ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار
اشاعت کی تاریخ: 1st, November 2025 GMT
لاہور (نیوز ڈیسک) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ایک اہم فیصلہ سناتے ہوئے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی (DIC) کا شہری کو سکیورٹی فراہم نہ کرنے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
جسٹس امجد رفیق نے شہری سیف علی کی درخواست پر 10 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے جبکہ حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پولیس کسی بھی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے، آئین کے تحت شہریوں کی جان کا تحفظ مشروط نہیں، ریاست کو ہر قیمت پر اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرنے ہوں گے۔
عدالت نے قرآن مجید کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ جس نے ایک جان بچائی، اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔
درخواست گزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کیس میں سٹار گواہ ہے اور مقتولین کے لواحقین کی جانب سے مسلسل دھمکیاں مل رہی ہیں۔
پولیس نے درخواست گزار کو نقل و حرکت محدود کرنے کا مشورہ دیا تھا جبکہ آئی جی پنجاب کی رپورٹ کے مطابق ڈی آئی سی نے درخواست گزار کو دو پرائیویٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی تھی۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کے تحت پولیس پروٹیکشن کی 16 مختلف کیٹیگریز بنائی گئی ہیں جن میں وزیراعظم، چیف جسٹس، بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات شامل ہیں، تاہم پالیسی کے مطابق آئی جی پولیس مستند انٹیلی جنس رپورٹ کی بنیاد پر کسی بھی شہری کو 30 روز تک پولیس پروٹیکشن فراہم کر سکتا ہے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، پنجاب وٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت ایف آئی آرز میں گواہوں کو تحفظ فراہم کیا جا سکتا ہے، شہری کے تحفظ کا حق آئینی، قانونی اور اخلاقی فریضہ ہے۔
عدالت نے قرار دیا کہ ڈی آئی سی کی رپورٹ کی بنیاد پر شہری کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب عمل ہے، اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو پولیس پروٹیکشن لینا اس کا حق ہے۔
عدالت نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا شہری کو سکیورٹی نہ دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواست گزار کو فوری طور پر پولیس تحفظ فراہم کرنے کا حکم دے دیا۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: درخواست گزار انٹیلی جنس عدالت نے شہری کو کی جان
پڑھیں:
آرٹیفیشل انٹیلی جنس چیٹ بوٹس درست معلومات فراہم نہیں کرتے،تحقیق میں انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
برلن: آرٹیفیشل انٹیلی جنس چیٹ بوٹس درست معلومات فراہم نہیں کرتے۔
دنیا بھر کے 22 عالمی نشریاتی اداروں کی مشترکہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آٓئی) چیٹ بوٹس سوالات کے فراہم کردہ جوابات میں بھی بہت زیادہ غلطیاں کرتے ہیں۔
جرمنی میں شائع رپورٹ کے مطابق تحقیق سے پتا چلا کہ چیٹ جی پی ٹی، جیمنائی اور کوپائلٹ جیسے اے آئی چیٹ بوٹس خبروں کو اکثر توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں اور حقائق کو رائے سے الگ نہیں کر پاتے۔
مذکورہ تحقیق 22 عوامی نشریاتی اداروں نے کی، جن میں خود ڈی ڈبلیو بھی شامل تھا، تحقیق کے دوران چار مشہور اے آئی اسسٹنٹس چیٹ جی پی ٹی، مائیکروسافٹ کے کوپائلٹ، گوگل کا جیمنائی اور پرپلیکسٹی اے آئی کا جائزہ لیا گیا۔
تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ تمام مذکورہ اے آئی بوٹس مجموعی طور پر خبروں کو 45 فیصد وقت غلط یا ناقص طور پر بیان کرتے ہیں، چاہے خبروں کی زبان کوئی بھی ہو اور ان خبروں کا تعلق کسی بھی علاقے یا ملک سے کیوں نہ ہو لیکن ان میں غلطیاں ہوتی ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی، این پی آر اور دیگر اداروں کے صحافیوں نے مذخورہ چاروں اے آئی اسسٹنٹس سے عام خبری سوالات پوچھے، جیسے ’یوکرین کا معدنیات کا معاہدہ کیا ہے؟ یا ’کیا ٹرمپ تیسری بار الیکشن لڑ سکتے ہیں؟‘
مذکورہ اداروں کے صحافیوں نے اے آئی چیٹ بوٹس کی جانب سے دیے گئے 3,000 جوابات کا جائزہ لیا، ان کا معیار دیکھا، درستگی، ذرائع کا حوالہ، سیاق و سباق، حقائق اور رائے میں فرق سمیت مناسب ایڈیٹوریل انداز کو بھی دیکھا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ اے آئی چیٹ بوٹس کے 45 فیصد جوابات میں کم از کم ایک بڑی خرابی تھی، 31 فیصد میں ذرائع کی سنگین غلطی اور 20 فیصد میں حقائق کی بڑی غلطی تھی، یعنی ان میں درست حقائق نہیں دیے گئے تھے۔