Daily Mumtaz:
2025-12-06@14:39:20 GMT

فیفا ورلڈ کپ 2026 کے ڈراز کا اعلان

اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT

فیفا ورلڈ کپ 2026 کے ڈراز کا اعلان

اسلام آباد(صغیر چوہدری )فیفا ورلڈ کپ 2026 کے ڈراز کا اعلان کردیا گیا کل 48 ٹیمیں ورلڈ کپ میں شرکت کریں گی ۔ 48 ٹیموں کے 12 گروپس تشکیل دئیے گئے ہیں، ہر گروپ میں 4 ٹیمیں شامل ہیں 12 گروپس بلترتیب اے سے ایل تک ہوں گے
فیفا ورلڈکپ 2026 کا پہلا میچ میکسیکو اور جنوبی افریقا کے درمیان 11 جون کو ہوگا، میگا ایونٹ کے دوران ٹیمیں 104 میچز کھیلیں گی۔
موسیقی کے ساتھ فیفا ورلڈکپ کے ڈراز کی تقریب کی شروعات ہوئی، امریکی معروف بینڈ نے بھی پرفارمنس دے کر شرکا کو محظوظ کیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ صدر سمیت کینیڈین اور میکسیکن وزیر اعظم نے بھی تقریب میں شرکت کی۔ میزبان میکسیکو ، کینیڈا اور امریکا کو الگ الگ گروپس میں شامل کیا گیا ہے۔فیفا ڈراز میں نئے قوانین بھی متعارف کروائےگئے ہیں، ایک گروپ میں ایک ہی افریقین اور ایشین ٹیم شامل ہوسکتی ہے جب کہ دنیا کی ٹاپ چار ٹیمیں ارجنٹینا، فرانس، اسپین اور انگلینڈ سیمی فائنل سے پہلے کسی گروپ میں آمنے سامنے نہیں ہوں گی۔فیفا ورلڈکپ کے میچز 11 جون 2026 سے 19 جولائی تک کھیلے جائیں گے۔
دوسری جانب ایک محتاط اندازے کے مطابق 50 لاکھ سے زائد شائقین گراؤنڈز میں میچ سے لطف اندوز ہونگے جبکہ فیفا 2026 کی ٹکٹس ایڈوانس میں فروخت ہونا،شروع ہوگئی ہیں ابتک 10 لاکھ سے زائد ٹکٹس فروخت ہوچکے ہیں ۔ دوسری جانب امریکہ میں ویزوں کے حوالے سے کچھ دنوں سے سخت پالیسی اپنائی جارہی ہے جس سے دیگر ممالک سے امریکہ میچز کی غرض سے آنے والے شائقین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا،اور انہیں اب سخت امیگریشن پالیسی سے گزرنا پڑے گا واضح رہے کہ امیگریشن میں سخت پالیسی وائٹ ہاوس میں نیشنل گارڈز پر حملے کے بعد سامنے آئی ہے بہت سے ممالک پر امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کردی گئی ہے جبکہ تیسرے درجے کے متعدد ممالک کو انڈر آبزرویشن رکھا گیا ہے ۔ جبکہ افغانستان کے تمام شہریوں پر امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد کی۔گئی ہے ماہرین کا کہنا ہے کہ سخت امیگریشن پالیسی فیفا ورلڈ کپ 2026 کو متاثر کرسکتی ہے

.

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: فیفا ورلڈ ورلڈ کپ

پڑھیں:

روس امریکہ رسہ کشی اور ڈوبتی نیٹو

اسلام ٹائمز: امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کا بغیر کسی مناسب وجہ کے نیٹو وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت سے انکار کرنا ایک غیرمعمولی مگر بامعنی قدم سمجھا جا رہا ہے۔ نیٹو ماہرین کے مطابق اس سے پہلے امریکہ کے کسی وزیرِ خارجہ نے ایسا نہیں کیا۔ یہ بھی واضح نہیں کہ روبیو خود نہیں جانا چاہتے تھے یا انہیں جانے کی اجازت نہیں دی گئی، خاص طور پر اس لیے کہ وہ ٹرمپ کے چند قریبی ساتھیوں میں سے ہیں جو اب بھی نیٹو کی کھل کر حمایت کرتے ہیں۔ روبیو کی غیرحاضری ایک طاقتور سیاسی اشارہ ہے اور نیٹو کے لیے خوش آئند نہیں۔  خصوصی رپورٹ:

عالمی سطح پر طاقت ور ترین فورس نیٹو ان دنوں روس اور امریکہ کے درمیان یوکرین کے مسئلے پر ہونے والی مذاکراتی کشمکش میں بری طرح الجھا ہوا ہے اور اپنی تاثیر اور ساکھ برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہے۔ سوئس میڈیا اس آر ایف نے ایک رپورٹ میں مغربی فوجی اتحاد نیٹو کو روس اور امریکہ کے درمیان یوکرین کے معاملے پر پھنسے ہوئے ایک مخمصے کی صورت میں بیان کیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ اتحاد اس وقت بے شمار چیلنجوں کا سامنا کر رہا ہے۔ مغرب کے بقول روس امن فارمولا قبول کرنے سے انکاری ہے اور یوکرین غیرمعمولی دباؤ میں ہے۔ اس کے باوجود، نیٹو کے وزرائے خارجہ کے اجلاس نے ان دونوں مسائل پر محض کھوکھلے وعدے پیش کیے اور کوئی ٹھوس عملی اقدام تک تجویز نہ کیا۔

نیٹو کو کبھی بھی ہالینڈ کے مارک روٹے جیسا خوش گفتار اور نرم خو سیکرٹری جنرل نہیں ملا۔ وہ جانتے ہیں کہ کس طرح ایسے وقت میں بھی امید کی تصویر پیش کی جائے جب اس مغربی اتحاد پر تاریک بادل منڈلا رہے ہوں — جیسا کہ آج کل ہے۔ ان کا بنیادی پیغام، اجلاس سے پہلے، اجلاس کے دوران اور بعد تک، بس یہی رہا کہ ’’سب کچھ ٹھیک ہے، یا کم از کم ٹھیک ہو جائے گا‘‘۔ روٹے نے زور دے کر کہا کہ روس کا مقابلہ کیا جائے گا، یوکرین کو مسلسل اور اس سے بھی زیادہ مضبوط حمایت ملے گی، اور جون میں ہونے والی نیٹو سربراہ کانفرنس میں دفاعی اخراجات سے متعلق فیصلوں کی بدولت اتحاد پہلے سے زیادہ مضبوط ہو رہا ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے رکن ممالک میں باہمی اتفاقِ رائے کی بھی بات کی۔

تاہم یہ بیانات حقیقت سے منقطع دکھائی دیتے ہیں۔ اگرچہ کچھ وزرائے خارجہ نے مختلف درجات کے جوش کے ساتھ روٹے کی حمایت کی، لیکن مجموعی طور پر ان کا جائزہ حالات کا صرف انتخابی اور محدود عکس پیش کرتا ہے۔ نیٹو ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ وہ متحد نظر آئے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب اس کی کمزوری نمایاں ہو۔ کیونکہ بظاہر نظر آنے والی یکجہتی کے بغیر، اس اتحاد کی عسکری طاقت کے باوجود اس کی بازدار صلاحیت زیادہ موثر نہیں رہتی، اور ظاہر ہے کہ ماسکو بھی اس حقیقت سے آگاہ ہے۔ اگر موجودہ صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو نیٹو کے تمام اراکین کئی کمزوریوں کا شکار نظر آتے ہیں۔

آج تک روس کی بڑھتی ہوئی ہائبرڈ جارحانہ حکمت عملی کہ جس میں تخریبی کارروائیاں، غلط معلومات کی تشہیر، سائبر حملے اور ڈرون اشتعال انگیزیاں شامل ہیں، ان کا کوئی جواب سامنے نہیں آیا۔ مزید یہ کہ یہ بنیادی سوال بھی اب تک جواب طلب ہے کہ اگر روس کسی نیٹو رکن ملک پر حملہ کرے تو کیا اس کا فیصلہ کن جواب دیا جا سکے گا اور اہم بات یہ کہ کیا واقعی ایسا کیا جائے گا؟۔ ایک اور کمزوری یہ ہے کہ اگرچہ یوکرین کو مدد مل رہی ہے، مگر یہ امداد میدان جنگ میں حالات تبدیل کرنے کے لیے ناکافی ہے، جہاں روس مسلسل پیش قدمی کر رہا ہے۔ نیٹو نے ابھی تک اس اہم سوال کا بھی کوئی قابلِ اعتماد جواب نہیں دیا کہ جنگ کے خاتمے کی صورت میں مغرب یوکرین کو کون سی مستند سیکیورٹی ضمانتیں فراہم کرے گا۔

اس کے علاوہ، ڈونلڈ ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس واپسی کے بعد اتحاد اپنے سب سے اہم اور سب سے بااثر رکن، یعنی امریکہ کو کھونے کے قریب ہے۔ یورپی اراکین اب واشنگٹن پر مکمل بھروسہ نہیں کر سکتے۔ کبھی اجتماعی دفاع کا اصول مشروط کر دیا جاتا ہے، اور کبھی یورپی ممالک پر دفاعی بجٹ دگنا کرنے کا دباؤ ڈالا جاتا ہے، جس کا بنیادی فائدہ امریکی اسلحہ ساز صنعت کو پہنچتا ہے۔ یوکرین جنگ کے معاملے میں ٹرمپ انتظامیہ خود کو نیٹو کا حصہ نہیں بلکہ روس اور نیٹو کے درمیان ایک ثالث کے طور پر پیش کر رہی ہے۔ ان حالات میں امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو کا بغیر کسی مناسب وجہ کے نیٹو وزرائے خارجہ اجلاس میں شرکت سے انکار کرنا ایک غیرمعمولی مگر بامعنی قدم سمجھا جا رہا ہے۔

نیٹو ماہرین کے مطابق اس سے پہلے امریکہ کے کسی وزیرِ خارجہ نے ایسا نہیں کیا۔ یہ بھی واضح نہیں کہ روبیو خود نہیں جانا چاہتے تھے یا انہیں جانے کی اجازت نہیں دی گئی، خاص طور پر اس لیے کہ وہ ٹرمپ کے چند قریبی ساتھیوں میں سے ہیں جو اب بھی نیٹو کی کھل کر حمایت کرتے ہیں۔ روبیو کی غیرحاضری ایک طاقتور سیاسی اشارہ ہے اور نیٹو کے لیے خوش آئند نہیں۔ آخر میں، اگرچہ نیٹو کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے کا پرامید ہونا ان کی ذمہ داریوں کا حصہ ہے، مگر موجودہ حالات میں اس خوش بینی کو اعتبار حاصل نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • فیفا ورلڈ کپ 2026 کے ڈراز جاری: 48 ٹیموں کی معرکہ آرائی کا عالمی میلہ سجنے کو تیار
  • فٹبال ورلڈ کپ کا دھماکے دار آغاز کب اور کن ٹیموں کے درمیان ہوگا؟ تاریخیں طے ہوگئیں
  • فیفا ورلڈ کپ ڈراز کا اعلان، 48 ٹیمیں 12 گروپس میں تقسیم
  • فیفا ورلڈ کپ 2026 کا اعلان کردیا گیا
  • میچز دیکھنے ضرور آؤں گا، کیا میسی نے فیفا ورلڈکپ نہ کھیلنے کا فیصلہ کرلیا؟
  • اسرائیل کی شمولیت پر اعتراض، چار یورپی ممالک نے یورو وژن 2026 کا بائیکاٹ کردیا
  • ٹرمپ کی متنازع پالیسیوں سے فیفا ورلڈ کپ 2026 کی میزبانی مشکل میں پڑ گئی
  • روس امریکہ رسہ کشی اور ڈوبتی نیٹو
  • فیفا ویمنز یورو چیمپیئن شپ 2029 کی میزبابی جرمنی کو مل گئی، حتمی اعلان