کراچی (این این آئی) گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری نے سندھ کلچر ڈے کے موقع پر گورنر ہاؤس میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سندھ ہر قوم، ہر تہذیب اور ہر ثقافت کو اپنے دامن میں جگہ دینے والی دھرتی ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جہاں لعل شہباز قلندر، سچل سرمست اور شاہ عبداللطیف بھٹائی نے امن، محبت اور رواداری کا درس دیا۔ گورنر سندھ نے کہا کہ محمد بن قاسم کی آمد نے سندھ کو بابل اسلام بنایا اور اس خطے میں اسلام کی روشنی پھیلائی۔ انہوں نے موئن جو دڑو کو سندھ کی قدیم اور شاندار تہذیب کی زندہ مثال قرار دیا۔ گورنر کامران خان ٹیسوری نے پوری قوم کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کی اور کہا: "سندھ جئے، سندھ وارا جیٔن!" انہوں نے اس دن کو سندھ کی محبت، ثقافت اور تہذیب کے عظیم جشن کے طور پر بیان کیا۔  گورنر سندھ نے ملکی صورتحال پر بھی بات کرتے ہوئے کہا کہ ایمان کا تعلق یقین سے ہے اور ہر حال میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے 10 مئی کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے پانچ گنا طاقتور ملک کو شکست دی، ہم ایک فاتح قوم ہیں۔ انہوں نے وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کی معاشی استحکام کی کوششوں کو سراہا اور کہا کہ پاکستان اب ترقی کی اڑان بھر چکا ہے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ

پڑھیں:

چند ننھی منی سوچ بدل دینے والی کہانیاں

علامہ رحمت اللہ ارشد بہاولپور کے معروف سیاستدان، دانشور گزرے ہیں۔ یہ ستر کے عشرے میں پنجاب اسمبلی کے قائد حزب اختلاف رہے ہیں۔ وہ اسمبلی اجلاس کے دنوں میں لاہور آ کر رہا کرتے اور اپنے علاقے کے نوجوان صحافیوں کے ساتھ خصوصی شفقت فرماتے۔ مجھے سینیئر صحافی، کالم نگار، اینکر سید ارشاد احمد عارف صاحب نے رحمت اللہ ارشد کا ایک واقعہ سنایا۔ بات ایسی تھی جو دل میں نقش ہوگئی، کسی حد تک اس پر عمل کرنے کی بھی کوشش کی۔

ارشاد عارف صاحب کہتے ہیں کہ پنجاب اسمبلی کا اجلاس چل رہا تھا، ہم دو تین نوجوان صحافی علامہ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے چائے منگوا لی، گپ شپ ہوتی رہی۔ پھر رحمت اللہ ارشد کہنے لگے، ’آپ نوجوان ہیں، ابھی عملی زندگی کا طویل عرصہ طے کرنا ہے۔ دو باتوں کا خاص طور پر دھیان کرنا۔ ایک تو کسی محفل میں جا کر سب سے آگے کی نشست پر بیٹھنے کی کوشش کبھی نہ کرنا۔ پیچھے یا درمیان میں کسی مناسب جگہ ڈھونڈ کر بیٹھنا۔ محفل جلد آپ کو آپ کا مناسب حصہ یا حق دے دیتی ہے۔ اگر آپ آگے آنے کے قابل ہوں گے تو آپ کو میزبان یا کوئی نہ کوئی سینیئر، بزرگ آگے آنے کا کہہ دے گا، تب یہ عزت افزائی ہوگی۔ ورنہ اس کے قوی امکانات ہیں کہ آگے بیٹھنے پر آپ کو اٹھا کر پیچھے بھیج دیا جائے، اس میں آپ کی بے عزتی اور بے توقیری کا پہلو ہوگا۔‘

علامہ رحمت اللہ ارشد پھر کہنے لگے، ’دوسری یہ بات یاد رکھیں کہ کہیں بھی جائیں، دوسرا آپ کا سرتاپا جائزہ لیتا ہے، یہ انسانی نفسیات ہے کہ سر اور پیر کو بغور دیکھا جاتا ہے۔ اس لیے اگر سر پر کوئی ٹوپی، پگڑی وغیرہ پہنی ہے (جیسا کہ تب عام رواج تھا) تو اسے صاف ستھرا، خوبصورت اور بے شکن ہونا چاہیے۔ اگر سر پر ٹوپی نہیں تو بال قرینے سے ترشے ہوئے کنگھی شدہ ہونے چاہییں۔ بکھرے، بڑے، بے ہنگم بال بہت منفی تاثر بناتے ہیں۔ اسی طرح جوتا بھی کوشش کی جائے کہ اچھا اور دیدہ زیب ہو۔ اگر نیا جوتا افورڈ نہیں کر سکتے تو کم از کم اسے صاف ستھرا، پالش شدہ ضرور ہونا چاہیے، اس سے بہت اچھا امپریشن پڑتا ہے۔‘

ارشاد عارف صاحب نے برسوں پہلے یہ واقعہ سنایا، سن کر بہت اچھا لگا اور سوچتا رہا کہ کیسے ہمارے پرانے بزرگ نوجوانوں کی تربیت کا طریقہ ڈھونڈا کرتے تھے۔ وہ اپنی زندگی کے تجربات کا نچوڑ اگلی نسل کو منتقل کر دیتے، بے شک ان کا کوئی ذاتی یا خاندانی تعلق نہ بھی ہو۔

اگلے روز ایک خوبصورت حکایت پڑھی، اس میں بھی آگے آنے کے بجائے پیچھے بیٹھنے کی بات کی گئی، مگر ایک بالکل ہی مختلف زاویے سے۔ حکایت کہتی ہے :

ایک آدمی ہر محفل میں آخری صف میں بیٹھتا تھا۔

پوچھا گیا کیوں؟

کہا، ’وہاں وقت آہستہ گزرتا ہے، کوئی جلدی نہیں کرتا۔‘

نتیجہ: ہم پہلی صف کے چکر میں اتنے بھاگتے ہیں کہ زندگی کے اصل مناظر پیچھے رہ جاتے ہیں۔

انٹرنیٹ نے ہم کتابوں کے متلاشی لوگوں کے لیے بہت آسانیاں پیدا کر دی ہیں۔ بہت سی ویب سائٹس ہیں جہاں پر مفت مواد میسر ہوجاتا ہے۔ کئی واٹس ایپ یا فیس بک گروپس بھی ہیں جہاں سے پرانی، آؤٹ آف پرنٹ کتابوں کی ای بکس مل جاتی ہیں۔ آج کل میں ایسی کتابوں کی تلاش میں رہتا ہوں۔ چند روز قبل نیٹ پر حکایات کا ایک خزانہ ملا۔ مختلف زبانوں، تہذیبوں کی حکایات کے حوالے سے تین چار کتابیں ڈاؤن لوڈ کی ہیں، انہیں پڑھنا کسی شاندار ضیافت سے کم نہیں، چند لفظوں یا تین چار سطروں میں کیسی کمال کی باتیں کہہ دی گئیں۔

اپنے قارئین کے لیے ان میں سے چند حکایات پیش کررہا ہوں۔ ویسے بھی اتوار کو آنے والے کالم میں ہلکا پھلکا مواد ہی سجتا ہے۔ ان کی خوبی اختصار ہے۔ البتہ ہر ایک کے ساتھ ایک اخلاقی سبق جڑا ہوا ہے۔ اسکول کے زمانے میں ہم کہانیاں یاد کرتے کہ اردو، انگریزی دونوں کے پیپرز میں اسٹوری لازمی ہوتی۔ ہر کہانی کا ایک اخلاقی انجام یا مورل ضرور ہوتا۔ تو یہ مورل آف اسٹوری اس بار بھی نتھی ہے، اسے برداشت کیجیے گا۔

نمک اور پانی

استاد نے شاگرد سے کہا۔

’یہ نمک پیالے میں ڈالو اور پیو۔‘

پانی کڑوا ہوگیا۔

پھر نمک جھیل میں ڈال دیا۔

پانی ویسا ہی رہا۔

نتیجہ: نمک وہی، فرق ظرف کا تھا۔

بحث

دو لوگ ایک ہی بات پر لڑ رہے تھے۔

تیسرے نے کچھ نہ کہا اور چلا گیا۔

لوگوں نے پوچھا: ’ہار مان لی؟‘

کہا: ’وقت بچا لیا۔‘

نتیجہ: ہر جنگ جیتنے کے لیے نہیں ہوتی، کچھ صرف یہ دکھانے کے لیے ہوتی ہیں کہ ہمیں کتنی عقل آئی ہے۔

کنواں

ایک شخص کنویں میں گر گیا۔

اوپر والوں نے خوب نصیحت کی۔

ایک نے رسی پھینکی، سب خاموش ہو گئے۔

نتیجہ: زندگی میں اصل فرق بات سمجھانے سے نہیں، ہاتھ بڑھانے سے پڑتا ہے۔

وزن

شاگرد نے کہا: ’زندگی بہت بھاری ہے۔‘

استاد بولا: ’تم نے ہر بات اٹھا لی ہے، چھوڑنا بھی سیکھو۔‘

قرض

ایک شخص کہا: ’میں سب کا احسان مند ہوں۔‘

بزرگ نے کہا: ’تبھی تو آزاد نہیں ہو۔‘

نتیجہ: احسان کا توازن بگڑ جائے تو رشتہ بوجھ بن جاتا ہے۔

ٹوٹا گلدان

ایک گلدان ٹوٹ گیا۔

مالک نے کہا: ’ضائع ہوگیا۔‘

بیٹی نے اس میں پودا لگا دیا۔

نتیجہ: جو خالی ہوتا ہے، وہی کسی کام آتا ہے۔

وقت کی قیمت

تاجر نے کہا: ’وقت پیسہ ہے۔‘

فقیر بولا: ’نہیں، وقت زندگی ہے، پیسہ بس بہانہ۔‘

سچ یہی ہے کہ پیسہ ختم ہو تو کاروبار، وقت ختم ہو تو سب۔

سستا مشورہ

ایک شخص نے بزرگ سے نصیحت مانگی۔

بزرگ نے کہا: ’کم بول۔‘

وہ خفا ہو گیا: ’بس اتنا؟‘

بزرگ مسکرایا: ’اسی لیے سستا ہے، کوئی لیتا نہیں۔‘

چراگاہ

چرواہے سے پوچھا گیا:

’یہ بھیڑیں ہر طرف کیوں پھیلی ہیں؟‘

کہا: ’کیونکہ گھاس یہاں قید نہیں۔‘

نیتجہ: ذہن بھی تب بڑھتا ہے جب خوف سے آزاد ہو۔

سچ

استاد نے شاگرد سے پوچھا:

’روز موبائل کئی گھنٹے دیکھتے ہو، آئینہ کیوں نہیں؟‘

شاگرد بولا: ’آئینہ سچ دکھاتا ہے۔‘

نتیجہ: یہی وجہ ہے کہ ہم زیادہ تر اسکرینیں دیکھتے ہیں، خود کو نہیں۔

دو بلیاں، ایک پیالہ دودھ

دو بلیاں دودھ کے برتن پر لڑ رہی تھیں۔

بزرگ نے دونوں کو بھگا دیا اور دودھ پر ریت ڈال دی۔

لوگوں نے کہا: ’یہ کیا‘

بزرگ نے کہا: ’جب حصے کی جنگ بڑھے تو نعمت ضائع کر دو، لڑائی خود ختم ہوجائے گی۔‘

ہلکا بیگ

مسافر کا سامان بہت بھاری تھا۔

ساتھی نے کہا: ’کچھ چھوڑ دو۔‘

بولا: ’یہ یادیں ہیں، چیزیں نہیں۔‘

بات سچ ہے کہ ماضی وزن بن جائے تو یاد نہیں، بوجھ کہلاتا ہے۔

صحیح سوال

شاگرد: ’میں کامیاب کیوں نہیں ہو رہا؟‘

استاد: ’سوال بدل لو: میں سیکھ کیوں نہیں رہا؟‘

نتیجہ: قسمت سے پہلے نیت کا حساب ہوتا ہے۔

کمبل

فقیر سردی میں کانپ رہا تھا۔

لوگ بولے: ’کمبل کیوں نہیں لی؟‘

کہا: ’جھوٹی تسلیاں کافی تھیں، کمبل رہ گیا۔‘

نتیجہ: ہمدردی اکثر لفظی ہوتی ہے، عملی نہیں۔

تصویر

ایک تصویر بہت خوبصورت تھی، مگر فریم ٹوٹا ہوا۔

لوگ بولے: ’فریم بدل دو۔‘

مالک بولا: ’لوگ تصویر دیکھیں گے، فریم نہیں۔‘

نتیجہ: جو لوگ صرف فریم دیکھتے ہیں، وہ اصل کھو دیتے ہیں۔

خالی صفحہ

لکھاری نے خالی کاغذ دیکھا اور ڈر گیا۔

پھر مسکرا دیا۔

نتیجہ: خالی صفحہ دھمکی نہیں، موقع ہوتا ہے۔

خالی کپ

شاگرد نے کہا: ’میں علم سے بھرنا چاہتا ہوں۔‘

استاد نے اس کا کپ بھرا اور بہانے لگا۔

بولا: ’پہلے یہ خالی کرو۔۔۔ورنہ سچائی جمع ہونے کے بجائے بہہ جائے گی۔‘

دو دروازے

دانشور نے شاگرد سے پوچھا:

’زندگی آسان ہے یا مشکل؟‘

شاگرد نے کہا: ’کبھی آسان، کبھی مشکل۔‘

استاد ہنسا: ’زندگی ایک ہی ہے، دروازہ تم بدلتے رہتے ہو۔‘

چرواہے کی گنتی

چرواہا ہر بھیڑ کے گزرنے پر گنتا تھا۔

کسی نے کہا: ’یہ تو ضرورت سے زیادہ احتیاط ہے!‘

چرواہے نے جواب دیا:

’جو چیزیں کم لوٹتی ہیں، انہیں زیادہ گنا جاتا ہے، یعنی وقت، صحت، بھروسہ۔‘

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

عامر خاکوانی

نیچرل سائنسز میں گریجویشن، قانون کی تعلیم اور پھر کالم لکھنے کا شوق صحافت میں لے آیا۔ میگزین ایڈیٹر، کالم نگار ہونے کے ساتھ ساتھ 4 کتابوں کے مصنف ہیں۔ مختلف پلیٹ فارمز پر اب تک ان گنت تحریریں چھپ چکی ہیں۔

wenews بزرگ دانشور عامر خاکوانی علامہ رحمت اللہ کہانیاں ننھی منی سوچ وی نیوز

متعلقہ مضامین

  • کندھ کوٹ: سندھی میڈیا کی کال پر یوم ثقافت کا دن جوش وخروش سے منایاگیا
  • محراب پور: سندھ کے ثقافتی دن کے موقع پر نکالی گئی ریلی سے نوجوان خطاب کرتے ہوئے
  • بغیر لائسنس ڈرائیونگ موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے، آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور
  • سندھ لعل شہباز قلندر، سچل سرمست و شاہ عبداللطیف بھٹائی کا دیس ہے، گورنر کامران ٹیسوری
  • سندھ کی سرزمین نے دنیا کو امن و محبت کا علم دیا، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ
  • گورنر سندھ کی سندھی کلچر ڈے پر قوم کو مبارکباد
  • چند ننھی منی سوچ بدل دینے والی کہانیاں
  • ’خان نہیں تو پاکستان نہیں‘ کہنے والوں کو ملک کی خاطر دی جانے والی قربانیوں کی داستانیں سنائیں، خواجہ آصف
  • حیدرآباد پولیس ٹریننگ سینٹر سے پاس آئوٹ کرنے والے کانسٹیبل پاسنگ آئوٹ پریڈ کے دوران اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے