مودی اور ٹرمپ کی گلے ملنے کی حکمتِ عملی سرد خانے میں ہے، جے رام رمیش
اشاعت کی تاریخ: 3rd, December 2025 GMT
امریکی دعووں کے برعکس مودی حکومت مسلسل یہ واضح کرتی رہی ہے کہ بھارت اپنے دو طرفہ تنازعات میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت قبول نہیں کرتا۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشیدگی کم کرانے سے متعلق امریکی دعووں نے سیاسی منظرنامے میں نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے لیڈر جئے رام رمیش نے وزیراعظم نریندر مودی پر سخت طنز کرتے ہوئے کہا کہ اب حیرت نہیں کہ مودی اور ٹرمپ ہگلومیسی یعنی گلے لگنے کی حکمت عملی سرد خانے میں ہے۔ ان کا یہ ردعمل امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے تازہ بیان کے بعد سامنے آیا ہے، جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کئی عالمی تنازعات حل کرائے، جن میں بھارت اور پاکستان جیسا "بہت خطرناک" تنازع بھی شامل ہے۔
مارکو روبیو نے وائٹ ہاؤس میں کابینہ اجلاس کے دوران کہا کہ صدر ٹرمپ نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کو بنیادی طور پر تبدیل کیا ہے اور وہ متعدد پیچیدہ تنازعات کے خاتمے کے محرک رہے ہیں۔ ان کے مطابق "اگر کوئی قدم امریکہ کو مضبوط بناتا ہے تو ٹرمپ اس کے حامی ہوتے ہیں، ورنہ وہ اس کے خلاف رہتے ہیں"۔ مارکو روبیو نے خاص طور پر بھارت اور پاکستان کے درمیان مبینہ امن کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کی تعریف کی۔
کانگریس کے جنرل سکریٹری برائے مواصلات جے رام رمیش نے ایکس پر اپنے بیان میں کہا کہ 10 مئی 2025ء کو شام 5:37 بجے روبیو وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے آپریشن سِندور کی اچانک بندش کا اعلان کیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس کے بعد سے صدر ٹرمپ کم از کم 61 بار 6 مختلف ممالک میں یہ دعویٰ دہرا چکے ہیں کہ ان ہی کی مداخلت کے باعث "آپریشن سندور" رکا تھا۔ جے رام رمیش نے مزید کہا کہ روبیو کا تازہ بیان اس امر کی دوبارہ توثیق ہے کہ صدر ٹرمپ ایک ہی دعوے کو بار بار پوری دنیا میں دہراتے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ مودی اور ٹرمپ ہگلومیسی اب سرد خانے میں پڑی ہے۔ خیال رہے کہ صدر ٹرمپ کئی مواقع پر یہ دعویٰ کر چکے ہیں کہ انہوں نے اپنے دوسرے دورِ صدارت کے پہلے 8 سے 9 ماہ کے اندر بھارت و پاکستان سمیت کم از کم 8 بین الاقوامی تنازعات حل کروائے۔ ان میں تھائی لینڈ - کمبوڈیا، آرمینیا - آذربائیجان، اسرائیل - ایران اور دیگر تنازعات شامل بتائے جاتے ہیں، وہ خود کو اسرائیل حماس تنازع کے خاتمے کا بھی کریڈٹ دیتے ہیں۔
امریکی دعووں کے برعکس، مودی حکومت مسلسل یہ واضح کرتی رہی ہے کہ بھارت اپنے دو طرفہ تنازعات میں کسی تیسرے فریق کی مداخلت قبول نہیں کرتا۔ یاد رہے کہ 7 مئی کو ہندوستان نے پہلگام حملے کے جواب میں آپریشن سندور شروع کیا تھا، جس کا ہدف پاکستان میں دہشتگرد ڈھانچے تھے۔ چار دن کی شدید کارروائی کے بعد دونوں ممالک نے 10 مئی کو فائر بندی پر اتفاق کیا۔ کانگریس کا کہنا ہے کہ امریکی بیانات ہندوستان کی خودمختاری اور دو طرفہ پالیسی کے اصولوں سے متصادم ہیں اور حکومت کو اس پر اپنا موقف واضح کرنا چاہیئے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ کہ صدر
پڑھیں:
یوکرین جنگ؛ ٹرمپ تجاویز پر روس اور امریکا کے مذاکرات بے نتیجہ ختم
روسی اور امریکی وفد کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں کوئی سمجھوتہ طے نہیں پایا جا سکا تاہم تعاون جاری رکھنے پر اتفاق کیا گیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اس ملاقات میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف اور داماد جیرڈ کُشنر نے صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کی۔
روسی حکومت کے ترجمان یوری اوشاکوف نے ملاقات کے بعد میڈیا کو بتایا کہ گفتگو بہت مفید اور تعمیری تھی لیکن مذاکرات میں کوئی سمجھوتہ نہیں ہوسکا۔
انھوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک نے مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے اور آئندہ بھی مذاکرات کے دور ہوں گے۔
یوری اوشاکوف نے مزید بتایا کہ یوکرین کی زمینی حدود سے متعلق سب سے اہم معاملے پر کوئی پیشرفت نہیں ہوسکی۔
اس سے بل یوکرین اور یورپی ممالک نے بھی ٹرمپ کے امن نکات کو مسترد کردیا تھا جس کے بعد کچھی تبدیلیاں بھی کی گئیں۔
امریکی اور روسی وفد نے ایک دوسرے کے ملک کا دورہ بھی کیا اور چند نکات پر روسی صدر نے مثبت اشارہ دیا۔
جس کے یوکرینی صدر نے بھی مشاورتی اجلاس طلب کیا اور صدر ٹرمپ سے خصوصی ملاقات کا عندیہ بھی دیا تھا۔
امریکی صدر ٹرمپ نے بھی اس صورتحال کو مشکل اور بڑا گھمبیر معاملہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جنگ ہر ماہ دسیوں ہزار جانیں لے رہی ہے۔
صدر ٹرمپ نے یوکرین امن مذاکرات کے لیے جو نکات پیش کیے وہ تاحال خفیہ ہیں تاہم ان میں سے کچھ نکات لیک ہوگئے تھے۔
جن کے مطابق امریکی امن منصوبے میں روس نے یوکرین کی فوج کی تعداد محدود کرنے، پورے ڈونباس پر کنٹرول اور زاپوریژیا و خیرسون میں اپنی موجودگی کے باضابطہ اعتراف جیسے مطالبات کیے تھے۔
جس پر یوکرین نے ان نکات کو ہتھیار ڈالنے کے مترادف قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔