مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی سزا ریاستی حکمت عملی بن گئی
اشاعت کی تاریخ: 6th, December 2025 GMT
مقبوضہ کشمیر میں انتہاپسند مودی سرکار کی جانب سے اجتماعی سزا ریاستی حکمت عملی بن گئی۔
بھارتی اخبار دی وائر میں پیرزادہ محبوب الحق اور ناصر کھوہامی کے کے آرٹیکل نے بھارتی حکومت کے مقبوضہ کشمیر میں رہنے والے کشمیریوں کے خلاف اجتماعی سزا جیسے مظالم کو بے نقاب کر دیا۔
دی وائر کے مطابق مقبوضہ کشمیر ایک اہم اور غیر معمولی ریاست ہے، تاہم 5 اگست 2019 کو کشمیر سے آزادی اور اظہار رائے کا خاتمہ ہو گیا۔ دی وائر کا کہنا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں سیاست اور اقتصادی پالیسیاں بیوروکریسی کے قبضے میں ہیں، ریاستی نظام پہلے سے کہیں زیادہ آمرانہ ہے اور دہلی کار دھماکوں کی سزا تمام بے گناہ کشمیریوں کو اجتماعی طور پر دی جا رہی ہے۔
پلوامہ، پہلگام اور دہلی کار بم دھماکوں کے بعد کشمیری جائز طور پر حکومتی سیکیورٹی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ بھارتی ریاست کی حکمت عملی آمرانہ ہے، مقبوضہ کشمیر میں ایک مسلسل نگرانی کرنے والا نظام نافذ ہے جو کشمیریوں کی جائز شکایات بھی نہیں سن رہا۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر میں کاغذی حکومت ہے جو مؤثر اقدامات کرنے سے قاصر ہے۔
دی وائر کے مطابق منتخب رکن قومی پارٹی مہراج ملک کو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت حراست میں لیا گیا اور مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ ان کی رہائی میں بے بس نظر آئے۔ پہلگام حملے کے بعد ریاست کا ردعمل ظالمانہ، ناپسندیدہ اور ناقص تھا اور بھارتی ریاست نے کئی بے گناہ کشمیریوں کے گھروں کو مسمار کر دیا۔ مقبوضہ کشمیر میں اجتماعی سزا ریاستی حکمت عملی بن چکی ہے۔
جاسر وانی کے والد نے اپنے قید شدہ بیٹے تک رسائی نہ ملنے پر خودسوزی کر لی۔ کشمیری نوجوان شدید مایوس ہیں اور بھارتی ریاست ظالمانہ اقدامات پر انحصار کر رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کمیونٹیز کو ایک دوسرے کے خلاف کھڑا کیا جا رہا ہے اور سیاسی جماعتیں دہلی کی خوشنودی کے لیے ایک دوسرے پر جھوٹے الزامات لگاتی ہیں۔ دی وائر کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں فوری طور پر ایک انسانی نقطہ نظر اپنانے کی ضرورت ہے۔
کشمیری عوام کا سیاسی کردار محدود ہے اور طاقت کا عدم توازن شدید ہے، مقامی لوگ سیاست میں اپنی آواز بلند نہیں کر پاتے۔ انسانی نقطہ نظر اپنانا اور سیاسی عمل میں کشمیریوں کو برابر کا حصہ دینا ضروری ہے تاکہ خوف و مایوسی کی نئی نسل پیدا نہ ہو۔ نوجوانوں کو سیاسی نمائندگی کے مواقع دینے اور دو روایتی خاندانوں کے اثر سے باہر نکالنا ناگزیر ہے۔ کشمیریوں کو پاسپورٹ، نوکری یا سیکیورٹی کلیئرنس سے محروم کرنا اور اجتماعی سزا جیسے اقدامات فوری طور پر ختم ہونا چاہئیں۔ مقبوضہ کشمیر میں امن اور خوشحالی کے لیے کشمیری عوام کو مساوی شراکت دار تسلیم کرنا ضروری ہے۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
مقبوضہ کشمیر کے مسائل کے حل کیلئے اخلاقی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا جائے، انجینئر رشید
ذرائع کے مطابق انجینئر رشید نے لوک سبھا میں اظہار خیال کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر حل طلب دیرینہ تنازعہ کشمیر کی وجہ سے کشمیریوں کو درپیش مشکلات، مسائل اور مفاہمت کی فوری ضرورت کی طرف مبذول کرانے کیلئے بھوک ہڑتال کریں گے۔ اسلام ٹائمز۔ غیر قانونی طور پر بھارت کے زیر قبضہ جموں و کشمیر کے ضلع بارہمولہ سے منتخب بھارتی پارلیمنٹ کے رکن انجینئر عبدالرشید نے بھارتی حکومت اور ارکان پارلیمنٹ پر زور دیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر کے مسائل کو سیاسی مصلحت کے بجائے انسانیت، سنجیدگی اور اخلاقی ذمہ داری کے ساتھ حل کریں۔ ذرائع کے مطابق انجینئر رشید نے لوک سبھا میں اظہار خیال کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ 10 دسمبر کو انسانی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر حل طلب دیرینہ تنازعہ کشمیر کی وجہ سے کشمیریوں کو درپیش مشکلات اور مسائل اور مفاہمت کی فوری ضرورت کی طرف مبذول کرانے کیلئے بھوک ہڑتال کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے ساتھ ”دوری” کو ختم کرنے کی بار بار یقین دہانیوں کے باوجود،مقبوضہ علاقے کی زمینی صورتحال میں کوئی بہتری واقع نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے حکومت اور اپوزیشن دونوں سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ پر زور دیا کہ وہ جموں و کشمیر کے عوم کے بارے میں انسانی ہمدردی کا نقطہ نظر اپنائیں اور تنازعہ کشمیر کے پائیدار اور باوقار حل کیلئے منتخب نمائندوں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ جامع مذکرات شروع کریں۔ انجینئر رشید نے اپنی نظربندی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ”فی الحال نئی دلی کی تہاڑ جیل میرا گھر ہے۔"