کشتیوں اور میزائلوں کی نقل و حرکت ہمیں مرعوب نہیں کر سکتی، ویزویلا
اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT
قبل فاکس نیوز نے رپورٹ دی تھی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی بحریہ کے جدید ترین طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس جرالڈ آر۔ فورڈ کو کارائیب اور مغربی نصف کرے کی سمت روانہ کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ صدر نکولاس مادورو نے سرکاری ٹیلی ویژن پر قوم سے خطاب میں امریکہ کے حالیہ فوجی اقدامات کو نفسیاتی جنگ اور استعماری تجاوز قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ملک "کبھی بھی واشنگٹن کے سامنے تسلیم نہیں ہوگا۔" مادورو نے کہا کہ امریکہ گزشتہ کئی ہفتوں سے وینزویلا کے خلاف مسلسل اور منظم نفسیاتی جنگ جاری رکھے ہوئے ہے تاکہ عوامی حوصلے کو توڑا جا سکے، مگر ونزوئلائی قوم بیدار، باخبر اور اپنی آزادی کے دفاع کے لیے تیار ہے۔
ان کے خطاب سے چند گھنٹے قبل فاکس نیوز نے رپورٹ دی تھی کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی بحریہ کے جدید ترین طیارہ بردار جہاز یو ایس ایس جرالڈ آر۔ فورڈ کو کارائیب اور مغربی نصف کرے کی سمت روانہ کرنے کی منظوری دے دی ہے۔ یہ علاقہ امریکی جنوبی کمان (U.
یو ایس ایس جرالڈ فورڈٖ جسے امریکی بحریہ دنیا کا سب سے بڑا اور جدید ترین طیارہ بردار جہاز قرار دیتی ہے، یہ پانچ ہزار سے زائد اہلکاروں پر مشتمل ہے اور اس کے ساتھ ایک مکمل حملہ آور بیڑا (Strike Group) بھی تعینات کیا گیا ہے۔ صدر مادورو نے امریکی فوجی نقل و حرکت کو نفسیاتی جنگ کا حصہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ الفاظ بدلتے ہیں، جہاز منتقل کرتے ہیں، میزائل حرکت دیتے ہیں، لیکن یہ سب دھوکہ ہے، اصل مقصد ہماری حکومت کو گرانا ہے۔
انہوں نے مزید کہا جس طرح وہ ماضی میں ناکام ہوئے، اس بار بھی ناکام ہوں گے، عوام اور مسلح افواج متحد ہیں، اور ہم منطق، سکون اور انقلابی عزم کے ساتھ
اپنے وطن کا دفاع کریں گے۔ مادورو نے زور دیا کہ فوج اور عوام ایک جسم، ایک ارادہ ہیں اور یہی اتحاد وینزویلا کی آزادی اور خودمختاری کا ستون ہے۔ وینزویلا کے وزیرِ دفاع ولادیمیر پادرینو لوپیز نے اس سے پہلے اعلان کیا تھا کہ قومی بولیواری مسلح افواج ملک کے تمام ساحلی علاقوں میں مکمل طور پر تعینات ہو چکی ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ یہ اقدامات اس کی ضمانت ہیں کہ امریکی بحری موجودگی کے مقابلے میں اعلیٰ ترین سطح کی تیاری برقرار رکھی جا سکے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری فوجی فورسز بیدار، منظم اور کسی بھی بیرونی اشتعال انگیزی کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں، ہماری حاکمیت ناقابلِ فہم ہے۔ وینزویلا حکومت نے واشنگٹن کے دعوے کو مسترد کیا ہے کہ یہ بحری تعیناتی منشیات کی اسمگلنگ کے خلاف کارروائی کا حصہ ہے۔ کاراکاس کے مطابق یہ محض ایک سیاسی چال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے نیچے حکومت کی تبدیلی (Regime Change) کی کوششیں جاری ہیں۔ وینزوئیلا طویل عرصے سے امریکہ پر اقتصادی جنگ، تخریب کاری اور غیر قانونی پابندیوں کے ذریعے ملک کی معیشت کو مفلوج کرنے کا الزام عائد کرتی آ رہی ہے۔ تاہم، مادورو حکومت نے ایک بار پھر اعلان کیا ہے کہ وہ انقلابِ بولیواری (جو ہوگو چاوز نے شروع کیا تھا) کے اصولوں یعنی آزادی، سماجی انصاف اور مزاحمت پر ثابت قدم رہے گی۔
اپنے خطاب کے اختتام پر مادورو نے واضح الفاظ میں کہا کہ امریکی استعمار کی دھمکیاں ہمیں مرعوب نہیں کر سکتیں، وینزویلا آزاد، خودمختار اور باعزت رہے گا، چاہے وہ کتنی ہی کشتیوں یا میزائلوں کو حرکت دے دیں۔ انہوں نے عالمی برادری سے اپیل کی کہ وہ "امریکی تجاوز کے خطرناک کھیل" کو روکنے کے لیے آواز اٹھائے۔ بین الاقوامی مبصرین کے مطابق امریکہ کا موجودہ دباؤ واشنگٹن کی لاطینی امریکہ پر دوبارہ غلبہ قائم کرنے کی پالیسی کا حصہ ہے، جبکہ وینزوئیلا اس خطے میں چینی اور روسی اثر و رسوخ کا نمایاں اتحادی بن چکا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
پڑھیں:
ایران کے خلاف جنگ کا آپشن ٹرمپ کی شکست کیوں؟
اسلام ٹائمز: لہذا ایران کی فوجی تنصیبات پر حملہ ور ہو کر بھی امریکہ کی پریشانی دور نہیں ہوئی اور اب یہ مسئلہ پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ اسی وجہ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف فوجی آپشن اختیار کرنا نہ صرف ایک موثر راہ حل نہیں ہے بلکہ اس سے امریکہ کو درپیش حالات مزید پیچیدہ اور سنگین ہو جائیں گے۔ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف 12 روزہ جنگ کے بعد ایران نے بھی اسی نکتے کو واضح کیا ہے اور 20 اکتوبر کے دن رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی اسی بات پر زور دیا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام فوجی طاقت کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایران کی پارلیمنٹ نے حکومت کو آئی اے ای سے تعاون پر نظرثانی کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایران نے 12 روزہ جنگ کے بعد نئی جوہری تنصیبات تعمیر کر لی ہیں جو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور محفوظ ہیں۔ تحریر: محمد امین ہدایتی نسب
رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے پیر کے دن ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کی جوہری صلاحیتوں کو تباہ کر دینے کے دعوے سے متعلق فرمایا تھا: "کوئی بات نہیں، تم اسی خیال میں ڈوبے رہو لیکن اصل بات یہ ہے کہ تم کون ہوتے ہو جو کسی ایسے ملک کے بارے میں اظہار خیال کرو جو جوہری ٹیکنالوجی کا حامل ہے؟ اس کا امریکہ سے کیا تعلق ہے کہ ایران کے پاس جوہری ٹیکنالوجی ہے یا نہیں ہے؟ یہ مداخلت خلاف معمول، غلط اور جبر پر مبنی ہے۔" آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای یہ کہنا چاہتے تھے کہ امریکی صدر کے دعوے کے برعکس ایران کا جوہری پروگرام جوں کا توں ہے۔ امریکہ کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے چار ماہ بعد اب ایران کے سپریم لیڈر نے اعلان کر دیا ہے کہ ایران کی جوہری صلاحیتیں ختم نہیں ہوئی ہیں۔ رہبر معظم انقلاب کے اس موقف کے بارے میں چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
1)۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے فوراً بعد ایک پریس کانفرنس میں تقریر کرتے ہوئے دعوی کیا تھا کہ اس حملے کے نتیجے میں ایران کی جوہری تنصیبات مکمل طور پر تباہ ہو گئی ہیں۔ البتہ کچھ امریکی ذرائع ابلاغ نے اس پر سوال بھی اٹھائے تھے۔ مثال کے طور پر سی این این اور وال اسٹریٹ جرنل نے امریکہ کے کچھ حکومتی اداروں کی رپورٹ کی بنیاد پر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کو مشکوک قرار دیا تھا۔ امریکہ کے انٹیلی جنس ادارے این ایس اے نے بھی ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کے نتائج کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کی تھی اور اس میں واضح طور پر ٹرمپ کا دعوی غلط ثابت کیا گیا تھا۔ سی این این کے مطابق اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ امریکی حملے کے نتیجے میں ایران کے جوہری پروگرام کا بنیادی ڈھانچہ تباہ نہیں ہوا اور اسے صرف جزوی نقصان پہنچا ہے۔
دوسری طرف روئٹرز اور نیویارک ٹائمز نے بھی اعلان کیا کہ ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے سے مطلوبہ اہداف حاصل نہیں ہو پائے ہیں۔ ان کی رپورٹس میں واضح کیا گیا ہے اس حملے سے نہ صرف ایران کی جوہری تنصیبات کا انفرااسٹرکچر تباہ نہیں ہوا بلکہ افزودہ یورینیم بھی تباہ ہونے سے محفوظ بچ گیا ہے۔ یورپ کی انٹیلی جنس ایجنسیز نے بھی اپنی رپورٹس میں اسی بات کی جانب اشارہ کیا ہے اور ٹرمپ کے دعوے کو مسترد کیا ہے۔ یہ دھچکہ اس قدر سنگین تھا کہ امریکی وزیر جنگ پٹ ہیگسیٹ نے این ایس اے کے سربراہ جنرل جیفری کروز کو اس کے عہدے سے برطرف کر دیا۔ نیویارک ٹائمز نے امریکی وزیر جنگ کے اس اقدام کے محرکات کے بارے میں لکھا: "این ایس اے کے سربراہ کی برطرفی کی وجہ اس ادارے کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر امریکی حملے کے نتائج کے بارے میں رپورٹ جاری کرنا تھا۔"
2)۔ ایران اور تین یورپی ممالک کے درمیان "اسنیپ بیک" سے متعلق انجام پانے والے مذاکرات میں مغربی فریق کے طرز عمل سے ظاہر گیا ہے کہ ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق ان کے مطالبات بھی دراصل وہی ہیں جو امریکہ چاہتا ہے۔ یورپی ممالک نے اسنیپ بیک روکنے کے لیے تین شرائط پیش کی تھیں: پہلی آئی اے ای اے کے انسپکٹرز کو امریکی حملے کا نشانہ بننے والی جوہری تنصیبات کا معائنہ کرنے کی اجازت دینا، دوسری 60 فیصد افزودہ یورینیم کے ذخائر کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کرنا اور تیسری ایران کی جانب سے امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات کے لیے آمادگی ظاہر کرنا شامل تھی۔ البتہ مذاکرات کے دوران امریکہ نے کچھ نئے مطالبات بھی پیش کیے جیسے ایران کے پاس میزائلوں کی رینج 500 کلومیٹر سے کم کر دینا وغیرہ۔ یوں مغربی ممالک کے مطالبات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام اب بھی باقی ہے اور امریکہ اسے ختم کرنے کے درپے ہے۔
اس سے ہمیں چند اہم پیغامات موصول ہوتے ہیں، جیسے: اول یہ کہ امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات پر حملے کے اگرچہ کچھ نقصانات ظاہر ضرور ہوئے ہیں لیکن این ایس اے کی رپورٹ کے مطابق اس کا بنیادی ڈھانچہ محفوظ ہے اور اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا ہے۔ دوسرا یہ کہ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جوہری مذاکرات کے دوران اسرائیل کو ایران پر حملے کے لیے سبز جھنڈی دکھائی لیکن وہ اب بھی ایران سے مذاکرات کی امید لگائے بیٹھا ہے۔ ان کا اصل مقصد ایران پر فوجی دباو ڈال کر اسے اپنے مطالبات ماننے پر مجبور کر دینا ہے۔ لہذا اب یہ حقیقت سب کے لیے واضح ہو چکی ہے کہ ایران کے خلاف فوجی طریقہ کار جیسا کہ ٹرمپ سوچ رہا تھا بالکل بھی موثر واقع نہیں ہوا۔ یہ ایک بہت ہی اہم حقیقت ہے جس کی بنیاد پر ایران نے بھی اپنی تمام تر توجہ اس پر مرکوز کر رکھی ہے۔
لہذا ایران کی فوجی تنصیبات پر حملہ ور ہو کر بھی امریکہ کی پریشانی دور نہیں ہوئی اور اب یہ مسئلہ پہلے سے بھی زیادہ پیچیدہ ہو چکا ہے۔ اسی وجہ سے ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کے خلاف فوجی آپشن اختیار کرنا نہ صرف ایک موثر راہ حل نہیں ہے بلکہ اس سے امریکہ کو درپیش حالات مزید پیچیدہ اور سنگین ہو جائیں گے۔ اسرائیل اور امریکہ کے خلاف 12 روزہ جنگ کے بعد ایران نے بھی اسی نکتے کو واضح کیا ہے اور 20 اکتوبر کے دن رہبر معظم انقلاب آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے بھی اسی بات پر زور دیا ہے کہ ایران کا جوہری پروگرام فوجی طاقت کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ایران کی پارلیمنٹ نے حکومت کو آئی اے ای سے تعاون پر نظرثانی کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایران نے 12 روزہ جنگ کے بعد نئی جوہری تنصیبات تعمیر کر لی ہیں جو پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط اور محفوظ ہیں۔