ترقی اب سینیارٹی نہیں بلکہ کارکردگی کی بنیاد پر ہوگی: احسن اقبال
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
فائل فوٹو
وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ آج کا دور جدید اور تیز رفتار تبدیلیوں کا ہے، ترقی اب سینیارٹی نہیں بلکہ کارکردگی اور نتائج کی بنیاد پر ہوگی۔
پنجاب یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کو نجی شعبے، سول سوسائٹی اور میڈیا سے ہم آہنگی رکھنی چاہیے تاکہ پالیسی سازی میں بہتر نتائج حاصل کیے جا سکیں۔
احسن اقبال نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے سول سروس اصلاحات دوبارہ شروع کی ہیں اور نیا اسمارٹ سول سروس ماڈل میرٹ، جوابدہی اور ٹیکنالوجی پر مبنی ہوگا۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ سی ایس ایس امتحانات میں زیادہ تر امیدوار انگریزی میں فیل ہو جاتے ہیں۔ ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹائزیشن کے ذریعے گورننس کا نظام مربوط اور ہم آہنگ ہو چکا ہے اور آج کے گورننس سسٹم میں نمایاں تبدیلیاں آ چکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سوشل میڈیا کے باعث آج کا شہری زیادہ آگاہ اور باشعور ہو چکا ہے اور نوجوان ٹیکنالوجی کے استعمال سے بخوبی واقف ہے، پالیسی سازی میں اب مشاورت اور شمولیت کا دائرہ کار وسیع ہو چکا ہے، جس سے فیصلہ سازی کے عمل میں بہتری آ رہی ہے۔
.ذریعہ: Jang News
پڑھیں:
قوم کے سامنے ایک اور بڑا سوال
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251215-03-3
سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو 14 سال قید کی سزا سنائے جانے کا فیصلہ وطن عزیز کی تاریخ کا اہم فیصلہ ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق جنرل (ر) فیض حمید پر چار الزامات ثابت ہوئے جن میں سیاسی سرگرمیوں میں مداخلت، آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی، اختیارات اور سرکاری وسائل کا غلط استعمال اور بعض افراد کو نقصان پہنچانا شامل ہے۔ یہ الزامات کسی معمولی سرکاری افسر پر نہیں بلکہ اس شخصیت پر عائد کیے گئے ہیں جو برسوں تک ریاست کے سب سے حساس خفیہ ادارے کی سربراہی کرتا رہا۔ یہی حقیقت اس معاملے کو غیر معمولی بنا دیتی ہے اور قوم کے ذہن میں یہ سوال پیدا کرتی ہے کہ اگر یہ سب کچھ درست ہے تو یہ سرگرمیاں اس وقت کیوں نظر انداز ہوتی رہیں جب اختیار اور طاقت اپنے عروج پر تھے؟ ریٹائرمنٹ کے بعد خفیہ سرکاری دستاویزات اپنے پاس رکھنے کا الزام سب سے زیادہ تشویش ناک ہے۔ اگر واقعی ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے پاس ایسی دستاویزات موجود تھیں جن کا وہ مجاز نہیں تھا تو یہ ریاستی سلامتی کے تصور پر ایک سنجیدہ ضرب ہے۔ اس سے یہ سوال جنم لیتا ہے کہ ہمارے اداروں میں ریٹائرمنٹ کے بعد نگرانی اور احتساب کا نظام کتنا مؤثر ہے۔ کیا حساس عہدوں پر فائز رہنے والوں کے لیے کوئی واضح اور سخت فریم ورک موجود ہے یا سب کچھ انفرادی صوابدید پر چھوڑ دیا جاتا ہے؟ سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام اس مقدمے کو مزید حساس بنا دیتا ہے۔ 2023ء میں آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بعد حساس عہدوں پر کام کرنے والے افسران کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد پانچ سال تک سیاست سے دور رہنا لازم قرار دیا گیا تھا۔ اس کے باوجود اگر ایک سابق ڈی جی آئی ایس آئی نے درجنوں سیاستدانوں سے روابط رکھے، تو یہ صرف قانون شکنی نہیں بلکہ جمہوری عمل پر اثر انداز ہونے کی کوشش بھی سمجھی جائے گی۔ سوال یہ ہے کہ کیا آج کی سیاسی کشیدگی، عدم استحکام اور عدم اعتماد کی فضا کے بیج اسی دور میں بوئے گئے تھے؟ ٹاپ سٹی ہاؤسنگ سوسائٹی کا معاملہ اس کیس کا سب سے تاریک پہلو ہے۔ ریاستی اداروں کے ذریعے چھاپا، قیمتی سامان کی ضبطی اور پھر مبینہ طور پر اس کی واپسی کے بدلے مالی مطالبات، اگر یہ الزامات درست ہیں تو یہ ریاستی طاقت کے ذاتی مفادات کے لیے استعمال کی بدترین مثال ہے۔ اس نوعیت کے واقعات شہریوں کے ریاست پر اعتماد کو مجروح کرتے ہیں اور یہ تاثر مضبوط ہوتا ہے کہ طاقتور کے لیے قانون مختلف اور کمزور کے لیے مختلف ہے۔ بحریہ ٹاؤن کے ایک سابق ملازم کو نقصان پہنچانے کا الزام بھی اسی سلسلے کی کڑی معلوم ہوتا ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ معاملہ محض ایک واقعے یا ایک غلط فیصلے تک محدود نہیں بلکہ اختیارات کے مسلسل اور بے لگام استعمال کا عکس ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر سوال یہ بنتا ہے کہ ادارہ جاتی سطح پر اس طرزِ عمل کی روک تھام کیوں نہ ہو سکی؟ یہ صورت حال ایک اور اہم سوال کو جنم دیتی ہے، کیا ہم آج کسی ایسے کردار کا احتساب کر رہے ہیں جس کے اثرات برسوں پہلے ملک کی سیاست اور ریاستی ڈھانچے پر مرتب ہو چکے ہیں؟ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ خفیہ طاقتوں کے فیصلوں کے نتائج فوری طور پر سامنے نہیں آتے بلکہ دہائیوں بعد ان کے مضمرات قوم بھگتتی ہے۔ خدشہ یہی ہے کہ کہیں ہم ایک اور ایسے دور کے انجام کو نہ دیکھ رہے ہوں جس کی اصل کہانی ابھی مکمل طور پر لکھی ہی نہیں گئی۔ اس مرحلے پر سب سے زیادہ ضرورت شفافیت کی ہے۔ محض سزاؤں کے اعلانات کافی نہیں ہوتے، قوم کو یہ جاننے کا حق ہے کہ الزامات کی نوعیت کیا تھی، شواہد کیا تھے اور نظام کہاں ناکام ہوا۔ اگر احتساب واقعی بے لاگ اور غیر جانبدار ہے تو اس کی تفصیلات بھی اتنی ہی واضح ہونی چاہئیں۔ ادھورا سچ اعتماد بحال نہیں کرتا بلکہ مزید سوالات کو جنم دیتا ہے۔ یہ وقت خود احتسابی کا بھی ہے۔ اداروں کے لیے، نظام کے لیے اور ریاست کے مجموعی تصور کے لیے۔ اگر ہم نے اس معاملے کو صرف ایک فرد تک محدود کر دیا اور اس سے جڑے ساختی مسائل کو نظر انداز کر دیا تو بعید نہیں کہ چند برس بعد ایک اور طاقتور نام اسی طرح زیر ِ بحث آ جائے۔ اصل امتحان یہی ہے کہ کیا یہ واقعہ ایک مثال بنے گا یا محض ایک اور فائل جسے وقت کی گرد ڈھانپ دے گی۔