دھرتی ماں اور بے ہمت لوگ
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
یہ فتویٰ ہمارا نہیں ہم تو عامی امی آدمی ہیں نہ تین میں ہمارا شمار ہوتا ہے نہ تیرہ میں۔اور پھر ایسے نازک معاملات میں تو کچھ بھی کہنے سننے یا لکھنے پڑھنے کی ہمت اپنے اندر نہیں پاتے۔بلکہ یہ فتویٰ جس بھاری بھرکم شخصیت نے صادر فرمایا ہے ان کا نام نامی و اسم گرامی ہے حضرت ڈاکٹر پروفیسر انجینئر بیرسٹر علامہ بریانی عرف برڈ فلو ۔ان کی شخصیت کا اندازہ ان کی ڈگریوں کے علاوہ ان کے ڈیروں اور تعلیمی اداروں سے لگایا جا سکتا ہے جو میرے گاؤں میں ہیں جن کے وہ خود سب کچھ ہیں لیکن آس پاس کے دیہات میں بھی ان کی ’’فروغ‘‘ قائم ہیں بلکہ اب تو انھوں نے ان میں ’’للبنات‘‘ کا اضافہ کردیا ہے۔
ان کے فرزندوں میں سے ایک تو ٹھیکیدار ہے،دوسرا مینجر ہے، تیسرا پولیس میں خدمات سرانجام دے رہا ہے اور چوتھا وکیل ہے پانچواں ابھی ایک انگلش میڈیم کالج میں زیر تعلیم بلکہ زیر تعمیر ہے، لیکن ان کے انگریزی اسکولوں اور کالجوں کا ایک چین بنا ہے۔جناب علامہ بریانی کو دم چف اور تعویذات و عملیات میں بھی خاصی شہرت حاصل ہے خاص طور پر جنات بھگانے میں تو ان کو یدطولیٰ حاصل ہے۔
اس فتوے کا پس منظر یوں ہے کہ ہم کافی عرصے سے حیران وپریشان تھے بلکہ خامہ انگشت بدنداں اور ناطقہ سربگریباں تھے کہ آخر یہ جو ہمارا پیارا وطن عزیز ہے جو اسلام کے نام پر بنا ہے، اسلام کے جان لیواؤں نے بنایا ہے، اسلام کے لیے بنایا ہے اس کا مرکز بھی اسلام آباد ہے، اسلامی آبادی بھی ہے، اس کے دائیں بائیں آگے پیچھے اوپر نیچے اسلام ہی اسلام ہے۔
ہر شخص کی زبان پر بھی اسلام ہے کانوں میں بھی اسلام ہی اسلام گونج رہا ہے۔ جسے دیکھو دین ہی دین ایمان ہی ایمان کی باتیں کررہا ہے، دوسرے کو راہ راست پر لانے کے لیے تلقین کررہا ہے۔ہزاروں لاوڈاسپیکر مشغول ہیں، قدم قدم پر مخیر تنظمیں اور شخصیات بھی مصروف ہیں، نیک رہنما بھی زندگی دین کے لیے وقف کرچکے ہیں اوراوپر سے دینی سیاسی پارٹیاں اور ان کے دیندار رہبر و رہنما
نام ہونٹوں پہ ترا آئے تو راحت سے ملے
تو دلاسہ ہے تسلی ہے دعا ہے کیا ہے
مطلب یہ کہ ہر طرف ہر جگہ یہاں تک کہ ہواؤں میں فضاؤں میں بھی نیکیاں ہی نیکیاں رچی بسی ہیں بلکہ اب تو ’’للبنات‘‘ کا سلسلہ بھی اچھا خاصا چل نکلا ہے۔ اندازہ اس سے لگائیں کہ چند روز پہلے ہمارے گھر کچھ خواتین مبلغات تشریف لائیں ،انھوں نے خواتین کو تبلیغ کی اور خاص خاص کام کے لیے وظائف بتائے۔پھر ان کا خیال ہمارے گھر کے چولہے کی طرف گیا کہ یہ چولہا غلط ہے۔
اس کا رُخ غلط ہے اور اس میں آگ جلتی ہے، فوراً اسے توڑ کر دوسرا چولہا بناؤ جس کا رُخ دوسری طرف ہو۔اور یہ تو آپ نے دیکھ لیا ہوگا کہ امام صاحب کے پاس مائک ہوتا ہے ، مقصد یہ ہے کہ جو لوگ مسجد میں جگہ نہ ہونے کی وجہ سے دور ہیں وہ بھی جہاں ہیں وہاں نماز پڑھ سکیں یا فضا میں آلودگی کے سبب سے آواز دور تک صاف صاف نہیں پہنچ رہی ہو تو پہنچ جائے۔مطلب یہ ہر ہر کوچے میں دین ہی دین اور لنگرخانے چل رہے ہیں، چندے کا دھندہ زوروں سے چل رہا ہے لیکن دوسری طرف دیکھیے تو سرکاری اداروں میں مال حرام کے دریا چشمے نہریں اور ندی نالے بھی ٹھاٹھیں مار رہے ہیں۔
مطلب یہ کہ ایک طرف عبادات ہی عبادات ہیں تو دوسری طرف دیکھیے تو حلال وحرام کا تو سوال ہی بیچ میں سے نکل گیا ہے بس کمائی ہو، جیسا کہ غالب نے آموں کے بارے میں کہا ہے کہ میٹھے ہوں اور بہت ہوں یا بعض قبیلوں کا عورتوں کے بارے میں خیال ہے کہ عورتیں ہوں اور بہت ہو۔ہر وہ کمائی حلال ہے جو حاصل کی جاسکتی ہے البتہ وہ حرام ہے جو رسائی سے باہر ہو یا دوسرے کرتے ہوں۔ علامہ اقبال نے ایک چیز’’تاویل‘‘ کے بارے میں بتایا ہے
تاویل سے قرآں کو بنادیتے پازند
اس تاویل سے کچھ بھی حلال کیا جاسکتا ہے اور کچھ حرام بنایا جاسکتا ہے۔یہ مسئلہ ہمیں پریشان کیے ہوئے تھا پھر ہمیں کسی نے پروفیسر ڈاکٹر بیرسٹر انجینئر عامل کامل حضرت علامہ بریانی کے بارے میں بتایا کہ ان کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود ہے جو مسائل اس وقت دنیا کو لاحق ہیں ان کا بھی اور جو موجود نہیں ان کا بھی۔البتہ بتانے والے نے بتایا کہ اپنے ساتھ بریانی لے جانا مت بھولیے اور یہ بات بالکل سچ نکلی ہم نے جب دروازے کا ایک پٹ کھول کرکہا کہ میں آؤں یعنی اجازت ہے تو ان کے چہرے پر سخت بدمزگی ناگواری پھیل گئی۔
اس وقت ہمارا دوسرا ہاتھ جو اوٹ میں تھا اور جس میں بریانی تھی اور جب ہم نے وہ ہاتھ بھی باہر نکالا تو علامہ بریانی کا چہرہ مبارک ایک دم گل وگلزار اور باغ وبہار ہوگیا اور ہونٹوں سے اہلاً سہلاً مرحبا کے پھول نکلنے لگے۔
خیر جب ہم نے اپنا مسئلہ بیان کیا کہ ایک طرف اتنی زیادہ نیکیاںاور دنیاوی معاملات میں ذرہ بھر بھی نیکی نہیں ۔تو مسکرائے اور بولے لگتا ہے تم پرلے درجے کے جاہل، بے خبر اور عامی امی ہو۔مجھے بتاو ماں کا دودھ حلال ہوتا ہے یا حرام؟ عرض کیا حلال بلکہ اس کی مثالیں دی جاتی ہیں جیسے فلاں اتنی ایمانداری سے کام کرتا ہے کہ اس کی تنخواہ ماں کا دودھ ہے، فلاں اتنی محنت کرتا ہے کہ اس کی کمائی ماں کا دودھ ہے۔تو یہ دھرتی کیا ہے یہ بھی تو ماں ہے اور اس کی پیداوار اس کے وسائل اس کی جمع پونجی ہر چیز اس کا دودھ ہے اور جو لوگ اسے پی رہے ہیں ان کے لیے ماں کا دودھ ہے۔اب یہ الگ بات ہے کہ باہمت بچے بڑھ کر ماں کا دودھ پی رہے ہیں اور بے ہمت نکمے نکھٹو اپنا انگوٹھا چوس رہے ہیں ۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: علامہ بریانی کے بارے میں ماں کا دودھ کا دودھ ہے رہے ہیں میں بھی کے لیے ہے اور
پڑھیں:
پاکستان ریلوے کی آمدنی: روزانہ 300 ملین روپے وصولی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وفاقی وزیر ریلوے محمد حنیف عباسی نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان ریلوے نے تاریخی مالی سنگِ میل عبور کرتے ہوئے گزشتہ 15 دنوں کے دوران روزانہ 300 ملین روپے کی آمدنی حاصل کی، جو گزشتہ تین دہائیوں میں کسی بھی دور میں ہونے والی یومیہ آمدن سے کہیں زیادہ ہے، یہ کارکردگی حالیہ مہینوں میں کیے گئے اصلاحاتی اقدامات کا براہِ راست نتیجہ ہے۔
اپنے ویڈیو پیغام میں حنیف عباسی کا کہنا تھا کہ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران ریلوے میں جامع اصلاحات متعارف کرائی گئیں جن کے تحت نہ صرف انتظامی ڈھانچہ بہتر ہوا بلکہ مسافر اور فریٹ دونوں شعبوں میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا، ریلوے میں جدید طرزِ حکمرانی، مالی نظم و ضبط اور تکنیکی بہتری لانے سے مجموعی آمدن میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، جو اب مسلسل نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔
https://jasarat.com/wp-content/uploads/2025/12/RailwaysMinister.mp4وزیر ریلوے کے مطابق ادارے کی جدیدکاری کے تحت پورے پاکستان میں ریلوے سسٹم کو ڈیجیٹائز کر دیا گیا ہے، جس سے شفافیت، بکنگ سہولت اور آپریشنل کنٹرول میں تاریخی بہتری آئی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ یہ اقدامات ثابت کر رہے ہیں کہ پاکستان ریلوے اب بحالی نہیں بلکہ مستقل ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
حنیف عباسی نے مزید بتایا کہ اسٹیشنوں کی اپ گریڈیشن کے بعد اب توجہ ریلوے ٹریکس کی بہتری پر مرکوز ہے، نوکنڈی سے روہڑی اور روہڑی سے کراچی تک ٹریک کی اپ گریڈیشن کے معاہدے مکمل ہو چکے ہیں اور جلد تعمیر و بحالی کا کام شروع کر دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ٹریک کی بہتری سے نہ صرف ٹرینوں کی رفتار اور وقت کی پابندی میں بہتری آئے گی بلکہ مال برداری اور مسافر ٹریفک دونوں میں اضافہ ہوگا۔
وزیر ریلوے نے یقین دہانی کرائی کہ رواں مالی سال کے دوران وزیر اعظم کے ویژن کے مطابق ریلوے کے تمام مقررہ اہداف مکمل کیے جائیں گے جبکہ 31 دسمبر 2026 تک ادارے کی کارکردگی اور ڈھانچے سے متعلق تمام بڑے منصوبے پایۂ تکمیل تک پہنچا دیے جائیں گے، موجودہ ترقیاتی رفتار برقرار رہی تو پاکستان ریلوے نہ صرف اپنی آمدنی میں مزید اضافہ کرے گا بلکہ قومی معیشت میں بھی بڑا کردار ادا کرے گا۔