا اور سوشل میڈیا پر ریلیز کرنے چاہییں۔

فتوے کے بعد کیا کرنا چاہیے؟

اکا دکا اعتراض یا تحفظات کے باوجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب تک جو ہوا، وہ مثبت اور دل خوش کن ہے۔ اس کا خیر مقدم ہونا چاہیے۔ اگرچہ زیادہ بہتر ہوتا کہ یہ فتویٰ امیر ملا ہبت اللہ کی طرف سے آجاتا لیکن ٹھیک ہے علما کی ایک بڑی تعداد نے پورے ملک سے اکٹھے ہوکر چیف جسٹس ملا عبدالحکیم حقانی اور وزیراعظم سمیت کئی کابینہ وزرا کی موجودگی میں یہ اعلامیہ یا فتویٰ تحریر کیا۔ پھر اسے وزیر خارجہ نے باقاعدہ طور پر سب کے سامنے بیان کرکے ایک طرح سے آفیشل مہر ثبت کردی۔ اس سب کی اہمیت ہے اور اب افغان حکومت پر ایک بڑی اخلاقی ذمہ داری عائد ہوگئی ہے۔

اگلا مرحلہ اب یہ ہونا چاہیے کہ اس فتوے پر عمل بھی کیا جائے۔ سختی سے اس کی پابندی کرائی جائے۔ افغانستان میں مقیم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد گروہوں کو نہ صرف روکا جائے بلکہ کسی بھی اچانک قسم کے پریشان کن واقعے سے بچنے کے لیے پاک افغان سرحد کے قریب مقیم تحریک طالبان پاکستان کے جنگجووں کو سرحد سے تین چار سو کلومیٹر دور منتقل کر دیا جائے۔ یہ تجویز پہلے بھی زیرغور رہی ہے اور شائد کچھ گھرانوں کو شفٹ بھی کیا گیا۔

 فتویٰ جاری کرنا صرف اہم نہیں اس پر عملدرآمد بھی نہایت ضروری ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین خوشگوار تعلقات اور تجارت، معیشت وغیرہ کا انحصار صرف اسی ایک نکتہ پر ہے۔ کیا افغانستان ٹی ٹی پی اور دیگر دہشتگرد گروپوں کی حمایت سے دستبردار ہو کر انہیں مکمل طور پر روک دیتا ہے یا صرف زبانی دعوے ہی کئے جاتے رہیں گے؟ اس کا جواب ہی مستقبل کے پاک افغان تعلق کو طے کرے گا۔

 پاکستانی حکومت، ادارے اور فورسز اور عوام اس نکتہ پر متفق ہیں، سب ایک ہی پیج پر ہیں۔ یہ بات بڑی وضاحت کے ساتھ افغانستان کے سامنے رکھی جا چکی ہے کہ وہ پاکستان کو قبول کریں یا ٹی ٹی پی کو؟ ان دونوں میں سے کسی ایک ہی سے اب تعلق رکھا جا سکتا ہے۔ اب انتخاب کرنا ہوگا۔ بہتر یہی ہے کہ افغانستان کو ٹی ٹی پی سے فاصلہ کرنا چاہیے، اسے روکنا چاہیے۔ ماضی میں ایک غلطی ان سے ہوئی جس کے نتیجے میں افغان حکومت ختم ہوئی، بیس سال تک انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ مشکلات پاکستان کی مدد ہی سے ختم ہو پائیں۔

  اب افغان طالبان کو چاہیے کہ وہ پاکستان کے ساتھ خوشگوارپڑوسیوں والے تعلقات رکھے۔ افغانستان اپنی مرضی کے مطابق کوئی بھی سفارتی، معاشی، اقتصادی پالیسی بنائے، جس مرضی تجارتی روٹ کو ترقی دے۔ پاکستان کو کوئی مسئلہ نہیں۔ ہمارا مسئلہ صرف یہ ہے کہ افغانستان سے پاکستان پر دہشتگرد حملے نہ ہوں۔ بس یہی ایک مسئلہ حل ہوجائے تو پھر پاک افغان تعلقات کا بحران فوری حل ہوسکتا ہے۔ اس کا جواب، اس کی کنجی افغان طالبان کے ہاتھ میں ہے کیونکہ انہوں نے ہی فیصلہ کرنا اور اس پر عملدرآمد کرنا ہے۔

 اللہ کرے کہ افغان علما کے اس اعلامیہ یا فتوے سے خیر برآمد ہو۔ پاک افغان سرحد پر دہشتگردی ختم ہو۔ خطے میں سکون ہو اوردونوں ممالک میں خوشحالی آئے، آمین۔

دو جملوں میں اگر اس پیش رفت کا نچوڑ نکالا جائے تو وہ یہ بنے گا، ” اچھا اقدام ہے، خیر مقدم کرنا چاہیے، مگر اب اس فتوے پر پوری قوت کے ساتھ عملدرآمد کرانا ہی اصل چیلنج ہے۔ اس پر عمل کیا جائے تو مسئلے کا پرامن، حقیقی حل نکل آئے گا۔ “

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: دوسرے ملک کے خلاف ہے کہ افغانستان افغانستان میں امارت اسلامیہ ایک ہزار علما افغانستان کے افغان طالبان ہے کہ افغان سوشل میڈیا افغان علما استعمال نہ پاک افغان کی پابندی شریک ہوئے میں افغان کے مطابق حوالے سے کے حوالے اور پھر کے ساتھ کیا گیا علما کے ہوتا ہے بات کہی میں بھی علما کا ا اور ا یہ بات ہے اور کے لیے اور اس

پڑھیں:

دہشت گرد افغان سرزمین پاکستان کی قومی سلامتی اور خودمختاری کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، عاصم افتخار

نیویارک:

پاکستان کے مستقل مندوب سفیر عاصم افتخار احمد نے افغانستان کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ افغان سرزمین سے پھوٹنے والی دہشت گردی پاکستان کی قومی سلامتی اور خودمختاری کے لیے سب سے سنگین خطرہ ہے۔

سفیر عاصم افتخار نے اجلاس میں اپنے خطاب میں کہا کہ محترمہ صدر میں ابتدا میں سلووینیا کی صدارت اور اس ماہ کونسل کی مؤثر قیادت پر اسے خراجِ تحسین پیش کرنا چاہوں گا۔

ہم سلووینیا کے وفد کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے بطور منتخب رکن اپنی دو سالہ مدت کے دوران کونسل کے کام میں جو عزم، محنت اور قیمتی خدمات انجام دیں، وہ قابلِ قدر ہیں۔

میں ابتدا میں سلووینیا کی صدارت اور اس ماہ کونسل کی مؤثر قیادت پر اسے خراجِ تحسین پیش کرنا چاہوں گا۔ ہم سلووینیا کے وفد کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں کہ انہوں نے بطور منتخب رکن اپنی دو سالہ مدت کے دوران کونسل کے کام میں جو عزم، محنت اور قیمتی خدمات انجام دیں، وہ قابلِ قدر ہیں۔

ہم سیکرٹری جنرل کی رپورٹ کا جائزہ لیتے ہیں اور UNAMA کی ڈپٹی اسپیشل ریپریزنٹیٹو اور قائم مقام سربراہ، محترمہ جیورجیٹ گینن کی بریفنگ پر ان کے شکر گزار ہیں۔

ہم UNAMA کے کردار اور ان کے اس کام کی قدر کرتے ہیں جو وہ نہایت مشکل حالات میں انجام دے رہے ہیں۔ ہم انسانی صورتحال پر ان کی بصیرت افروز بریفنگ کے لیے انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر کے بھی شکر گزار ہیں، اور سول سوسائٹی کی نمائندہ محترمہ نگینہ یاری کے اظہارِ خیال کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔

محترمہ صدر،

طالبان کے اقتدار سنبھالنے کو چار سال سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے ایک ایسا واقعہ جس نے خانہ جنگی کا خاتمہ کیا اور افغانستان کے لیے امید کی ایک کرن پیدا کی، اگرچہ اس کے ساتھ گہری خدشات اور شکوک بھی موجود تھے۔

اچھے ہمسائیگی کے تقاضوں اور ایک پُرامن و مستحکم افغانستان کے لیے ہماری دیرینہ وابستگی اور دلچسپی کے تحت، پاکستان نے اس تمام عرصے کے دوران طالبان حکام کے ساتھ باقاعدہ اور مسلسل رابطہ رکھا۔

صرف اس سال ہی ہم نے افغانستان کے کئی اعلیٰ سطحی دورے کیے، متعدد نئے اقدامات شروع کیے، انسانی ہمدردی کی امدادی کوششوں میں تعاون کیا، سامان کی نقل و حمل میں سہولت فراہم کی، اور تجارت و ٹرانزٹ میں رعایات کا اعلان کیا۔ ہم افغانستان سے متعلق مختلف علاقائی عملوں میں بھی فعال طور پر شریک رہے ہیں۔

یہ بات یاد رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ طالبان سے بین الاقوامی برادری کی کئی توقعات وابستہ تھیں بالخصوص اس عہد کی پاسداری کہ افغان سرزمین کو کسی بھی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ آج اس میز پر موجود متعدد معزز ساتھیوں نے بھی اسی جانب اشارہ کیا ہے۔

بدقسمتی سے بین الاقوامی برادری کے ابتدائی تحفظات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ درست ثابت ہوتے گئے اور مزید گہرے ہوتے چلے گئے۔

آج افغانستان ایک بار پھر دہشت گرد گروہوں اور ان کے پراکسی  (Proxy) عناصر کے لیے ایک محفوظ پناہ گاہ بن چکا ہے، جس کے تباہ کن نتائج اس کے ہمسایہ ممالک، خصوصاً پاکستان، کے لیے شدید سکیورٹی چیلنجز اور خطے سے باہر تک اثرات مرتب کر رہے ہیں۔

افسوسناک طور پر طالبان کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس، مؤثر اور فیصلہ کن کارروائیوں کے بجائے ہم نے پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں شدید اضافہ دیکھا ایسے حملے جو طالبان کے زیرِ انتظام افغان سرزمین سے منصوبہ بندی، مالی تعاون اور عمل درآمد کے ساتھ کیے گئے۔

صرف اس سال ہی افغانستان سے آنے والی دہشت گردی کے باعث ہمارے تقریباً 1,200 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ 2022 سے اب تک، پاکستان میں انسدادِ دہشت گردی کی کارروائیوں کے دوران 214 سے زائد افغان دہشت گرد، جن میں خودکش بمبار بھی شامل ہیں، کو مارا بنایا جا چکا ہے۔

محترمہ صدر،

افغان سرزمین سے پھوٹنے والی دہشت گردی پاکستان کی قومی سلامتی اور خودمختاری کے لیے سب سے سنگین خطرہ ہے۔ داعش خراسان (ISIL-K)، القاعدہ، ٹی ٹی پی، ای ٹی آئی ایم (ETIM)، بی ایل اے اور مجید بریگیڈ سمیت متعدد دہشت گرد تنظیمیں افغانستان کی سرزمین پر محفوظ پناہ گاہوں سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔

درجنوں دہشت گرد کیمپ وہاں موجود ہیں جو سرحد پار دراندازی اور خودکش حملوں سمیت تشدد آمیز کارروائیوں کو ممکن بناتے ہیں۔

جیسا کہ اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم نے بھی تصدیق کی ہے، ٹی ٹی پی تقریباً 6,000 جنگجوؤں کے ساتھ افغان سرزمین پر موجود سب سے بڑی اقوام متحدہ کی نامزد کردہ دہشت گرد تنظیم ہے۔

پاکستان نے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے کے دہشت گردوں کی افغانستان سے دراندازی کی متعدد کوششوں کو ناکام بنایا ہے اور بین الاقوامی افواج کے چھوڑے گئے جدید فوجی ساز و سامان کے بڑے ذخیرے ضبط کیے ہیں۔ ان کوششوں کی انسانی قیمت بھی ادا کی گئی ہے جس میں ہماری بہادر سکیورٹی فورسز اور عام شہریوں نے عظیم قربانیاں دی ہیں۔

طالبان کی صفوں کے اندر موجود کچھ عناصر ان دہشت گرد گروہوں کی حمایت کر رہے ہیں اور انہیں آزادانہ اور بے خوف سرگرمیوں کے لیے محفوظ راستے فراہم کر رہے ہیں۔

ایسے ٹھوس شواہد بھی موجود ہیں کہ یہ دہشت گرد گروہ باہمی تعاون کر رہے ہیں جس میں مشترکہ تربیت، غیر قانونی اسلحہ کی تجارت، دہشت گردوں کو پناہ، اور افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف مربوط حملے شامل ہیں۔

اور حیرت کی بات نہیں کہ خطے کا ایک بدخواہ، موقع پرست اور ہمیشہ کی طرح بگاڑ پیدا کرنے والا ملک، پاکستان کے خلاف سرگرم دہشت گرد گروہوں اور پراکسیوں (Proxies) کی مادی، تکنیکی اور مالی سرپرستی میں مزید شدت لانے کے لیے تیزی سے متحرک ہو گیا ہے، جو افغان سرزمین سے کارروائیاں کرتے ہیں۔

ہمارا یقین ہے کہ UNAMA کو اپنی ذمہ داری کے مطابق افغانستان اور خطے میں غیر قانونی تجارت، چھوٹے اور ہلکے ہتھیاروں کے غیر مستحکم کرنے والے پھیلاؤ اور ان کی منتقلی کو روکنے کے لیے اپنی کوششوں کو مزید مضبوط بنانا چاہیے۔

محترمہ صدر،

سنگین سکیورٹی خدشات کے باوجود، ہم نے طالبان حکام کے ساتھ ہر ممکن حد تک رابطہ برقرار رکھا ہے، جس میں دوحہ اور استنبول میں حالیہ مذاکرات کے دور شامل ہیں۔

ہم قطر اور ترکیہ کی حکومتوں کے مخلصانہ تعاون اور کوششوں کے لیے شکر گزار ہیں۔

طالبان کو اپنی سرزمین پر موجود دہشت گرد گروہوں کے خلاف ٹھوس اور قابل تصدیق کارروائیاں کرنا ہوں گی۔

بصورت دیگر پاکستان اپنے شہریوں، اپنی سرزمین اور اپنی خودمختاری کے تحفظ کے لیے تمام ضروری دفاعی اقدامات کرے گا۔

ہم UNAMA سے بھی توقع کرتے ہیں کہ وہ سرحد کی سکیورٹی صورتحال کا غیر جانب دارانہ اور حقائق پر مبنی جائزہ پیش کرے۔ سرحدی جھڑپوں سے متعلق واقعات بنیادی طور پر دہشت گردی اور امن و سلامتی کا مسئلہ ہیں۔

طالبان کی جانب سے اپنے انسدادِ دہشت گردی کے وعدوں کی عدم تکمیل نے ہمارے خطے کے سکیورٹی ماحول کو مزید بگاڑ دیا ہے اور عام افغان شہریوں کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے، جو ان کی غیر انسانی پالیسیوں اور غلط ترجیحات کے براہِ راست نتائج بھگت رہے ہیں۔

پابندیاں، غیر فعال بینکاری نظام، امداد میں مسلسل کمی، غربت، دہشت گردی، منشیات کی پیداوار اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں یہ سب آج افغانستان کے سیاسی اور سماجی و اقتصادی ڈھانچے کی بنیادی خصوصیات بن چکی ہیں، اور اس صورتحال کی بڑی وجہ طالبان کے اپنے اقدامات ہیں۔

جیسا کہ آج بھی ذکر ہوا، طالبان کی خواتین اور بچیوں پر جاری پابندیاں اسلامی روایات اور مسلم معاشرے کے اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتیں، جس کی نشاندہی او آئی سی کے رکن ممالک بھی متعدد مواقع پر کر چکے ہیں۔

پاکستان انسانی حقوق، بالخصوص افغانستان میں خواتین اور بچیوں کے حقوق کے بارے میں بین الاقوامی برادری کے تحفظات سے مکمل اتفاق رکھتا ہے۔

جیسا کہ انڈر سیکرٹری جنرل ٹام فلیچر نے بھی بتایا، افغانستان کی انسانی صورتحال نہایت تشویشناک ہے۔ 2025 کے ہیومینیٹیرین نیڈز اینڈ ریسپانس پلان میں بڑھتا ہوا مالیاتی خلا اس حمایت میں کمی کو بھی ظاہر کرتا ہے جو ایک ایسی سیاسی قیادت کے لیے تھی جو اپنے وعدوں پر عمل کرنے میں ناکام رہی ہے۔

محترمہ صدر،

گزشتہ چار دہائیوں سے، پاکستان نے اپنی محدود صلاحیتوں اور ناکافی بین الاقوامی امداد کے باوجود لاکھوں افغان مہاجرین کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔

ہمیں بڑی تعداد میں غیر قانونی غیر ملکیوں، جن میں افغان بھی شامل ہیں اور جن کے پاس کوئی قانونی حیثیت یا دستاویزات نہیں تھیں، سے بھی نمٹنا پڑا جو پاکستان کے لیے سنگین سکیورٹی خطرہ بنے ہوئے تھے۔ یہ قیام کبھی غیر معینہ مدت تک جاری رکھنے کے لیے نہیں تھا۔

اب جبکہ افغانستان میں جنگ ختم ہو چکی ہے، ہماری توقع ہے کہ افغان شہری باوقار، مرحلہ وار اور منظم انداز میں اپنے وطن واپس لوٹیں گے۔

ہم اپنے افغان بھائیوں اور بہنوں کو ہر ممکن معاونت فراہم کرتے رہیں گے، لیکن بین الاقوامی برادری کو بھی اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے اور اس بوجھ کو زیادہ منصفانہ طریقے سے بانٹنا چاہیے۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ بہت سے وعدے یا تو تاخیر کا شکار ہیں، پورے نہیں کیے گئے، یا بعض صورتوں میں واپس لے لیے گئے ہیں۔ افغانستان کی مشکلات کا ملبہ افغان واپسی کرنے والوں پر ڈالنا بھی زمینی حقائق کے مطابق نہیں۔

پاکستان نے ایک لبرل ویزا پالیسی بھی نافذ کی ہے، جس کے تحت افغان شہری تعلیم، علاج، کاروبار اور خاندانی روابط سمیت مختلف مقاصد کے لیے قانونی طور پر پاکستان کا سفر کر سکتے ہیں۔ صرف طبی بنیادوں پر ہی ستمبر 2023 سے اب تک ہم 5 لاکھ 36 ہزار سے زائد افغان شہریوں کو ویزے جاری کر چکے ہیں۔

پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے ساتھ مسلسل رابطے اور مؤثر انگیجمنٹ کی حمایت کی ہے اور معمول پر لانے کے لیے روڈ میپ تجویز کرنے والے اولین ممالک میں شامل تھا۔

ہم UN کی سربراہی میں جاری دوحہ عمل کے اگلے مرحلوں اور اس کے موزیک اپروچ کے عملی منصوبے کے منتظر ہیں، جو افغانستان کے کثیرالجہتی چیلنجز کو جامع انداز میں حل کرے، جیسا کہ آزادانہ جائزہ رپورٹ میں بھی تجویز کیا گیا ہے۔

محترمہ صدر،

پاکستان ایک پُرامن، مستحکم، باہم جڑا ہوا اور خوشحال افغانستان چاہتا ہے ایک ایسا افغانستان جو اپنے اندر بھی امن کا حامل ہو اور اپنے ہمسایوں کے ساتھ بھی۔

پاکستان افغانستان کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر ہونے والی انگیجمنٹ کی بھی حمایت کرتا ہے، بشرطیکہ اس کے واضح مقاصد ہوں، باہمی اقدامات پر مبنی ہو، اور ایک قابلِ عمل و حقیقت پسندانہ روڈ میپ رکھتی ہو جو افغانستان میں دیرپا امن کا واحد مؤثر راستہ ہے۔

ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ دو طرفہ روابط کو ایسے ممالک اپنے منفی ایجنڈوں کے لیے استعمال نہیں کریں گے جو پاک-افغان سرحد اور وسیع تر خطے کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

ہم امید کرتے ہیں کہ طالبان ایک ایسا سازگار ماحول فراہم کریں گے جو مخلصانہ مکالمے کو فروغ دے، ہمارے جائز سکیورٹی خدشات کے لیے حساس ہو، متضاد اقدامات سے گریز کرے اور انکار کی ایسی حالت سے باہر نکلیں، جو کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔

پاکستان کے لیے افغانستان کی اہمیت خاص ہے۔ جغرافیائی طور پر قریبی ہمسایہ ہونے کے ناطے، لمبی سرحد کے علاوہ گہرے مذہبی و تاریخی روابط، ثقافتی تعلقات اور برادری کے بندھن بانٹنے والے، افغانستان میں امن و استحکام کی خواہش پاکستان سے زیادہ کسی ملک کی نہیں ہے۔

اور افغانستان میں دہائیوں کے تنازعے اور غیر مستحکم صورتحال کے نتائج سے سب سے زیادہ پاکستان نے ہی متاثر ہوا ہے۔ اس لیے پاکستان افغانیوں اور خطے کے بہترین مفاد میں ایک پُرامن اور مستحکم افغانستان کے لیے کام جاری رکھے گا۔

میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان سے باہر دہشتگردانہ سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے سے متعلق افغان علما کے اعلامیے کا مولانا طاہر اشرفی کی جانب سے خیر مقدم
  • افغانستان سے باہر عسکری سرگرمیاں کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہوگی: امیر متقی
  • افغان علما اور طالبان حکومت کا بیرون ملک کارروائی کرنے والوں کو سخت پیغام، مضمحل فضا میں تازہ ہوا کا جھونکا
  • افغان سرزمین بیرونی عسکری سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں، طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی
  • افغانستان کی سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہو، افغان علما کا دوٹوک مطالبہ
  • افغانستان کے علما اور مذہبی رہنماؤں کی میٹنگ، عسکریت پسندی کیلیےسرحد عبور نہ کرنے پر زور
  • دہشت گرد افغان سرزمین پاکستان کی قومی سلامتی اور خودمختاری کے خلاف استعمال کر رہے ہیں، عاصم افتخار
  • افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے، فغان علما کا اعلان
  • افغانستان سے لوگ یہاں آکر دہشت گردی کرتے ہیں، شہباز شریف