ہر سال 10 دسمبر کو دنیا بھر میں انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے جس کا مقصد انسانی حقوق کی صورتحال کا جائزہ لینا اور حکومتوں پر کام کرنے کیلئے زور دینا ہے۔

اس دن کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

فرید احمد تارڑ

(سیکرٹری برائے انسانی حقوق و اقلیتی امور پنجاب)

1945ء میں اقوام متحدہ کے قیام کے وقت سب سے زیادہ اصرار انسانی حقوق پر تھا۔ 1948ء میں انسانی حقوق کا عالمی چارٹر منظور ہوا جس کی پوری دنیا پابند ہے۔ اسی طرح ہر سال انسانی حقوق کے عالمی دن کا موضوع رکھا جاتا ہے تاکہ انسانی حقوق کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر توجہ کے ساتھ کام ہوسکے۔ انسانی حقوق کے عالمی چارٹر کا عکس ہمیں آئین پاکستان میں بھی نظر آتا ہے۔

آئین کا آرٹیکل 17 بنیادی انسانی حقوق کے حوالے سے ہے۔ آئین پاکستان میں تعلیم، صحت، خوراک سمیت دیگر بنیادی حقوق بھی شامل ہیں۔ آئین کی روح ہے کہ فرد کو معاشرے کا بہترین اور کارآمد شہری بنانا اور ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں سب کو بلاتفریق ان کے حقوق ملیں ۔ اسلامی تعلیمات کی بات کریں تو نبی آخرالزماں حضرت محمدﷺ نے واضح فرمایا کہ رنگ یا نسل کی بنیاد پر کسی کو کوئی برتری حاصل نہیں ہے۔ دنیا میں انسانی حقوق کے 7 کنونشنز موجود ہیں جو مہاجرین، بے روزگاری، لیبر و دیگر حوالے سے ہیں۔

پاکستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے کافی قانون سازی ہوئی اور اس پر عملدرآمد بھی ہو رہا ہے۔ قومی و صوبائی سطح پر ادارے قائم کیے گئے ہیں اور اب نیشنل مینارٹیز کمیشن بھی تشکیل دیا جا رہا ہے۔ خواتین کے حقوق و تحفظ کیلئے قومی و صوبائی کمیشنز اور اتھارٹیز موجود ہیں۔ اسی طرح بچوں کیلئے چائلڈ پروٹیکشن بیورو قائم ہے۔ اس کے ساتھ اور بہت سے ادارے موجود ہیں جو لوگوں کے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی یقینی بنا رہے ہیں۔ صوبائی سطح پر ہیومن رائٹس پالیسی موجود ہے۔

وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف بلاتفریق تمام شہریوں کے حقوق و تحفظ کیلئے کوشاں ہیں۔ انہوں نے اقلیتوں کو اپنے سر کا تاج قرار دیا اوران کیلئے منصوبے بھی شروع کیے جن کے اچھے نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔اقلیتوں کو دس ہزار سے زائد مینارٹی کارڈ جاری کیے گئے ہیں اور ان کی شکالر شپ میں بھی اضافہ کیا گیا ہے۔ ان کے لیے جہاں تعلیم اور ملازمت میں کوٹہ ہے، وہیں اب مقابلے کے امتحان میں بھی نشستیں رکھی گئی ہے۔ اقلیتی افراد کو 16، 16 کے دو مختلف بیچز میں اس کی تیاری کروائی گئی ہے، اس سے یقینا بہتری آئے گی۔

اسی طرح خصوصی افراد کیلئے سنٹر فار ایکسیلنس بنائے گئے تاکہ ان کی بحالی ہوسکے۔ خواتین کے تحفظ کیلئے پنک بٹن لگائے گئے ہیں، سیف سٹیز کیمروں کی مدد سے ان کا تحفظ یقینی بنایا جا رہا ہے۔ خواتین کے حوالے سے جرائم پر زیرو ٹالنرس کی پالیسی ہے۔ انسانی حقوق کا تحفظ حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ اس وقت پنجاب کے تمام اضلاع میں ضلعی کمیٹیاں موجود ہیں۔

ہر ضلع میں ڈی سی او کی زیر صدرات ہیومن رائٹس کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں جو مقامی سطح پر مسائل کا ازالہ کرتی ہیں۔گھریلو مسائل سے لے کر جائیداد تک، تمام معاملات پر لوگوں کو ریلیف دیا جارہا ہے۔ حکومت نے ناجائز قابضین کے خلاف بھی بڑے اقدامات اٹھائے ہیں۔ لوگوں کو ان کی زمین واپس دلوائی گئی ہے اور اس پر کسی قسم کا کوئی دباؤ برداشت نہیںکیا جا رہا۔ پنجاب میں ہیومن رائٹس ٹاسک فورس بنائی گئی ہے اور اب بین المذاہب ہم آہنگی پالیسی پر کام جاری ہے۔ حکومت لوگوں کی آزادی، قانون کی حکمرانی، سماجی انصاف، برابری، سماجی خود مختاری سمیت ہر پہلو پر کام کر رہی ہے۔

بلاتفریق رنگ، نسل، مذہب، علاقہ اور وابستگی کے، لوگوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنایا جا رہا ہے۔ ہم وزیر اعلیٰ پنجاب کی ہدایت پر صوبے کو ایک ماڈل صوبہ بنا رہے ہیں جہاں تمام افراد بشمول اقلیتیں، اپنے حقوق کے ساتھ بہترین زندگی گزار سکیں۔ ہم عالمی و مقامی اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ اس وقت محکمہ انسانی حقوق و اقلیتی امور، پولیس و دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے، خواتین اور بچوں کے حقوق سے منسلک اداروں سمیت سب مل کر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اب مسائل کی رپورٹنگ میں بھی اضافہ ہوا ہے اور کسی بھی شکایت کی صورت میں فوری اور بروقت کارروائی کی جاتی ہے۔

اداروں کو وزیراعلیٰ شکایت پورٹل کے ساتھ لنک کیا گیا ہے، وزیراعلیٰ خود بھی کارکردگی کی مانیٹرنگ کرتی ہیں۔ اس وقت ’سسٹم ان پلیس ‘ ہے اور بہترین کام بھی کر رہا ہے، آنے والے وقت میں انسانی حقوق کی صورتحال میں مزید بہتری آئے گی۔نظام انصاف کو بھی بہتر بنایا جا رہا ہے، لوگوں کو قانونی معاونت فراہم کی جارہی ہے، قانون پر عملدرآمد اور سزاؤ ں کے اطلاق میں بہتری آئے گی۔ حکومت انسانی حقوق کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے لیکن یہ اکیلے ممکن نہیں ۔ اس کیلئے سول سوسائٹی سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔

ساجد کرسٹوفر

(کنوینر ہیومن رائٹس نیٹ ورک پاکستان)

10 دسمبر کو اقوام متحدہ کے زیر اہتمام انسانی حقوق کی بحالی اور بہتری کیلئے انسانی حقوق کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ یہ تجدید عہد کا دن ہے کہ ہم انسانی حقوق کی بحالی کیلئے ہر ممکن کام کریں گے تاکہ ملک میں رہنے والی مذہبی اقلیتوں، خواتین اور بچوں سمیت تمام انسانوں کے حقوق یقینی بنائے جاسکیں۔اس حوالے سے حکومتوں کی توجہ اس جانب مبذول کرائی جاسکے کہ وہ انسانی حقوق کے حوالے سے موجود مسائل پر توجہ دیں، قانون سازی کریں اور عملدرآمد بھی یقینی بنائیں۔

اقلیتیں ملکی آبادی کا پانچ فیصد ہیں جس میں سکھ، مسیحی، ہندو و دیگر مذاہب کے پیروکار شامل ہیں۔ یہ سب محب وطن ہیں اور ملک میں عدل و انصاف اور امن چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے سول سوسائٹی بھی اپنا بہترین کردار ادا کر رہی ہے۔ہم محکمہ انسانی حقوق و اقلیتی امور کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں، یہ محکمہ اچھا کام کر رہا ہے، اقلیتوں کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے ماضی کی نسبت بہتری آئی ہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ اقلیتوں کا قومی کمیشن بنایا جا رہا ہے یقینا اس اسے اقلیتوں کے مسائل حل کرنے میں بہتری آئے گی۔

اسی طرح خواتین کے حوالے سے قومی کمیشن موجود ہے، صوبائی سطح پر بھی ادارے موجود ہیں جن سے خواتین کے حقوق و تحفظ میں بہتری آرہی ہے۔ قوانین اور اداروں کے باوجود بعض جگہ مسائل ہیں جنہیں مل کر حل کرنے کی ضرورت ہے۔ ہندو کمیونٹی کی لڑکیوں کی جبری شادیوں کے مسائل ہیں، بعض مسیحیوں لڑکیوں کے حوالے سے بھی ایسے معاملات سامنے آتے ہیں۔ ان مسائل کو دیکھنا ہوگا۔ اقلیتوں کی ترقی کے حوالے سے کوٹہ سسٹم کا فائدہ ہو رہا ہے۔

اقلیتوں کیلئے تعلیم میں 2 فیصد اور ملازمتوں میں 5 فیصد کوٹہ کے باعث آج بڑے عہدوں پر اقلیتی افسران موجود ہیں، آنے والے وقت میں مزید بہتری آئے گی۔ابھی بہت سارے محکمے ایسے ہیں جہاں اس کوٹہ پر عملدرآمد نہیں ہو رہا، اسے یقینی بنانا ہوگا۔ ہماری اقلیتیں پسماندہ ہیں لہٰذا ان کی حالت بہتر بنانے اور ایمپاور کرنے کیلئے کام کرنا ہوگا۔ یہاں یہ بات توجہ طلب ہے کہ پنجاب کے نئے بلدیاتی نظام میں اقلیتی نمائندے کا چناؤ براہ راست نہیں ہے بلکہ اس کا اختیار چیئرمین کو دے دیا گیا ہے، اس میںتبدیلی کی ضرورت ہے۔ ہمارا مطالبہ ہے اقلیتوں کو اپنا نمائندہ براہ راست خود منتخب کرنے کا حق دیا جائے،ا س طرح ایسی قیادت سامنے آئے گی جو صحیح معنوں میں ان کے لیے کام کر سکے۔

سسٹر جینی ویو

(رکن نیشنل کمیشن فار دی سٹیٹس آف ویمن)

انسانی حقوق کا عالمی دن منانا خوش آئند ہے تاہم ہمیں سمجھنا چاہیے کہ ہمارا ہر دن ہی اہم اور ضروری ہے اور ہر روز ہمیں انسانی حقوق کا خیال رکھنا ہے۔ ہماری روزمرہ زندگی میں انسانی حقوق کے حوالے سے خلاء ہے جسے پر کرنا ہوگا۔ خوش قسمتی سے ہماری خواتین نے گزشتہ کچھ عرصے میں بہت ترقی کی ہے۔

یہ صدی خواتین کی ہے کیونکہ شعبہ تعلیم اور فیصلہ سازی میں ان کی شمولیت میں اضافہ ہوا ہے۔ خواتین کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے آگاہی میں بھی بہتری آئی ہے۔ خواتین کی ترقی کیلئے حکومت نے بھی بہت کام کیا ہے۔ اس وقت وزیراعلیٰ پنجاب خاتون ہیں اور یہ خواتین کیلئے ایک ٹرننگ پوائنٹ ہے۔وہ خواتین کی حالت بہتر بنانے کیلئے ہر ممکن اقدامات اٹھا رہی ہیں۔ معاشرے کی بات کریں تو ہمارے غلط رویے مسائل کا باعث ہیں۔

اس جدید دور میں بھی لوگ خواتین کو برابر حقوق دینے کو تیار نہیں ہیں۔ عورت کے پاؤں تلے جنت ہے لیکن افسوس ہے کہ لوگ اسے پاؤں کا جوتا بنانا چاہتے ہیں۔ ایسے رویوں کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی۔ بدقسمتی سے کم عمری کی شادی اور خواتین کے مذہب کی جبری تبدیلی آج بھی بڑے جرائم میں شامل ہے۔

خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات بھی رپورٹ ہوتے ہیں جو افسوسناک ہے۔ خواتین کو حصول تعلیم میں بھی رکاوٹوں کا سامنا ہے، انہیں آگے نہیں بڑھنے دیا جاتا۔ یہ امر توجہ طلب ہے کہ ملک میں قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد کے مسائل ہیں جس کے باعث جرائم ختم نہیں ہو رہے، نچلی سطح تک ان کا اثر نہیں پہنچ رہا۔ گراس روٹ لیول پر تو خواتین بدترین مظالم کا شکار ہیں۔ ڈومیسٹک ورکرز پرتشدد کیا جاتا ہے، ان پر چوری کا الزام بھی لگا دیا جاتا ہے، یہ جرائم معمول بن چکے ہیں۔ افسوس ہے کہ تعلیم یافتہ افراد بھی خواتین اور ملازمین پر تشدد کرتے ہیں، انہیں جلا دیا جاتا ہے، تشدد سے اموات بھی ہوجاتی ہیں، ایسے افراد کو قانون کے کٹہرے میں لانا چاہیے۔ ہمیں بطور انسان، انسانی حیثیت کی قدر کرنی چاہیے۔

ہمیں ایسا معاشرہ تشکیل دینا ہے جہاں انسانیت کا بول بالا ہو۔ہمیں سب کو جنس، عہدے یاپیسے کے حساب سے نہیں بلکہ انسان کی طرح ڈیل کرنا ہے اور احترام انسانیت کو فروغ دینا ہے۔ انسانی حقوق کا معاملہ سب کیلئے ہے، اصول یہ ہونا چاہیے کہ سب برابر ہیں اور سب کو ہی برابر حقوق ملیں گے۔ خواتین پر تشدد ایک عالمی مسئلہ بن چکا ہے۔ اس حوالے سے آگاہی اور اقدامات اٹھانے پر زور دینے کیلئے 25 نومبر سے 10 دسمبر تک، اقوام متحدہ کی جانب سے خواتین اور بچیوں پر تشدد کے خاتمے کے لئے 16 روزہ آگاہی مہم چلائی جاتی ہے۔

اس برس اس کا موضوع ڈیجیٹل وائلنس ہے جو عصر حاضر کا بڑ امسئلہ بن چکا ہے۔ اس کے خاتمے کیلئے ہر ممکن اقدامات کرنے چاہئیں۔ میرے نزدیک ڈیجیٹل دنیا نے انسانیت اور خواتین کے وقار کو مجروح کیا ہے، اس سے معاشرے کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہمارے ڈراموں اور فلموں میں خواتین کو کمزور اور روتا ہوا دکھایا جاتا ہے، خواتین کمزور نہیں ہیں، وہ ہر شعبے میں اپنی قابلیت کا لوہا منوا رہی ہیں ، ہمیں فلم اور ڈرامہ کے ذریعے انسانی حقوق، خواتین، بچوں و معاشرے کے دیگر طبقات کے مسائل کو اجاگر کرنا ہوگا۔

تیزاب گردی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ یہ خوش آئند ہے کہ حکومت نے تیزاب کی خرید و فروخت پر پابندی لگائی ہے، اس سے یقینا تیزب گردی کے واقعات میں کمی آئے گی۔ ملک میں 52 فیصد خواتین ہیں، یہ آبادی مردوں سے بھی زیادہ ہے لیکن اس کے باوجود خواتین کو ان کے حقوق نہیں مل رہے، اگر ہم نے ترقی کرنی ہے اور ایک بہترین معاشرہ تشکیل دینا ہے تو خواتین کو ان کے حقوق دینا ہوں گے۔ معاشرے کی سوچ میں تبدیلی لانے کیلئے تعلیمی نصاب میں خصوصی مضامین شامل کرنا ہوں گے۔ 

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

سکردو، عمائدین و نوجوانوں کی جانب سے سابق اپوزیشن لیڈر کاظم میثم کے اعزاز میں عشائیہ

کاظم میثم نے اس موقع پر کہا کہ وفاق سے گلگت بلتستان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا ہو یا حلقے کے حقوق کے لیے کوشش کرنا آپ سرکردگان، جوانان اور قائدین کی سرپرستی میں آگے بڑھیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ اسمبلی مدت کی تکمیل اور عوامی حقوق کی بھرپور ترجمانی پر اہلیان پڑنگ، غلچو اور پوندس سکردو کے زعماء و جوانان کی طرف سے سابق اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی و سابق پارلیمانی لیڈر ایم ڈبلیو ایم جی بی کاظم میثم کے اعزاز میں ایک اہم عشائیے کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں واعظین، سرکردگان، زعماء اور جوانوں کے نمائندہ وفد نے شرکت کی۔ اس موقع پر عمائدین نے پڑنگ غلچو، پوندس روڈ اور ڈسپنسری رکھنے پر شکریہ ادا کیا اور پوندس روڈ کا ایشو حل کر کے اسے جلد مکمل کرانے کی استدعا کی۔ سابق اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی نے عمائدین سرکردگان اور زعماء کی جانب سے حوصلہ افزائی نیز مجاہد ملت آغا علی رضوی کی قیادت اور انکے نمائندہ پر بھرپور اعتماد کے اظہار پر شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے پوندس روڈ کی تعمیر کے سلسلے میں متاثرین کے ساتھ بیٹھ کر اعتراض کو دور کر کے کام آگے بڑھانے کی کوشش کی یقین دہانی کرائی۔

انہوں نے کہا کہ ترقیاتی پروجیکٹس کو مکمل کرنےکے لیے تمام سٹیک ہولڈر نے ملکر آگے بڑھنا ہے۔ اس سلسلے میں متاثرین کے اعتراض کو دور کرکے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ سابق اپوزیشن لیڈر گلگت بلتستان اسمبلی نے کہا کہ ہم نے عدل و انصاف کی بالادستی، ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا اور عوامی خدمت کو اپنا شعار بنایا ہے۔ آئندہ بھی، عدل کی بالادستی، ظلم ستیزی، علاقائی ترقی، عوامی ترجمانی، قومی وسائل کے تحفظ اور جمہوری اقدار کے فروغ نیز اتحاد و یگانگت کے لیے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ وفاق سے گلگت بلتستان کے حقوق کے لیے جدوجہد کرنا ہو یا حلقے کے حقوق کے لیے کوشش کرنا آپ سرکردگان، جوانان اور قائدین کی سرپرستی میں آگے بڑھیں گے۔ شاندار عشائیے کے اہتمام پر کاظم میثم نے عمائدین علاقہ کا شکریہ ادا کیا۔

متعلقہ مضامین

  • 10 دسمبر ، انسانی حقوق کا عالمی دن اور مزدور طبقہ
  • سکردو، عمائدین و نوجوانوں کی جانب سے سابق اپوزیشن لیڈر کاظم میثم کے اعزاز میں عشائیہ
  • جوڈیشل پالیسی ساز کمیٹی کا اجلاس، جبری گمشدگی مقدمات پر نیا میکنزم بنانے کا فیصلہ
  • لاہور، جامعہ ام الکتاب میں خواتین کانفرنس کا انعقاد
  • حیدرآباد: لیبر ہال میں عالمی انسانی حقوق کے دن کے حوالے سے منعقدہ اجلاس سے عبداللطیف نظامانی خطاب کررہے ہیں
  • کراچی میں ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے خلوص نیت کے ساتھ کوشاں ہے، ضیاء لنجار
  • ایران نے انسانی حقوق کی نوبیل انعام یافتہ کارکن نرگس محمدی کو گرفتار کرلیا
  • صوبے کے حقوق کیلئے تمام سیاسی اور قانونی راستے اختیارکرینگے، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا
  • طالبان دور میں خواتین پر بے مثال جبر، اقوام متحدہ سمیت دنیا کا شدید احتجاج