data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251208-03-3
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز کو حکم دیا ہے کہ شادیوں، فارم ہائوسز اور کھلی فضا میں ہونے والی تقریبات میں ون ڈش کی خلاف ورزی اور بلند آواز میوزک کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ ساتھ ہی، مقررہ اوقات کار کے اندر تقریبات ختم کروانے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔ یہ فیصلے اگر صرف کاغذ پر نہ رہیں بلکہ عملی طور پر پورے صوبے میں سختی سے لاگو کیے جائیں تو بے شمار سماجی اور معاشرتی فوائد سامنے آ سکتے ہیں۔ اصل مسئلہ عمل درامد کا ہے، ورنہ فیصلے تو پچھلے بیس سال سے بار بار ہورہے ہیں۔ ہر حکومت یہی اعلان کرتی آئی ہے کہ شور کم کرو، رسم و رواج میں سادگی لاؤ، فضول خرچی مت کرو۔ مگر جب ضلعی انتظامیہ خود ان احکامات کو سنجیدگی سے نہ لے، تو عوام کہاں سے عمل کریں گے۔ صوبے میں یکساں سختی کے ساتھ اس پالیسی پر عمل درامد کیا جائے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ون ڈش پالیسی صرف فضول خرچی روکنے کے لیے نہیں، بلکہ غربت زدہ معاشرے میں سماجی دباؤ کم کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔ ایک گھر پانچ ڈشیں رکھے گا تو دوسرے گھر کو بھی مجبوراً اس کی تقلید کرنا پڑتی ہے۔ یہی معاشرتی دوڑ ہمارے اندر احساسِ کمتری، مقابلہ بازی اور غیر ضروری اخراجات کو جنم دیتی ہے۔ اگر ون ڈش پالیسی مستقل مزاجی سے لاگو رہے تو یہ رواج آہستہ آہستہ ختم ہوجائے گا اور لوگوں کا بوجھ کم ہوگا۔ اسی طرح لائوڈ اسپیکر اور میوزک کے بے قابو استعمال پر پابندی تو بنیادی سماجی ضرورت ہے۔ ہمارے تقاریب میں آواز کی حد نام کی کوئی چیز نہیں رہتی۔ رات دو بجے گلیاں لرز رہی ہوتی ہیں اور صبح اسکول و دفاتر جانے والے لوگ نیند پوری نہ ہونے پر اذیت میں ہوتے ہیں۔ شور صرف پریشانی نہیں، بلکہ صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ یہ پابندی صرف پنجاب تک محدود رہنے کے بجائے ایک ملک گیر اصول بننی چاہیے۔ دیگر صوبوں کو بھی اسی مستقل مزاجی کے ساتھ یہ پالیسی اپنانی چاہیے۔ یہ قدم خوش آئند ہے، مگر اصل امتحان اب شروع ہوتا ہے۔ اگر انتظامیہ مستقل مزاجی کے ساتھ یہ اقدامات جاری رکھے، تو پنجاب میں ایک صحت مند، منظم اور نسبتاً پرسکون معاشرتی کلچر فروغ پا سکتا ہے۔ اور اگر باقی صوبے بھی یہی راستہ اختیار کر لیں تو شاید شور، فضول خرچی اور رات گئے تک چلنے والی تقریبات کا ناپسندیدہ کلچر رفتہ رفتہ ختم ہو جائے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
صحافت پر قدغن؟ نیویارک ٹائمز نے پینٹاگون کے خلاف تاریخی مقدمہ دائر کر دیا
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے پینٹاگون کی نئی میڈیا پالیسی کو چیلنج کرتے ہوئے اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
اخبار نے موقف اختیار کیا ہے کہ پینٹاگون کی پابندیاں آئین کی پہلی ترمیم کی خلاف ورزی ہیں اور صحافتی آزادی کو براہِ راست متاثر کرتی ہیں۔
گزشتہ ماہ اے ایف پی، اے پی، فاکس نیوز اور نیویارک ٹائمز سمیت کئی امریکی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں نے پینٹاگون کی نئی پالیسی پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا، جس کے نتیجے میں ان کی پینٹاگون تک رسائی کی پریس کریڈینشلز منسوخ کردی گئی تھیں۔
نیویارک ٹائمز کی جانب سے دائر کردہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ نئی پالیسی صحافیوں کے اس بنیادی حق کو محدود کرتی ہے کہ وہ حکومتی اہلکاروں سے سوال کرسکیں اور خود معلومات اکٹھی کرکے رپورٹنگ کرسکیں، بجائے اس کے کہ صرف سرکاری بیانات پر انحصار کریں۔
درخواست کے مطابق اگر کوئی صحافی بغیر پینٹاگون کی منظوری کے معلومات شائع کرے، تو حکام کسی بھی وقت اس کا بیج معطل یا منسوخ کرسکتے ہیں، جو کہ بغیر واضح معیار کے مکمل اختیارات کا استعمال ہے۔