امریکی حکمت عملی میں روس کے لیے نرم مؤقف، یورپی ممالک میں تشویش بڑھ گئی
اشاعت کی تاریخ: 7th, December 2025 GMT
امریکی حکمت عملی میں روس کے بارے میں نرم موقف نے یورپی ممالک میں تشویش بڑھا دی ہے۔
ماسکو نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی نیشنل سکیورٹی اسٹریٹجی کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے اپنے وژن سے بڑی حد تک مطابقت رکھنے والی قرار دیا ہے۔ امریکی انتظامیہ کی جانب سے جاری ہونے والی 33 صفحات پر مشتمل اس دستاویز میں یورپ کو تہذیبی زوال کے خطرات سے دوچار قرار دیا گیا ہے جبکہ روس کو امریکہ کے لئے خطرہ نہیں سمجھا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا روس مذاکرات کی میزبانی پر پیوٹن کا سعودیہ سے اظہار تشکر
دستاویز میں غیر ملکی اثر و رسوخ کے خلاف اقدامات، بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی روک تھام اور یورپی یونین کی مبینہ سینسر شپ کے رجحان کو چیلنج کرنا بنیادی ترجیحات میں شامل کیا گیا ہے۔ یورپی حکام اور تجزیہ کاروں نے اس حکمت عملی پر تنقید کرتے ہوئے اسے کریملن کے بیانیے سے مشابہ قرار دیا ہے۔
کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے روسی خبر رساں ایجنسی تاس کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ امریکی دستاویز میں کی جانے والی تبدیلیاں روسی نقطہ نظر سے مطابقت رکھتی ہیں اور ماسکو اسے مثبت قدم سمجھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حتمی رائے دینے سے قبل اس حکمت عملی کا مزید جائزہ لیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: جی20 ممالک کے اجلاس میں روس یوکرین امن منصوبے پر غور، امریکا نے بائیکاٹ کیوں کیا؟
نئی امریکی حکمت عملی میں روس کے بارے میں نرم موقف نے یورپی حلقوں میں تشویش بڑھا دی ہے۔ یورپی حکام کو اندیشہ ہے کہ اس سے یوکرین میں جاری جنگ پر امریکی مؤقف کمزور ہو سکتا ہے۔ رپورٹ میں یورپی یونین کو جنگ کے خاتمے میں رکاوٹ قرار دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ امریکہ کو روس کے ساتھ تزویراتی استحکام بحال کرنا ہوگا تاکہ یورپی معیشتیں مستحکم رہ سکیں۔
دستاویز میں یورپ کی آئندہ بیس سال میں شناخت تبدیل ہونے کے خطرے اور معاشی مسائل کو تہذیبی زوال کے مقابلے میں ثانوی قرار دیا گیا ہے۔ اس میں قومی رجحان رکھنے والی یورپی سیاسی جماعتوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو سراہا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ امریکہ اپنی حلیف جماعتوں کو اس رجحان کو فروغ دینے کی حوصلہ افزائی کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: روس یوکرین جنگ بندی کا انحصار پیوٹن پر ہے، ڈونلڈ ٹرمپ
جرمن وزیر خارجہ جوہان وادے فول نے کہا کہ امریکہ نیٹو میں ہمارا اہم اتحادی ہے لیکن آزاد معاشرے اور اظہار رائے کے معاملات کو سکیورٹی حکمت عملی کا حصہ نہیں ہونا چاہئے۔ پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے اپنے بیان میں کہا کہ یورپ امریکہ کا سب سے قریبی اتحادی ہے اور اسی حکمت عملی سے مشترکہ سلامتی کو تقویت ملتی ہے۔
سابق سوئیڈش وزیر اعظم کارل بلڈٹ نے اس حکمت عملی پر تنقید کرتے ہوئے اسے یورپی انتہا پسند دائیں بازو سے بھی زیادہ سخت قرار دیا۔ رپورٹ کے مطابق امریکہ جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی جماعت اے ایف ڈی سے قربت بڑھا رہا ہے جسے جرمن انٹیلی جنس انتہا پسند قرار دے چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: روس کا امریکا سے نیو اسٹارٹ معاہدے کی تجدید میں مساوی اقدام کا مطالبہ
امریکہ نے نئی حکمت عملی میں ویٹی کان بحر اور مشرقی بحر الکاہل میں منشیات کی اسمگلنگ کرنے والی کشتیوں کے خلاف کارروائی اور وینیزویلا میں ممکنہ فوجی اقدامات کے اشارے بھی دیے ہیں۔ دستاویز میں جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور تائیوان سے دفاعی اخراجات بڑھانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
امریکی ڈیموکریٹ اراکین کانگریس نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ حکمت عملی امریکی خارجہ تعلقات کو شدید نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ریاست کولوراڈو کے رکن جیسن کرو نے اسے امریکہ کی عالمی ساکھ کے لئے تباہ کن قرار دیا جبکہ نیویارک سے تعلق رکھنے والے گریگوری مِیکس نے کہا کہ یہ حکمت عملی کئی دہائیوں پر محیط امریکی اقدار پر مبنی قیادت کو مسترد کرتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکا پیوٹن تشویش ڈونلڈ ٹرمپ روس یورپی کونسل یورپی ممالک یوکرین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا پیوٹن تشویش ڈونلڈ ٹرمپ یورپی کونسل یورپی ممالک یوکرین حکمت عملی میں یہ بھی پڑھیں دستاویز میں قرار دیا کہا کہ گیا ہے روس کے
پڑھیں:
ٹرمپ کی نئی سیکیورٹی پالیسی نے یورپ میں ہلچل مچا دی
واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی نئی قومی سلامتی کی حکمتِ عملی میں یورپ پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ براعظم یورپ سخت قوانین، سنسرشپ، کمزور خود اعتمادی اور بڑھتی ہوئی مہاجر آبادی کے باعث ’’تہذیبی مٹاؤ‘‘ کے خطرے سے دوچار ہے۔
یہ نئی نیشنل سیکیورٹی اسٹریٹیجی اچانک جاری کی گئی، جس میں یورپی ممالک پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ امریکی سخاوت کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی سیکیورٹی کی ذمہ داری لینے میں ناکام رہے ہیں۔
دستاویز میں کہا گیا ہے کہ موجودہ صورتحال برقرار رہی تو ’’یورپ اگلے 20 برس میں شناخت سے محروم ہو سکتا ہے‘‘۔ رپورٹ میں یورپی اداروں پر بھی تنقید کی گئی ہے، جن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ قومی خودمختاری اور سیاسی آزادی کو کمزور کر رہے ہیں۔
اسٹریٹیجی میں یورپ کی امیگریشن پالیسیوں، آزادیٔ اظہار پر پابندیوں اور کم ہوتی پیدائش کی شرح کو بھی براعظم کے بڑے مسائل قرار دیا گیا ہے۔ دستاویز کے مطابق یورپی عوام امن چاہتے ہیں، مگر حکومتیں ’’جمہوری عمل کو سبوتاژ‘‘ کر رہی ہیں۔
یورپی ممالک نے امریکی پالیسی کو فوری طور پر مسترد کر دیا۔ جرمنی کے وزیر خارجہ نے کہا کہ یورپ کو ’’باہری مشوروں کی ضرورت نہیں‘‘، جبکہ فرانس نے اسے ’’ناقابلِ قبول اور خطرناک‘‘ قرار دیا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق نئی امریکی حکمتِ عملی سابقہ پالیسیوں سے بالکل مختلف ہے اور واضح طور پر یورپ کے پورے نظام اور سمت کو چیلنج کرتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا پہلی بار کھل کر ’’یورپی سیاسی ڈھانچے اور ادارہ جاتی سمت‘‘ کے خلاف مؤقف اپنا رہا ہے۔