پاکستان میں اسموگ کے زراعت پر اثرات اور ممکنہ حل
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
دھوئیں کا تعلق صدیوں سے انسانی سرگرمیوں سے رہا ہے، جیسے ایندھن کا جلانا، صنعتی فضلہ، یا جنگلات کی آگ۔ تاہم، جب یہ دھواں دھند، گرد اور خطرناک کیمیائی ذرات کے ساتھ مل کر فضا میں معلق ہو جائے تو اسے ’’اسموگ‘‘ کہا جاتا ہے۔
اسموگ ایک زہریلا مرکب ہوتا ہے جو نظر کی حد کو کم کرتا ہے اور انسانی صحت، ماحولیاتی توازن اور معیشت پر سنگین اثرات ڈالتا ہے۔ پاکستان، خاص طور پر پنجاب کے میدانی علاقے، ہر سال خزاں اور سرما کے آغاز میں اسموگ کے شدید اثرات کی لپیٹ میں آجاتے ہیں۔
اسموگ کی تباہ کاریوں کا پہلا نشانہ انسانی صحت بنتی ہے۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق فضا میں باریک آلودہ ذرات (پی ایم 2.
پاکستان میں ہر سال تقریباً 1,28,000 اموات کو فضائی آلودگی سے جوڑا جاتا ہے۔ لاہور، فیصل آباد اور گوجرانوالہ جیسے شہر دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہوچکے ہیں، جہاں اسموگ کے باعث اسکولوں کی بندش، اسپتالوں میں رش، اور سانس کی بیماریوں میں اضافہ روزمرہ حقیقت بن چکی ہے۔
زراعت پر اسموگ کے اثرات بھی نہایت اہم اور تشویشناک ہیں، لیکن انہیں اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ سورج کی روشنی کی کمی کے باعث فصلوں میں فوٹوسنتھیسس کا عمل سست پڑ جاتا ہے، جو کہ پودوں کی نشوونما کےلیے بنیادی حیاتیاتی عمل ہے۔ خاص طور پر گندم، سبزیاں، چارہ اور آئل سیڈز جیسی فصلیں اس سے براہِ راست متاثر ہوتی ہیں۔ فصلوں کی بڑھوتری میں کمی، پیداوار کا گھٹ جانا اور زرعی لاگت کا بڑھ جانا اس کے اہم نتائج ہیں۔ اسموگ میں موجود باریک ذرات جب پودوں کے پتوں پر جم جاتے ہیں تو وہ تنفس، پانی کے تبادلے اور غذائی اجزا کے جذب ہونے کے عمل کو بھی متاثر کرتے ہیں۔
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ زراعت، خود اسموگ کے بننے میں ایک کردار ادا کرتی ہے۔ خاص طور پر چاول کی فصل کے بعد بچ جانے والی فصل کی باقیات کو آگ لگانا معمول بن چکا ہے۔ یہ عمل کسانوں کے لیے آسان اور سستا تو ہے، لیکن فضا میں کاربن مونو آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ، اور زہریلے ذرات کی ایک بڑی مقدار شامل کرتا ہے، جو اسموگ کی شدت کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔ بدقسمتی سے، کئی کسان اس مسئلے کی سنگینی سے ناواقف ہوتے ہیں اور اسے زرعی روایت یا لاگت سے بچاؤ کے طور پر جاری رکھتے ہیں۔
اسموگ سے بچاؤ کےلیے ہمیں صرف علامات کا علاج نہیں بلکہ وجوہات پر قابو پانا ہوگا۔ سب سے پہلا قدم فصلوں کی باقیات کو جلانے کے عمل کو روکنا ہے۔ اس کےلیے کسانوں کو عملی تربیت فراہم کی جائے تاکہ وہ بھوسے کو کمپوسڈ کھاد، جانوروں کی خوراک یا بایو انرجی کے طور پر استعمال کرسکیں۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کےلیے ایسی مشینری، جیسے ہیپی سیڈر، زیرو ٹلج ڈرل، اور سپر ایس ایم ایس مشینوں کو سبسڈی پر مہیا کرے تاکہ بھوسہ زمین میں جذب کیا جا سکے اور اگلی فصل کی تیاری میں مدد ملے۔
دوسرا اہم پہلو آگاہی اور شعور کا فروغ ہے۔ صرف قانون بنانا کافی نہیں، بلکہ میڈیا، زرعی اداروں، مقامی علما، اور اسکولوں کو چاہیے کہ وہ اسموگ کے اثرات اور زرعی متبادل طریقوں کے بارے میں مسلسل آگاہی مہمات چلائیں۔ جب تک کسان خود اس مسئلے کو اپنی زمین، پیداوار اور بچوں کے مستقبل سے جوڑ کر نہیں دیکھیں گے، تب تک کوئی پالیسی دیرپا فائدہ نہیں دے سکے گی۔ قانونی اقدامات کا بھی مؤثر نفاذ ضروری ہے۔ بھوسہ جلانے کی ممانعت پر نہ صرف قانون موجود ہے بلکہ اس پر سختی سے عملدرآمد بھی ہونا چاہیے۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو وارننگز، جرمانے اور بعض صورتوں میں قانونی کارروائی کا سامنا ہونا چاہیے تاکہ دوسروں کے لیے مثال قائم ہو۔
ٹیکنالوجی کے مؤثر استعمال کے بغیر اسموگ پر قابو پانا ممکن نہیں۔ ڈرون، سیٹلائٹ تصاویر اور ریموٹ سینسنگ جیسے جدید ذرائع استعمال کیے جائیں تاکہ فصلوں کی باقیات کو جلانے کی بروقت نشاندہی ہو سکے۔ صوبائی زرعی محکموں کو اس ڈیٹا کی بنیاد پر فوری مداخلت کا اختیار دیا جائے۔ یہ سمجھنا لازمی ہے کہ اسموگ کا مسئلہ صرف ماحولیاتی نہیں بلکہ قومی بقا کا مسئلہ بنتا جارہا ہے۔ اس کا حل صرف حکومت، کسان یا شہری اداروں تک محدود نہیں بلکہ ایک اجتماعی سماجی، تعلیمی، اور قانونی کوشش کا تقاضا کرتا ہے۔ اگر ہم چاہیں تو جدید ٹیکنالوجی، بہتر پالیسی، عوامی شعور، اور انفرادی ذمے داری کے امتزاج سے نہ صرف اپنی فصلیں بلکہ اپنی فضا، صحت اور آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی محفوظ بنا سکتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
پاکستان ریلوے کی آمدنی: روزانہ 300 ملین روپے وصولی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وفاقی وزیر ریلوے محمد حنیف عباسی نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان ریلوے نے تاریخی مالی سنگِ میل عبور کرتے ہوئے گزشتہ 15 دنوں کے دوران روزانہ 300 ملین روپے کی آمدنی حاصل کی، جو گزشتہ تین دہائیوں میں کسی بھی دور میں ہونے والی یومیہ آمدن سے کہیں زیادہ ہے، یہ کارکردگی حالیہ مہینوں میں کیے گئے اصلاحاتی اقدامات کا براہِ راست نتیجہ ہے۔
اپنے ویڈیو پیغام میں حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران ریلوے میں جامع اصلاحات متعارف کرائی گئیں جن کے تحت نہ صرف انتظامی ڈھانچہ بہتر ہوا بلکہ مسافر اور فریٹ دونوں شعبوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا، ریلوے میں جدید طرزِ حکمرانی، مالی نظم و ضبط اور تکنیکی بہتری لانے سے مجموعی آمدن میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو اب مسلسل نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔
https://jasarat.com/wp-content/uploads/2025/12/RailwaysMinister.mp4وزیر ریلوے کے مطابق ادارے کی جدیدکاری کے تحت پورے پاکستان میں ریلوے سسٹم کو ڈیجیٹائز کر دیا گیا ہے، جس سے شفافیت، بکنگ سہولت اور آپریشنل کنٹرول میں تاریخی بہتری آئی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ اقدامات ثابت کر رہے ہیں کہ پاکستان ریلوے اب بحالی نہیں بلکہ مستقل ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
حنیف عباسی نے مزید بتایا کہ اسٹیشنوں کی اپ گریڈیشن کے بعد اب توجہ ریلوے ٹریکس کی بہتری پر مرکوز ہے، نوکنڈی سے روہڑی اور روہڑی سے کراچی تک ٹریک کی اپ گریڈیشن کے معاہدے مکمل ہو چکے ہیں اور جلد تعمیر و بحالی کا کام شروع کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ٹریک کی بہتری سے نہ صرف ٹرینوں کی رفتار اور وقت کی پابندی میں بہتری آئے گی بلکہ مال برداری اور مسافر ٹریفک دونوں میں اضافہ ہوگا۔
وزیر ریلوے نے یقین دہانی کرائی کہ رواں مالی سال کے دوران وزیر اعظم کے ویژن کے مطابق ریلوے کے تمام مقررہ اہداف مکمل کیے جائیں گے جبکہ 31 دسمبر 2026 تک ادارے کی کارکردگی اور ڈھانچے سے متعلق تمام بڑے منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچا دیے جائیں گے، موجودہ ترقیاتی رفتار برقرار رہی تو پاکستان ریلوے نہ صرف اپنی آمدنی میں مزید اضافہ کرے گا بلکہ قومی معیشت میں بھی بڑا کردار ادا کرے گا۔