Express News:
2025-12-14@01:54:34 GMT

افغانستان اور دہشت گردی

اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے گزشتہ روز ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں بین الاقوامی سال برائے امن و اعتماد 2025عالمی دن برائے غیرجانبداری اور ترکمانستان کی مستقل غیرجانبداری کے30سال مکمل ہونے پر منعقدہ اعلیٰ سطحی عالمی فورم سے خطاب کیا۔

اپنے اس خطاب میں انھوں نے اہم امور پر پاکستان کا مؤقف پیش کیا۔ انھوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی، غربت اور عدم مساوات دنیا کے بڑے خطرات ہیں، انھوں نے خبردار کیا کہ افغان سرزمین سے دہشت گردی کا خطرہ بڑھ رہا ہے جس پر عالمی برادری افغان طالبان حکومت پر اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے دباؤ ڈالے۔

وزیراعظم نے کہا پاکستان عالمی امن و سلامتی کے فروغ کے لیے بھرپور کردار ادا کر رہا ہے،پاکستان نے2025میں سلامتی کونسل کی غیر مستقل نشست سنبھالنے کے بعد عالمی امن کے فروغ کے لیے مؤثر اقدامات کیے،غزہ میں جنگ بندی کے لیے قطر، ترکیہ، سعودی عرب، یو اے ای اور ایران کی کوششوں کی حمایت کی اور فلسطینیوں و کشمیریوں کے حقِ خودارادیت کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔

وزیراعظم نے کہا مشرق وسطی میں تادیر جنگ بندی اور انسانی بنیادوں پر امداد کی فراہمی ضروری ہے ۔پاکستان نے خواتین اور کمزور طبقات کی معاشی شمولیت کے لیے اہم اقدامات کیے ہیں۔ اس موقع پر وزیراعظم میاں شہباز شریف نے روسی صدر ولادیمیر پوتن، ترک صدر رجب طیب ایردوان، ایرانی صدر مسعود پزشکیان، تاجک صدر امام علی رحمن اور کرغیزستان کے صدر سادر جپاروف سے غیر رسمی اور خوشگوار ملاقاتیں کیں۔

ان ملاقاتوں میں انھوں نے عالمی امور سمیت باہمی تجارتی معاملات پر بھی گفتگو کی ہے۔ انھوں نے ترکیہ کے صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کے دوران پاکستان اور افغان طالبان حکومت کے درمیان مذاکرات میں سہولت فراہم کرنے میں شکریہ بھی ادا کیا لیکن اس بات پر زور دیا کہ امن تب ہی ممکن ہو گا جب پاکستان کے سلامتی کے خدشات کو پوری طرح سے حل کیا جائے گا۔

صدررجب طیب اردوان نے وزیراعظم محمد شہباز شریف کی جانب سے نیک خواہشات پر ان کا شکریہ ادا کیا اور دونوں ممالک کے درمیان مضبوط تعلقات استوار کرنے کے لیے مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔

وزیراعظم نے دیگر عالمی رہنماؤں کے ہمراہ ترکمانستان کی مستقل غیرجانبداری کی پالیسی کی علامت یادگار غیرجانبداری کا دورہ کیا اور پھول چڑھائے ۔اس موقع پر روس کے صدر ولادی میر پیوٹن، ترک صدر رجب طیب اردوان اور ترکمانستان کے صدر بردی محمدوف سمیت متعدد عالمی رہنما بھی موجود تھے جن سے وزیراعظم کا خوشگوار جملوں کا تبادلہ بھی ہوا۔

ترکمانستان کے دارالحکومت اشک آباد میں ہونے والے اس اہم فورم میں خطے کے اہم ممالک نے شرکت کی ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ فورم کس قدر اہمیت کا حامل تھا۔ اس فورم میں موسمیاتی تبدیلیوں پر بھی گفتگو ہوئی اور دہشت گردی خصوصاً افغانستان کے معاملات پر بھی لیڈروں کے ساتھ تبادلہ خیال ہوا۔

افغانستان اس وقت وسط ایشیا سے لے کر مشرق وسطیٰ تک اور دوسری طرف روس تک بحث ومباحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ افغانستان میں آپریٹ کرنے والے دہشت گرد گروپ اردگرد کے ممالک کے لیے مسلسل خطرہ بنتے نظر آ رہے ہیں۔

سارے ممالک اس صورت حال سے پریشان ہیں۔ پاکستان کا مؤقف تو اس حوالے سے بالکل واضح ہے کہ جب تک افغانستان کی حکومت پاکستان کے خدشات کو دور نہیں کرتی اس وقت تک صورت حال نارمل نہیں ہو سکتی۔

افغانستان پر برسراقتدار طالبان حکومت بھی عالمی موڈ کو دیکھ رہی ہے۔ طالبان حکومت مختلف حکمت عملیوں کے تحت کوشش کر رہی ہے کہ وہ کسی طریقے سے اقوام عالم کو یہ یقین دلانے میں کامیاب ہو جائے کہ وہ ایک ذمے دار حکومت ہے اور کوشش کر رہی ہے کہ عالمی برادری کے تحفظات کو دور کرے۔

اس سلسلے میں گزشتہ دنوں کابل میں افغانستان کے علماء کی کانفرنس بھی ہوئی جس میں دہشت گردی کی مذمت بھی کی گئی اور یہ بھی کہا گیا کہ افغانستان کے لوگوں کا کسی دوسرے ملک میں جا کر لڑنا خلاف اسلام ہے۔

جہاد کا حکم صرف ریاست ہی دے سکتی ہے۔ بظاہر یہ ایک اچھا اقدام نظر آتا ہے لیکن سوال پھر وہی ہے کہ جب تک عملی طور پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں نہیں ہوتیں، اس وقت تک معاملات درست نہیں ہو سکتے۔

پاکستان ہی نہیں بلکہ تاجکستان اور دیگر ممالک بھی افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی سے تنگ ہیں۔ ان کا بھی مطالبہ ہے کہ افغانستان میں موجود دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کیا جائے۔

پاکستان کا مؤقف بالکل واضح ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی افغانستان میں مقیم ہے۔ افغانستان کی طالبان رجیم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے۔ اس کے علاوہ افغانستان میں داعش، خراسان صوبہ کے نام سے بھی دہشت گرد تنظیم کام کر رہی ہے۔

القاعدہ سے منسلک تنظیمیں بھی افغانستان میں موجود ہیں۔ وسط ایشیائی نژاد لوگ بھی افغانستان میں موجود ہیں جو دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہیں۔ اس صورت حال میں اگر افغانستان پر برسراقتدار طالبان حکومت کی طرف دیکھا جائے تو اس کی جانب سے کوئی قابل ذکر کارروائی ہوتی نظر نہیں آ رہی۔

ٹی ٹی پی کے لوگ کھلے عام افغانستان میں موجود ہیں بلکہ وہاں کاروبار بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان نے اس حوالے سے افغانستان کی حکومت کو ثبوت بھی فراہم کیے ہیں۔ افغانستان کے اربابِ اختیار بھی اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں لیکن اس کے باوجود وہ اس دہشت گرد تنظیم کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کر رہے۔

نہ ہی وہ یہ بتا رہے ہیں کہ افغانستان کی حکومت میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ دہشت گرد تنظیموں کے خلاف لڑائی لڑ سکے۔ اگر وہ اس بات کا اعتراف کر لیں کہ وہ تنہا دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ نہیں لڑ سکتے اور پاکستان کے ساتھ اس حوالے سے تعاون طلب کریں تو معاملات پر غور کر کے دہشت گردوں کے خلاف مشترکہ کارروائیاں بھی ہو سکتی ہیں۔

پاکستان زیادہ دیر تک اپنی شمال مغربی سرحدوں پر جاری اس سنگین صورت حال کو برداشت نہیں کر سکتا۔ اسی طرح تاجکستان اور افغانستان کے دیگر ہمسائے بھی افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں سے نظریں نہیں چرا سکتے۔

اقوام متحدہ بھی افغانستان کی صورت حال پر تشویش کا اظہار کر چکی ہے۔ یورپی ممالک بھی اپنی تشویش ظاہر کر رہے ہیں۔ اشک آباد میں وزیراعظم پاکستان نے بھی افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے تحفظات کا ذکر کر دیا ہے۔

اس ساری پیش رفت سے اندازہ ہوتا ہے کہ افغانستان کی حکومت پر عالمی دباؤ بڑھ رہا ہے۔ افغانستان کی طالبان رجیم اندرونی طور پر بھی مشکلات کا شکار ہے۔ افغانستان میں سابقہ شمالی اتحاد نئے رنگ میں متحد ہوتا نظر آ رہا ہے۔

این آر ایف نامی تنظیم احمد مسعود کی سربراہی میں سرگرم ہے۔ اس تنظیم نے پچھلے دنوں پنج شیر میں طالبان پر حملہ بھی کیا تھا۔ اس میں طالبان کا خاصا جانی نقصان بھی ہوا تھا۔ اس کے علاوہ بھی مختلف تنظیمیں وہاں سرگرم عمل ہیں۔

یوں دیکھا جائے تو طالبان کے لیے اندرونی طور پر بھی اور بیرونی طور پر مشکلات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ افغانستان میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ تشویش ناک امر ہے۔ افغان طالبان نے دوحہ میں امریکا کے ساتھ مذاکرات کے دوران جو وعدے کیے تھے، ان پر پورا اترنا لازم ہے۔

ایسا نہیں ہو سکتا کہ ان وعدوں پر عمل بھی نہ کیا جائے اور افغانستان پر حکمرانی بھی جاری رکھی جائے۔ افغانستان کے عوام مسلسل جبر اور زیادتی کا سامنا کر رہے ہیں۔ افغانستان کا انفرااسٹرکچر برباد ہو چکا ہے۔

افغانستان کے وسائل کو اونے پونے داموں عالمی کمپنیوں کے ہاتھوں فروخت کیا جا رہا ہے۔ یہ صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ افغانستان میں جوابدہی کا نظام بھی موجود نہیں ہے۔ طالبان حکومت کے عہدیداروں کا احتساب کون کرے گا، اس کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔

افغانستان کو امن وترقی کے راستے پر ڈالنے کے لیے ضروری ہے کہ افغانستان کی تمام قومیتوں، زبانوں اور ثقافتوں کو حکومت میں نمایندگی ملے۔ افغانستان کثیرالقومیتی اور کثیر اللسانی ملک ہے۔ اس پر کسی ایک گروپ کی حکومت دوسرے گروپوں کے لیے قابل قبول نہیں ہو سکتی۔

طالبان کی حکومت کو اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہیے۔ افغانستان میں تاجک، ازبک، ہزارہ، مینگول، گجر، پامیری اور دیگر قومیتیں آباد ہیں۔ حکومت میں ان کی نمایندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ سرکاری ملازمتوں میں بھی ان کی نمایندگی کم ہے۔

افغانستان کو ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو افغانستان کے تمام لوگوں کی نمایندہ ہو۔ افغانستان میں عام انتخابات وقت کی ضرورت بن چکے ہیں۔ طالبان کی حکومت کو اس جانب پیش قدمی کرنی چاہیے اور دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے لیے عملی اقدام کرنے چاہئیں جس کے بغیر افغانستان میں امن کا قیام ممکن نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: افغانستان میں موجود افغانستان کی حکومت ہے کہ افغانستان بھی افغانستان طالبان حکومت افغانستان کے پاکستان نے پاکستان کے حوالے سے انھوں نے صورت حال نہیں ہو کے ساتھ کے خلاف نہیں ہے رہے ہیں رہے ہی کے صدر پر بھی کے لیے رہی ہے کر رہے بھی ہو رہا ہے

پڑھیں:

افغان علما اور طالبان حکومت کا بیرون ملک کارروائی کرنے والوں کو سخت پیغام، مضمحل فضا میں تازہ ہوا کا جھونکا

پاکستان طویل عرصے سے دنیا کے سامنے یہ مقدمہ رکھ رہا تھا کہ افغانستان سے مسلسل دہشتگردی کے واقعات ہورہے اور وہاں موجود طالبان حکومت ان دہشتگردوں کی پشت پناہی کررہی ہے، تاہم جب تمام تر کوششوں کے باوجود حالات قابو میں نہ آئے تو پاکستان نے اپنے دفاع میں کارروائی شروع کی جس کے بعد افغانستان مذاکرات کرنے پر مجبور ہوا اور اب اس صورتحال میں گزشتہ روز ایک مثبت پیشرفت یہ ہوئی ایک ہزار علما پر مشتمل جرگے نے اعلان کیا کہ افغانستان سے کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے والے باغی تصور ہوں گے اور چند ہی گھنٹوں بعد طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے واضح کیا ہے کہ افغان شہریوں کو افغانستان سے باہر کسی بھی قسم کی عسکری سرگرمی میں حصہ لینے کی اجازت نہیں، اور اس حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان سے کسی دوسرے ملک پر حملہ کرنے والے باغی تصور ہوں گے، افغان علما کا اعلان

گزشتہ روز کابل یونیورسٹی میں ہونے والے اجلاس میں افغانستان کے ایک ہزار سے زائد علما اور مذہبی عمائدین کا جرگہ منعقد ہوا جس میں خوش آئند طور پر واضح مؤقف اختیار کیا گیا کہ افغانستان سے کسی بھی دوسرے ملک پر حملہ کرنے والے باغی تصور ہوں گے اور ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔

علما کا یہ مؤقف بلاشبہ پاکستان میں امن کے حوالے سے اہم کردار ادا کرسکتا ہے اور نتیجے کے طور پر دونوں برادر ممالک کے درمیان محبت و تعاون میں اضافے کی راہ بھی ہموار ہوسکتی ہے۔

علما اور مذہبی کے اہم اجتماع میں اسلامی امارت کو تنبیہ کی گئی کہ کوئی بھی شخص عسکری سرگرمیوں کے لیے ملک سے باہر نہ جانے پائے اور افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی ہرگز اجازت نہ دی جائے۔

Sources confirmed to TOLOnews that a gathering of the country’s ulema and religious elders, in response to what they described as a violation of Afghanistan’s sovereignty, decided that defending their rights, values, and the Sharia system is an individual obligation (fard ayn),… pic.twitter.com/gU5VX0psHN

— TOLOnews English (@TOLONewsEnglish) December 10, 2025

قابل توثیق طور پر ان باتوں کو عملی جامہ پہنایا گیا تو افغانستان میں داخلی استحکام، پاکستان کی سیکیورٹی اور علاقے میں وسیع تر امن ممکن ہوسکے گا۔ افغان علما کے تازہ بیان سے پاکستان کا دیرینہ مطالبہ بھی ایک بار پھر درست ثابت ہوگیا۔

مزید پڑھیے: چین کی پاکستان اور افغانستان سے کشیدگی کم کرنے کی اپیل

ایکس پر جاری ’ٹولو نیوز‘ کی خبر کے مطابق کابل میں منعقدہ اس اجلاس میں ملک کے مختلف حصوں سے شرکت کرنے والے تقریباً ایک ہزار علما اور مذہبی بزرگوں نے افغانستان کی خودمختاری کو لاحق مبینہ خدشات پر تفصیلی غور کیا۔

علما نے قرار دیا کہ افغانستان کے حقوق، قومی اقدار اور شرعی نظام کے تحفظ کو ہر شہری پر فرض عین کی حیثیت حاصل ہے اور کسی بھی بیرونی جارحیت کے خلاف کھڑا ہونا ’مقدس  جہاد‘ شمار ہوگا۔ اجتماع نے اسلامی امارت سے مطالبہ کیا کہ امارت کے رہبر کے حکم کے بغیر کسی شخص کو ملک سے باہر کسی قسم کی عسکری کارروائیوں میں شریک ہونے کی اجازت نہ دی جائے۔

علما نے زور دیا کہ افغانستان کی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور جو کوئی اس فیصلے کی خلاف ورزی کرے گا اسلامی امارت کو اس کے خلاف اقدام کرنے کا حق حاصل ہوگا۔ خبر کے مطابق اجلاس کے اختتام پر مذکورہ نکات پر مبنی ایک قرارداد بھی پیش کی گئی جس میں امن، خودمختاری کے احترام اور افغانستان کے اندرونی نظم سے متعلق اصولوں کا اعادہ کیا گیا۔

دوسری طرف کابل میں علما کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے طالبان وزیر خارجہ نے کہا کہ علما کی قرارداد کے مطابق موجودہ نظام کا دفاع صرف سیکیورٹی فورسز یا سرکاری اہلکاروں کی ذمہ داری نہیں بلکہ ہر مسلمان شہری پر لازم ہے کہ وہ امارتِ اسلامی کے نظام کو داخلی اختلافات سے بچائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر کوئی فرد یا گروہ افغانستان کی خودمختاری یا طالبان حکومت پر حملہ کرتا ہے تو اس کے خلاف جہاد عوام پر فرض ہو جاتا ہے۔

افغان طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نے علما کے اس فتوے کی توثیق کر دی ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ افغان سرزمین کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتی۔ یہ فیصلہ موجودہ صورتحال کے عین مطابق ہے اور اب یہ طالبان حکومت کی سرکاری پالیسی کا حصہ بن چکا ہے۔ pic.twitter.com/a2bAZeP3u7

— The Khyber Chronicles (@TKCkhyber) December 11, 2025

 

پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان طاہر اندرا بی کا اس پوری صورتحال پر کہنا ہے کہ اگرچہ یہ پیشرفت مثبت ہوسکتی ہے لیکن پاکستان طالبان حکومت اور ملا ہیبت اللہ دونوں سے تحریری ضمانت چاہتا ہے کہ افغان سرزمین سے ٹی ٹی پی کی کارروائیاں نہیں ہوں گی۔

افغانستان میں علما اجلاس، طالبان کا پاکستان کے لیے ممکنہ پیغام  ہے،جنرل (ر) غلام مصطفیٰ

دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل (ر) غلام مصطفیٰ نے وی نیوز سے گفتگو میں کہا کہ افغانستان میں ہزار سے زائد علما کا اجتماع محض اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچے سمجھے مقصد کے تحت بلایا گیا ہے۔

ان کے مطابق اس اجتماع کے ذریعے طالبان نے پاکستان کو ایک پیغام دینے کی کوشش کی ہے۔ طالبان اس وقت معاشی دباؤ میں ہیں اور پاکستان کے ساتھ تجارت کی بحالی چاہتے ہیں ممکن ہے کہ اس اجلاس کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان براہ راست رابطے کا کوئی راستہ نکالنا ہو۔

انہوں نے کہا کہ یہ سوال بھی اہم ہے کہ ان علما کی اصل حیثیت کیا ہے اور ان میں سے کن افراد کا طالبان کے فیصلوں پر حقیقتاً اثرانداز ہونے کا اختیار ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ علما ازخود جمع نہیں ہوتے تاہم اب یہ دیکھنا ہوگا کہ وہ طالبان کی مرکزی قیادت کے کس قدر قریب ہیں۔

جنرل (ر) غلام مصطفیٰ کے مطابق صرف علما کے بیانات کی بنیاد پر کسی بڑی پالیسی تبدیلی کی توقع رکھنا درست نہیں۔ طالبان خطے کی صورت حال اور بین الاقوامی دباؤ کو دیکھتے ہوئے وقتی طور پر کچھ اقدامات روک سکتے ہیں لیکن یہ مستقل پالیسی تبدیلی نہیں ہوگی۔

کابل یونیورسٹی میں بڑا اجتماع
ملک بھر کے 34 صوبوں سے 1000 علما و مشائخ کی شرکت
افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی
خلاف ورزی کرنے والے افراد کو باغی اور مخالف تصور کیا جائے گا
پانچ نکاتی قرارداد منظور pic.twitter.com/gpsoVjdqgQ

— افغان اردو (@AfghanUrdu) December 10, 2025

انہوں نے مزید کہا کہ چین بھی پاکستان اور افغانستان کو مل بیٹھ کر مسائل حل کرنے کا مشورہ دے رہا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیجنگ طالبان پر کشیدگی کم کرنے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ طالبان شاید کچھ عرصے کے لیے اپنی سرزمین سے پاکستان مخالف سرگرمیاں رکوا دیں لیکن یہ واضح نہیں کہ یہ صورتحال طویل مدت تک برقرار رہ سکے گی۔ جب طالبان اندرونی طور پر زیادہ مستحکم ہوں گے تو حالات دوبارہ تبدیل بھی ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: افغانستان اور تاجکستان بارڈر پر چینی شہریوں کے خلاف سنگین دہشتگرد منصوبہ بے نقاب

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ علما کا یہ مؤقف دونوں ممالک کے بیچ موجودہ فضا میں تازہ ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہوسکتا ہے اور توقع کی جاسکتی ہے کہ اگر افغان طالبان رجیم اپنی سرزمین سے پاکستان میں حملہ کرونے والے عناصر کو روک لے تو پاکستان کو برادر پڑوسی ملک سے جو گلے شکوے ہیں وہ دور ہوجائیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

افغان طالبان رجیم افغان علما کی قرارداد پاک افغان تعلقات پاکستان میں دہشتگردی کے خلاف قرارداد

متعلقہ مضامین

  • افغانستان سرزمین سے دہشت گردی کے خطرات، ہمسایہ ممالک کل سر جوڑ کر بیٹھیں گے
  • افغانستان سے دہشت گردی کا نیا خطرہ اٹھ رہا ہے، وزیراعظم،پیوٹن اور اردوان سے ملاقات
  • افغان علما اور طالبان حکومت کا بیرون ملک کارروائی کرنے والوں کو سخت پیغام، مضمحل فضا میں تازہ ہوا کا جھونکا
  • افغان سرزمین سے جنم لینے والی دہشت گردی سب سے بڑا خطرہ ہے‘ پاکستان
  • افغانستان: عالمی دہشت گردوں کا ہیڈ کوارٹر
  • پاکستان کا افغان طالبان سے تحریری ضمانتوں کا مطالبہ—بھارت کی ریاستی دہشت گردی بے نقاب، دفترِ خارجہ کا دوٹوک اعلان!
  • افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی پاکستان کیلئے سنگین خطرہ ہے:عاصم افتخار  
  • افغانستان سے دہشتگردی قومی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہے،پاکستان
  • افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی پاکستان کی قومی سلامتی کیلئے سنگین خطرہ ہے: عاصم افتخار