مصنوعی ذہانت کی بدولت ملازمین کو کام میں کتنا وقت بچتا ہے؟ تحقیق میں دلچسپ انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 9th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
چیٹ جی پی ٹی تیار کرنے والی کمپنی اوپن اے آئی نے اپنی تازہ اسٹیٹ آف انٹرپرائز اے آئی رپورٹ جاری کرتے ہوئے پہلی بار بڑے پیمانے پر یہ جائزہ پیش کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے بڑھتے ہوئے استعمال نے دنیا بھر کے دفتری ماحول اور ملازمین کی کارکردگی کو کس طرح بدل کر رکھ دیا ہے۔
اوپن اے آئی کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق گزرتے وقت کے ساتھ اے آئی اب صرف ایک ٹیکنالوجی نہیں رہی بلکہ اداروں کے اندر ایک خاموش مگر انتہائی مؤثر شریکِ کار کے طور پر ابھر رہی ہے۔
اس مفصل جائزے کی تیاری کے لیے اوپن اے آئی نے دنیا بھر کی 10 لاکھ سے زائد کمپنیوں کے استعمال کا تجزیہ کیا، وہ کمپنیاں جو باقاعدگی سے اس کے اے آئی ٹولز سے فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ اس کے ساتھ 100 مختلف اداروں سے تعلق رکھنے والے 9 ہزار سے زیادہ ملازمین سے رائے لی گئی تاکہ زمینی حقائق کو اعداد و شمار سے جوڑا جا سکے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ دفتری ماحول میں اے آئی ٹیکنالوجی کو شامل کرنے سے 75 فیصد ملازمین کی نہ صرف کام کی رفتار بڑھی بلکہ ان کے کام کے معیار میں بھی نمایاں بہتری دیکھی گئی۔ اسی طرح اتنے ہی فیصد صارفین نے یہ اعتراف کیا کہ اے آئی نے انہیں وہ کام بھی انجام دینے کے قابل بنا دیا جو پہلے ان کی صلاحیت یا وقت سے باہر تھے۔
رپورٹ کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ چیٹ جی پی ٹی انٹرپرائز استعمال کرنے والے افراد روزانہ اوسطاً 40 سے 60 منٹ کا قیمتی وقت بچانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہے جو پہلے معمول کی رپورٹس، ڈیٹا ترتیب، ای میلز یا پیچیدہ تحریری کاموں میں صرف ہو جاتا تھا۔
دستاویز میں اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی ہے کہ اداروں میں اے آئی کو اپنانے کی رفتار حیرت انگیز طور پر بڑھ رہی ہے۔ جن ملازمین نے اے آئی ٹولز کو اپنے روزمرہ میں زیادہ شامل کیا ہے، وہ انہیں محض ایک ٹیکنالوجی نہیں بلکہ دفتر کے ایک قابلِ اعتماد معاون کے طور پر دیکھتے ہیں جو کئی دہرائے جانے والے اور وقت لینے والے کام خودکار انداز میں نمٹا دیتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ مجموعی طور پر لوگ اے آئی کو انتہائی مفید تو سمجھتے ہیں، مگر پھر بھی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو اسے بے حد ضرورت کے بغیر زیادہ استعمال کرنا پسند نہیں کرتی—یعنی فائدے سے انکار نہیں، مگر مکمل انحصار پر اب بھی ہچکچاہٹ موجود ہے۔
یہ رپورٹ واضح کرتی ہے کہ مستقبل کی دفتری دنیا میں اے آئی نہ صرف انسانی محنت کو سہل بنائے گی بلکہ کام کے انداز، رفتار اور معیار کا نقشہ بھی یکسر تبدیل کر دے گی۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: اے ا ئی
پڑھیں:
بچپن میں عام وائرس سے متاثر ہونا کس خطرناک کینسر کا سبب بن سکتا ہے؟
ایک نئی تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بچپن میں ایک عام وائرس سے متاثر ہونے سے، بعد کی زندگی میں مثانے کے کینسر کے خطرات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
برطانوی محققین کو تازہ تحقیق میں یہ معلوم ہوا ہے کہ وائرس مثانے کے بافتوں میں ڈی این اے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
دریافت کو ایک بڑی پیشرفت قرار دینے والے سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ یہ دریافت بتا سکتی ہے کہ کیوں گردے کے ٹرانسپلانٹ کرانے والے مریضوں (جن کو بی کے وائرس کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں، اس وائرس میں نزلے زکام جیسی علامات ظاہر ہوتی ہیں) کے بعد ازاں مثانے کے کینسر میں مبتلا ہونے کے خطرات زیادہ ہوسکتے ہیں۔
یونیورسٹی آف یارک کے محقق اور تحقیق کے سربراہ ڈاکٹر سائمن بیکر کا کہنا تھا کہ وائرس سے متعلقہ کینسر کی دیگر اقسام میں (جیسے کہ سروائیکل کینسر) وائرس ڈی این اے ہمارے جینیاتی مٹیریل کے ساتھ مل جاتے ہیں اور ٹیومر کو بناتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ تحقیق کے نتائج بتاتے ہیں کہ مثانے میں بافتوں کا وائرس کے خلاف مدافعتی عمل ڈی این اے میں تبدیلیوں کا باعث بنتا ہے جو کینسر کا سبب بن سکتا ہے۔