Islam Times:
2025-12-10@04:51:01 GMT

حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے امریکی اہداف

اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT

حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے امریکی اہداف

اسلام ٹائمز: امریکہ کی جانب سے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے پر اصرار کرنا نہ صرف ایک ناجائز مطالبہ ہے بلکہ ناممکن بھی ہے۔ نہ تو لبنانی عوام کی اکثریت اور نہ ہی لبنان آرمی، حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ وہ بخوبی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ گذشتہ چند دہائیوں کے دوران غاصب صیہونی رژیم کے جارحانہ اقدامات کے مقابلے میں لبنان کی ملکی سالمیت کی حفاظت صرف حزب اللہ اور اس کے ہتھیاروں نے ہی کی ہے جبکہ لبنان آرمی اس قدر طاقتور نہیں ہے۔ واضح ہے کہ حزب اللہ کے غیر مسلح ہو جانے کے نتیجے میں لبنان غاصب صیہونی رژیم کے لیے ایک لذیذ اور تر نوالہ بن جائے گا۔ لہذا امریکہ کے اس ناجائز مطالبے کا اصل مقصد لبنان کو جولانی کے شام میں تبدیل کر دینا ہے تاکہ یوں اس پر اسرائیل کے مکمل قبضے کی راہ ہموار ہو جائے۔ تحریر: علی احمدی
 
شام اور لبنان کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی تھامس براک نے خطے کے تھانیدار کے طور پر ظاہر ہوتے ہوئے یہ دھمکی لگا دی ہے کہ اگر لبنان میں اسلامی مزاحمت کی تنظیم حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے لیے فوری اور موثر اقدامات انجام نہ دیے گئے تو حزب اللہ لبنان کے ملٹری ونگ کو اس بڑی جنگ کا سامنا کرنا پڑ جائے گا جس کا آغاز اسرائیل کرے گا۔ اس نے کہا: "اگر لبنان حکومت بدستور تذبذب کا شکار رہتی ہے تو عین ممکن ہے کہ اسرائیل یکطرفہ طور پر اقدام کرے اور اس کے نتائج بہت بھیانک ہوں گے کیونکہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنا اسرائیل کے لیے اپنی شمالی سرحدوں کو محفوظ بنانے کا معنی رکھتا ہے۔" جیسا کہ لبنان اور شام کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی کی اس دھمکی سے واضح ہے اس کی نظر میں لبنان کی ریاست، قوم اور حکومت کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
 
لہذا تھامس براک غاصب صیہونی رژیم کی سلامتی اور تحفظ یقینی بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے میں مصروف ہے۔ اس کی یہ بات کہ حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کا مطلب اسرائیل کی شمالی سرحدوں کا تحفظ ہے، ظاہر کرتی ہے کہ امریکہ لبنان حکومت کو محض ایک آلہ کار کے طور پر دیکھتی ہے اور اسے غاصب صیہونی رژیم کی سلامتی یقینی بنانے کا محض ایک ذریعہ تصور کرتی ہے۔ لبنان اور شام کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی کی جانب سے اس حد سے زیادہ ڈو مور کے مطالبے کے بارے میں تین نکات بہت اہم ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
1)۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم ایک جعلی، غاصب، قابض اور ناجائز رژیم ہے جس نے مقامی فلسطینیوں کو جلاوطن کر کے گذشتہ 77 برس سے اسلامی سرزمینوں پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔
 
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم گذشتہ 77 برس سے مغربی ایشیا خطے میں بسنے والی قوموں اور عرب ممالک کے لیے عذاب بنی ہوئی ہے اور اس دوران اس نے جنگوں، قتل عام، تباہی و بربادی اور وسیع نقصان کے ذریعے خطے کی قوموں اور ممالک کو شدید نالاں کیا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال گذشتہ دو سال سے غزہ میں جاری فلسطینیوں کی نسل کشی ہے۔ غاصب صیہونی رژیم آئے دن مغربی کنارے پر جارحانہ حملے کرتی ہے، اس نے اب تک لبنان کے 4 ہزار شہریوں کو شہید کیا ہے، لبنان میں بڑی تعداد میں رہائشی عمارات کو تباہ کیا ہے، شام کے بڑے علاقے پر غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے، شام کا فوجی انفرااسٹرکچر تباہ کر کے رکھ دیا ہے اور اس ملک کا ایک بڑا علاقہ جدا کرنے کے درپے ہے اور ایسے ہی بہت سے مجرمانہ اقدامات اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
 
اسرائیل کی غاصب صیہونی رژیم کو نہ صرف کسی ملک کی حمایت اور شہہ حاصل نہیں ہونی چاہیے بلکہ تمام حکومتوں کو اقوام متحدہ کے منشور کی روشنی میں اس پر سخت پابندیاں عائد کر کے اسے مزید مجرمانہ اقدامات سے روک دینا چاہیے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بین الاقوامی فوجداری عدالت غاصب صیہونی رژیم کے حکمرانوں کو غزہ میں نسل کشی اور جنگی جرائم کے ارتکاب کے جرم میں سزا سنا چکی ہے اور ان کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری ہو چکے ہیں لہذا تمام حکومتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کی گرفتاری کے لیے ہر ممکنہ کوشش انجام دیں۔ دوسری طرف امریکی حکومت نہ صرف اس قانونی ذمہ داری پر عمل پیرا نہیں ہے بلکہ پورے زور و شور سے مجرم صیہونی حکمرانوں کی مدد اور حمایت میں مصروف ہے اور یوں انہیں مزید مجرمانہ اقدامات انجام دینے کے لیے ضروری مالی اور فوجی وسائل مہیا کر رہی ہے۔ امریکہ کے یہ اقدامات بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
 
2)۔ اصولی بات تو یہ ہے کہ مغربی ایشیا خطے کی حکومتوں کے معاملات خود ان سے ہی مربوط ہیں اور خطے کے سیکورٹی امور بھی انہی حکومتوں کو سنبھالنے چاہیئں۔ دنیا کے دوسرے کونے میں رہنے والے امریکہ کو اس بات کا کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے اور مثال کے طور پر لبنان حکومت کی ذمہ داریوں کا تعین کرے؟ یہ مداخلت لبنان کی حکومت اور قوم کی سب سے بڑی توہین ہے اور لبنان کی رائے عامہ بھی اپنے معاملات میں امریکی مداخلت کی مخالف ہے۔ جیسا کہ خود امریکی عوام بھی اپنی حکومت کی جانب سے غاصب صیہونی رژیم کی حمایت کے مخالف ہے اور انہوں نے بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ امریکی حکومت کو ان کے ادا کیے گئے ٹیکسز کو اسرائیل کو بم اور فوجی ہتھیار فراہم کرنے میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ لہذا اس لحاظ سے بھی یہ امریکی پالیسی غلط ہے۔
 
3)۔ امریکہ کی جانب سے حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے پر اصرار کرنا نہ صرف ایک ناجائز مطالبہ ہے بلکہ ناممکن بھی ہے۔ نہ تو لبنانی عوام کی اکثریت اور نہ ہی لبنان آرمی، حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے حق میں نہیں ہے۔ وہ بخوبی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ گذشتہ چند دہائیوں کے دوران غاصب صیہونی رژیم کے جارحانہ اقدامات کے مقابلے میں لبنان کی ملکی سالمیت کی حفاظت صرف حزب اللہ اور اس کے ہتھیاروں نے ہی کی ہے جبکہ لبنان آرمی اس قدر طاقتور نہیں ہے۔ واضح ہے کہ حزب اللہ کے غیر مسلح ہو جانے کے نتیجے میں لبنان غاصب صیہونی رژیم کے لیے ایک لذیذ اور تر نوالہ بن جائے گا۔ لہذا امریکہ کے اس ناجائز مطالبے کا اصل مقصد لبنان کو جولانی کے شام میں تبدیل کر دینا ہے تاکہ یوں اس پر اسرائیل کے مکمل قبضے کی راہ ہموار ہو جائے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: حزب اللہ لبنان کو غیر مسلح کرنے کے غاصب صیہونی رژیم کے کہ حزب اللہ اسرائیل کی کی جانب سے امریکہ کے لبنان کی کہ لبنان کی حکومت نہیں ہے اور اس کے لیے ہے اور

پڑھیں:

پاکستان نے بھرپور سفارت کاری سے امریکا میں اپنی پوزیشن غیرمعمولی طور پر مضوط کرلی، امریکی جریدہ

امریکی جریدے فارن پالیسی نے پاکستان اور امریکا کے تعلقات کے حوالے سے رپورٹ جاری کی ہے۔

فارن پالیسی کی شائع کردہ رپورٹ کے مطابق ٹرمپ دور میں پاکستان نے غیر معمولی سفارت کاری دکھا کر واشنگٹن میں سب سے مضبوط مقام حاصل کیا،  صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر کے ساتھ تاریخی سطح کی قربت قائم کی۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان نے کابل حملے کے ماسٹر مائنڈ کی گرفتاری میں فیصلہ کن کردار ادا کر کے صدر ٹرمپ کا مکمل اعتماد جیتا جبکہ اسلام آباد کی ذہانت بھری سفارتکاری نے پاک۔امریکہ تعلقات کو نئی بلندی دی۔

فارن پالیسی کے مطابق ریکو ڈِک کی بحالی نے دنیا کو دکھایا کہ پاکستان مغربی سرمایہ کاری کے لیے قابل اعتماد شراکت دار ہے، پاکستان نے کرپٹو فریم ورک میں شفاف اور جدید ماڈل پیش کر کے ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ تعاون نئی رفتار سے آگے بڑھایا۔

فارن پالیسی کے مطابق ٹرمپ نے پاک۔بھارت کشیدگی میں پاکستان کی مؤثر سفارتکاری کو سراہتے ہوئے جنگ بندی کا کریڈٹ کھلے عام قبول کیا جبکہ امریکہ کا رویہ بھارت کے ساتھ سرد اور پاکستان کے ساتھ گرم ہوا، جس نے اسلام آباد کی سفارتی کامیابی کو نمایاں کیا۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان نے امریکہ کو واضح پیغام دیا کہ تعلقات اپنی میرٹ پر ہوں گے، کسی تیسرے ملک کے تناظر میں نہیں، خطے میں امن و استحکام کے لیے صدر ٹرمپ نے پاکستان کو اپنی مشرق وسطیٰ حکمت عملی کا لازمی ستون قرار دیا۔

فارن پالیسی کے مطابق مستقبل میں پاکستان کا کردار کرٹیکل منرلز، خطے کے امن اور عالمی توانائی استحکام کا مرکزی عنصر بننے جارہا ہے، امریکہ کا پاکستان پر تنقیدی لہجہ کم اور اعتماد بڑھ رہا ہے، جو اسلام آباد کی کامیاب سفارتکاری کا نتیجہ ہے۔

فارن پالیسی کی رپورٹ کے مطابق ٹرمپ حکومت پاکستان کے ساتھ کرپٹو، توانائی، انسداد دہشت گردی اور منرلز میں تعاون تیزی سے بڑھا رہی ہے، پاکستان نے قیادت، وژن اور سفارتی حکمت کے امتزاج سے واشنگٹن میں اپنی پوزیشن غیر معمولی طور پر مضبوط بنائی۔

متعلقہ مضامین

  • ٹیرف میرا پسندیدہ لفظ ہے اس سے ملک میں اربوں ڈالر آ رہے ہیں، صدر ٹرمپ
  • ایران، چین اور سعودی عرب نے فلسطین، لبنان اور شام کے خلاف اسرائیلی جارحیت بند کرنے کا مطالبہ کر دیا
  • عراق، حزب اللہ لبنان اور انصار اللہ یمن کے نام دہشت گرد تنظیموں کی فہرست سے خارج
  • امریکہ، پاکستان کا دیرینہ سکیورٹی تعاون بہت اہم: ناظم الامور 
  • جنوبی لبنان پر صہیونی رژیم کے شدید حملے
  • امریکہ کی جانب سے یمن کے مرکزی علاقے پر فضائی حملہ
  • امریکہ کی ناکامی اور دلدل میں دھنستا عالمی سامراج(2)
  • نواف سلام، صیہونیوں کا ترجمان!
  • پاکستان نے بھرپور سفارت کاری سے امریکا میں اپنی پوزیشن غیرمعمولی طور پر مضوط کرلی، امریکی جریدہ
  • امریکی حکمت عملی میں روس کے لیے نرم مؤقف، یورپی ممالک میں تشویش بڑھ گئی