ایران، چین اور سعودی عرب نے فلسطین، لبنان اور شام کے خلاف اسرائیلی جارحیت بند کرنے کا مطالبہ کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
ایران، چین اور سعودی عرب نے تہران میں منعقد ہونے والی ایک مشترکہ نشست میں فلسطین، لبنان اور شام کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو فوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا اور اسلامی جمہوریہ ایران کی خودمختاری اور ملکی سالمیت کی خلاف ورزی اور جارحیت کی مذمت کی۔ اسلام ٹائمز۔ بیجنگ معاہدے کی پیروی کرتے ہوئے اسلامی جمہوریہ ایران، سعودی عرب اور عوامی جمہوریہ چین کی سہ فریقی کمیٹی کا تیسرا اجلاس 18 دسمبر 2025ء کے دن تہران میں منعقد ہوا جس کی صدارت مجید تخت روانچی، اسلامی جمہوریہ ایران کی وزارت خارجہ کے نائب پولیٹیکل سکریٹری نے کی۔ اس مشترکہ نشست میں سعودی عرب کے وفد کی سربراہی سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ ولید الخراجی نے کی جبکہ چینی وفد کی سربراہی عوامی جمہوریہ چین کے نائب وزیر خارجہ میاو دیو کر رہے تھے۔ ایرانی اور سعودی عہدیداران نے بیجنگ معاہدے کی تمام شقوں پر عمل درآمد کرنے اور اقوام متحدہ کے چارٹر، اسلامی تعاون تنظیم کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون بشمول خودمختاری، علاقائی سالمیت، آزادی اور فریقین کی سلامتی کے احترام کے ذریعے دونوں ممالک کے درمیان ہمسایہ تعلقات کو مستحکم کرنے کی مسلسل کوششوں پر زور دیا۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب نے عوامی جمہوریہ چین کے مثبت کردار اور بیجنگ معاہدے کے نفاذ میں اس ملک کی حمایت اور پیروی کی اہمیت کا بھی خیرمقدم کیا۔ عوامی جمہوریہ چین نے اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کی جانب سے مختلف شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی حمایت اور حوصلہ افزائی جاری رکھنے کے لیے اپنی تیاری پر زور دیا۔
تینوں ممالک نے ایران سعودیہ تعلقات میں مسلسل پیشرفت اور دونوں ممالک کے درمیان تمام سطحوں اور شعبوں میں براہ راست رابطے کے موجودہ مواقع کا خیرمقدم بھی کیا اور دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام کے درمیان ان باہمی رابطوں اور ملاقاتوں کو خاص طور پر خطے میں موجودہ اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کی روشنی میں اہم قرار دیا جو اس کی سلامتی اور دنیا کے لیے خطرہ تصور کی جاتی ہے۔ تینوں ممالک نے اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان سفارتی خدمات کی پیشرفت کا بھی خیرمقدم کیا جن کے ذریعے سال 2025ء میں 85 ہزار سے زائد ایرانی عازمین حج اور 2 لاکھ 10 ہزار سے زائد ایرانیوں کو عمرہ کے لیے آسان اور محفوظ سفر کی راہ ہموار کی گئی۔ اس مشترکہ نشست میں شریک ممالک نے تحقیق، تعلیم، میڈیا، ثقافت اور مطالعات کے شعبوں میں ایران اور سعودی عرب کے مراکز اور افراد کے درمیان بات چیت کی پیشرفت کا بھی خیر مقدم کیا اور وفود کے تبادلے اور مذکورہ شعبوں سے متعلق پروگرامز میں فریقین کی شرکت پر اطمینان کا اظہار کیا۔ تینوں ممالک مختلف شعبوں بشمول مختلف اقتصادی اور سیاسی شعبوں میں آپس میں تعاون کو فروغ دینے کے خواہشمند ہیں۔ تینوں ممالک نے سلامتی، استحکام، امن اور اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کے مقصد سے خطے کے ممالک کے درمیان بات چیت اور تعاون کی اہمیت پر بھی زور دیا۔
تہران میں منعقد ہونے والی مشترکہ نشست میں اسلامی جمہوریہ ایران، سعودی عرب اور چین نے فلسطین، لبنان اور شام کے خلاف اسرائیلی جارحیت کو فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا اور اسلامی جمہوریہ ایران کی خودمختاری اور ملکی سالمیت کی خلاف ورزی اور جارحیت کی مذمت کی۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی مذکورہ جارحیت کے وقت سعودی عرب اور عوامی جمہوریہ چین کے واضح موقف کو سراہا۔ تینوں ممالک نے یمن میں بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اصولوں اور اقوام متحدہ کی سرپرستی میں جامع سیاسی حل کے لیے اپنی حمایت کا اعادہ کیا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسلامی جمہوریہ ایران ایران اور سعودی عرب عوامی جمہوریہ چین مشترکہ نشست میں تینوں ممالک نے سعودی عرب کے کے درمیان ممالک کے کیا اور کے لیے
پڑھیں:
پاکستان سمیت 8 مسلم ممالک نے فلسطینی عوام کی جبری بے دخل مسترد کردی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251207-01-3
اسلام آباد / غزہ /تل ابیب /دمشق /استنبول/ دوحا (مانیٹرنگ ڈیسک) پاکستان سمیت8مسلم ممالک کے وزرائے خارجہ نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ فلسطینی عوام کی اپنی سرزمین سے بے دخلی کی کوششیں مسترد کرتے ہیں۔ پاکستان، مصر، اردن، متحدہ عرب امارات، انڈونیشیا، ترکیہ، سعودی عرب اور قطر کے وزرائے خارجہ نے اپنے مشرکہ بیان میں اسرائیلی پالیسیوں اور فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس اقدام کا مقصد غزہ کی پٹی
کے رہائشیوں کو مصر منتقل کرنا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ صدر ٹرمپ کے مجوزہ امن منصوبے پر مکمل عمل کیا جائے، فلسطینیوں کی جبری بے دخلی کی ہر کوشش کی سخت مخالفت کرتے ہیں، رفح کراسنگ دونوں طرف سے کھلی رکھنے پر زور دیتے ہیں‘ غزہ کے شہریوں کی آزادانہ نقل و حرکت یقینی بنائی جائے۔اسلامی ممالک کے وزرائے خارجہ کے مشترکہ بیان کے مطابق غزہ کی تعمیر نو اور بحالی کے فوری آغاز پر اتفاق کیا گیا ہے جبکہ بیان میں فلسطینی اتھارٹی کے غزہ میں ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے حالات سازگار بنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔شمالی غزہ میں اسرائیل کے ڈرون حملے میں ایک شہری شہید اور 3 دیگر شدید زخمی ہو گئے۔ اسرائیل کے طیاروں نے مشرقی غزہ کے مختلف علاقوں پر شدید فضائی حملے کیے۔ اسرائیل کی فورسز نے شمالی علاقے شیخ زاید میں مکانات مسمار کرنے کی کارروائیاں بھی کیں۔ اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ کے بیرون ملک امور کے سربراہ خالد مشعل نے فلسطین کی آزادی اور استقلال کے لیے ایک وسیع عالمی اتحاد کی تشکیل کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ حالات اس کے شدت کے ساتھ تقاضا کرتے ہیں کہ صہیونی ریاست پر اسی نوعیت کا عالمی دباؤ قائم کیا جائے جیسا جنوبی افریقا کے نسلی امتیاز کے خاتمے سے قبل دنیا نے وہاں کی حکومت پر ڈالا تھا۔ انہوں نے یہ بات استنبول میں شروع ہونے والی ’’العہد للقدس: تصفیہ اور نسل کشی کے مقابلے میں امت کی ارادے کی تجدید‘‘ کے عنوان سے منعقدہ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ اس موقع پر ترکیے کے وزیرِ خارجہ ہاکان فدان نے کہا ہے کہ حماس کو غیر مسلح کرنے کا عمل حقیقت پسندانہ اور مرحلہ وار انداز میں حل ہونا چاہیے‘ حماس کو غیر مسلح کرنے کے عمل کو ترجیحات کی فہرست میں سب سے آخر میں رکھا جائے‘ حماس کو غیر مسلح کرنے سے پہلے غزہ میں انتظامی کنٹرول کی منتقلی، نئی پولیس فورس کا قیام اور انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی ناگزیر ہے۔شام کے عبوری صدر احمد الشرع نے دوحا فورم میں اپنے خطاب میں صہیونی ریاست اسرائیل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق شامی صدر نے کہا کہ اسرائیل اب غزہ میں جاری ہولناک قتل عام سے عالمی توجہ ہٹانے کے لیے خطے کے دیگر ممالک میں بحران پیدا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل نے اب تک شام پر ایک ہزار سے زاید فضائی حملے کیے اور 400 سے زیادہ سرحدی دراندازیوں میں ملوث رہا ہے۔ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قطری وزیراعظم شیخ محد بن عبدالرحمان آل ثانی نے کہا کہ غزہ جنگ بندی اسرائیلی فوج کے انخلا اور آزاد فلسطینی ریاست تک نامکمل ہے۔ انہوں نے کہا کہ غزہ جنگ بندی ابھی حتمی نہیں ہے اور اس کے ثمرات اس لیے نہیں مل رہے کیوں کہ یہ صرف غزہ کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ مغربی کنارے اور فلسطینیوں کے اپنی خودمختار اور آزاد ریاست کے حق کا معاملہ ہے‘ امن تب ہی ممکن ہے جب اسرائیل مکمل طور پر غزہ سے اپنی افواج نکال لے، غزہ میں استحکام بحال ہو اور لوگوں کی آمد و رفت آزادانہ ممکن ہو۔ اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال زمیر نے تحقیقاتی رپورٹ پر کہا کہ 7 اکتوبر 2023ء کے حملے کو روکنے کی ناکامی صرف فوج پر عاید نہیں ہوتی بلکہ یہ حکومتی پالیسیوں کا شاخسانہ بھی تھا‘ سب سے زیادہ حماس کو پیسے سے خریدنے کا تصور تباہ کن ثابت ہوا‘ برسوں تک اسرائیلی حکومتوں خصوصاً وزیراعظم نیتن یاہو کی قیادت میں غزہ میں قطری رقوم بھیج کر حماس کو خاموش رکھنے کی پالیسی اختیار کی گئی۔ ایال زمیر نے اسے ایک ’’گھمبیر غلطی‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس حکمتِ عملی نے حماس کو بڑے پیمانے پر عسکری تیاری اور مضبوطی کا موقع فراہم کیا جس کا مظاہرہ انہوں نے 7 اکتوبر 2023ء کو اسرائیل پر حملہ کرکے کیا۔ غزہ میں اسرائیلی حمایت یافتہ گینگ ’القوات الشعبیہ‘ نے اپنے سرغنہ کے قتل کے بعد حماس کو کھلی جنگ کی دھمکی دیدی۔ عرب میڈیا کے مطابق یہ دھمکی گینگ کے نئے سربراہ غسان الدہینی نے دی جس نے یاسر ابوشباب کے قتل کا بدلہ حماس سے لینا کا اعلان کیا ہے۔ گینگ کے نئے سربراہ کا انٹرویو اسرائیلی ٹی وی چینل 12 پر نشر کیا گیا جس میں اس نے دھمکی دی کہ اسرائیلی انخلا کے بعد حماس سے کھلی جنگ کریں گے۔یورپی پارلیمنٹ کے متعدد اراکین نے یورپی یونین کی خارجہ پالیسی چیف کایا کالاس کو ایک خط لکھا ہے جس میں اسرائیل جارحیت سے دور رہنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق خط میں کہا گیا ہے کہ 789 دن کی نسل کشی اور 58 سال کی غیر قانونی قبضے کے بعد ضروری ہے کہ یورپی پارلیمنٹ واضح پیغام دے کہ یورپ مزید شریک جرم نہیں رہ سکتا۔اسرائیل کا جنگی جنون ختم نہ ہوا، اسرائیلی کابینہ نے بجٹ 2026ء میں اسرائیلی افواج کے لیے 35 بلین ڈالر کی بھاری رقم مختص کردی۔ خبر ایجنسی کے مطابق اسرائیلی کابینہ نے بجٹ کی منظوری دیدی، دفاع کے لیے 35 بلین ڈالر مختص کیے گئے ہیں جو مجوزہ 28 بلین ڈالر کے مقابلے 25 فیصد زیادہ ہیں۔
مسلم ممالک