دہشتگردی کا سدباب: سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے پاکستان میں دفاتر قائم کرنے کا ایک بار پھر مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT
حکومت پاکستان نے واضح کیا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے مقامی دفاتر قائم کرنے کا مطالبہ آزادی اظہار کو محدود کرنے کے لیے نہیں بلکہ شہریوں کے تحفظ اور آن لائن انتہا پسندی، نفرت انگیز مواد اور دہشتگردی سے منسلک اکاؤنٹس کے مؤثر سدباب کے لیے کیا جا رہا ہے۔
یہ مطالبہ وزارت داخلہ میں منعقدہ بریفنگ کے دوران کیا گیا، جہاں وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری اور وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک نے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کی۔
وزارت داخلہ اور وزارت قانون کے حالیہ مؤقف کے مطابق حکومت کا مقصد سوشل میڈیا کمپنیوں کے ساتھ تعاون کو بہتر بنانا ہے تاکہ دہشت گردانہ اور پرتشدد مواد کے خلاف بروقت کارروائی ممکن ہو سکے۔
حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آن لائن تحفظ اور ڈیجیٹل جرائم سے نمٹنے کے لیے جامع قوانین موجود ہیں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر لازم ہے کہ وہ دیگر ممالک کی طرح پاکستانی قوانین کی پاسداری کریں، قانونی درخواستوں پر فوری ردعمل دیں اور صارفین کے تحفظ کے لیے ریاستی اداروں کے ساتھ تعاون کریں۔
حکام کے مطابق کارروائی کا ہدف تنقید یا اختلاف رائے نہیں بلکہ وہ سوشل میڈیا اکاؤنٹس ہیں جو کالعدم تنظیموں جیسے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل ایف) سے منسلک ہیں۔
ان میں سے کئی اکاؤنٹس بیرونِ ملک سے پاکستان کے خلاف تشدد اور نفرت پر مبنی مواد پھیلا رہے ہیں۔
طلال چوہدری نے کہا کہ 24 جولائی 2025 کو باقاعدہ نوٹس جاری کیے جانے کے باوجود سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان کے قوانین پر عملدرآمد کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کر رہیں۔
انہوں نے تنقید کرتے ہوئے کہاکہ پلیٹ فارمز پاکستان مخالف پرتشدد مواد کے خلاف کارروائی میں ناکام ہیں، جبکہ بچوں کے جنسی استحصال اور اسرائیل مخالف مواد کو فوری طور پر ہٹا دیا جاتا ہے۔
حکومت نے اس معاملے میں محاذ آرائی کے بجائے تعاون پر زور دیا ہے اور کہا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیوں کے مقامی دفاتر کے قیام سے حکومتی درخواستوں پر تیز ردعمل، شفافیت میں اضافہ اور پلیٹ فارمز کی جوابدہی ممکن ہو سکے گی۔
اس موقع پر وزیر مملکت برائے قانون بیرسٹر عقیل ملک نے کہا کہ سوشل میڈیا کمپنیاں پاکستان کے ساتھ دہرا معیار اپنائے ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق فلسطین سے متعلق مواد 24 گھنٹوں میں ہٹا دیا جاتا ہے، جبکہ پاکستان کی درخواستوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔
بیرسٹر عقیل ملک نے خبردار کیاکہ اگر سوشل میڈیا کمپنیاں تعاون نہ کریں تو پاکستان برازیل کی طرز پر اقدامات پر غور کر سکتا ہے، جہاں عدم تعمیل پر ایکس پر جرمانہ عائد کیا گیا اور عارضی طور پر بند بھی کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر یہ معاملہ بین الاقوامی عدالت میں بھی لے جایا جا سکتا ہے۔
حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان کا یہ مؤقف عالمی سطح پر اختیار کی جانے والی سیکیورٹی پالیسیوں سے ہم آہنگ ہے، جہاں مختلف ممالک ٹیکنالوجی کمپنیوں سے دہشتگردی اور نفرت انگیز مواد کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے مؤثر تعاون کے خواہاں ہیں۔
حکومتی مؤقف کے مطابق پاکستان آزادی اظہار کا حامی ہے، تاہم سوشل میڈیا کو دہشتگرد نیٹ ورکس اور نفرت پھیلانے والے عناصر کے لیے ہتھیار بننے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
مقامی دفاتر کے قیام اور قوانین پر عمل درآمد کا مقصد شہریوں کا تحفظ، انسدادِ دہشتگردی قوانین کا نفاذ اور ڈیجیٹل تحفظ میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو ذمہ دار شراکت دار بنانا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews انتہا پسندی انسداد دہشتگردی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز مقامی دفاتر وزارت داخلہ وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: انتہا پسندی انسداد دہشتگردی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز مقامی دفاتر وزارت داخلہ وی نیوز سوشل میڈیا پلیٹ فارمز مقامی دفاتر کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
ایک اور ملک 15 سال سے کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا استعمال پر پابندی کیلئے تیار
حال ہی میں 16 سال سے کم عمر بچوں پر سوشل میڈیا پابندی نافذ کرنے والے آسٹریلیا سے ایک اور ملک ایک ہاتھ آگے نکل گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ڈنمارک نے 15 سال سے کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔
ڈنمارک کی حکومت کا کہنا ہے کہ کم عمر بچوں کی انٹرنیٹ تک رسائی کو روکنے کا منصوبہ تیار کررہے ہیں جسے پہلے بل کی صورت اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
اس بل کو حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے اراکین کی مکمل حمایت حاصل ہے اور باضابطہ منظوری کے بعد آئندہ برس سے نافذ بھی ہوسکتا ہے۔
عمر کی تصدیق کے لیے ڈنمارک ایک ڈیجیٹل ایویڈنس ایپ متعارف کرانے کا ارادہ رکھتا ہے، جس کے ذریعے پابندی پر عمل یقینی بنایا جا سکے گا۔
فی الوقت بل کے مندرجات دستیاب نہیں تاہم امکان ہے کہ 13 سال سے 15 سال کی عمر تک بچے والدین کے اکاؤنٹس استعمال کرسکتے ہیں۔
البتہ 13 سال سے 15 سال تک کے عمر کے بچوں کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اکاؤنٹ بنانے کی اجازت نہیں ہوگی۔
خیال رہے کہ ڈنمارک میں 98 فیصد بچے اپنا خود کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ استعمال کرتے ہیں اور ناسمجھی میں جرائم پیشہ گروہوں کے ہتھے بھی چڑھ جاتے ہیں۔