Express News:
2025-12-14@23:02:18 GMT

افواجِ پاکستان کا وقار اور اعتبار بلند ہوا ہے

اشاعت کی تاریخ: 15th, December 2025 GMT

ہر جانب جنرل (ر) فیض حمید کو سنائی گئی سزا کا شور اور غلغلہ ہے ۔ جس طرح غیر معمولی مجرم ہے، اُسی طرح کی سزا بھی غیر معمولی ہے ؛ چنانچہ اِس کا شہرہ اور شور قابلِ فہم ہے ۔ جس دبنگ اور دھماکہ خیز انداز میں  5دسمبر2025کو DGISPRنے پریس کانفرنس کی تھی ، اسی سے یہ بھی اندازے لگائے گئے تھے کہ جَلد ہی کوئی بڑا فیصلہ بھی آنے والا ہے ۔

مذکورہ پریس کانفرنس ایک ہی شخصیت اور ایک ہی سیاسی جماعت کے محور و مرکز پر تھی ۔ لیفٹیننٹ جنرل ، احمد شریف چوہدری، کی مذکورہ پریس کانفرنس کے6 دن بعد جنرل (ر) فیض حمید کو بھی سزا سنا دی گئی ہے :14سال بامشقت کی سزا ۔ فیض حمید پاکستان کی اعلیٰ ترین اور طاقتور ترین انٹیلی جنس ادارے کے سربراہ تھے ۔

اُن کا ملازمانہ دَور مگر کئی بزنس پیشہ افراد ، سیاستدانوں اور سیاسی جماعتوں کے لیے ڈر ، دہشت اور خوف کی علامت بنا رہا ۔ بنیادی اور اصولی طور پر اُن کی دھاک تو وطنِ عزیز کے دشمنوں پر بیٹھی رہنی چاہیے تھی ، مگر اُنھوں نے مبینہ طور پر اپنے اختیارات سے متجاوز ہو کر اُن افراد پر دھاک جمانے اور اپنے ذاتی مفادات سمیٹنے کی مبینہ کوششیں کیں جو اُنہیں ہر گز نہیں کرنی چاہیے تھیں۔اب وہ 15مہینوں کے طویل مقدمات اور متعدد سماعتوں کے بعد لمبی سزا کے مستوجب قرار پائے ہیں ۔

گذشتہ پندرہ مہینوں کے دوران کئی اطراف و جوانب سے، دبے الفاظ میں، کہا جارہا تھا کہ جنرل (ر) فیض حمید کو اوّل تو سزا ملے گی ہی نہیں ، اور اگر مل بھی گئی تو معمولی سے ہوگی : محض ٹوکن!کہنے والے جَلی اور خفی الفاظ میں یہ کہتے رہے کہ ’’اپنے پیٹی بھائی کو سزا سنانا اور سزا دینا سہل نہیں ہے۔‘‘جتنے منہ ، اُتنی باتیں !

مگر 11دسمبر2025 کی دوپہر کو جنرل (ر) فیض حمید کو 14سال کی سزائے بامشقت سنا کر فوجی عدالت نے سب کے منہ بند کر دیے ۔ سب افواہیں اور شبہات دفن ہو گئیں ۔ اِس تازہ ترین فیصلے نے بِلا مبالغہ افواجِ پاکستان کا وقار اور اعتبار بلند تر کر دیا ہے۔ جو الزامات فیض حمید کی ذات کے گرد گردش کاٹ رہے تھے۔

 اِن کا انجام ایسی ہی سزا کی صورت میں ہونا چاہیے تھا ۔ اور ایسا ہُوا بھی ۔ افواجِ پاکستان نے اِس فیصلے کی شکل میں ایک بار پھر ثابت کیا ہے کہ اُن کے ہاں اقربا پروری کا چلن ہے نہ سفارش کی جادُو گری۔ اور یہ بھی کہ افواجِ پاکستان میں کوئی بندہ ہے نہ کوئی بندہ نواز۔افواجِ پاکستان نے اپنے سابق جنرل کو 14سال کی سزا سنا کر بقول اقبالؒ ثابت کیا ہے :صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم/ کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب! اِس سزا کی حمائت میں نون لیگی قیادت نے بھی بیانات دیے ہیں اور پیپلز پارٹی کے لیڈروں نے بھی ۔ وزیر اعلیٰ کے پی کے ، سہیل آفریدی، نے بھی اپنی استطاعت کے مطابق بیان دیا ہے ، مگر نہیں بولے تو نواز شریف و شہباز شریف نہیں بولے اور نہ ہی آصف علی زرداری اور نہ ہی محترمہ مریم نواز شریف ۔ آصف علی زرداری تو شائد اس لیے نہیں بولے کہ صدرِ مملکت ہیں اور شہباز شریف شائد اس لیے نہیں بولے کہ وزیر اعظم ہیں ، مگر نواز شریف کو تو بولنا چاہیے تھا۔ بیان میں ایک لفظ، ایک جملہ ہی بول دیتے ۔نواز شریف تو ابھی پچھلے مہینے یہ کہتے ہُوئے سنائی دیے تھے کہ ’’اگر بانی پی ٹی آئی جیل میں ہے تو اُن لوگوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے جو بانی کو اقتدار میں لائے ۔‘‘ اور اب مبینہ طور پر بانی کو اقتدارمیں لانے والوں میں سے ایک ، فیض حمید، احتساب کے عمل سے گزر کر سزا یاب ہُوئے ہیں تو نواز شریف کو کھل کر لب کشائی کرنی چاہیے تھی ۔ نواز شریف کم از کم یہ تو کہہ سکتے تھے : مملکتِ خداداد میں اگر ایک منتخب وزیر اعظم کو عدالتیں سزا سنا کر تختہ دار پر لٹکا سکتی ہیں تو فیض حمید کی سزا بھی کوئی اچنبھا نہیں ہے۔ اور اگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دو وزرائے اعظم کو مبہم سے الزامات کے تحت عدالتیں اقتدار سے محروم کر سکتی تھیں تو جنرل (ر) فیض حمید کو سنائی جانے والی سزا کوئی حیران کن اور انوکھی سزا نہیں ہے۔ مگر نواز شریف مہر بہ لب ہیں۔

ممکن ہے جنرل (ر) فیض حمید کو سنائی گئی 14سالہ سزا بامشقت میں آیندہ ایام میں کی جانے والی ممکنہ اپیلوں میں کچھ تخفیف بھی ہو جائے ، مگر اِس کے لیے اعلیٰ عدالتوں میں کئی برس لگ جائیں گے ۔ اِس کے لیے مجرم فیض حمید اور اُن کے اہلِ خانہ کو صبر، برداشت اور تحمل سے کام لینا ہوگا۔

صبر و تحمل کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں ہے ۔ اگر وطنِ عزیز کی بلند پایہ اور معزز عدالتیں سزا یافتہ مجرم جنرل (ر) فیض حمید کی سزا میں کمی کر بھی دیتی ہیں تو پاکستانی عوام کو یہ اقدام بھی قابلِ قبول ہوگا۔اِس سے قبل بھی پاکستان کی مسلح افواج میں کئی کورٹ مارشل کیے گئے۔ جونئیر و سینئر عہدیداروں کی سزائیں عدالتوں کے توسط سے تخفیف کی عمل سے گزر چکی ہیںکہ سزا کے بعد اپیل مجرم کا بنیادی انسانی و قانونی حق ہے ۔ تازہ تازہ سزا یافتہ فیض حمید کو بھی ہوگا اور ہے ۔

غلطیوں ، خطاؤں اور افواجِ پاکستان کے مروجہ سخت ڈسپلن کی اساس پر اگر افواجِ پاکستان کے ایک سابق تھری اسٹار جنرل کورٹ مارشل کے بعد سزا یافتہ ہُوئے ہیں تو یہ کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں ہے۔ بھارت میں بھی اب تک ایک سے زائد تھری اسٹار جنرلز کا کورٹ مارشل ہو چکا ہے اور وہ سزا بھی پا چکے ہیں ۔مثال کے طور پر لیفٹیننٹ جنرل پی کے راٹھ ، لیفٹیننٹ جنرل اودیش پرکاش اور لیفٹیننٹ جنرل ایس کے ساہنی ۔اول الذکردونوں بھارتی سینئر جرنیلوں کو 2011میں بذریعہ جنرل کورٹ مارشل سزا ہُوئی ۔ دونوں ایک ہی الزام کے تحت مقدمے اور ٹرائل سے گزارے ۔ دونوں کو یکساں ہی سزائیں ہُوئیں۔ بعد ازاں بھارتی فوجی عدالتوں میں کئی اپیلوں کے زریعے دونوں سزا یافتہ جرنیلوں کی سزاؤں میں تخفیف بھی ہُوئی ، لیکن اُنہیں بھاری پنشن اور مراعات سے محروم ہونا پڑا ۔بھارتی ملٹری کلب میں اُنہیں جو ندامتیں اُٹھانا پڑیں، وہ الگ تھیں ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں مذکورہ بھارتی لیفٹیننٹ جنرلز پر عین اُس وقت مقدمہ چلایا گیا جب وہ حاضر سروس تھے اور ریٹائرمنٹ کے قریب بھی ۔

لیفٹیننٹ جنرل پی کے راٹھ اور لیفٹیننٹ جنرل اودیش پرکاش پر ایک ہی سنگین الزام کے تحت مقدمہ قائم کیا گیا ۔الزام یہ تھا کہ دونوں ملزم تھری اسٹار جنرلز نے فوجی کی ملکیت زمین ایک پرائیویٹ ڈولپر کو فروخت کر دی تھی اور ذمے داران فوجی افسروں کی مرضی سے بالا بالا ڈویلپر کو این او سی بھی جاری کر دیا تھا۔یہ زمین بھارت کے صحت افزا مقام ، دارجلنگ، میں تھی اور اس کا رقبہ70ایکڑ تھا۔ سزا یافتگی کے بعد دونوں کی سزائیں اور جرمانے بھارتی فوجی عدالتوں ہی کے ٹربیونل میں خاصی کم کر دی گئی تھیں۔

تخفیف کے باوجود سزا یافتہ جرنیلوں کی پنشنوں اور اعلیٰ مراعات سے محروم ہونا پڑا تھا۔اور لیفٹیننٹ جنرل ایس کے ساہنی کا جنرل کورٹ مارشل اُس وقت ہُوا جب وہ ریٹائر ہو چکے تھے ۔ جنرل ساہنی پر الزام یہ تھا کہ اُنھوں نے سیاچن کے بلند ترین اور یخ بستہ محاذ پر بھارتی فوجیوں کو فراہم کیے گئے منجمد گوشت اور خشک راشن میں ہیرا پھری کرکے کروڑوں روپے خرد برد کیے ہیں ۔ سزا یافتگی کے بعد جنرل ایس کے ساہنی نے بھارتی سپریم کورٹ میں اپیل کی ، جہاں سے اُنہیں یوں ریلیف ملا کہ اُن کو دی گئی سزا ختم کر دی گئی ۔ انڈین سپریم کورٹ نے فیصلے میں لکھا کہ جنرل ساہنی کا مقدمہ سُننے اور اُنہیں سزا سنانے کے لیے جو جنرل کورٹ مارشل کے ارکان متعین کیے گئے تھے، اُن کی کمپوزیشن غلط تھی : خاص طور پر جج ایڈووکیٹ جنرل کی !

کہا جاتا ہے کہ 2001سے2025 تک بھارتی فوج کے جن جونئیر اور سینئر عہدیداروں کو کورٹ مارشل کے ذریعے سزائیں دی گئی ہیں، ان کی تعداد 8ہزار سے زائد ہے ۔ حال ہی میں41 بھارتی فوجی افسروں کو جنرل کورٹ مارشل کے ذریعے سخت سزائیں سنائی گئی ہیں ۔ ان پر الزام تھا کہ اُنھوں نے بھوٹان کی بلیک مارکیٹ میں اپنے ہتھیار اور گولہ بارُود فروخت کر دیے تھے ۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: جنرل کورٹ مارشل لیفٹیننٹ جنرل کورٹ مارشل کے بھارتی فوجی فیض حمید کو سزا یافتہ نواز شریف نہیں بولے نہیں ہے جنرل کو ہیں تو کے لیے ا نہیں کے بعد تھا کہ ایک ہی کی سزا

پڑھیں:

فوج میں بلا امتیاز احتساب

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251213-03-2

 

وطن عزیز کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ عالمی شہرت یافتہ خفیہ ایجنسی، آئی ایس آئی کے کسی سابق سربراہ کو عدالت کے کٹہرے میں کھڑا کیا گیا ہے اور اسے کورٹ مارشل کی کارروائی مکمل کرنے کے بعد چودہ سال قید بامشقت کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف بارہ اگست 2024ء کو پاک آرمی ایکٹ کی دفعات کے تحت فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی شروع کی گئی اور فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کا یہ عمل 15 ماہ تک جاری رہا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ملزم کے خلاف 4 الزامات پر کارروائی کی گئی، ان الزامات میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، ریاست کی سلامتی اور مفادات کے لیے نقصان دہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور بعض افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا شامل ہیں۔ طویل اور جامع قانونی کارروائی کے بعد ملزم تمام الزامات میں قصور وار قرار پایا گیا ہے، عدالت نے 14 سال قید کی سزا سنائی۔ عدالت کی جانب سے دی گئی سزا کا اطلاق 11 دسمبر 2025ء سے شروع ہو گا۔ آئی ایس پی آر نے بتایا کہ فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے تمام قانونی تقاضے پورے کیے اور ملزم کو دفاع کے لیے وکیلوں کی ٹیم منتخب کرنے سمیت تمام قانونی حقوق فراہم کیے گئے۔ مجرم کو متعلقہ فورم پر اپیل کا حق حاصل ہے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ ملزم کے سیاسی عناصر کے ساتھ ملی بھگت، سیاسی اشتعال انگیزی اور عدم استحکام پیدا کرنے کے معاملے سے علٰیحدہ طور پر نمٹا جا رہا ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے پر تعینات رہے اور وہ کور کمانڈر پشاور بھی رہ چکے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو 12 اگست 2024ء کو فوجی تحویل میں لیا گیا تھا۔ فیض حمید کے خلاف کارروائی عدالت عظمیٰ کی ہدایت پر نجی ہائوسنگ سوسائٹی کے معاملے پر شکایات کے بعد شروع کی گئی تھی، عدالت عظمیٰ کے احکامات کی روشنی میں فیض حمید کے خلاف ایک تفصیلی کورٹ آف انکوائری ہوئی۔ 29 نومبر 2022ء کو لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی۔ گزشتہ سال 10 دسمبر کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کے تحت فیض حمید کو باضابطہ طور پر چارج شیٹ کیا گیا تھا۔ ان چارجز میں سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزیاں کرتے ہوئے ریاست کے تحفظ اور مفاد کو نقصان پہنچانا، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور افراد کو ناجائز نقصان پہنچانا شامل تھا۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو سنائی گئی سزا کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہے اور ان کے وکیل میاں علی اشفاق نے برطانوی نشریاتی ادارے، بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ میرے پاس پہلے ہی سے سزا کو چیلنج کرنے کی ہدایات موجود ہیں، فیصلے کی کاپی ملنے پر اس کا تفصیلی جائزہ لے کر اپیل دائر کر دیں گے۔ ان کے مطابق پہلا اپیل کا فورم آرمی کورٹ آف اپیل ہے جب کہ آرمی چیف کے پاس اپیل کا راستہ بھی موجود ہے۔ جب ان سے عدالتی کارروائی کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا کورٹ مارشل ہے بطور وکیل دفاع میں نے آخری حد تک شفافیت لانے کے اقدامات کیے تاہم کتنی آزادی ملی اور کتنی نہیں ملی، اس مرحلے پر ہم اس پر بات نہیں کر سکتے کیونکہ عدالت کی کارروائیوں کو میں سامنے نہیں لا سکتا۔ میاں علی اشفاق کا مزید کہنا تھا کہ 90 سے زیادہ سماعتیں ہوئیں اور میں نے تین سے 12 گھنٹے یومیہ اپنے موکل کے ساتھ بھی گزارے۔ ہماری سائیڈ کا موقف ہے کہ جرح میں پوچھے گئے 8000 سوالوں میں سے استغاثہ آٹھ سوالوں کے جواب بھی ملزم کے خلاف ان کے گواہ نہیں دے پائے۔ ہماری نظر میں یہ کیس ہم نے سو میں سے سو نہیں بلکہ ہزار فی صد جیتا ہوا ہے تاہم یہ عدالت کا فیصلہ ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کو سنائی گئی سزا پر حکومتی وزراء نے اپنے رد عمل میں خوشی کے شادیانے بجائے ہیں اور موقف اختیار کیا ہے کہ قانون سے کوئی بھی بالا نہیں، فیض حمید کی سزا ایک تاریخی فیصلہ اور حق و سچ کی فتح ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے نجی ٹی وی سے گفتگو میں فیض حمید کی سزا کو تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ فیض حمید کی سزا ایک تاریخی فیصلہ اور حق و سچ کی فتح ہے، پاک فوج کا سسٹم بہت مضبوط ہے، قانونی میکنزم بہت مضبوط ہیں، اس معاملے پر ایک لمبا عرصہ شواہد پیش کیے جاتے رہے، گواہان کے بیانات قلمبند کیے جاتے رہے۔ فیض حمید نے بطور پی ٹی آئی کے سیاسی مشیر ملک میں سازشیں کی، فیصلہ تاریخی ہے۔ فیض حمید کی جانب سے ریڈ لائن کراس کی گئی، ریٹائرمنٹ کے بعد جب سیاسی سرگرمیوں پر قدغن تھی تب یہ پی ٹی آئی کے سیاسی مشیر بنے اور ان کی پوری سیاسی سپورٹ کی۔ 9 مئی بہت سنگین معاملہ ہے اس پر تحقیقات ہوں گی۔ فوج میں خود احتسابی کا عمل بہت مضبوط ہے جس کی واضح مثال سب نے دیکھ لی ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ قوم برسوں تک سابق لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید اور سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کے بوئے ہوئے بیجوں کی فصل کاٹے گی۔ سماجی رابطے کی سائٹ ایکس پر خواجہ آصف نے اپنے بیان میں کہا کہ اللہ ہمیں طاقت اور اقتدار کو اللہ کی عطا سمجھ کر اس کی مخلوق کے لیے استعمال کی توفیق عطا فرمائے، اللہ ہمیں معاف کرے، خوف خدا حکمرانوں کا شیوہ بنے، وزیر اعظم کے مشیر رانا ثناء اللہ نے کہا ہے کہ فیض حمید کا سیاست میں عمل دخل ثابت ہو گیا، فوج کا اندرونی احتساب کا نظام مضبوط ہے، فیض حمید کا ساتھ دینے والوں کا بھی ٹرائل ہونا چاہیے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ کے خلاف کی جانے والی کارروائی اس لحاظ سے باعث اطمینان اور خوش آئند ہے کہ اس سے ایک اہم ادارے میں ہر سطح پر بلا امتیاز احتساب کی نشاندہی ہوتی ہے جس کی دیگر اداروں کو بھی پیروی کرنا چاہیے کہ ایسی ہر کارروائی ادارے کے اندرونی استحکام اور نظم و نسق کی مضبوطی کا سبب بنتی ہے تاہم لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کارروائی کو صرف فردِ واحد تک محدود نہیں رہنا چاہیے کیونکہ جس جرم میں انہیں سزا سنائی گئی ہے انہوں نے تنہا اس کا ارتکاب نہیں کیا بہت سے دوسرے چھوٹے بڑے حکام بھی اس کا حصہ تھے۔ وزیر دفاع نے تو اس ضمن میں پاک فوج کے سابق سربراہ جنرل (ر) باجوہ کا نام لے کر انہیں ملزم ٹھیرایا ہے۔ یہاں اس پس منظر کو بھی پیش نظر رکھا جانا چاہیے کہ عدالت عالیہ اسلام آباد کے پانچ چھے معزز ججوں نے منصف اعلیٰ کے نام باقاعدہ تحریری شکایت کی تھی کہ ادارے کے لوگ انہیں اپنی مرضی کے فیصلے تحریر کرنے پر مجبور کرتے ہیں اس لیے ضرورت ہے کہ احتساب کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے ادارے میں موجود غلط کار عناصر اور خرابیوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا اہتمام کیا جائے۔

 

اداریہ

متعلقہ مضامین

  • پرویزمشرف کی جلا وطنی و تنہائی اور فیض حمید کی سزائے قیدخوشی کا نہیں ، عبرت کا مقام ہے،خواجہ سعدرفیق
  • شام: امریکی اور شامی افواج کے مشترکہ گشت پر فائرنگ، کئی فوجی زخمی
  • جنرل فیض حمید کو سزا، کیا عمران خان بھی لپیٹ میں آ سکتے ہیں؟
  • پی ٹی آئی کے ساتھ اب کوئی فیض حمید نہیں، منفی سیاست چھوڑ دے، طارق فضل
  • فوج میں بلا امتیاز احتساب
  • جنرل فیض حمید کو سزا آئین سے انحراف کرنے والوں کیلئے عبرت ہے، لیاقت بلوچ
  • قوم برسوں فیض حمید اور جنرل باجوہ کے بوئے بیجوں کی فصل کاٹے گی، وزیر دفاع۔ ساتھ دینے والے سیاستدانوں کا بھی فوجی عدالت میں ٹرائل ہونا چاہیے، رانا ثناء اللہ
  • فیض حمید اب عمران خان کے خلاف گواہی دینے جارہے ہیں: سینیٹر فیصل واوڈا
  • عمران زیادہ بڑے خود پسند اور ذہنی مریض ہیں یا جرنیل؟