Express News:
2025-12-14@22:09:36 GMT

نیلی بار (دوسری  قسط)

اشاعت کی تاریخ: 14th, December 2025 GMT

 تو اب کی بار میں علی عمر کے ساتھ نو لکھی کوٹھی میں تھا۔ کیوں تھا، کیسے تھا، اس سب کی وجہ میرا حسد ہی تھا۔ دنیا میں چند ہی سیاحتی لوگ ایسے ہیں جن سے محبت بھی کرتا ہوں اور حسد بھی کرتا ہوں اور یہی حسد مجھے نئی نئی جگہوں پر لے جاتا ہے۔

اگرچہ کہ نو لکھی کوٹھی ایک مشہور ناول بھی ہے مگر مجھے اس پورے علاقے بارے مکمل معلومات رانا عثمان کی بدولت ہی مل سکیں۔ میں نے کئی بار رانا پائین سے اس بارے ذکر بھی کیا کہ اس علاقے پر ان کی کھوج کمال رہی ہے۔ ایسے میں رانا پائین کی تحریر سے ہی چند سطریں مستعار لے لی جائیں تو کوئی حرج نہیں۔

نو لکھی کوٹھی کی داستان کمشنر ولیم کی زندگی کی کہانی ہے۔ ایک ایسا شخص جس نے جو اسی مٹی یعنی رینالہ میں پلا بڑھا جوان ہوا اور پھر انگلستان سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد یہیں واپس آکر کمشنر لگ گیا۔ تاج برطانیہ کے باقی افسران سے ہٹ کر وہ ہندوستان کی سرزمین کو ایک فاتح حاکم اور ہندوستان کے عوام کو غلام قوم نہیں سمجھتا تھا۔ اسے انگلستان سے زیادہ ہندوستان کے موسم پسند ہیں۔ اپنی کمشنری کے دوران ہی وہ تقسیم ہند کا دور دیکھتا ہے۔

تقسیم ہند کے بعد انگریز حکومت اسے واپس انگلستان رپورٹ کرنے کا کہتی ہے لیکن وہ کہتا ہے میں تو یہیں پیدا ہوا ہوں یہیں میرا ملک ہے۔ ولیم یہیں رینالہ میں اپنے آباؤ اجداد کی نولکھی کوٹھی میں رہ جاتا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد اس سے کمشنری چھن جاتی ہے۔ پھر اس سے قبضہ مافیا نولکھی کوٹھی بھی چھین لیتا ہے۔ ولیم یہیں رینالہ کے کرسچین قبرستان میں دفن ہے۔

علی عمر بھی میری طرح مناظر کا حریص انسان ہے مگر ہم دونوں میں ایک اچھی بات ہے کہ ہم دونوں ہی ایک دوسرے سے حسد نہیں کرتے۔ میں اقرار کرتا ہوں کہ علی عمر کا لکھائی میں قد مجھ سے بہت بڑا ہے مگر پھر بھی ہم ایک ساتھ سفر کرتے ہیں اور اپنی اپنی نگاہ اور سوچنے کا زاویہ رکھتے ہیں۔

نو لکھی کوٹھی میں داخل ہوتے ہی ہم دونوں الگ الگ ہوگئے۔ جسے جو شے پسند آئی، بس اسی کی فوٹو گرافی میں لگ گیا، مناظر میں کھو گیا۔ میں ابھی نو لکھی کوٹھی میں ہی تھا کہ ایک عدد نشئی بھائی آن ٹپکا۔ طرح طرح کے سوال جواب کرنے لگا۔ میں ٹھہرا شریف لونڈا۔ میں سادگی میں ہی اس کی باتوں کا جواب دیتا رہا کہ ہم بس دو ہی ہیں اور یہاں تک کہ اس نشے والے بھائی صاحب کی کیوٹ سی تصویر بھی بنا ڈالی۔ موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے علی عمر درمیان میں یہ کہتے ہوئے کود پڑا کہ میاں حارث جلدی کرو، باہر سب لوگ انتظار کر رہے ہیں۔ وہ تو مجھے بعد میں علی عمر نے بتایا کہ کوٹھی کے پیچھے فل ٹائم چرس پروگرام چل رہا ہے اور یہ نشے کا عادی شخص ہمیں لوٹنے کے چکر میں تھا۔

…………

انگریز کا دورحکومت تھا۔ برصغیر پر انگریز نے اپنی سرکار قائم ہونے کے یہی کوئی پچیس تیس سال بعد اس ویران علاقے کو آباد کرنے کے لیے یہاں باقاعدہ اپنے افسر تعینات کرنا شروع کیے۔ اسی وقت میں یہاں ایک گوری میم بھی آئی تھی کسی افسر کی شاید اہلیہ تھی بہرحال اس کی یہاں کافی رقبہ زمین تھی اسی کے نام پر رینالہ رکھ دیا گیا۔ یہ ایک بات ہے اور ایک دوسری بات بھی کہ رینالہ کا نام، رے نالہ سے رینالہ ہوا۔ یہاں دریائے بیاس سے نکلتا ایک نالہ گزرتا تھا جو اب کئی سال پہلے بیاس کے دم توڑ جانے کے بعد اپنا وجود کھو چکا ہے اسی مناسبت سے اسے رے۔ نالہ کہا جاتا تھا۔

اس سے پہلے یہ علاقہ ملی یا ملے کی مناسبت سے ملیانوالہ کہلاتا تھا۔ ملی پنجابی میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں بیری کے درختوں کی بہتات کی وجہ سے یہ پہلے ملیانوالہ کہلاتا تھا۔ راوی کنارے آباد اس علاقے میں زیادہ تر جانگلی لوگ آباد تھے اور یہاں بے شمار ویرانہ تھا۔ سن 1800 میں گورا سرکار کی بنائی گئی اس پرشکوہ عمارت پر اس دور میں 9 لاکھ روپیہ خرچ ہوا۔ اس لیے اس کا نام نو لکھی کوٹھی مشہور ہوگیا۔

اس کوٹھی تک پہنچنے کے ایک کچے راستے سے گزرنا پڑتا ہے، جس کے دونوں طرف بڑی خوب صورتی سے درخت لگائے گئے ہیں۔ کوٹھی کے بالکل سامنے آم کا ایک باغ ہے۔ نو لکھی کوٹھی وجہ شہرت میں مزید اضافہ تب ہوا جب اس کوٹھی اور اس کے آخری رہائشی کمشنر ولیم کے کردار پر ایک ناول منظر عام آیا اور مشہور ہوگیا۔ علی اکبر ناطق کا لکھا گیا ناول،، نو لکھی،،  ہر ادب پسند کو پڑھنا چاہیے۔

کوٹھی کے بیشتر کمروں کی چھتیں گرچکی ہیں۔ اونچی دیواریں، بڑے بڑے کمرے اس کی شان و شوکت کا پتا دیتے ہیں۔ مرکزی عمارت کے درمیان میں ایک راہ دری ہے جو عمارت کے تمام کمروں کو آپس میں جوڑتی ہے۔ اب یہاں ایک دو کمروں میں مقامی لوگ بھوسا اسٹور کرتے ہیں۔

1912 میں جب انگریز نے یہاں پہ نہر لوئر باری دو آب کو رواں دواں کیا تو اس کے بعد انہوں نے اس کے اردگرد بستیاں بسانا بھی شروع کردیں اور کئی علاقوں میں انہوں نے جنگل لگا دیے۔ یہ جس جگہ یہ نو لکھی کوٹھی ہے اس کے اطراف میں تقریباً نو ہزار ایکڑ کے اوپر جنگل لگائے گئے اور ان کا پورا ایک ایسا نظام تھا جیسے ریاست کو چلایا جاتا تھا۔ اس کو دیکھ بھال کے لیے اس وقت 1913 یا 14 میں اس کوٹھی کی انگریز افسر کرنل کول نے تعمیر کروایا تھا۔ کرنل کول نے اس کوٹھی کو اپنی رہائش کے لیے اور پھر پوری ریاستی امور کو چلانے کے لیے بنایا تھا۔ اس کے علاوہ یہ ایک بلڈنگ ہے جو ان کی رہائش کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ کرنل کول کا اپنا خاندان بھی یہیں اسی کوٹھی میں مقیم رہا۔ ان کی فیملی یہاں پہ رہتی تھی۔ ایک وقت تھا کہ ریاست یہاں سے چلتی تھی اور آج کیا وقت ہے کہ یہاں پہ آتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہے کہ کہیں کوئی چیز جو ہے وہ اپ کے اوپر نہ آن گرے۔

جس وقت یہ کوٹھی تعمیر ہوئی تو یہاں بجلی کا کوئی انتظام موجود نہیں تھا۔ بجلی آنے پر 1925 یا 25 میں جب سر گنگا رام نے نہر کے اوپر ٹربائن بنائی جہاں سے اس کے لیے بجلی بھیجی جاتی تھی۔ کہتے ہیں کہ تقسیم ہند کے بعد بھی اس جگہ سے ان کا خاندان رخصت نہیں ہوا۔ ان کی بیٹی کے مرنے کا قصہ مشہور ہے اس کے متعلق بھی کئی باتیں ہیں۔

انہی راہ داریوں میں سے گھومتے، کمروں کے درودیوار دیکھتے ہوئے جو محسوس کیا وہ بے پناہ خاموشی تھی۔ اور اس خاموشی کو توڑتی ایک تیز ہوا تھی۔ جو کمرے کے اونچے روشن دان میں بیٹھا ایک جنگلی کبوتر تھا۔ میرے حویلی کے بڑے کمرے میں داخل ہوتے ہی وہ کمرے میں دروازے سے اڑتا اور کھڑکی میں جا بیٹھتا ویاں سے اڑتا تو دوبارہ اسی اونچے روشن دان پر جا بیٹھتا۔ اس کے اڑنے کی پھڑپھڑاہٹ کی آواز اور پروں سے پیدا ہوئی ہوا غیرمعمولی تیز تھی، جس کو میں نے باقاعدہ اپنے چہرے پر محسوس کیا۔ وہیں اس نیم تاریک کمرے میں ٹوٹی چھت کے ایک کمرے سے سورج کی ایک لہر کرن نیچے فرش تک آتی تھی۔

کہتے ہیں کہ اس کے اگر ایک دروازے سے کوئی داخل ہوجائے تو واپس اسی دروازے سے نہیں نکل سکتا تھا اور اگر وہ نکل اتا تو اس کو 500 روپیہ اس وقت کا دیا جاتا۔ اس کی کھڑکیاں، شیشے، چھتیں اور لکڑی وہ تمام اسی ادوار کی ہے جو آج یا تو اکھاڑ لی گئی ہیں یا وقت نے انھیں برباد کردیا۔ ان کمروں کو بہت اونچا رکھنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ ٹھنڈے ہوادار رہیں اور یہاں پر گرمی نہ لگے۔ کرنل صاحب جب وفات پاگئے تو ان کے بعد ان کی بیٹی، ملیر جن کا نام بتایا جاتا ہے یہاں پہ رہتی رہی۔ کوٹھی کا داخلی دروازہ انتہائی شان دار تھا۔ کرنل کول کے خاندان کے چلے جانے کے بعد پہلے نوابوں اور پھر سادات نے اسے خرید لیا۔

ایک سادات خاندان یہاں رہائش پذیر بھی رہا۔ ایوب خان کے دور میں ایک گھوڑی پال اسکیم شروع کی گئی اور اس کے اندر یہ کسی طرح سے تقسیم کردی گئی۔ میں یہاں بتاتا چلوں کہ ’’گھوڑی پال اسکیم‘‘ ایک دیہی یا زرعی ترقی کی اسکیم ہے جو عام طور پر حکومت یا مقامی انتظامیہ دیہی علاقوں میں کسانوں اور گھوڑوں/گھڑیوں کے شوقین افراد کی سہولت کے لیے شروع کرتی ہے۔ اس اسکیم کے تحت لوگوں کو گھوڑی (مادہ گھوڑا) پالنے کے لیے مالی امداد، سبسڈی یا آسان قرض فراہم کیا جاتا ہے۔

اس کے مقاصد عام طور پر یہ ہوتے ہیں کہ گھوڑی سے پیدا ہونے والے بچے (کٹے) بیچے جا سکتے ہیں، جو کسان یا پالنے والے کے لیے آمدنی کا ذریعہ بنتے ہیں۔ ایک مقصد یہ بھی ہوتا ہے کہ اچھی نسل کے گھوڑے یا گھوڑیاں محفوظ اور زیادہ تعداد میں پیدا ہوں۔ چوںکہ گھوڑ سواری، ٹینٹ پیگنگ اور مقامی میلوں میں گھوڑوں کا اہم کردار ہوتا ہے، اس لیے یہ اسکیم مقامی ثقافت کو سہارا دیتی ہے۔ دیہی علاقوں میں گھوڑی پالنا نوجوانوں اور کسانوں کے لیے ایک روزگار بن سکتا ہے۔

بہت سے لوگ اس بارے میں ایوب خان پر الزام لگاتے ہیں کہ اس اسکیم کی آڑ میں اپنوں کو ہی نوازا۔

قلعہ ستگھرہ

ہم نولکھی کوٹھی سے باہر نکلے تو اب ہمارا رخ ستگھرہ کی طرف تھا۔ یہاں ایک قلعے کی باقیات ہیں۔ شاید اس کا نام قلعہ ستگھرہ ہی ہے۔ قلعہ ستگھرہ ایک قدیم تاریخی قلعہ ہے جو ضلع اوکاڑہ (پنجاب، پاکستان) کے قصبہ ستگھرہ میں واقع ہے جو ایک منفرد تاریخ کا حامل قصبہ ہے۔ ستگھرہ کا قلعہ ایک قدیم دفاعی قلعہ ہے جس کی بنیاد قدیم زمانے میں رکھی گئی تھی۔ ’’ست گھرہ‘‘ لفظ سنسکرت کے لفظ ست گُرہ یا ست گرام سے نکلا ہے، جس کے معنی ہیں ’’سات گاؤں‘‘ — یعنی یہ جگہ کبھی سات بستیوں پر مشتمل تھی۔ روایت کے مطابق یہ علاقہ عہدِ سکندرِ اعظم میں بھی آباد تھا۔ بعض مؤرخین کا خیال ہے کہ یہ قلعہ یونانی یا ہندو دور میں قائم ہوا۔ مغل دور میں اس کی دوبارہ تعمیر یا مضبوطی کی گئی تاکہ دفاعی لحاظ سے یہ خطہ محفوظ رہے۔

سکھ عہد میں بھی اس قلعے کی خاص اہمیت رہی، کیوںکہ یہ راہداری کے طور پر لاہور، پاکپتن، اور ملتان کے درمیان واقع تھا۔ قلعہ مٹی اور اینٹوں سے بنا ہوا تھا۔ چاروں طرف بلند فصیلیں تھیں جن میں دفاعی برج بھی شامل تھے۔ اندرونی حصے میں رہائش، گودام اور اسلحہ خانے کے آثار اب بھی جزوی طور پر موجود ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ قلعے کا بڑا حصہ زمین میں دب چکا یا منہدم ہو چکا ہے۔ قلعہ ستگھرہ قصبے میں واقع ہے جو اوکاڑہ شہر سے تقریباً 12 کلومیٹر مغرب کی جانب ہے۔ اسی کے قریب دریائے ستلج کا پرانا کنارہ بھی ہے۔ قلعہ کے اردگرد کھدائیوں میں پرانے سکے، برتن، اور اینٹیں ملی تھیں جو 500 قبل مسیح سے 200 عیسوی تک کے ادوار سے تعلق رکھتی ہیں۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ستگھرہ کا علاقہ گندھارا تہذیب یا اس سے بھی پرانے دور میں آباد تھا۔

مقبرہ چاکر اعظم رند

ستگھرہ کی اصل پہچان چاکراعظم رند بلوچ کا مقبرہ ہے۔

لاہور میں ایک انڈر پاس ہے جس کا نام چاکر اعظم رند ہے۔ ماضی کے گزرے ہوئے یہ ہیرو جن کا تعلق بلوچ قبائل سے تھا۔ یہ ایک غیرت مند بلوچ تھے۔

 ’’بہادروں کا انتقام بھی مجھے بہت پیارا لگتا ہے جو میرے اونچے قلعوں پر حملہ کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔‘‘

 یہ کہنا تھا میر چاکر اعظم رند کا جو شجاعت اور بہادری کی زندہ تصویر تھا اور بلوچوں کی شان تھا۔ میر چاکر اعظم رند صرف ایک شخصیت نہیں بلکہ بلوچوں کی جواں مردی اور فخر کا نام ہے۔ چاکراعظم کی زندگی کو دیکھ کر راجپوتوں کا وہ قول سمجھ میں آتا ہے کہ جان جائے پر وچن نہ جائے۔ ایسے ہی دو وعدے میر چاکر اعظم رند نے کیے تھے پھر اپنی زبان کی پاس داری کے لیے چالیس سال میدانِ جنگ میں لڑتے لڑتے گزار دیے۔

 آج سے تقریباً پانچ سو سال پہلے سبی اور بولان کے مقام پر دو قبیلے آباد تھے۔ ایک روایت کے مطابق رند اور لاشار قبائل بھائی بھائی تھے۔ لاشار کا سردار میر گُہرام اور رند قبیلے کا سردار چاکر رنگ تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب شیر شاہ سوری نے شہنشاہ ہند ہمایوں کو شکست دی اور ہمایوں ایران کی طرف بھاگ نکلا۔ شیر شاہ کی فوجوں نے اس کا پیچھا کیا۔ اس زمانے میں طریقہ یہ ہوا کرتا تھا کہ بھاگتے دشمن کو پیچھے سے مارا جاتا تھا تاکہ دوبارہ اقتدار کو خطرہ نہ ہو۔ قریب تھا کہ شیر شاہ سوری کی فوج ہمایوں کو گرفتار کرلیتی یا مار دیتی، ہمایوں بلوچستان کے علاقے سبی میں داخل ہوگیا جہاں اس وقت میر چاکر رند کی حکومت تھی۔ ہمایوں نے میر چاکر رند سے مدد طلب کی۔

بلوچوں کا اصول ہوتا ہے کہ جب کوئی پناہ یا مدد طلب کرے تو وہ اسے مدد ضرور دیتے ہیں۔ چاکر اعظم کی فوج جب شیر شاہ سوری کی فوج کے مقابل آئی تو وہ تعداد میں کم تھے۔ ویسے بھی کئی دنوں کے سفر اور ہمایوں کی تلاش میں شیر شاہ سوری کی فوج کی یہ ٹکڑی تھک بھی چکی تھی اور تعداد میں بھی ان کی فوج سے بہت کم تھی۔ شیر شاہ سوری کے فوجی دستوں نے واپسی میں ہی عافیت جانی اور میر چاکر اعظم رند کی مدد سے بچ کر فارس نکل گیا۔ اس واقعے کے کچھ عرصے کے بعد ایک اور واقعہ ہمیں تاریخ میں ملتا ہے اور وہ یہ کہ بولان کے علاقے میں ایک مال دار جواں سالہ خوب صورت عورت مائی گوہر اپنی ایک چھوٹی سی ریاست میں رہا کرتی تھی۔

نہایت خوب صورت تھی، پانچ بہنوں میں سے سب سے بڑی تھی اور بھائی نہ ہونے کی وجہ سے اپنے شوہر کے ساتھ اونٹوں کا کاروبار کیا کرتی تھی۔ ایک روز اس کا شوہر نامعلوم افراد کے ہاتھوں قتل ہوگیا۔ علاقے کے سردار ہونے کے ناتے لاشار قبیلے کے سردار میر گہرام خان نے گوہر کو نکاح کی پیشکش کی مائی گوہر جو کہ اس وقت چھے یا آٹھ سالہ بیٹے کی ماں بھی تھی نے میر گوہر خان سے شادی سے انکار کردیا۔ اس انکار کو سردار گہرام نے اپنی بے عزتی تصور کیا اور مائی گوہر کی چراگاہوں پر بھاری ٹیکس عائد کردیا۔ اس کے علاوہ دیگر حوالوں سے بھی مائی گوہر کی زندگی اجیرن کرڈالی۔ مائی گوہر اپنے مال مویشی لے کر بولان سے سبی چلی گئی اور وہاں کے حاکم سردار میر چاکر رند سے پناہ طلب کی۔

میر چاکر رند نے گوہر کی کہانی سن کر نہ صرف اسے پناہ دی بلکہ ایک بہت وسیع و عریض چراگاہ بھی عطا کردی جہاں پر مائی گوہر رہنے لگی۔ اس واقعے سے پہلے لاشار اور رند قبائل میں ملنا جلنا بہت زیادہ نہ تھا مگر لاشار سردار گہرام کو مائی گوہر کو پناہ دینے پر بہت غصہ آیا تھا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ لاشار کا بھتیجا سالار سبی کے علاقے میں چلا گیا۔ وہاں جا کر اس نے رند کے بیٹے شہداد رند سے گھوڑے سواری میں مقابلہ کیا۔ تاریخ داں لکھتے ہیں کہ دونوں کے گھوڑے برابر تھے مگر قاضی نے جیت کا فیصلہ چاکر رند کے بیٹے شہداد کے حق میں کردیا۔ سالار غصے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ وہاں سے نکلا، راستے میں ایک چراگاہ میں چرتے ہوئے اونٹوں کے پچاس بچے ذبح کر ڈالے اور اپنے قبیلے کی طرف چل پڑا۔ دراصل یہ علاقہ وہ چراگاہ تھی جو چاکراعظم نے مائی گوہر کو عطا کی تھی۔ مائی گوہر شکایت لے کر شاکر اعظم رند کے پاس پہنچی۔ چاکراعظم کو غلط فہمی ہوگئی کہ گوہر کے جانور لاشار سردار نے جان بوجھ کر قتل کروائے ہیں کیوںکہ گہرام کو اس بات کا پتا تھا کہ میں نے مائی گوہر کو پناہ دی ہے۔

اب خدا جانے کس نے غلط فہمی پیدا کی تھی یا چاکراعظم رند کے دماغ کی اختراع تھی۔ میر چاکر رند نے غصے میں آ کر گہرام خان کے بھتیجے سالار خان کا پیچھا کیا اور اسے اس کے ساتھیوں سمیت قتل کر ڈالا۔ اس سے جس جنگ کا آغاز ہوا وہ جنگ اگلے 30 سال لاشاریوں اور رندوں کے درمیان چلتی رہی۔ اس جنگ کا اختتام قدرتی طور پر یوں ہوا کہ دونوں قبائل کم زور ہو چکے تھے۔ پھر ایک اور قبیلے نے لاشار پر حملہ کردیا اور وہ اس کے ساتھ جنگ میں مبتلا ہوگیا۔ اسی اثنا میں ایک تیسرے جنگجو قبیلے کے سردار ڈوڈا خان نے حملہ کردیا اور چاکر اعظم رند کو علاقہ چھوڑ کر ملتان آنا پڑا۔ ملتان کے حاکم سے ہاتھ ملانے کے بعد چاکر اعظم نے ایک علاقے اُوکا کی طرف ہجرت کی اور اس جگہ کو اپنا مسکن بنالیا۔

 چاکر اعظم رند بلوچ قبیلے کے عظیم سردار تھے۔ میر چاکر اعظم کا یہ مقبرہ ایک قومی اثاثہ ہے۔ سامنے ایک گھوڑے پر ان کا ایک مجسمہ لگایا گیا ہے۔ ایک ہاتھ میں تلوار ہے دوسرے ہاتھ میں ڈھال ہے۔ اور میر جعفراعظم ہی ڈھال تھے۔

 دوسرا واقعہ یہ ہے کہ جب شیرشاہ سوری کو چاکر اعظم رند کی شجاعت اور بہادری بارے علم ہوا تو اس نے جا کر ان کی طرف نہ صرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا بلکہ ملتان کا حاکم بنانے کا وعدہ بھی کیا مگر چاکر رند نے انکار کر دیا۔ شیر شاہ سوری کو اس طرف سے ہمایوں کی واپسی کا خطرہ تھا۔ اس خطرے کے پیشِ نظر سوری اس علاقے کے جنگ جوؤں کو اپنے ساتھ ملانا چاہتا تھا۔ چاکر رند کے انکار کی وجہ یہ تھی کہ بڑے بڑے سرداروں اور ایران کے حکم رانوں کی طرف سے جا کر ان کو سفارش کی گئی تھی کہ وہ ہمایوں کا ساتھ دے اور ہمایوں کو تختے دہلی واپس لینے میں مدد کرے۔ چاکر اعظم رند وعدہ کر چکا تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ پچھلے تیس سال لاشار سے لڑائی میں یہ قبیلہ کم زور تو نہ ہوا تھا مگر اعصابی طور پر تھک چکا تھا۔ ویسے بھی چاکر رند جانتا تھا کہ مغلوں نے آج نہیں تو کل شیر شاہ سوری سے تختِ دہلی چھین لینا ہے۔ شیر شاہ سوری نے ہر طرح کا حربہ استعمال کیا تاکہ چاکر رند وفاداری بدل لے مگر چاکر رند ہر بار نہایت احترام کے ساتھ انکار کر دیتا۔ ایک طرف فارس میں ہمایوں فوج اکٹھی کر رہا تھا اور دوسری طرف شیر شاہ سوری نے چاکر رند کو سبق سکھانے کا فیصلہ کر لیا۔ شیر شاہ سوری پہلے ہی مغربی پنجاب میں سلطان سارنگ سے تنگ تھا۔ اوپر سے یہاں اوکاڑہ میں ایک بلوچ سردار نے اس کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔ اس سے پہلے کہ شیر شاہ چاکر رند کی فوجوں سے ٹکراتا، ایک قلعہ پر حملے کے دوران بارود پھٹنے سے شیر شاہ سوری مارا گیا۔

چاکر رند کا یہ مقبرہ چار ایکڑ سے زیادہ جگہ پر محیط ہے۔ یہاں کچھ مزید قبریں ہیں ان کے بارے میں کہا جاتا ہے یہ چاکر اعظم کے رشتہ داروں کی قبریں ہیں۔

 شیر شاہ سوری کی موت کے ساتھ ہی ستگھرہ سے جنگ کا خطرہ ٹل گیا۔ شیر شاہ کا بیٹا تختِ دہلی پر بیٹھ گیا۔ ہمایوں نے موقع غنیمت جانا اور تختِ ہندوستان واپس لینے کے لیے چاکر اعظم رند سے مدد مانگی۔ چاکر نے اپنے بیٹے شہداد کی کمانڈ میں چالیس ہزار بلوچ جنگ جو ہمایوں کے ساتھ کر دیے۔ اس فوج نے شیر شاہ کے بیٹے اسلام شاہ سوری کو عبرت ناک شکست سے دوچار کر دیا اور ہمایوں تختِ دہلی پر براجمان ہو گیا اور یوں تختِ دہلی چاک اعظم رند کی وجہ سے مغلوں کو واپس مل گیا۔ ہمایوں نے اوکاڑہ اور گردونواح کا علاقہ چاکر کو جاگیر کے طور پر ادا کر دیا اور ٹیکس میں چھوٹ بھی دے دی۔

ہم ستگھرہ میں تھے اور بھوک سے برا حال تھا۔ بہت کوششوں کے باوجود کچھ بھی اچھا کھانے کو نہ مل سکا۔ ایک سادہ سا ہوٹل ملا جہاں صرف سفید چنوں کا سالن تھا۔ ہم نے ایک پلیٹ سالن لیا اور سادہ روٹی سے کھانے لگے مگر چنوں کا سالن اس قدر لذیذ تھا دوسری پلیٹ بھی منگوائی گئی۔ وہیں ہمیں ایک چھوٹا سا عاشق بھی ملا۔ عمر زیادہ سے زیادہ سترہ سال ہو گی مگر اس نے اپنے پورے بازو پر بلیڈ مارے ہوئے تھے۔ میں نے زیادہ تفصیل تو نہ پوچھی مگر اندازہ ہو گیا کہ بیچارہ اس کچی عمر میں عشق کر بیٹھا ہے۔

ستگھرہ کے اس واحد ہوٹل کے ساتھ ہی ایک ڈاکٹر کی دکان بھی تھی۔ شاید ہوٹل کی طرح یہ بھی ستگھرہ کے واحد ڈاکٹر کی دکان تھی۔ یہ ڈاکٹر صاحب جو بھی تھے مگر ہم کم از کم ڈاکٹر تو نہ تھے مگر پھر بھی ستگھرہ کی حدود میں تو ڈاکٹر صاحب ہی تھے۔ میں وہیں بیٹھے بیٹھے پولیس کی گاڑی ایک مریض کو لے کر آئی۔ شاید کوئی قیدی بیمار تھا۔ میں ابھی چنوں کا لذیذ سالن کھا ہی رہا تھا کہ ایک عورت اپنے لڑکپن کی عمر کو پہنچے لڑکے کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کی دکان پر پہنچی۔ لڑکے کی طبعیت کچھ زیادہ ہی خراب تھی۔ میرے سامنے ہی نالی پر بیٹھ کر لڑکا قے کرنے لگا۔ میرا اس وقت ایسا برا حال تھا کہ کیا بتاؤں مگر پھر بھی بے شرموں کی طرح کھاتا رہا۔ بھوک ایسی زبردست لگی تھی کہ قے والے لڑکے کو بھی نظرانداز کرنا پڑا۔

کھانے کے بعد چائے پی چکے تو ہم نے اپنا رخ بھومن شاہ قصبے کی طرف کردیا۔ راستے میں ہمیں دریائے بیاس کی گزر گاہ بھی ملی۔ پہلے زمانے میں دریائے بیاس براہِ راست بری دوآب کے درمیان بہتا تھا، جس سے یہ علاقہ دو حصوں — گنجی بار اور نیلی بار — میں تقسیم ہوتا تھا۔ بعد ازاں، بیاس نے اپنا رخ تبدیل کیا اور اب وہ بھارتی پنجاب میں دریائے ستلج سے پہلے ہی آملتا ہے۔ اس کے پرانے بہاؤ کا نشان آج بھی گوگل میپس پر واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

ایک عام غلط فہمی یہ پائی جاتی ہے کہ دریائے بیاس نے اپنا رخ بھارت کی جانب بننے والے بندوں اور سندھ طاس معاہدے کے بعد بدلا، مگر یہ درست نہیں۔ درحقیقت، یہ تبدیلی کئی صدیوں پہلے قدرتی عوامل کے باعث واقع ہوئی تھی، اور جو خشک دریا کی گزرگاہ آج پاکستانی پنجاب میں نظر آتی ہے، وہ اسی قدیم بہاؤ کا نشان ہے۔ حتیٰ کہ اٹھارہویں صدی کے نقشوں میں بھی بیاس کو زیادہ تر اپنے موجودہ راستے پر دکھایا گیا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے بہت زمانہ پہلے اپنا راستہ بدلا تھا۔

ہرمیلان سنگھ کے مطابق، دریائے بیاس اور ستلج کے آپس میں ملنے کا عمل 1500 سے 1600 عیسوی کے درمیان ہوا۔ 1150 عیسوی میں دریائے ستلج کا بہاؤ گھگھرا/ہاکڑہ کے چند کلومیٹر شمال میں تھا، مگر وقت گزرنے کے ساتھ یہ مسلسل شمال کی طرف سرکتا گیا، یہاں تک کہ آخرکار بیاس سے جا ملا۔ سُتلج کے اس شمالی منتقلی کا ایک ممکنہ نتیجہ یہ بھی ہے کہ علاقہ مالوا میں قدیم آثار کی کمی اسی وجہ سے ہے، کیوںکہ دریا کے بدلتے بہاؤ نے وقت کے ساتھ ان آثار کو بہا دیا۔

یہاں میں امجد ظفر علی صاحب کا ایک تحقیقی مضمون شامل کرنا ضروری سمجھتا ہوں جو انھوں نے دریائے بیاس پر لکھا تھا۔

پنجاب کی زمین دریاؤں کے گیت گاتی ہے۔ کبھی ستلج، راوی، جہلم اور چناب کے ساتھ بیاس بھی اس خطے کی زندگی اور تہذیب کا اہم حصہ تھا۔ آج یہ دریا صرف قصور کے بزرگوں کی یادوں، زمین کے نشانات اور تاریخ کی کتابوں میں باقی ہے، لیکن کبھی یہی دریا قصور کی دھڑکن ہوا کرتا تھا۔ بیاس ہماچل پردیش اور جموں کشمیر کی وادیوں سے نکل کر تقریباً 470 کلومیٹر کا سفر طے کرتا تھا۔ امرتسر اور جالندھر کے میدانوں کو سیراب کرتا ہوا یہ فیروز پور کے قریب ہری کے پتن پر دریائے ستلج سے آملتا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی یہ دریا ندی کی صورت میں پنجاب کے کھیتوں کو زندگی بخشتا رہا، لیکن 1960 کے سندھ طاس معاہدے میں یہ بھارت کے حصے میں چلا گیا۔ بھارت نے 1976 میں پونگ ڈیم تعمیر کرکے اس کا بہاؤ روک دیا۔ اس سے پہلے اس کا پانی بھاکڑا ڈیم کی طرف موڑ دیا گیا تھا۔

قصور شہر دراصل اسی دریا کے کنارے آباد ہوا۔ اس کی پرانی گزرگاہ آج بھی قصور کے مشرق سے مغرب تک ایک واضح لکیر کی صورت دکھائی دیتی ہے۔ کمال چشتی دربار سے شروع ہو کر یہ بہاؤ کوٹ پکا قلعہ کی پشت، جماعت پورہ کے عقب سے ہوتا ہوا بھالہ ہٹھار تک جاتا تھا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں پتن ڈالا جاتا اور لوگ بیڑی کے ذریعے دریا پار کرتے۔ تحصیل چونیاں کے ایک گاؤں چور کوٹ میں گذشتہ دنوں معائنہ کیا اور دیکھا کہ آج بھی اس کے آثار موجود ہیں۔ وہاں کے بزرگ بتاتے ہیں کہ چند دہائیاں پہلے تک وہ کشتیوں میں بیٹھ کر دریا عبور کرتے تھے اور آج بھی برسات کا پانی پرانی گزرگاہ سے ہو کر گزرتا ہے۔ اور زیرزمین پانی میٹھا ہے بعض جگہ پر بور کرتے 80 فٹ پر میٹھا پانی نکل آتا ہے۔

جب بیاس کا بہاؤ بدل کر ہری کے پتن پر ستلج میں ضم ہوا تو یہ قصور میں تین نالوں کی صورت میں بہنے لگا۔ ایک طرف کالی پل، کیسر گڑھ کے قریب ’’غائب والی پل‘‘ سے گزرتا، اور مان گاؤں کے قریب سے۔ یہ تینوں نالے موجودہ قصور بائی پاس کے قریب جا کر آپس میں ملتے اور ایک بڑی ندی کا منظر پیش کرتے تھے۔ اس دریا کی چوڑائی اپنے زمانے میں دو سے چار کلومیٹر تک اور گہرائی پندرہ میٹر تک تھی۔

بیاس صرف پانی کا بہاؤ نہیں تھا بلکہ تاریخ اور روایت میں بھی زندہ رہا۔ 326 قبل مسیح میں سکندراعظم کی فوجیں اسی دریا پر آ کر رک گئیں اور مزید آگے نہ بڑھ سکیں۔ ہندو روایات کے مطابق بیاس اور راوی کے درمیان ایک ’’امرت کنڈ‘‘ تھا جو دیوتاؤں اور راکشسوں کی کشمکش کا مرکز رہا۔ کہا جاتا ہے کہ وید ویاس اور پراسار منی نے یہاں قیام کیا اور سیتا جی نے اپنی جلاوطنی کے دن یہیں گزارے۔ اسی نسبت سے لاہور اور قصور کے قیام کو لو اور کشو سے جوڑا جاتا ہے۔ بیاس کے کنارے ایک گھنا جنگل بھی ہوا کرتا تھا جسے لکھی جنگل کہا جاتا تھا۔ از امجد ظفر علی (نشان ِ قصور)- یہ جنگل اتنا وسیع اور گھنا تھا کہ پیدل گزرنا بھی مشکل ہو جاتا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ جنگل قصور سے بہاولپور تک پھیلا ہوا تھا۔

آج قصور کے بزرگ بیاس کو ’’بیاسا‘‘ کہہ کر یاد کرتے ہیں۔ ان کے حافظے میں یہ دریا نیلے اور شفاف پانی کے ساتھ موجزن ہے لیکن نوجوان نسل کے لیے بیاس صرف ایک بھولی بسری کہانی ہے۔ شہر کے بیچ جہاں کبھی دریا بہتا تھا، آج وہاں گندہ نالہ رواں ہے۔ برسات کے دنوں میں پرانی گزرگاہوں میں پانی کا بہاؤ لمحہ بھر کے لیے اس دریا کی جھلک دکھا دیتا ہے اور یاد دلاتا ہے کہ کبھی یہاں ایک عظیم دریا بہتا تھا۔

بیاس کی داستان قصور کی تاریخ اور تہذیب سے جڑی ہوئی ہے۔ یہ دریا صرف کھیتوں کو سیراب نہیں کرتا تھا بلکہ قصور کو اس کی پہچان بھی بخشتا تھا۔ آج جب یہ دریا قصور سے غائب ہے تو یوں لگتا ہے جیسے شہر کی ایک دھڑکن رک گئی ہو۔ پاکستانی قاری کے لیے خلاصہ صاف ہے: بیاس براہِ راست پاکستان میں نہیں بہتا، مگر اس کا ماحولیاتی، تاریخی اور سیاسی سایہ سرحد کے اس پار بھی پھیلتا ہیستلج کے ذریعے، ہری کے کے انتظام سے، اور خطے کی آبی سفارت کاری کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ۔ آج جب قصور میں پرانی گزرگاہوں پر آبادیوں اور سڑکوں کی تہہ چڑھ چکی ہے، ہر برسات میں میدان یاد دلاتے ہیں کہ پانی اپنی یادداشت رکھتا ہے۔

تحقیق کے اگلے مرحلے میں مقامی جی آئی ایس میپنگ، پرانے سروے آف انڈیا کی شیٹس اور نہریات کے ریکارڈ کے ساتھ زمینی مشاہدہ ملایا جائے تو بیاس کی قصوری گزرگاہ کی سائنسی بازیافت بھی ممکن ہے۔ از امجد ظفر علی (نشان ِ قصور) وہی قدم جو تاریخ کو متن سے نکال کر نقشے پر واپس رکھ دیتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کبھی بیاس اپنی پرانی راہ لوٹ آیا تو کیا یہ نیا اور بے ڈھنگا شہر اپنی بنیادوں پر قائم رہ سکے گا، یا پھر دریا اپنی زمین کو دوبارہ اپنی آغوش میں لے لے گا؟

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

ٹنڈو جام : سینٹرل ویٹرنری ریسر چ لیبارٹری میں موجو د جانور ۔دوسری تصویر میں منگوائے گئے نمک کا لیٹر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default"> جسارت نیوز

متعلقہ مضامین

  • اپنی تہذیب کو بر قرار رکھنا نئی نسل کی ذمے داری ہے ،سیما طفیل
  • چینی جوڑے کے ہاں سنہری بال اور نیلی آنکھوں والی ’روسی‘ بچی کی پیدائش کا حیران کن واقعہ
  • ٹنڈو جام : سینٹرل ویٹرنری ریسر چ لیبارٹری میں موجو د جانور ۔دوسری تصویر میں منگوائے گئے نمک کا لیٹر
  • صدر ٹرمپ کا ایک مہینے میں دوسری بار تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں جنگ بندی کا اعلان
  • پرو ہاکی لیگ میں پاکستان کو مسلسل دوسری شکست کا سامنا