20 برسوں میں یورپ کی تہذیبی تباہی کی امریکی پیشین گوئی
اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT
اسلام ٹائمز: مہاجرت کا مسئلہ اس حد تک بڑھایا گیا ہے کہ حکمتِ عملی کے مصنفین نے نیٹو کے مستقبل پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ دستاویز کے مطابق ممکن ہے کہ آنے والے چند عشروں میں، نیٹو کے بعض رکن ممالک میں غیر یورپی باشندے اکثریت بن جائیں۔ یورپ میں آزادیٔ اظہار کے زوال سے متعلق بیانات، امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کی اس سے قبل جرمنی میں ایک سلامتی کانفرنس میں کی گئی تقاریر کی بازگشت قرار دی گئی ہے، جہاں انہوں نے یورپی رہنماؤں کو دائیں بازو کے نظریات پر سیاسی سنسرشپ کا الزام دیا تھا۔ اگرچہ اس 33 صفحات پر مشتمل قومی سلامتی کی حکمت عملی کا لہجہ سخت ہے، لیکن اس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اسٹریٹجک اور ثقافتی اعتبار سے یورپ امریکہ کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ خصوصی رپورٹ:
امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت نے اپنی نئی قومی سلامتی کی دستاویز میں دعویٰ کیا ہے کہ یورپ کی تہذیب اگلے دو دہائیوں کے اندر تباہی کے خطرے سے دوچار ہے۔ اس ہنگامہ خیز دستاویز میں امریکہ کی نئی قومی سلامتی کی حکمتِ عملی کو بیان کرتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ نے دعویٰ کیا ہے کہ یورپ میں امریکہ کے بعض قدیم ترین اتحادی ممالک ناقابل کنٹرول ہجرت کے باعث آئندہ 20 سال میں سنگین اور حقیقی تہذیبی زوال کے امکان کا سامنا کر رہے ہیں۔ اس متنازعہ دستاویز میں یورپی یونین اور دیگر بین الاقوامی اداروں پر الزام لگایا گیا ہے کہ انہوں نے بے لگام ہجرت کی اجازت دے کر اور آزادیٔ اظہار پر پابندیاں لگا کر موجودہ بحران کو بڑھایا ہے۔
حکمتِ عملی کے مصنفین کا کہنا ہے کہ اگر موجودہ رجحانات برقرار رہے تو یہ براعظم 20 سال یا اس سے بھی کم عرصے میں ناقابلِ شناخت ہو جائے گا۔ دستاویز میں اس تشویش کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ یہ واضح نہیں کہ آیا بعض یورپی ممالک کے پاس اتنی مضبوط معیشتیں اور فوجی طاقت باقی رہے گی کہ وہ امریکہ کے قابلِ اعتماد اتحادی بنے رہ سکیں۔ امریکی قومی سلامتی کی حکمت عملی دستاویز میں یورپ کے روس اور یوکرین جنگ کے حوالے سے اختیار کردہ مؤقف پر بھی شدید تنقید کی گئی ہے۔ دستاویز میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یورپ اعتماد کی کمی کا شکار ہے، جو سب سے زیادہ اس کے روس کے ساتھ تعلقات میں نمایاں ہوتی ہے۔
اگرچہ یورپی ممالک کے پاس روس کے مقابلے میں سخت طاقت (یعنی فوجی طاقت) میں قابلِ ذکر برتری ہے، لیکن یوکرین جنگ کے باعث وہ اب روس کو بقا کے لئے خطرہ سمجھنے لگے ہیں۔ امریکی اسٹریٹجی میں بعض یورپی حکومتوں کے یوکرین سے متعلق مؤقف پر بھی تنقید کی گئی ہے اور نامعلوم حکام پر الزام لگایا گیا ہے کہ وہ غیر حقیقت پسندانہ توقعات رکھتے ہیں، جبکہ خود اپنے ممالک میں غیر مستحکم اقلیتی حکومتیں چلا رہے ہیں۔ مزید یہ کہ وائٹ ہاؤس کا دعویٰ ہے کہ بعض یورپی ممالک میں عوام جنگ کے خاتمے کے خواہاں ہیں، لیکن ان کی حکومتیں جمہوری عمل کو کمزور کرکے اس عوامی خواہش کو روک رہی ہیں۔
مہاجرت کا مسئلہ اس حد تک بڑھایا گیا ہے کہ حکمتِ عملی کے مصنفین نے نیٹو کے مستقبل پر بھی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ دستاویز کے مطابق ممکن ہے کہ آنے والے چند عشروں میں، نیٹو کے بعض رکن ممالک میں غیر یورپی باشندے اکثریت بن جائیں۔ یورپ میں آزادیٔ اظہار کے زوال سے متعلق بیانات، امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کی اس سے قبل جرمنی میں ایک سلامتی کانفرنس میں کی گئی تقاریر کی بازگشت قرار دی گئی ہے، جہاں انہوں نے یورپی رہنماؤں کو دائیں بازو کے نظریات پر سیاسی سنسرشپ کا الزام دیا تھا۔ اگرچہ اس 33 صفحات پر مشتمل قومی سلامتی کی حکمت عملی کا لہجہ سخت ہے، لیکن اس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ اسٹریٹجک اور ثقافتی اعتبار سے یورپ امریکہ کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔
ٹرمپ کے یورپی تہذیب کے مستقبل پر دعوے:
امریکہ کی نئی قومی سلامتی کی حکمتِ عملی، جو ڈونلڈ ٹرمپ کی زیرِ قیادت حکومت نے جاری کی، نہ صرف یورپ کے مستقبل کے بارے میں تشویشات بیان کرتی ہے بلکہ امریکہ یورپ تعلقات کے ممکنہ تناؤ کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے۔ دستاویز میں یورپ کی تہذیب، امن، معاشی استحکام اور نیٹو جیسے اہم اتحادوں کے مستقبل پر سخت سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
۔ ٹرمپ انتظامیہ کا مرکزی دعویٰ: دستاویز میں کہا گیا ہے کہ یورپ میں بے قابو مہاجرت کے سبب تہذیبی اور سماجی ڈھانچہ بنیادی خطرے سے دوچار ہے۔ اگر موجودہ رجحانات جاری رہے تو یورپ 20 برسوں میں شناخت کے قابل نہیں رہے گا۔ یورپی یونین سمیت بین الاقوامی اداروں پر الزام ہے کہ وہ ہجرت کو منظم کرنے میں ناکام رہے۔ آزادیٔ اظہار پر پابندی کو یورپی بحران کی ایک اور وجہ قرار دیا گیا ہے۔ یہ دعویٰ سیاسی نوعیت کا ہے اور دائیں بازو کے حلقوں میں موجود بیانیے کی توسیع ہے، جو مہاجرت کو وجود کو لاحق خطرہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اعداد و شمار اور سوشل پالیسیوں کے تناظر میں یہ پیش گوئی مبالغہ آرائی محسوس ہوتی ہے، تاہم یورپ میں آبادیاتی تبدیلیاں حقیقی بحث کا موضوع ضرور ہیں۔
۔ یورپ کی سیاسی و عسکری کمزوری پر امریکی تشویش: دستاویز میں کہا گیا ہے کہ کچھ یورپی ممالک کی معیشتیں اور فوجیں کمزور پڑ سکتی ہیں۔ یورپ روس کے بارے میں اعتماد کے بحران کا شکار ہے۔ یوکرین جنگ نے یورپ کو دفاعی لحاظ سے مزید کمزور اور خوفزدہ بنا دیا ہے۔ یہ نقطہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یوکرین جنگ کے نتیجے میں یورپ دفاعی اور توانائی کے شعبوں میں امریکہ پر انحصار بڑھا رہا ہے۔ یورپی یونین اندرونی اختلافات، مہنگائی اور سیاسی تقسیم سے دوچار ہے۔ ٹرمپ انتظامیہ نیٹو میں امریکہ کے بوجھ سے بارہا ناخوشی کا اظہار کر چکی ہے۔ یہ تنقید اس وسیع تر امریکی پالیسی رجحان کا حصہ ہے جو یورپ سے زیادہ عسکری خود مختاری کی توقع رکھتی ہے۔
۔ نیٹو کا مستقبل، کیا یہ اتحاد کمزور ہوگا؟: دستاویز کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ چند دہائیوں میں نیٹو کے بعض رکن ممالک میں غیر یورپی باشندے اکثریت بنا سکتے ہیں۔ یہ بیان صرف آبادیاتی تشویش نہیں بلکہ نیٹو کی شناخت اور اس کے اسٹریٹجک مفادات کے بارے میں سوالات کھڑا کرتا ہے۔ امریکہ یورپی اراکین پر اخراجات بڑھانے اور دفاعی ذمہ داریاں سنبھالنے کا دباؤ بڑھا رہا ہے۔ مستقبل میں نیٹو کے اندر سیاسی ہم آہنگی کم ہونے کا امکان موجود ہے۔ یہ تجزیہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ کی نظر میں نیٹو ایک غیر مستحکم مرحلے میں داخل ہو رہا ہے۔
۔ یورپ میں آزادیٔ اظہار اور سیاسی سنسرشپ پر تنقید: دستاویز یورپ پر الزام لگاتی ہے کہ وہ دائیں بازو کی سیاسی سوچ کو سسٹمیٹک طور پر محدود کر رہا ہے۔ میڈیا اور سیاسی پلیٹ فارمز میں سیاسی درستگی کے نام پر اظہار رائے کا دائرہ تنگ کیا جا رہا ہے۔ یہ نکتہ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کے پہلے سے موجود نظریات کی بازگشت ہے۔ یورپ واقعی نفرت انگیز تقریر کے قوانین کو سخت کر رہا ہے، لیکن انہیں تہذیب کے زوال کا ثبوت قرار دینا سیاسی الزام کے دائرے میں آتا ہے نہ کہ سائنسی تجزیے میں۔
یورپ، امریکہ تعلقات پر ممکنہ اثرات:
دستاویز کا سخت لہجہ مستقبل کے تعلقات پر اثر انداز ہو سکتا ہے، اس کا مثبت رخ ہے، یورپ دفاعی خودمختاری کی طرف مائل ہو سکتا ہے، امریکہ اور یورپ کے درمیان عملی تعاون میں نئے ڈھانچے تشکیل پا سکتے ہیں۔ اور منفی پہلو یہ ہے، سفارتی تناؤ میں اضافہ، نیٹو کی کمزور ہوتی داخلی ہم آہنگی، یورپی ممالک کا امریکی پالیسیوں پر عدم اعتماد۔ ٹرمپ انتظامیہ کی قومی سلامتی دستاویز ایک سخت سیاسی بیانیہ پیش کرتی ہے جس کا مقصد یورپ پر دباؤ بڑھانا، مہاجرت مخالف ایجنڈے کو تقویت دینا، اور نیٹو میں امریکی بوجھ کم کرنے کے لیے رائے عامہ تیار کرنا ہے۔ اگرچہ یورپ کو واقعی آبادیاتی، سیاسی اور دفاعی چیلنجز درپیش ہیں، لیکن "20 سال میں یورپی تہذیب کے خاتمے" کا دعویٰ مبالغہ آمیز اور سیاسی رنگ لیے ہوئے ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: قومی سلامتی کی حکمت ٹرمپ انتظامیہ ممالک میں غیر کیا گیا ہے کہ کے مستقبل پر دستاویز میں یورپی ممالک یوکرین جنگ میں امریکہ ہے کہ یورپ امریکہ کے اور سیاسی میں یورپ یورپ میں پر الزام نیٹو کے یورپ کی رہا ہے پر بھی کے بعض کی گئی گئی ہے جنگ کے
پڑھیں:
امریکی سیاست میں اشتعال انگیز بیانیہ حد سے بڑھ چکا، گیلپ سروے
گیلپ کے بدھ کو جاری کردہ ایک تازہ سروے کے مطابق امریکا میں دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے حامی اب اس بات پر متفق ہوتے جا رہے ہیں کہ مخالفین کے خلاف اشتعال انگیزاورسخت سیاسی زبان حد سے بڑھ چکی ہے۔
سروے میں اگرچہ ہر جماعت کے حامی زیادہ تر الزام مخالف پارٹی پر ڈالتے ہیں، لیکن مجموعی طور پر یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ سیاسی بیانات میں شدت اور سختی خطرناک سطح تک پہنچ چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا میں صحت کے نظام میں نسلی تعصب پھیل رہا ہے، سروے رپورٹ کیا کہتی ہے؟
گیلپ کے تجزیہ کار جیفری جونز کے مطابق ماضی کے مقابلے میں اب زیادہ تعداد میں امریکی سمجھتے ہیں کہ ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز دونوں ہی مخالفین پر تنقید کے لیے اشتعال انگیز زبان کا حد سے زیادہ استعمال کر رہے ہیں۔
Larger majorities of Americans than in the past believe that both the Democratic and Republican parties and their supporters have gone too far in using inflammatory language to criticize their opponents. pic.twitter.com/ohzZFtEgov
— Gallup (@Gallup) December 3, 2025
سروے میں 69 فیصد شرکا نے کہا کہ ریپبلکن پارٹی اور اس کے حمایتی حد سے بڑھ چکے ہیں، جو 2011 کے مقابلے میں 16 پوائنٹس زیادہ ہے۔
اسی طرح 60 فیصد نے کہا کہ ڈیموکریٹس بھی اپنے بیانیے میں حد سے تجاوز کر رہے ہیں، جو 9 پوائنٹس کا اضافہ ہے۔
گیلپ کے مطابق دونوں جماعتوں کے ووٹرز تقریباً مکمل اتفاق سے یہ سمجھتے ہیں کہ دوسری پارٹی نے حدود پار کی ہیں، اس ضمن میں 94 فیصد ڈیموکریٹس ریپبلکنز کو اور 93 فیصد ریپبلکنز ڈیموکریٹس کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔
مزید پڑھیں:58 فیصد امریکی فلسطین کو ریاست تسلیم کرنے کے حامی، سروے رپورٹ
اس کے برعکس، زیادہ تر لوگ اپنی ہی سیاسی جماعت کے بیانیے کو حد سے بڑھا ہوا تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں، اور 2011 کے مقابلے میں اس رجحان میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔
یہ سروے یکم سے 16 اکتوبر کے درمیان اس واقعے کے چند ہفتے بعد ہوا، جب قدامت پسند کارکن چارلی کرک کو یوٹاہ ویلی یونیورسٹی میں ایک تقریب کے دوران گولی مار کر ہلاک کردیا گیا۔
گیلپ نے 2011 کے اُس سروے جیسے سوالات استعمال کیے، جو گیبریئل گففرڈز پر حملے کے بعد کیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: سائنسدانوں کی بڑی تعداد امریکا کیوں چھوڑنا چاہتی ہے؟
ایک اور سوال میں 71 فیصد امریکیوں نے سیاسی تشدد کا ذمہ دار انتہاپسند خیالات کے آن لائن فروغ کو قرار دیا، 64 فیصد نے سیاست دانوں اور تجزیہ کاروں کو قصوروار ٹھہرایا، جبکہ 52 فیصد نے ذہنی صحت کے نظام کی کمزوری کو سبب بتایا۔
اس کے مقابلے میں 45 فیصد نے آسان اسلحہ تک رسائی کو ذمہ دار کہا اور ایک تہائی سے بھی کم افراد نے منشیات، عمارتوں کی سیکیورٹی یا تفریحی صنعت کے تشدد کو سبب سمجھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اشتعال انگیز چارلی کرک ڈیموکریٹس ریپبلکنز سیاسی زبان گیلپ سروے