استنبول؍ اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ نیوز ایجنسیاں+ عزیز علوی) پاکستان اور افغانستان استنبول مذاکرات میں جنگ بندی پر متفق ہو گئے۔ ترک وزارت خارجہ کے مطابق پاکستان اور افغان طالبان نے جنگ بندی جاری رکھنے پر اتفاق کر لیا۔ اعلامیہ کے مطابق مذاکرات کا اگلا دور 6 نومبر کو استنبول میں ہوگا۔ دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر برقرار رہے گا۔ تمام فریقین اس بات پر متفق ہوئے ہیں کہ نگرانی اور تصدیقی نظام قائم کیا جائے گا۔ افغانستان، پاکستان، ترکیہ اور قطر نے 25 تا 30 اکتوبر کے دوران استنبول میں اجلاس منعقد کئے۔ جنگ بندی کے نفاذ کے ضوابط اگلے مذاکرات میں طے ہوں گے۔ مذاکرات کا مقصد دوحہ قطر میں طے پانے والی جنگ بندی جاری رکھنا تھا۔ جنگ بندی کی نگرانی اور تصدیق کا میکنزم بنانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ مشترکہ اعلامیہ کے مطابق بطور ثالث ترکیہ اور قطر دونوں فریقین کے تعاون کو سراہتے ہیں۔ امن کیلئے وضع شدہ طریقہ کار کی خلاف ورزی کرنے والے فریق کو سزا وار ٹھہرایا جائے گا۔ استنبول مذاکرات عبوری رضامندی اور خطے میں امن کی جانب پیش قدمی ہیں۔ پاکستان اس تمام معاملے کو  internationalise  کرنے میں کامیاب ہوا جو پاکستان کی ایک اہم سفارتی کامیابی ہے۔ گزشتہ چھ روز سے استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے وفود کے درمیان انتہائی اہم مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا۔ مذاکرات کا مقصد پاکستان کی طرف سے ایک ہی بنیادی مطالبے پر پیش رفت حاصل کرنا تھا افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال ہونے سے مؤثر طور پر روکنا، اور بھارت کی پشت پناہی یافتہ دہشت گرد گروہوں، خصوصاً فتنہ الخوارج (ٹی ٹی پی) اور فتنہ الہندوستان (بی ایل اے) کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرنا۔ یہ مذاکرات کئی موقعوں پر تعطل کا شکار ہوتے دکھائی دیئے۔ خاص طور پر گزشتہ روز تک صورتحال یہ تھی کہ بات چیت کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پائی تھی اور پاکستانی وفد واپسی کی تیاری کر چکا تھا۔ تاہم، میزبان ممالک ترکیہ اور قطر کی درخواست اور افغان طالبان وفد کی طرف سے پہنچائی گئی التماس کے بعد پاکستان نے ایک بار پھر امن کو ایک موقع دینے کے لیے مذاکراتی عمل کو جاری رکھنے پر رضامندی ظاہر کی۔ گزشتہ روز ہونے والے مذاکرات کے  دوران ایک عبوری باہمی رضامندی پر اتفاق کیا گیا، جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔ تمام فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ دوحہ میں طے شدہ فائربندی کو پائیدار بنانے کیلئے اسے  جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کیا (تاہم یہ رضامندی افغانستان کی سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی نہ ہونے سے مشروط ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ افغان طالبان فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان جیسے دہشت گرد گروہوں کے خلاف واضح، قابل تصدیق اور مؤثر کارروائی کریں گے)۔ تفصیلات طے کرنے اور ان پر عملدرآمد کے لیے اگلی ملاقات 6 نومبر کو استنبول میں ہوگی۔ ایک مشترکہ مانیٹرنگ اور verification  میکانزم تشکیل دیا جائے گا جو امن کو یقینی بنانے کے ساتھ خلاف ورزی کرنے والی پارٹی کے خلاف فیصلہ کرنے کا  بھی اختیار رکھے گا۔ ترکیہ اور قطر نے بطور ثالث اور میزبان دونوں فریقوں کی فعال شمولیت کو سراہا ہے اور اس بات کا اعادہ  کیا ہے کہ وہ مستقل امن اور استحکام کے لیے دونوں فریقین  کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے۔ مذاکرات کے دوران پاکستان کا وفد دلائل، شواہد اور اصولی مؤقف کے ساتھ ثابت قدم رہا۔ پاکستانی وفد نے جس استقامت، بصیرت اور منطقی بنیادوں پر اپنے مطالبات پیش کیے، وہ پیشہ ورانہ مہارت  کی ایک اعلیٰ مثال تھی۔ آخر کار عوام کے مفاد کی جیت ہوئی اور افغان وفد ایک عبوری مفاہمت پر آمادہ ہونے پر مجبور ہوا۔ اس تمام پس منظر میں جو عبوری پیش رفت حاصل ہوئی ہے، اسے نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے عوام بلکہ خطے میں امن، استحکام اور عالمی سکیورٹی کے لیے ایک مثبت سنگ میل قرار دیا جانا چاہیے۔ یہ ایک ایسی کامیابی ہے جو مخالف قوتوں  کی جانب سے پیدا کردہ رکاوٹوں، الزامات اور تخریبی ذہنیت کے باوجود دلیل، تدبر اور قومی مفاد پر ڈٹے رہنے کا نتیجہ ہے۔ پاکستان نے جس سنجیدگی، فہم و فراست اور قومی وقار کے ساتھ مذاکرات میں شرکت کی، وہ قابل تحسین ہے۔ ساتھ ہی ترکیہ اور قطر جیسے برادر ممالک کی میزبانی اور ثالثی نے اس عبوری کامیابی کو ممکن بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان کی ریاست، قیادت اور عوام کی طرف سے امن کی کوششیں جاری رہیں گی، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی واضح  ہے کہ ملکی خودمختاری، قومی مفاد اور عوام کی سلامتی پر کسی قسم کا سمجھوتہ ہرگز نہیں کیا جائے گا۔ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت اس مؤقف پر یکساں، پرعزم اور مکمل طور پر متحد ہے، اور اپنی قوم کو یقین دلاتی ہے کہ وہ ہر داخلی و خارجی خطرے کا مقابلہ بھرپور تیاری، وسائل اور عزم سے کرے گی۔ وزیر دفاع نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں بتایا دوست ممالک نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان ثالثی کا کردار ادا  کیا۔ ہم نے اپنی پوزیشن کلیئر کر دی ہے۔  پاکستان کا مؤقف ہے  کہ افغان سرزمین پاکستان کیخلاف استعمال نہیں ہونی چاہئے۔  قانونی طور پر افغان رجیم کا کوئی ’’سٹیٹس‘‘ نہیں ہے۔ افغان طالبان رجیم کے پاس اخلاقی، قانونی اور آئینی جواز نہیں ہے۔ وزیر دفاع  خواجہ آصف نے کہا ہے کہ میزبانوں ترکیہ اور قطر کی درخواست  نے پاکستانی ٹیم کو ائر پورٹ سے بلوایا۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں انہوں نے کہا  پاکستان اور افغانستان کے درمیان شٹل ڈپلومیسی ہوئی۔  بدھ کے روز مذاکرات کے حوالے سے ہماری امید ٹوٹ  گئی تھی۔ ہمیں افغان طالبان رجیم  سے کوئی امید نہیں۔ ثالثوں کے ذریعے مختلف مسودے شیئر کئے۔ بدھ کے مقابلے میں گزشتہ روز کچھ تھوڑ سی امید پیدا ہوئی۔ کابل کے لوگ کہہ رہے تھے ٹی ٹی پی کو کنٹرول کریں گے، لکھ کر نہیں دیں گے۔ غزہ میں فوج کیوں نہیں بھیجی جا رہی ہے؟ معاہدہ فلسطین اور حماس نے خود کیا ہے۔ سوال اٹھایا جا رہا ہے حماس کو غیر مسلح کیا جائے گا۔ غیر مسلح ہونے کا معاہدہ حماس نے خود کیا۔ ابھی کسی نے غزہ میں فوج بھیجنے کا نہیں کہا۔ غزہ میں فوج بھیجنے کے لئے وفاقی کابینہ سے منظوری لی جائے گی۔ پارلیمان میں چیزوں پر بحث ہو سکتی ہے۔ ابھی 27 ویں ترمیم کے حوالے سے کوئی تجویز آن پیپر نہیں۔ بلوچستان، خیبر پی کے میں کچھ علاقوں میں بغیر عدالت تمام معاملات ہوجاتے ہیں۔ سکیورٹی اداروں کا مطالبہ ہے لوگوں کی گرفتاری اور پروسیڈ کرنے کا اختیار دیا جائے۔ وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا نے نجی ٹی وی کو انٹرویو میں کہا ہے کہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بفر زون قائم کیا جائے۔ اگر افغانستان تیار ہوتا ہے تو مل کر بفر زون قائم کی جائے گی۔ اگر افغانستان تیار نہ ہوا تو ہم خود بفرزون قائم کریں گے۔ اب ممکن نہیں رہا کہ ہم یکطرفہ طور پر دہشتگردی کا شکار ہوتے رہیں۔ یفر زون کیلئے قطر، ترکیہ، سعودی عرب غیر جانبدار ثالث کے طور پر ذمہ داری ادا کریں گے۔ افغانستان میں جہاں دہشتگردوں کی تربیت ہو رہی ہے ان تمام علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ہم نے افغانستان سے دہشتگردی کے ثبوت دیئے ہیں۔ افغان طالبان تسلیم کرتے ہیں لیکن لکھ کر دینے کو تیار نہیں۔ پاکستان چاہتا ہے افغان طالبان لکھ کر دیں۔ خواجہ آصف نے پاکستان کے دفاع کے حوالے سے جوش و جذبے کا مظاہرہ کیا۔ افغان نمائندہ وفد کئی بار راضی ہوا۔ کابل سے رابطہ کیا تو نئی بات کی گئی۔ کابل میں موجود لوگوں کو بھارت کی حمایت حاصل اور مداخلت کا سامنا ہے۔ بھارت بھی حالات خراب کرانے میں سرگرم ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے سوشل میڈیا پر بیان میں کہا ہے کہ افغان وفد کا کہنا ہے ٹی ٹی پی کے دہشتگرد افغان سرزمین پر پاکستانی پناہ گزین ہیں۔ ٹی ٹی پی کے دہشتگرد اپنے گھروں میں پاکستان واپس جا رہے ہیں، کیسے پناہ گزین ہیں جو اپنے گھر انتہائی تباہ کن اسلحہ سے مسلح ہوکر جا رہے ہیں۔ جو اپنے گھر، بسوں، ٹرکوں اور گاڑیوں پر سوار ہو کر نہیں جا رہے، کیسے پناہ گزین ہیں جو چوروں کی طرح دشوار راستوں سے پاکستان داخل ہو رہے ہیں، یہ تاویل ہی افغانستان کی نیت کے فتور اور خلوص سے عاری ہونے کا ثبوت ہے۔ دریں اثناء وفاقی وزیر اطلاعات عطاء تارڑ نے کہا ہے کہ افغان طالبان کو یہ بات ماننا پڑی کہ دہشتگرد کا رروائیاں بند ہوں گی۔ امید ہے اب دہشتگرد کا رروائیاں نہیں ہوں گی۔ دوست ممالک پاکستان کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ترکیہ اور قطر پاکستان کے ساتھ کھڑے رہے۔ جنگ بندی کی خلاف ورزی کرنے والے فریق کے خلاف سزا کا تعین کیا جائے گا۔ پاکستان کے خلاف دہشتگردوں کو سپورٹ کیا جا رہا  تھا۔ پشت پناہی دی جا رہی تھی۔ یہ پاکستان کے مؤقف کی تائید اور بیانیے کی جیت ہے۔ پوری دنیا کو پتا ہے پاکستان پر حملے ہو رہے تھے۔ قطر اور ترکیہ کی مدد سے دوبارہ مذاکرات شروع ہوئے تھے۔ جنگ بندی میں افغان طالبان کی جانب سے  فتنہ الخوارج کے خلاف کارروائیاں بھی شامل ہیں۔ پاکستان کو اب نیا فورم میسر ہو گا جہاں دہشتگردی کے ثبوت پیش کرے گا۔ افغان طالبان کو یقینی بنانا ہوگا کہ ان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ عطاء تارڑ نے کہا پاک افغان سرحدیں کھولنے کا فیصلہ بعد میں کیا جائے گا۔ دریں اثناء وزیر مملکت داخلہ طلال چودھری نے کہا کہ پاکستان کے اصولی مؤقف کی جیت ہوئی ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کسی کی بھی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو۔ افغانستان کا امن پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ افغانستان بھارت کی پراکسی بنا رہا تو کبھی آگے نہیں بڑھ پائے گا۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: پاکستان اور افغانستان کے پاکستان اور افغان پاکستان کے خلاف ترکیہ اور قطر افغان طالبان استنبول میں کیا جائے گا پاکستان کی مذاکرات کا کے درمیان کہا ہے کہ کہ افغان ٹی ٹی پی کے ساتھ کریں گے کے لیے کیا جا نے کہا

پڑھیں:

پاکستان افغانستان تعلقات میں بداعتمادی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251030-03-2
پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری میں مذاکرات کا دوسرا دور ترکیہ میں ختم ہوگیا ہے اور ان مذاکرات میں ترکیہ اور قطر نہ صرف میزبانی کا حق ادا کر رہے تھے بلکہ ان کی کوشش تھی کہ دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کی کامیابی کا کوئی درمیانی راستہ نکل سکے۔ قطر میں ہونے والے مذاکرات کے پہلے راؤنڈ میں یہ خیال پیدا ہو گیا تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی بڑی ثالثی سامنے آ سکے گی اور حالات جنگ یا کشیدگی کے بجائے بہتری کی طرف آگے بڑھیں گے۔ لیکن دوسرے راؤنڈ میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات میں بداعتمادی کے کئی پہلو دیکھنے کو ملے جو مذاکرات کی کامیابی میں مشکلات کا سبب بنے اور عملاً مذاکرات ناکام ہوگئے۔ پاکستان نے واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ جب تک افغان حکومت ہمیں تحریری طور پر اس بات کی یقین دہانی نہیں کرائے گی کہ اس کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں استعمال نہیں ہوگی بات آگے نہیں بڑھ سکے گی۔ جبکہ مذاکرات کے دوسرے حصے میں افغان حکومت مسلسل تحریری طور پر کسی بھی طرز کی ضمانت دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ افغان حکومت کے بقول ہم داخلی طور پر اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ پاکستان کو تحریری ضمانت دے سکیں۔ البتہ ہم پاکستان کے تحفظات پر یقین رکھتے ہیں اور کوشش کریں گے کہ پاکستان کے تحفظات کو مذاکرات کے نتیجے میں دور کیا جا سکے۔ قطر اور ترکیہ کی کوشش کے باوجود ایسا لگتا ہے جیسے افغان حکومت کسی بڑی سیاسی کمٹمنٹ کے لیے تیار نہیں تھی۔ پاکستان نے الزام لگایا ہے کہ افغان حکومت یا افغان طالبان کسی اور کے ایجنڈے پر عمل پیرا تھے اور اس ایجنڈے کا مقصد دہشت گردی کے خاتمے کے بجائے دہشت گردوں کی سرپرستی کرنا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ آصف کے بقول افغان حکومت نے پاکستان کے تحفظات پر کوئی سنجیدگی نہیں دکھائی اور نہ عملی اقدامات کی یقین دہانی کرائی ایسی صورت میں مذاکرات ناکام ہی ہونے تھے۔ اب ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ ہم اپنے دفاع کے لیے آخری حد تک جانے کے لیے تیار ہو جائیں۔ پاکستان کا یہ بھی الزام تھا کہ ان مذاکرات کی ناکامی یا اس میں بڑی پیش رفت نہ ہونے کی وجہ بھارت کا طرز عمل بنا ہے۔ بھارت اور افغانستان کے درمیان پاکستان کے خلاف جو باہمی گٹھ جوڑ ہے اس کی بنیاد پاکستان مخالفت پر قائم ہے۔ طالبان کی حکومت پاکستان کے تحفظات سے زیادہ ان تمام تر معاملات میں بھارت کے مفادات کو زیادہ تقویت دے رہی ہے جس سے حالات بہتر ہونے کے بجائے اور زیادہ خرابی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ایک خبر یہ بھی ہے کہ ان مذاکرات کا بڑا نتیجہ نہ آنے کی وجہ طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کا با اختیار نہ ہونا تھا اور ان کو کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے کابل میں اپنی حکومت سے رابطہ کرنا پڑتا تھا۔ یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ پاکستان افغانستان کے حالات میں ایک بہت بڑا سیاسی خلا بھی ہے اور سفارت کاری یا ڈپلومیسی کے محاذ پر دونوں ملکوں کو مختلف نوعیت کے چیلنجز کا سامنا ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ افغان حکومت براہ راست پاکستان کے مطالبات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور ان معاملات میں ٹال مٹول اختیار کی جا رہی ہے جس سے پاکستان میں ان مذاکرات کے تناظر میں مایوسی پائی جاتی تھی۔ اگرچہ طالبان حکومت کا موقف ہے کہ پاکستان کے تحفظات اپنی جگہ درست ہیں لیکن انہیں کابل کی حکومت کے معاملات کو بھی سمجھنا ہوگا اور خاص طور پر یہ سمجھنا کہ تمام تر معاملات کا حل ہماری حکومت کے پاس ہے، ایسا نہیں ہے۔ ان کے بقول افغانستان کے بعض علاقوں میں ٹی ٹی پی کے بارے میں ہمدردی بھی پائی جاتی ہے اور جب بھی ان کے خلاف کوئی بڑے آپریشن کی بات کی جاتی ہے تو وہاں سے افغان حکومت کو سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا عمل کامیاب نہیں ہوا اور قطر یا ترکیہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی بڑا تصفیہ کرانے میں کامیاب نہیں ہوئے تو پھر صرف جنگ کا راستہ بچے گا جو دونوں ملکوں کے مفاد میں نہیں۔ خاص طور پر پاکستان جو پہلے ہی دہشت گردی کی جنگ سے نمٹنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کے دو صوبے خیبر پختون خوا اور بلوچستان حالت جنگ میں ہیں۔ ایسے میں ایک طرف بھارت سے خطرہ ہے تو دوسری طرف افغان بارڈر بھی پاکستان کے لیے محفوظ نہیں رہا۔ یہ صورتحال پاکستان کے لیے کافی تشویشناک ہے اور ہمیں ہر صورت میں افغانستان سے اپنے تعلقات کو بہتر بنانا ہوگا۔ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بقول وہ واحد شخص ہے جو پاکستان افغانستان کے درمیان تعلقات کو بہتر بنا سکتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہی ہے تو پھر امریکی صدر کیوں خاموش ہیں اور کیوں بڑا کردار ادا کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ امریکا نے افغانستان سے بگرام کا فوجی اڈا مانگا ہے اور تاحال افغانستان نے اس پر رضا مندی ظاہر نہیں کی ہے۔ امریکا اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان کو درمیانی راستہ نکالتا ہے تو اس میں اس کا اپنا مفاد زیادہ ہے اور وہ افغانستان میں بیٹھ کے چین کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ امریکا سمجھتا ہے کہ چین کو کنٹرول کرنے کے لیے افغانستان میں اس کی موجودگی ضروری ہے اور یہ کام وہ طالبان کی حکومت سے کروانا چاہتے ہیں۔ دوسری طرف بھارت کی کوشش ہے کہ کسی طریقے سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بہتر نہ ہوں بلکہ اس میں اور زیادہ بداعتمادی بڑھے تاکہ اس کا براہ راست فائدہ بھارت کو ہو تو پاکستان کو مستقل بنیادوں پر دبائو میں رکھا جا سکے۔ ایسے لگتا ہے پاکستان کی سول اور فوجی اداروں نے یہ طے کر لیا ہے افغانستان کے بارے میں اب ہمیں کسی تضاد میں نہیں رہنا اور جو بھی فیصلہ کرنا ہے اس فیصلے کو بنیاد بنا کر افغانستان کے حوالے سے سخت گیر اقدامات کرنے ہوں گے۔ یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ طالبان حکومت کس حد تک قطر اور ترکیہ کی بات کو تسلیم کرتی ہے یا ان کے دبائو کا سامنا کرتی ہے۔ کیونکہ اگر یہ دونوں بڑے ممالک بڑا کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے یا ان کی سفارت کاری ناکام ہوئی ہے تو اس صورت میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان حالات ایک بڑی جنگ کی طرف ہی جا سکتے ہیں۔ پاکستان نے کوشش کی تھی کہ حالات کو اس نہج پہ نہ لے کے جایا جائے جہاں جنگ کے سوا کوئی اور آپشن موجود نہ ہو۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکتا تھا جب افغان حکومت بھی اپنے طرز عمل میں نہ صرف لچک کا مظاہرہ کرتی بلکہ عملی طور پر کچھ ایسے اقدامات کرتی جو پاکستان کو ٹی ٹی پی کے تناظر میں مطمئن کر سکے۔ لیکن اگر افغان حکومت نے ٹی ٹی پی کے خلاف کوئی بڑی کارروائی نہ کی اور اس پر پاکستان کو اعتماد میں نہ لیا تو پھر حالات کی درستی کا مستقبل کافی مخدوش نظر آتا ہے۔ ایسا لگتا ہے پاکستان سے تعلقات کے تناظر میں افغان حکومت دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ایک دھڑا سمجھتا ہے کہ پاکستان کا موقف درست ہے اور ہمیں اس کا بھرپور ساتھ دینا چاہیے جبکہ دوسرا دھڑا حالات کی خرابی کی ساری ذمے داری پاکستان پہ ڈال کر خود کو بچانا چاہتا ہے۔ اس لیے اگر پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا عمل کامیاب نہیں ہوا تو اس کی ایک وجہ بھی افغانستان میں ان فیصلوں پر داخلی تقسیم بھی ہے۔

سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور افغان طالبان جنگ بندی برقرار رکھنے پر متفق
  • پاکستان اور افغانستان کا جنگ بندی برقرار رکھنے پر اتفاق
  • پاکستان اور افغان طالبان جنگ بندی جاری رکھنے پر متفق، مذاکرات کا مشترکہ اعلامیہ جاری
  • پاک افغان طالبان مذاکرات، پاکستان کے اصولی موقف کی جیت ہوئی ہے، طلال چوہدری
  • پاکستان اور افغان طالبان جنگ بندی جاری رکھنے پر متفق، اعلامیہ جاری
  • بھارت کی چابہار بندرگاہ کے متعلق امریکی پابندیوں سے چھ ماہ کے استثنا کی تصدیق
  • پاکستان افغانستان تعلقات میں بداعتمادی
  • اسرائیلی حملے جنگ بندی کی خلاف ورزی ہیں، انقرہ
  • پاک افغان مستقل جنگ بندی: تجارتی اور سفارتی دباؤ برقرار رکھنا ہوگا