بچپن میں چینی کا محدود استعمال دل کی بیماریوں کے خطرات کم کرتا ہے، تحقیق
اشاعت کی تاریخ: 26th, October 2025 GMT
ایک حالیہ تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ حمل کے دوران اور بچوں کے ابتدائی برسوں میں چینی کے استعمال کو محدود رکھنے سے دل کی خطرناک بیماریوں کے امکانات نمایاں طور پر کم ہو سکتے ہیں۔
تحقیق میں برطانیہ کے 63 ہزار سے زائد بالغ افراد کا ڈیٹا شامل کیا گیا، جن میں سے زیادہ تر اُن ماؤں کے ہاں پیدا ہوئے تھے جو 1950 کی دہائی کے اوائل میں چینی کی راشننگ کے دور میں زندگی گزار رہی تھیں۔ اُس وقت حاملہ خواتین کے لیے روزانہ چینی کا استعمال 40 گرام سے کم مقرر تھا، جبکہ دو سال سے کم عمر بچوں کو کسی بھی قسم کی اضافی چینی نہیں دی جاتی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: ذیابطیس نوجوانوں میں دل کی بیماریوں، اموات کی بڑی وجہ
ماہرین نے الیکٹرانک ہیلتھ ریکارڈز کے ذریعے ان افراد کی صحت کا طویل عرصے تک جائزہ لیا۔ نتائج سے ظاہر ہوا کہ جن افراد کو پیدائش سے دو سال کی عمر تک چینی کی انتہائی محدود مقدار ملی، اُن میں دل کی بیماری، ہارٹ اٹیک، فالج اور دل کے دیگر عوارض کے امکانات واضح طور پر کم تھے۔
ان افراد میں دل کے امراض کا مجموعی خطرہ 20 فیصد، ہارٹ اٹیک کا 25 فیصد، دل کے ناکام ہونے کا 26 فیصد، ایٹریل فیبریلیشن کا 24 فیصد، فالج کا 31 فیصد اور دل کی بیماری سے اموات کا امکان 27 فیصد کم دیکھا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: 14 سالہ بچے نے دل کی بیماری کا پتا لگانے والی اے آئی ایپ تیار کرلی
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ چینی کے کم استعمال سے دل کے امراض میں کمی کی ایک ممکنہ وجہ ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کے خطرات میں کمی بھی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے واضح کیا کہ اگرچہ یہ تحقیق وجہ اور اثر کے تعلق کو مکمل طور پر ثابت نہیں کرتی، لیکن نتائج اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ دورانِ حمل اور ابتدائی بچپن میں چینی کے اضافی استعمال سے پرہیز صحتِ قلب کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news ابتدائی عمر برطانوی تحقیق چینی حمل خطرہ کم دل کی بیماری شوگر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: برطانوی تحقیق چینی دل کی بیماری شوگر دل کی بیماری میں چینی
پڑھیں:
اَخلاق اور اِسلامی عبادات
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بڑی بڑی اسلامی عبادات واضح اَخلاقی اہداف اور مقاصد رکھتی ہیں۔ نماز مسلمان کی زندگی میں پہلی یومیہ عبادت ہے۔ یہ فرد کی ذاتی زندگی کی تشکیل اور دینی غیرت و حمیت کی تربیت کا شان دار فریضہ انجام دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یقینا نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘ (العنکبوت: 45)۔
نماز مسلمان کے لیے اَخلاقی سہارا بھی ہے جس کے ذریعے وہ مشکلات و مصائبِ زندگی کے مقابلے میں مدد حاصل کرتا ہے۔ فرمایا: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو‘‘ (البقرہ: 153)
زکوٰۃ وہ عبادت ہے جسے قرآنِ کریم نے نماز کے ساتھ متصل (التوبہ: 103) بیان کیا ہے۔ یہ کوئی مالیاتی ٹیکس نہیں ہے جس کو امیروں سے وصول کرکے فقیروں پر تقسیم کر دیا جاتا ہے، بلکہ یہ جہانِ اَخلاق میں فرد کی تطہیر اور تزکیے کا وسیلہ بھی ہے۔ بالکل اُسی طرح جس طرح یہ مال و دولت کی ترقی اور افزایش کا ذریعہ ہے۔ فرمایا: ’’اے نبیؐ! تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انھیں پاک کرو‘‘ (التوبہ: 103)
اسلام میں روزے کا مقصد نفس کو شہواتِ نفسانی اور مرغوباتِ حیوانی کی تکمیل سے رُکنے کا ضابطہ سکھانا اور اس ضابطے کی عملی مشق کرانا ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ نفس کو تقویٰ کی خاصیت کے لیے تیار کرتا ہے۔ وہ تقویٰ جو اسلامی اَخلاق کا سنگم ہے۔ اسلامی عبادات کا نقطۂ اتصال اور احکامِ اسلامی کا مرکزی خیال ہے۔ فرمایا گیا:
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی “ (البقرہ: 183)۔
حج کا مقصود اور مطلوب مسلمان کی روحانی و جسمانی تطہیر بھی ہے۔ اللہ کی عبادت کے لیے دنیا سے الگ تھلگ ہونا بھی۔ زندگی کی خوشنمائیوں اور رعنائیوں، کشمکشوں اور تصادمات سے اوپر اٹھ کر اللہ کی طرف متوجہ ہونا بھی۔ یہی وجہ ہے کہ حج کے اعمال شروع کرنے سے پہلے احرام پہننا فرض کیا گیا تاکہ بندہ ایک ایسی کیفیت میں داخل ہو جائے جس کی بنیاد اور اساس سادگی و انکساری، امن و سلامتی اور سنجیدگی و پاکیزگی ہے۔ یہ خوبیاں معمول کی دنیاوی زندگی کی رعنائیوں میں عموماً ابھر کر اس طرح سامنے نہیں آتیں جیسے دورانِ حج ممکن ہو جاتی ہیں۔ فرمایا:
”حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اُسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اُس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو “ (البقرہ:
197)۔
اسلامی عبادات اگر یہ مفاہیم و معانی کھو جائیں اور اپنے مطالب و مقاصد کو پورا نہ کریں تو وہ اپنا جوہر اور اصل کھو بیٹھتی ہیں۔ وہ ایک بے روح جسم کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ احادیث نبویؐ میں اسی چیز کو بلیغ انداز میں تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ نماز سے متعلق فرمایا گیا: ’’جس شخص کی نماز اُسے بے حیائی سے نہ روکے، اُس کی نماز بے مقصد ہے‘‘۔
تہجد گزار کے بارے میں آیا ہے: ’’کتنے تہجد گزار ایسے ہیں جن کو جاگنے کے سوا قیام سے کچھ ہاتھ نہیں آتا‘‘۔
روزے کے بارے میں فرمایا: ’’جو شخص جھوٹ اور جھوٹ پر مبنی فعل نہ چھوڑے، اللہ کو اُس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔
بعض لوگ عبادات کو محض خاص قسم کی تعبدی حرکات کی ادایگی سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ نماز، روزہ، اور حج وغیرہ کے اعمال کی خاص شکلیں ہیں۔ افسوس ہے کہ عبادات سے متعلق عمومی تصور یہی پایا جاتا ہے، اور یہ تصور غلط ہے۔ اسلام میں عبادت پوری زندگی پر محیط ہے۔ پورا دین عبادت ہے۔ عبادات کے خاص طریقوں اور معروف ارکان کی ادایگی کے ساتھ اَخلاقی قواعد اور نصیحتوں کا اہتمام اس سلسلے میں سرفہرست ہے۔ اور یہ سب کچھ تقربِ الٰہی کے حصول کی غرض سے کیا گیا ہے۔
جب ایک مسلمان سچ بولتا ہے، بھلائی کے کام کرتا ہے، وعدہ پورا کرتا ہے، عہد کو نباہتا ہے، امانت ادا کرتا ہے، عدل کے ساتھ فیصلے کرتا ہے، مقدمات کا تصفیہ انصاف سے کرتا ہے، ناپ تول میں پورا پورا دیتا ہے، نگاہیں نیچی رکھتا ہے، شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے، دوسروں کے جان، مال اور عزت و آبرو پر دست درازی سے باز رہتا ہے، والدین سے اچھا برتائو کرتا ہے، رشتے داریاں ٹوٹنے نہیں دیتا، ہمسایے سے حسن سلوک رکھتا ہے، اپنے مہمان کی عزت و توقیر اور خاطر تواضع کرتا ہے، کمزوروں پر ترس کھاتا ہے، مسکینوں کو کھانا کھلاتا ہے، یتیموں کو دھتکارتا نہیں، خیر کی دعوت عام کرتا ہے، معروف کی تلقین اور منکر کی ممانعت کا فریضہ انجام دیتا ہے، جابر حکمران کے سامنے حق کہتا ہے، زندگی کی تلخیوں پر صبر اور آسانیوں پر شکر کرتا ہے تو وہ یہ سب کچھ انجام دیتے ہوئے دراصل اپنے رب اللہ سبحانہ کی عبادت ہی کرتا ہے۔ وہ کتاب و سنت کے احکام کی تنفیذ اور تعمیل ہی تو کرتا ہے، اور اس تمام تر جدوجہد کے ذریعے وہ رب کی رضا اور خوشنودی چاہتا ہے۔
جو شخص بھی قرآنِ مجید کو غور سے پڑھے گا وہ اَخلاقی حدود کو ایمانی عقائد اور تعبدی شعائر کے پہلو بہ پہلو پائے گا، ان میں کہیں بھی کوئی دُوری اور جدائی نہیں دیکھے گا۔
قرآنِ مجید کا یہ مقام پڑھیے جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
”نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دِل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں“ (البقرہ: 177)۔
اس جامع آیت میں اُن یہودیوں کے رویے اور تصور کی تردید کی گئی ہے جو عبادات کی محض شکلوں (طرزِ ادایگی) اور مراسم ہی کو سب کچھ سمجھتے تھے۔ قرآنِ مجید نے ان کے تصورِ عقیدہ و شعائر دونوں کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ نیکی بس یہی نہیں ہے کہ تم مشرق و مغرب کی طرف رخ کر لو، بلکہ (عقیدہ میں) نیکی یہ ہے کہ اللہ پر ایمان لایا جائے، آخرت پر ایمان رکھا جائے، (شعائر میں) نیکی یہ ہے کہ نماز قائم کی جائے اور زکوٰۃ ادا کی جائے، (اعمال میں) نیکی یہ ہے کہ اللہ کی محبت میں قریبی اور دور کے رشتے داروں اور ہمسائیوں وغیرہ پر مال خرچ کیا جائے، وعدے پورے کیے جائیں، تنگی تکلیف اور جنگ کے وقت صبر سے کام لیا جائے۔
اسی طرح دوسری جگہ فرمایا:
”نصیحت تو دانش مند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں۔ اور اُن کا طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں، اُسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے۔ اُن کی رَوِش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انھیں برقرار رکھتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں اُن سے بری طرح حساب نہ لیا جائے۔ اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے عَلانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔ آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے“ (الرعد: 19-22)
ان آیات میں ایفاے عہد، صلہ رحمی، صبر، انفاق اور حلم کے اَخلاق کو خشیت الٰہی اور انجامِ بد کے خوف اور قیامِ نماز کے ساتھ بغیر کسی تفریق کے مربوط کیا گیا ہے۔ یہاں انسانی اَخلاق کے روحانی پہلو کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ’ایفا‘ دراصل اللہ کے عہد کا ہے، ’صلہ‘ اس ربط و تعلق کا ہے جس کے وصل کا حکم اللہ نے دیا ہے، اور صبر کا مقصود رضاے الٰہی ہے۔ یہ محض تہذیبی و ثقافتی اور معاشرتی و عمرانی اخلاق نہیں ہیں جو روحانیت سے بالکل خالی ہوں۔
علامہ یوسف القرضاویؒ
گلزار