اَخلاق اور اِسلامی عبادات
اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
بڑی بڑی اسلامی عبادات واضح اَخلاقی اہداف اور مقاصد رکھتی ہیں۔ نماز مسلمان کی زندگی میں پہلی یومیہ عبادت ہے۔ یہ فرد کی ذاتی زندگی کی تشکیل اور دینی غیرت و حمیت کی تربیت کا شان دار فریضہ انجام دیتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’یقینا نماز فحش اور برے کاموں سے روکتی ہے‘‘ (العنکبوت: 45)۔
نماز مسلمان کے لیے اَخلاقی سہارا بھی ہے جس کے ذریعے وہ مشکلات و مصائبِ زندگی کے مقابلے میں مدد حاصل کرتا ہے۔ فرمایا: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر اور نماز سے مدد لو‘‘ (البقرہ: 153)
زکوٰۃ وہ عبادت ہے جسے قرآنِ کریم نے نماز کے ساتھ متصل (التوبہ: 103) بیان کیا ہے۔ یہ کوئی مالیاتی ٹیکس نہیں ہے جس کو امیروں سے وصول کرکے فقیروں پر تقسیم کر دیا جاتا ہے، بلکہ یہ جہانِ اَخلاق میں فرد کی تطہیر اور تزکیے کا وسیلہ بھی ہے۔ بالکل اُسی طرح جس طرح یہ مال و دولت کی ترقی اور افزایش کا ذریعہ ہے۔ فرمایا: ’’اے نبیؐ! تم ان کے اموال میں سے صدقہ لے کر انھیں پاک کرو‘‘ (التوبہ: 103)
اسلام میں روزے کا مقصد نفس کو شہواتِ نفسانی اور مرغوباتِ حیوانی کی تکمیل سے رُکنے کا ضابطہ سکھانا اور اس ضابطے کی عملی مشق کرانا ہے۔ بالفاظِ دیگر یہ نفس کو تقویٰ کی خاصیت کے لیے تیار کرتا ہے۔ وہ تقویٰ جو اسلامی اَخلاق کا سنگم ہے۔ اسلامی عبادات کا نقطۂ اتصال اور احکامِ اسلامی کا مرکزی خیال ہے۔ فرمایا گیا:
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیے گئے، جس طرح تم سے پہلے انبیا ؑ کے پیرووں پر فرض کیے گئے تھے۔ اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہوگی “ (البقرہ: 183)۔
حج کا مقصود اور مطلوب مسلمان کی روحانی و جسمانی تطہیر بھی ہے۔ اللہ کی عبادت کے لیے دنیا سے الگ تھلگ ہونا بھی۔ زندگی کی خوشنمائیوں اور رعنائیوں، کشمکشوں اور تصادمات سے اوپر اٹھ کر اللہ کی طرف متوجہ ہونا بھی۔ یہی وجہ ہے کہ حج کے اعمال شروع کرنے سے پہلے احرام پہننا فرض کیا گیا تاکہ بندہ ایک ایسی کیفیت میں داخل ہو جائے جس کی بنیاد اور اساس سادگی و انکساری، امن و سلامتی اور سنجیدگی و پاکیزگی ہے۔ یہ خوبیاں معمول کی دنیاوی زندگی کی رعنائیوں میں عموماً ابھر کر اس طرح سامنے نہیں آتیں جیسے دورانِ حج ممکن ہو جاتی ہیں۔ فرمایا:
”حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں۔ جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اُسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران میں اُس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو “ (البقرہ:
197)۔
اسلامی عبادات اگر یہ مفاہیم و معانی کھو جائیں اور اپنے مطالب و مقاصد کو پورا نہ کریں تو وہ اپنا جوہر اور اصل کھو بیٹھتی ہیں۔ وہ ایک بے روح جسم کی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں۔ احادیث نبویؐ میں اسی چیز کو بلیغ انداز میں تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ نماز سے متعلق فرمایا گیا: ’’جس شخص کی نماز اُسے بے حیائی سے نہ روکے، اُس کی نماز بے مقصد ہے‘‘۔
تہجد گزار کے بارے میں آیا ہے: ’’کتنے تہجد گزار ایسے ہیں جن کو جاگنے کے سوا قیام سے کچھ ہاتھ نہیں آتا‘‘۔
روزے کے بارے میں فرمایا: ’’جو شخص جھوٹ اور جھوٹ پر مبنی فعل نہ چھوڑے، اللہ کو اُس کے کھانا پینا چھوڑنے کی کوئی ضرورت نہیں‘‘۔
بعض لوگ عبادات کو محض خاص قسم کی تعبدی حرکات کی ادایگی سمجھتے ہیں۔ جیسا کہ نماز، روزہ، اور حج وغیرہ کے اعمال کی خاص شکلیں ہیں۔ افسوس ہے کہ عبادات سے متعلق عمومی تصور یہی پایا جاتا ہے، اور یہ تصور غلط ہے۔ اسلام میں عبادت پوری زندگی پر محیط ہے۔ پورا دین عبادت ہے۔ عبادات کے خاص طریقوں اور معروف ارکان کی ادایگی کے ساتھ اَخلاقی قواعد اور نصیحتوں کا اہتمام اس سلسلے میں سرفہرست ہے۔ اور یہ سب کچھ تقربِ الٰہی کے حصول کی غرض سے کیا گیا ہے۔
جب ایک مسلمان سچ بولتا ہے، بھلائی کے کام کرتا ہے، وعدہ پورا کرتا ہے، عہد کو نباہتا ہے، امانت ادا کرتا ہے، عدل کے ساتھ فیصلے کرتا ہے، مقدمات کا تصفیہ انصاف سے کرتا ہے، ناپ تول میں پورا پورا دیتا ہے، نگاہیں نیچی رکھتا ہے، شرم گاہ کی حفاظت کرتا ہے، دوسروں کے جان، مال اور عزت و آبرو پر دست درازی سے باز رہتا ہے، والدین سے اچھا برتائو کرتا ہے، رشتے داریاں ٹوٹنے نہیں دیتا، ہمسایے سے حسن سلوک رکھتا ہے، اپنے مہمان کی عزت و توقیر اور خاطر تواضع کرتا ہے، کمزوروں پر ترس کھاتا ہے، مسکینوں کو کھانا کھلاتا ہے، یتیموں کو دھتکارتا نہیں، خیر کی دعوت عام کرتا ہے، معروف کی تلقین اور منکر کی ممانعت کا فریضہ انجام دیتا ہے، جابر حکمران کے سامنے حق کہتا ہے، زندگی کی تلخیوں پر صبر اور آسانیوں پر شکر کرتا ہے تو وہ یہ سب کچھ انجام دیتے ہوئے دراصل اپنے رب اللہ سبحانہ کی عبادت ہی کرتا ہے۔ وہ کتاب و سنت کے احکام کی تنفیذ اور تعمیل ہی تو کرتا ہے، اور اس تمام تر جدوجہد کے ذریعے وہ رب کی رضا اور خوشنودی چاہتا ہے۔
جو شخص بھی قرآنِ مجید کو غور سے پڑھے گا وہ اَخلاقی حدود کو ایمانی عقائد اور تعبدی شعائر کے پہلو بہ پہلو پائے گا، ان میں کہیں بھی کوئی دُوری اور جدائی نہیں دیکھے گا۔
قرآنِ مجید کا یہ مقام پڑھیے جہاں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
”نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یومِ آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دِل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں اور مسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلاموں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے۔ اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں۔ یہ ہیں راست باز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں“ (البقرہ: 177)۔
اس جامع آیت میں اُن یہودیوں کے رویے اور تصور کی تردید کی گئی ہے جو عبادات کی محض شکلوں (طرزِ ادایگی) اور مراسم ہی کو سب کچھ سمجھتے تھے۔ قرآنِ مجید نے ان کے تصورِ عقیدہ و شعائر دونوں کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا کہ نیکی بس یہی نہیں ہے کہ تم مشرق و مغرب کی طرف رخ کر لو، بلکہ (عقیدہ میں) نیکی یہ ہے کہ اللہ پر ایمان لایا جائے، آخرت پر ایمان رکھا جائے، (شعائر میں) نیکی یہ ہے کہ نماز قائم کی جائے اور زکوٰۃ ادا کی جائے، (اعمال میں) نیکی یہ ہے کہ اللہ کی محبت میں قریبی اور دور کے رشتے داروں اور ہمسائیوں وغیرہ پر مال خرچ کیا جائے، وعدے پورے کیے جائیں، تنگی تکلیف اور جنگ کے وقت صبر سے کام لیا جائے۔
اسی طرح دوسری جگہ فرمایا:
”نصیحت تو دانش مند لوگ ہی قبول کیا کرتے ہیں۔ اور اُن کا طرزِ عمل یہ ہوتا ہے کہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں، اُسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑ نہیں ڈالتے۔ اُن کی رَوِش یہ ہوتی ہے کہ اللہ نے جن جن روابط کو برقرار رکھنے کا حکم دیا ہے انھیں برقرار رکھتے ہیں، اپنے رب سے ڈرتے ہیں اور اس بات کا خوف رکھتے ہیں کہ کہیں اُن سے بری طرح حساب نہ لیا جائے۔ اُن کا حال یہ ہوتا ہے کہ اپنے رب کی رضا کے لیے صبر سے کام لیتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، ہمارے دیے ہوئے رزق میں سے عَلانیہ اور پوشیدہ خرچ کرتے ہیں، اور برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں۔ آخرت کا گھر انھی لوگوں کے لیے ہے“ (الرعد: 19-22)
ان آیات میں ایفاے عہد، صلہ رحمی، صبر، انفاق اور حلم کے اَخلاق کو خشیت الٰہی اور انجامِ بد کے خوف اور قیامِ نماز کے ساتھ بغیر کسی تفریق کے مربوط کیا گیا ہے۔ یہاں انسانی اَخلاق کے روحانی پہلو کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔ ’ایفا‘ دراصل اللہ کے عہد کا ہے، ’صلہ‘ اس ربط و تعلق کا ہے جس کے وصل کا حکم اللہ نے دیا ہے، اور صبر کا مقصود رضاے الٰہی ہے۔ یہ محض تہذیبی و ثقافتی اور معاشرتی و عمرانی اخلاق نہیں ہیں جو روحانیت سے بالکل خالی ہوں۔
علامہ یوسف القرضاویؒ
گلزار
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ہے کہ اللہ زندگی کی کیا گیا اللہ کی کے ساتھ کرتا ہے ا خلاقی ہے کہ ا اور اس گیا ہے کی طرف کے لیے ا خلاق
پڑھیں:
عمل کا شوق اور قبولیت کی آرزو
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انسانی تاریخ کے حسین ترین مناظر میں ایک منظر وہ ہے جب بوڑھے ابراہیم علیہ السلام اور نوجوان اسماعیل علیہ السلام مل کر اللہ کے گھر کی تعمیر کررہے تھے۔ اس وقت ان کے لبوں پر بڑی پیاری دعائیں جاری تھیں، جو زمین سے آسمان تک ہر شاہراہ کو معطر کیے ہوئی تھیں۔ ایمان ویقین سے روشن ان دعاؤں میں پہلی اور بہت پیاری دعا یہ تھی:
”ہمارے ربّ ہم سے قبول فرمالے، بلاشبہہ تو سننے اور جاننے والا ہے“۔
تصور میں دیکھیں اور سوچیں اللہ کے دو عظیم پیغمبر بڑی آزمایشوں اور عظیم قربانیوں سے سرخ رو ہو جانے کے بعد اللہ کے پہلے گھر کی تعمیر میں مصروف ہیں، اور اس وقت بھی سب سے زیادہ یہ فکر دامن گیر ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں ان کا یہ کام قبول ہوجائے۔ یہ کیسی روح پرور کیفیت ہے اور اس میں اچھے کام کرنے والوں کے لیے کیسی گہری نصیحت ہے۔ جب رحمان کے خلیل کو رحمٰن کے گھر کی تعمیر جیسے عظیم کام کے قبول ہونے کی اتنی زیادہ فکر ہے تو عام انسانوں کو دین کے چھوٹے بڑے سب کام کرتے ہوئے قبولیت کی کتنی زیادہ فکر رہنی چاہیے۔
قبولیت کی سچی طلب دل میں بس جاتی ہے تو تمام کام اخلاص کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ قبولیت کی فکر تقاضا کرتی ہے کہ کام کا مقصود صرف اللہ کی رضا ہو اور اس میں کسی کے لیے کوئی حصہ نہیں ہو۔ سوشل میڈیا کے اس زمانے میں، جب کہ ہر شخص کے لیے اپنی کارکردگی کی خبر عام کرنا آسان ہوگیا ہے، اخلاص کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ برائی اس میں نہیں ہے کہ آپ کا کام خبر بن جائے، لیکن برائی اس میں ضرور ہے کہ خبر بنانا ہی کام کا مقصد بن جائے، اور اس طرح پستی کی طرف رخ ہونے کی وجہ سے کام کی خبر آسمان پر جانے کے بجاے زمین کی پستیوں میں ہی بکھر کر رہ جائے۔ ابراہیم ـؑاور اسماعیلؑ نے اخلاص کے ساتھ صرف اللہ کے یہاں قبول ہوجانے کے لیے تعمیر کعبہ کا کام کیا اور اللہ نے اسے قیامت تک کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی خبر بنادیا۔ واقعہ یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے جو کام کیا جائے وہ کائنات کی بہت خاص خبر بن جاتا ہے، شرط یہ ہے کہ وہ کام خبر بننے کے لیے نہیں بلکہ رب خبیر کے یہاں قبول ہونے کے لیے کیا جائے۔
قبولیت کی سچی طلب دل میں بس جاتی ہے، تو اچھے کام کرتے ہوئے دل میں یہ جذبہ جوان رہتا ہے کہ مشکل سے مشکل کام میرے حصے میں آجائے۔ ٹیم میں کچھ لوگ جسمانی طور سے کمزور ہوسکتے ہیں، کچھ کی قوت کار کم ہوسکتی ہے، اور کچھ کی مدت کار تھوڑی ہوسکتی ہے، ایسے میں پوری ٹیم کو قوت ان سے ملتی ہے جو بڑے بڑے بوجھ اٹھانے کے لیے خود کو پیش کرتے ہیں، جنھیں آرام سے بے رغبتی اور کام کا جنون ہوتا ہے، جنھیں مال غنیمت کا شوق نہیں ہوتا ہے بلکہ جامِ شہادت سے عشق ہوتا ہے۔ قبیلہ نخع کے لوگ قادسیہ کے معرکے میں شریک ہوئے اور دوسروں کے مقابلے میں زیادہ کام آگئے۔ سیدنا عمرؓ نے خبر لانے والوں سے پوچھا، نخع کے لوگ کیوں زیادہ شہید ہوئے؟ کیا دوسرے انھیں محاذ پر تنہا چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے؟ انھوں نے وضاحت کی: دراصل ہوا یہ کہ نخع والوں نے اہم ترین محاذ آگے بڑھ کر تنہا خود سنبھال لیے تھے ( الاصابہ فی تمیز الصحابہ)۔ جو مشکل کام اپنے ذمے لیتا ہے، اسی کو تکان زیادہ ہوتی ہے، پسینہ بھی اسی کا زیادہ بہتا ہے، چوٹیں بھی اسے ہی زیادہ آتی ہیں، لیکن وہی پوری ٹیم کے لیے جوش اور طاقت کا سرچشمہ ہوتا ہے، اسی کو دیکھ کر دوسروں کو کام کرنے کا حوصلہ اور توانائی ملتی ہے۔
قبولیت کی سچی طلب ہوتی ہے، تو آدمی شہرت اور نام وَری سے بہت اوپر اُٹھ جاتا ہے۔ اسے اس کی فکر نہیں ہوتی کہ اخبار میں اس کا فوٹو نہیں چھپا، لوگوں کو اس کے کارنامے معلوم نہیں ہوئے، اسے انعام واسناد سے نوازا نہیں گیا، فکر تو اسے بس یہ رہتی ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں وہ مقبول قرار پاجائے۔ اور یہی تو اصل کامیابی ہے۔ اس عظیم کامیابی کے سامنے کسی اعتراف اور کسی انعام کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک معرکے کے بعد قاصد خبر لے کر سیدنا عمرؓ کے پاس پہنچا۔ آپ نے پوچھا معرکے میں کون کون کام آگیا؟ اس نے کچھ خاص خاص لوگوں کے نام بتائے، پھر کہا کچھ اور لوگ بھی کام آگئے جنھیں امیر المومنین نہیں جانتے ہیں۔ یہ سن کر عمرؓ رونے لگے، اور کہنے لگے: امیر المومنین انھیں نہیں جانتا تو اس میں ان کا کیا نقصان ہے، اللہ تو انھیں جانتا ہے، اس نے تو انھیں شہادت کے اونچے مقام پر فائز کردیا ہے، اور عمر کے جان لینے سے ان کا کیا بھلا ہوگا (البدایۃ والنہایۃ، ابن کثیر) جو اللہ کی قدر پہچانتے ہیں، وہ اسی کو کافی سمجھتے ہیں اور اسی کو ضروری بھی سمجھتے ہیں کہ اللہ ان کے عمل کو قبول کرلے۔
قبولیت کی سچی طلب ہوتی ہے تو کام کا معیار بلند رکھنے کا شوق بھی بڑھ جاتا ہے۔ قبولیت کی طلب کام کے حسن پر ذرا سی بھی آنچ آنا گوارا نہیں کرتی۔ اسے پورا یقین ہوتا ہے کہ جب اللہ کی بارگاہ میں قبولیت کے لیے کام کیا جائے تو کام بھی شایان شان ہونا چاہیے اور اس کے دامن پر ذرا سا بھی داغ نہیں لگنا چاہیے۔ ایک بدو سے جب زکوٰۃ وصول کرنے والے نے اس کے تمام اونٹوں کو شمار کرکے ایک سال کا اونٹنی کا بچہ مانگا، تو اس نے کہا اللہ کے راستے میں اس سے کیا ہوگا، نہ دودھ دے، نہ سواری کے کام آئے، پانچ سال کی تیار اور تنومند اونٹنی لے کر جاؤ۔ شعور اور ذوق کی اس بلندی پر پہنچنے کے لیے بس یہ جذبہ کافی ہوتا ہے کہ میرا مقصود اللہ ہے، اسی کے سامنے اعمال کو پیش ہونا ہے، اس لیے میرا ہر عمل اونچی شان والا ہونا چاہیے۔
قبولیت کی سچی طلب ہر اچھے کام کو تکمیل تک پہنچانے کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ یہ طلب اس وقت بے مثال تازگی عطا کرتی ہے، جب تھکن کی شدت سے جسم چور ہوجاتا ہے اور حوصلے جواب دینے لگتے ہیں۔ دل میں شیطان وسوسہ ڈالتا ہے کہ تم اتنے ہی کے مکلف تھے، اب باقی کام کوئی اور کرلے گا یا کسی دوسرے وقت ہوجائے گا۔ لیکن جب قبولیت کی جستجو انگڑائی لیتی ہے تو حوصلوں کو جِلا مل جاتی ہے اور جسم کو نئی توانائی حاصل ہوجاتی ہے۔ جب یہ دھن سوار ہو کہ اللہ کی بارگاہ میں یہ کام قبول ہوجائے تو پھر اس کام کو ادھورا کب کے لیے اور کس کے لیے چھوڑا جائے۔
اللہ کی عظمت پر ایمان رکھنے والے اچھے کاموں کو قابل قبول بنانے کی ہر کوشش کرتے ہیں، اور ان کے قبول ہوجانے کی دُعا کرتے ہیں۔
ڈاکٹر محی الدین غازی
گلزار