data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251030-03-4
خلیل الرحمن
یہ جو ہمارے ہاں جمہوریت کا ڈھونگ رچا ہوا ہے یہ درحقیقت موروثیت کا وہ شاخسانہ ہے کہ انسان زبانِ حال سے توبہ ہی کہے صاف نظر آتا ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ ایک خاندانی سلطنت کا ایسا کھیل ہے جو پشت در پشت چلا آ رہا ہے۔ جمہوریت؟ یہ تو محض نام بڑے اور درشن چھوٹے والا معاملہ رہ گیا ہے۔ یہ تو ایک کھوکھلی ڈگڈگی ہے جسے پردے کے پیچھے بیٹھا کوئی خاندان اپنی مرضی سے بجاتا ہے، باہر سے نعرہ بلند ہوتا ہے سب کا ساتھ سب کا وکاس مگر اندرونی حقیقت یہ ہے کہ جب دیکھو وہی پرانی دال وہی پرانا سالن یعنی باپ گیا تو بیٹا، بیٹا نہ ہو تو بھتیجا اور اگر وہ بھی دستیاب نہ ہو تو داماد صاحب وارث بن کر پگڑی سنبھال لیتے ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ عوام ہمیشہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں اور کرسی کی بغل گیری کا حق ہمیشہ ایک ہی خاندان کے لیے مخصوص ہو کر رہ گیا ہے۔
پہلے زمانے میں یہ موروثیت کا روگ صرف سیاست کی بغل تک محدود تھا مگر کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا کے مصداق اب تو یہ مرض چھوت کی طرح ہر جانب پھیل گیا ہے حیرت ہے اب تو سرکاری دفتروں کا حال یہ ہے کہ گویا یہ باپ دادا کی جاگیر ہوں جو تقسیم ہو رہی ہو محکمہ در محکمہ ایک موروثی لائسنس بٹ رہا ہے یہ موروثیت نہیں بلکہ ایک ایسا بڑا پیڑ ہے جس کے پھل ہمیشہ کڑوے ہی ہوتے ہیں۔
جب اہلیت اور لیاقت کی جگہ خاندان اور تعلق کی بنیاد پر کرسی مل جائے تو پھر اندھیر نگری چوپٹ راج کا سماں بننا تو یقینی ہے افسروں کے بچے بغیر دوڑ دھوپ کے وہی کرسی پر براجمان ہو جاتے ہیں گویا گھر کی مرغی دال برابر والا معاملہ ہے باہر کے لائق فائق جوان محض تماشائی بنے رہ جاتے ہیں جبکہ صاحب بہادر کا شہزادہ بڑے ٹھاٹھ باٹھ سے فائلوں پر دستخط کرتا ہے۔
یہ موروثی شاہزادے کرپشن نہیں کرتے بلکہ یوں سمجھیے کہ اپنے خاندانی حق کا بجٹ وصول کرتے ہیں۔ سامنے ہی بیٹھے مال ہڑپ کر رہے ہیں اور پوچھنے والا کوئی نہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ مرض نہیں بلکہ کوئی خاندانی تمغہ ہو جسے سینے پر سجا کر چچا غالب کی طرح اکڑ کر چلا جا رہا ہو یہ کرپشن ان کے لیے کوئی عیب نہیں بلکہ ایک خاندانی رسم ہے جسے وہ بڑے فخر سے نبھاتے ہیں۔
اب نوکریاں قابلیت سے نہیں بلکہ یہ دیکھ کر ملتی ہیں کہ آپ کا ماموں کس کرسی پر بیٹھا ہے یا آپ کی خالہ کس افسر کی اہلیہ ہیں اندھوں میں کانا راجا بن کر سارے نااہل رشتہ دار اہم عہدوں پر بڑے آرام سے براجمان ہو جاتے ہیں اور لائق لوگ محض منہ تکتے رہ جاتے ہیں یہاں سارا کام خیر سے نہیں بلکہ سفارش سے ہوتا ہے۔ چور چور مَو سیرا بھائی والی بات ہے ایک کرپٹ دوسرے کو تحفظ دیتا ہے۔
جمہوریت کا کیا کہیے یہ ہے بظاہر گْل؍ مگر حقیقت میں شاخسانہ ہے یہ موروثیت کا؍ ہر ایک منصب یہاں وراثت میں بٹ رہا ہے؍ گویا یہ ملک نہیں کوئی خاندانی جاگیر ہے؍ ہمارے حال پر ہنسنا تو بنتا ہے یارو
ہم نے خود ہی اپنے لیے یہ بیماری چْنی ہے۔
یہاں قانون صرف غریب کی پہچان کے لیے ہے جب کہ طاقتور کے لیے تو قانون ایک رَبر اسٹیمپ کی مانند ہے جسے جب چاہا مروڑ دیا یہ ناانصافی اب دین و ایمان بن چکی ہے اور غریب کی آہ کو سننے والا کوئی نہیں۔
یہ موروثیت تو ملک کے لیے زہر ِ ہلاہل سے کم نہیں جو پوری قوم کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہی ہے یہ جمہوریت ایک کاغذی شیر سے زیادہ کچھ نہیں جو صرف دکھاوے کے لیے کھڑا کیا گیا ہے حقیقی طاقت وہی خاندان ہے جو نسلوں سے تخت اور حکومت کو اپنا حق ِ وراثت سمجھتا آ رہا ہے۔
تو صاحبو خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہ جو ہمارے ہاں جمہوریت کی بڑی بڑی باتیں ہوتی ہیں نا یہ دراصل میاں کی دوڑ مسجد تک والی بات ہے ہمیں تو اب اس موروثیت کے مرض پر غم کم اور مسکراہٹ زیادہ آنی چاہیے کہ قوم نے خود ہی اپنی تقدیر کو خاندانی نائی کے ہاتھوں میں دے رکھا ہے جو ہر پانچ سال بعد ایک ہی پرانے اوزار سے نیا بال کاٹتا ہے۔
یہ موروثی شاہزادے کہتے ہیں کہ وہ ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے یہ خدمت نہیں ہے جناب یہ تو ان کی پشتینی دکان کی مفت کی دیہاڑی ہے جسے یہ بڑے سج دھج کر سمیٹتے ہیں اور عوام کو جمہوریت کے خوشنما خواب دکھا کر یہ دھن بجتی رہتی ہے۔
ڈگڈگی بجاتے راج گھرانے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: یہ موروثیت نہیں بلکہ جاتے ہیں ہیں اور ہے جسے کے لیے گیا ہے رہا ہے
پڑھیں:
گٹر کی بدبو دار سیاست بند کرو
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251215-03-8
اے ابن آدم کالم نگاری کوئی مذاق کام نہیں ہے، مجھے کالم نگاری کرتے کم از کم 30 سال ہوچکے ہیں, میں نے لسانیت و فرقہ واریت کے خلاف خوب لکھا، عوامی مسائل پر خوب لکھا اور جو پارٹی اقتدار میں آتی تو میری یہ کوشش ہوتی کہ اس کی اصلاح کی جائے اور اگر تنقید ضروری ہوتی تو ہمیشہ تنقید برائے تعمیر کو سامنے رکھ کر کرتا۔ کئی سال سے قارئین نے نوٹ کیا ہوگا کہ میں عوامی مسائل پر جب قلم اٹھاتا ہوں تو یہ ضرور تحریر کرتا ہوں کہ سب سیاسی جماعتوں کو آزما کر تو دیکھ لیا سوائے بربادی کے قوم کو کیا ملا، روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ لگانے والی پارٹی نے عوام کو سوائے مسائل کے کچھ نہیں دیا ان کے بڑے سے چھوٹے سب ارب پتی بن گئے اور عوام کو ان لوگوں نے بھکاری بنادیا، روزانہ کی بنیاد پر جھوٹ بولتے ہیں عوام کو بس سنہرے خواب دکھانے کے علاوہ کوئی ایسا کام نہیں کیا جو قابل تعریف ہو۔ بقول حافظ نعیم الرحمن پیپلز پارٹی ایک خاندان اور 40 وڈیروں کا نام ہے، گائوں، دیہات میں عوام کو محکوم بنایا ہوا ہے اور اب شہروں پر قبضہ کررہے ہیں اسی طرح چودھریوں، سرداروں اور چند خاندانوں نے قوم کو غلام ابن غلام بنا رکھا ہے۔ انگریز کی خدمت کے صلے میں جاگیریں لینے والے اور ان کی اولاد قوم پر مسلط ہے۔ افسر شاہی، استحصالی اور ظالم کے نظام میں عوام کو جڑا ہوا ہے، صرف اپنے اقتدار اور تسلط کو قائم رکھنے کے لیے تعلیم، معیشت، پارلیمنٹ، عدالت سمیت ہر شعبے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ تمام پارٹیاں، خاندان، وراثت اور وصیت کے نام پر چل رہی ہیں، تمام پارٹیوں نے وڈیروں اور جاگیرداروں کو اپنے ساتھ ملایا ہوا ہے، صرف جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو ملک میں جاری اس ظلم کے نظام کو ختم کرسکتی ہے۔
پوری دنیا نے دیکھا کہ 21 سے 23 نومبر کو لاہور میں مینار پاکستان پر ملک کی تاریخ کا ایسا اجتماع منعقد ہوا جس کے نظام کو دیکھ کر دنیا حیران ہوگئی۔ یہ اجتماع دراصل ایک عوامی انقلاب کی نوید تھی جس کا عنوان تھا بدل دو نظام۔ اے ابن آدم یہ عنوان ملک و قوم کی ضرورت ہے۔ یہ محض عوامی جلسہ نہیں تھا۔ بلکہ یہ ایک فکری بیداری اور بیدارِ شعور کا مظہر تھا، اتنے بڑے اجتماع نے حکمرانوں کی نیندیں حرام کردی ہیں۔ شہر کے گردو نواح سے لے کر بادشاہی مسجد تک ہر جانب پھیلتے ہوئے انسانی سمندر نے ثابت کردیا کہ قوم کو اب حقیقی انقلاب کی طلب ہے۔ ہمارے ملک کی روایتی سیاست موروثی قیادت اور استحصالی نظام سے عوام تنگ آچکی ہے۔ حافظ صاحب نے فرمایا کہ اسلام میں کسی بھی مقدس ہستی کو کوئی استثنا حاصل نہیں، قانون سے کوئی بالاتر نہیں تو پھر ملک کا کوئی صدر، وزیراعظم، گورنر، آرمی چیف قانون سے بالاتر کیسے ہوسکتے ہیں۔ 27 ویں ترمیم جیسے فیصلوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمارے فیصلے اسلام کے مطابق نہیں بلکہ مراعات یافتہ طبقوں اور بیرونی طاقتوں کی خواہشات کے تحت کیے جاتے ہیں۔ آرٹیکل A-140کا مکمل نفاذ دراصل حقیقی جمہوریت کی پہلی شرط ہے جبکہ پنجاب کا موجودہ بلدیاتی ایکٹ عوامی نہیں بلکہ سیاسی قبضے کا نمونہ ہے، جلسے میں ایک روڈ میپ دیا گیا اگر اس روڈ میپ پر ایمانداری سے کام کیا جائے تو یہ روڈ میپ جو جماعت اسلامی نے دیا ہے یہ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اتنا بڑا اجتماع اتنی خوب صورت سے ختم ہوا ایک ٹیم ورک دیکھنے کو ملا اپنی مدد آپ کے تحت سارے انتظامات کیے گئے تھے۔ جماعت اسلامی ایک حقیقی اور صحت مند جمہوریت کا قیام چاہتی ہے جس کے باشندے ذی شعور ہوں حکومت کا بدلنا اور بننا ان کی آرا مرض پر موقوف ہو۔
آج میرا پاکستان 78 برس کا ہوچکا مگر آج بھی ہم محکوم ہیں، اللہ کے کرم سے ہمارے پاس بہترین انسانی مادی اور معدنی وسائل موجود ہیں مگر افسوس کہ ان تمام وسائل پر ایک خاص طبقے نے قبضہ کررکھا اور عام آدمی کو اس کے حقوق دستیاب نہیں، اسے ہر طرف محرومیوں کا سامنا ہے وہ تعلیم، صحت، خوراک و رہائش جیسی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے۔ جبکہ مراعات یافتہ خود ٹیکس تک دینے کو تیار نہیں اور عام آدمی پر ہر روز نت نئے اور بھاری ٹیکسوں کا بوجھ لادا جارہا ہے، بجلی کا بل اس کی سب سے بڑی مثال ہے اس کے علاوہ Prize Band پر جو انعامات نکلتے ہیں، اس پر تو 30 فی صد تک ٹیکس لیا جارہا ہے، یہ ظلم ہے ایک آدمی برسوں سے یہ Band رکھ رہا ہے اس کے ساتھ اگر میرا بڑا انعام نکل آیا تو میں بچوں کی شادی وغیرہ یا حج کروں گا مگر افسوس اس میں بھی حکومت ایک بڑا حصہ اپنے پاس رکھتی ہے، ابن آدم کہتا ہے کہ انعام کی رقم پر 5 فی صد ٹیکس تو سمجھ آتا ہے۔ ایسے بے شمار ظلم ہیں جو یہ عوام 78 سال سے برداشت کررہے ہیں مگر اب مجھے لگتا ہے حافظ نعیم الرحمن کے تاریخی خطاب کے بعد سے نظام میں تبدیلی کی بُو آرہی ہے۔
گلشن اقبال 13-D میں بنگلہ نمبر B-60 پر ہونے والا قبضہ اور اس بدمعاش کی بدمعاشی جس طریقے سے جماعت کے کارکنوں اور عوام نے نکالی یہ اُس نظام کی تبدیلی کی ابتدا ہے، نام نہاد وکیل جو ایک شریف آدمی کے گھر پر زبردستی قبضہ کرنا چاہ رہا تھا، اس کو عوام کی طاقت نے ایسا سبق سکھایا ہے کہ اب کوئی بھی کسی کے گھر، پلاٹ پر قبضہ کرنے سے پہلے 10 بار سوچے گا، گلشن کے ٹائون ناظم اور ان کی پوری ٹیم مبارک باد کی مستحق ہے۔ دوسرا واقعہ 3 سال کے فرشتے ابراہیم کا ہے جو نیپا چورنگی کے گٹر میں گر کر انتقال کرگیا، میں خود بھی وہاں موجود تھا، رات تک کوئی سرکاری ذمے دار موجود نہیں تھا۔ فاروق ستار آئے تو مشتعل عوام نے ان کو گالیاں دیں، ان کو گاڑی سے اُترنے کی بھی ہمت نہیں ہوئی۔ مرتضیٰ وہاب کو میڈیا نے بے پناہ ذلیل کیا یہ گٹر کی سیاست آج سے نہیں بلکہ بھٹو صاحب کے دور سے چل رہی ہے۔ ماں باپ کے سامنے معصوم ابراہیم کا گٹر میں گر جانا ماں کی آہ اور اس ماں کا تڑپنا دل ہلا رہا تھا۔ بقول میرے دوست شبیر ارمان لوگ کہتے ہیں کہ یہ مافیاز کا شہر ہے، میں کہتا ہوں یہ بھیڑیوں کی شکار گاہ بن چکا ہے جہاں صبح و شام معصوم غریب شہری ان کا شکار ہوتے رہتے ہیں اور کوئی شکاریوں کو گرفت کرنے والا نہیں ہے۔ ڈاکو، ڈکیت، ڈمپرز انہیں قتل کرتے ہیں، کچل دیتے ہیں، ناجائز منافع خور انہیں الگ لوٹتے ہیں، حرام خور راشی افسران ان کو الگ لوٹتے ہیں، سرکاری عوامی سہولت نام کی حد تک ہیں، عملی طور پر شہری ان سرکاری سہولتوں کے لیے ترستے ہیں، یہ شہر نہ ہوا جہنم ہوگیا۔ جس کو دیکھو کہتا پھرتا ہے کراچی ہمارا ہے، کراچی کے دعوے دار بے شمار ہیں لیکن اس کا اپنا غمگسار کوئی نہیں، کراچی والوں کو آخری امید اب جماعت اسلامی سے ہے۔ اے ابن آدم کراچی منی پاکستان ہے، خدارا اس چھوٹے پاکستان کو ملک کا جھومر بنائیں، کلنک کا ٹیکہ نہیں، گٹر کی سیاست کرنے والوں کا تو حشر نشر ہوگیا یہ ابتدا ہے نظام کو بدلنے کی کراچی والوں اب وقت آگیا ہے ان چوروں سے حساب کتاب لینے کا۔
شجاع صغیر
سیف اللہ