Jasarat News:
2025-12-11@20:42:45 GMT

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خصوصیات

اشاعت کی تاریخ: 11th, December 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

اللہ تعالیٰ نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کو بے شمار خصوصیات اور امتیازات سے نوازا، اُن میں سے ایک یہ ہے کہ جمہورِ امت نے آپ کو ”اَفْضَلُ الْبَشَر بَعْدَ الْاَنْبِیَاء‘‘ قرار دیا۔ امامِ اہلسنت امام احمد رضا قادری نے لکھا: ”اس سے مراد افضلیت مِنْ کُلِّ الْوُجُوْہ نہیں ہے بلکہ مطلق افضلیت ہے، سو اگر کسی خاص شعبے میں یا بعض شعبوں میں دیگر صحابۂ کرام کو کوئی امتیازی فضیلت حاصل ہو تو یہ صدیق اکبرؓ کی افضلیتِ مطلقہ کے منافی نہیں ہے‘‘۔ آپؓ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسلام میں آپ ”اَلسَّابِقُوْنَ الْاَوَّلُوْن‘‘ میں سے ہیں۔ غارِ ثور اور سفرِ ہجرت کے امین و رفیق، تمام غزوات میں آپؐ کے ہم رقاب اور آج روضۂ رسولؐ میں جوارِ مصطفی میں آرام فرما ہیں اور اس طرح کہ جہاں قدمینِ مصطفیؐ ہیں، اس کے متصل قبرِ صدیق اکبرؓ کا سرہانہ ہے اور قیامت میں بھی آپؐ کے ساتھ اٹھیں گے اور ساتھ ہی جنت میں داخل ہوں گے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ؂
پائے رسول پاک پہ ہو سر رکھا ہوا
ایسے میں آ اَجَل، تو کہاں جا کے مر گئی
یہ خواب تو ہر مومن کا ہے لیکن اس کی تعبیر صدیق اکبرؓ نے پا لی ۔

سن 6 ہجری کو رسول ؐ تقریباً چودہ سو اصحاب کے ساتھ عمرے کے لیے تشریف لائے، آپؐ نے صحابۂ کرام کو بتایا تھا: ”میں نے خواب دیکھا ہے کہ ہم بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں‘‘، حدیبیہ کے مقام پر مشرکینِ مکہ نے آپؐ کو روک دیا اور کہا: ”ہم عمرے کی اجازت نہیں دیں گے‘‘، اس دوران قریشِ مکہ کے ساتھ سفارت کاری ہوئی اور بالآخر ایک معاہدے پر اتفاق ہوا، اس کی شرائط یہ تھیں: (1) دس سال تک جنگ بندی رہے گی اور لوگ ایک دوسرے سے محفوظ رہیں گے۔ (2) اس سال مسلمان عمرہ ادا کیے بغیر واپس چلے جائیں گے اور آئندہ سال عمرہ ادا کریں گے اور تین دن مکہ مکرمہ میں رہیں گے‘ صرف وہی ہتھیار ساتھ رکھیں گے جو عام حالات میں سفر میں رکھے جاتے ہیں۔ (3) جو شخص مکۂ مکرمہ سے اسلام قبول کرنے کے لیے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر رسولؐ کے پاس آئے گا تو اُسے لوٹا دیا جائے گا۔ (4) جو مدینۂ منورہ سے پلٹ کر قریش کے پاس آئے گا تو اُسے نہیں لوٹایا جائے گا، (5) قبائلِ عرب کو آپشن دیا جائے گا کہ وہ مسلمانوں اور قریشِ مکہ میں سے جس کے چاہیں حلیف بن جائیں۔

بظاہر اس معاہدے کی شرائط مسلمانوں کی کمزور پوزیشن کو ظاہر کر رہی تھیں، اس سے مسلمانوں میں اضطراب پیدا ہوا، سیدنا عمرؓ بن خطاب جن کے روئیں روئیں اور انگ انگ میں دینی حمیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی‘ رسولؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ”یا رسولؐ! کیا آپ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں؟‘‘، آپؐ نے جواب دیا: ”یقینا سچا نبی ہوں‘‘، انہوں نے کہا: ”کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟‘‘، آپ نے فرمایا: ”یقینا ایسا ہی ہے‘‘، انہوں نے کہا: ”کیا ہمارے شہداء جنت میں اور اُن کے مقتولین جہنم میں نہیں ہوں گے؟‘‘، آپؐ نے فرمایا: ”ایسا ہی ہوگا‘‘، انہوں نے کہا: ”تو پھر ہم کمزور پوزیشن میں آکر کیوں معاہدہ کر رہے ہیں؟‘‘، آپؐ نے جواب دیا: ”میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں، اس کی نافرمانی نہیں کرتا اور وہ مجھے ضائع نہیں فرمائے گا، وہ میرا مددگار ہے‘‘، انہوں نے پھر کہا: ”کیا آپ نے ہمیں یہ نہیں کہا تھا کہ ہم بیت اللہ کا طواف کریں گے؟‘‘، آپؐ نے فرمایا: ”یقینا کہا تھا، لیکن میں نے یہ تو نہیں کہا تھا کہ اسی سال کریں گے‘‘۔ سیدنا عمرؓ کو پھر بھی قرار نہ آیا اور وہ ابوبکر صدیقؓ کے پاس گئے جو رسولؐ سے سوال و جواب کے وقت وہاں موجود نہیں تھے، اُن سے وہی سوالات اُسی ترتیب سے کیے اور ابوبکر صدیقؓ نے لفظ بہ لفظ وہی جوابات دیے جو آپؐ نے دیے تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ ابوبکر صدیقؓ کی سوچ تاجدارِ نبوت کی فکر کے سانچے میں ڈھلی ہوئی تھی اور ذرّہ بھر فرق نہیں تھا (سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد،ج: 5، ص: 52)۔

اسی طرح جب رسولؐ غارِ حرا سے پہلی امانتِ وحی لے کر گھر لوٹے تو بشری تقاضے کے تحت آپ پر ایک گھبراہٹ کی سی کیفیت لاحق تھی اور شدید گرمی کے موسم میں آپ پر کپکپی طاری تھی۔ ام المومنین سیدہ خدیجۃ الکبریؓ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا: ”بخدا! اللہ آپ کو بے آبرو نہیں کرے گا، کیونکہ آپ صلۂ رحمی کرتے ہیں، دوسروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، ناداروں کے کام آتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبت اٹھانے والوں کے مددگار ہوتے ہیں‘‘ (صحیح البخاری: 3)۔ پس جس کا کردار اتنا پاکیزہ اور بلند ہو، یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ اُسے دوسروں کے رحم وکرم پر چھوڑ دے۔
پھر ایک موقع آیا کہ سیدنا ابوبکر صدیقؓ کفارِ مکہ کی اذیتوں سے تنگ آ کر مکۂ مکرمہ سے ہجرت کے ارادے سے روانہ ہوئے، پس جب آپؓ ”بَرْکَ الْغِمَاد‘‘ کے مقام پر پہنچے تو راستے میں وہاں کے رئیس ”اِبْنُ الدَّغِنَہ‘‘ سے ملاقات ہوئی، اس نے پوچھا: ابوبکر! کہاں کا ارادہ ہے؟ انہوں نے کہا: قوم مجھے وطن سے نکال رہی ہے، تو میں نے سوچا کہ اللہ کی زمین میں سیاحت کروں اور اپنے رب عزوجل کی عبادت کروں۔ ابن الدغنہ نے کہا: ”ابوبکر! رک جائو، آپ جیسے شخص کو نہ خود وطن سے نکلنا چاہیے اور نہ جبراً نکالا جانا چاہیے، کیونکہ آپ ناداروں کے کام آتے ہیں، صلۂ رحمی کرتے ہیں، کمزوروں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں مصیبتیں اٹھانے والوں کے مددگار ہوتے ہیں، پس میں آپ کو پناہ دیتا ہوں، لوٹ جائیے اور اپنے شہر میں اپنے رب کی عبادت کیجیے‘‘ (سُبُلُ الْھُدیٰ وَالرَّشَاد، ج: 2، ص: 410)۔

ذرا غور فرمائیے! خُلُقِ مصطفیؐ کے بارے میں جو کلمات اُمُّ المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریؓ نے کہے، بعینہٖ وہی کلمات خُلُقِ صدیقی کے حوالے سے ایک نظریاتی دشمن اور رئیسِ مکہ ابن الدَّغِنَہ نے کہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قُرْبت و صحبتِ مصطفیؐ کی برکت سے جنابِ صدیقِ اکبرؓ کا کردار خُلُقِ مصطفی کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا، اس طرح سو فیصد عکسِ کردارِ مصطفی اور کہاں ملے گا۔
عام دستور یہ ہے کہ جس پر کوئی طعن کیا جائے یا الزام لگایا جائے تو وہ خود اپنی صفائی پیش کرتا ہے، لیکن مقامِ مصطفیؐ کے انداز نرالے ہیں کہ طعن مصطفی پر کیا جاتا ہے اور صفائی ربِ مصطفی بیان فرماتا ہے، سو جب کچھ عرصے کے لیے وحی موقوف ہوگئی اور کفارِ مکہ نے طعن کیا: ”محمد کے رب نے ان کو چھوڑ دیا ہے اور وہ اُن سے ناراض ہوگیا ہے‘‘، بجائے اس کے کہ آپؐ جواب دیتے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”(اے حبیبِ مکرم!) آپ کے رب نے آپ کو چھوڑا نہیں ہے اور نہ وہ آپ سے ناراض ہوا ہے اور بے شک ہر بعد والی ساعت آپ کے لیے پہلی ساعت سے بہتر ہے‘‘ (الضحیٰ: 4)۔
اسی طرح جب سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے سیدنا بلالؓ کو خرید کر آزاد کیا تو کفارِ مکہ نے طعن کیا: ”ہو نہ ہو، ابوبکر نے بلال کے کسی احسان کا بدلہ چکایا ہے‘‘، تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”اور اس آگ سے وہ سب سے زیادہ متقی شخص محفوظ رہے گا جو (اللہ کی راہ میں) اپنا مال دیتا ہے تاکہ اس کا قلب (مال کی محبت کے غلبے سے) پاک ہو جائے اور اُن پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے، جس کا وہ بدلہ چکا رہے ہوں، وہ تو صرف اپنے بزرگ وبرتر پروردگار کی رضا کے لیے (اپنا مال خرچ کرتے ہیں) اور وہ عنقریب اُن سے راضی ہوجائے گا‘‘ (اللیل:17 تا 21)۔

جماعتِ صحابہ میں سیدنا صدیقِ اکبرؓ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کی چار پشتوں کو شرفِ صحابیت سے سرفراز فرمایا: ”سیدنا موسیٰ بن عقبہؓ بیان کرتے ہیں: ہم صرف چار ایسے افراد کو جانتے ہیں جو خود بھی مشرف بہ اسلام ہوکر شرف صحابیت سے مشرّف ہوئے اور ان کے بیٹوں نے بھی اسلام قبول کر کے شرفِ صحابیت پایا: (والدِ صدیقِ اکبر) ابوقحافہ عثمان بن عامر، حضرت ابوبکر صدیق، (بیٹے) عبداللہ و عبدالرحمن بن ابی بکر، (پوتے) ابوعتیق محمد بن عبدالرحمن (پڑپوتے) رضی اللہ عنہم‘‘ (اَلْمُعْجَمُ الْکَبِیْر لِلطَّبْرَانِیْ:11)۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ”اگر ہم ان پر یہ فرض کر دیتے کہ اپنے آپ کو قتل کرو یا اپنے گھرو ں سے نکل جائو تو اُن میں بہت کم ہوں گے جو اس پر عمل کرتے‘‘ (النساء: 66)۔ عامر بن عبداللہ بن زبیر بیان کرتے ہیں: جب یہ آیۂ مبارکہ نازل ہوئی تو سیدنا ابوبکرؓ نے عرض کی: یارسول اللہ! اللہ کی قسم! اگر آپ مجھے حکم فرمائیں کہ میں اپنے آپ کو قتل کر دوں تو میں ضرور ایسا کروں گا، آپؐ نے فرمایا: ابوبکر! تم نے سچ کہا‘‘ (تفسیر ابن ابی حاتم: 5566)۔

عبداللہ بن قُرَطؓ بیان کرتے ہیں: نبی کریمؐ نے فرمایا: ”اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا دن ”یوم النّحر‘‘ ہے پھر دوسرا دن‘‘، راوی بیان کرتے ہیں: پانچ یا چھ اونٹنیاں رسولؐ کے قریب آئیں اور وہ آپ کے قریب ہونے لگیں تاکہ آپؐ اُن میں سے جس کے گلے پر چاہیں چھری پھیر دیں‘‘ (ابودائود: 1765)، امیر خسرو نے اس روایت کو نہایت حسین انداز میں منظوم کیا ہے:
ہمہ آہوانِ صحرا، سرِ خود نہادہ بر کف
بہ امید آنکہ روزے، بشکار خواہی آمد
ترجمہ: صحرا کے سارے ہرن اپنا سر اپنی ہتھیلی پر رکھ کر تیار بیٹھے ہیں کہ شاید کسی دن آپؐ ان کے شکار کے لیے تشریف لائیں اور وہ آپ کا شکار بننے کی سعادت حاصل کریں۔
سیدنا صدیق اکبرؓ کی امتیازی خصوصیات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رسولؐ حیاتِ ظاہری میں آپؓ نے امامت فرمائی‘ حدیث پاک میں ہے، آپؐ نے فرمایا: ”جس قوم میں ابوبکر موجود ہوں، کسی اور کے لیے سزاوار نہیں کہ وہ امامت کرے‘‘ (سنن ترمذی: 3670)۔ اسی طرح خلیفۂ اول بلافصل ہونے، مانعینِ زکوٰۃ اور منکرینِ ختم نبوت کے خلاف عَلَمِ جہاد بلند کرنے اور جمعِ قرآن کا اعزاز حاصل کرنے میں بھی آپؓ افضل الصحابہ ہیں۔

مفتی منیب الرحمن گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کرتے ہیں انہوں نے کہا اللہ تعالی صدیق اکبر نے فرمایا نے ا پ کو یہ ہے کہ اور وہ ا نہیں ہے جائے گا نہیں کہ ہے اور کے لیے ہیں کہ

پڑھیں:

پی ٹی آئی میں مذاکرات پر مکمل پابندی، عمران خان کا سخت فیصلہ: رانا ثنا اللہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف مذاکرات کے موڈ میں نہیں اور عمران خان نے پارٹی میں کسی کو بھی بات چیت کی اجازت نہیں دی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے کئی بار پی ٹی آئی کو مذاکرات کی پیشکش کی، مگر ہر بار اسے نظر انداز کیا گیا۔ اگر وزیراعظم کی پیشکش قبول کرلی جاتی تو سیاسی درجہ حرارت میں نمایاں کمی آسکتی تھی۔

رانا ثنااللہ نے کہا کہ عمران خان اور ان کی جماعت اس وقت وہی بیانیہ اپنا رہی ہے جو بھارت کی جانب سے اختیار کیا جاتا ہے۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پی ٹی آئی کے اندر موجود تقریباً 80 فیصد لوگ بانی پی ٹی آئی کی پالیسیوں اور طرز سیاست سے اتفاق نہیں کرتے، پارٹی میں اندرونی اختلافات بڑھتے جا رہے ہیں۔

اس سے قبل ایک نجی ٹی وی چینل کو دیے گئے انٹرویو میں رانا ثنااللہ نے کہا کہ جلسوں میں کی جانے والی باتوں کا پیغام ضرور ملے گا اور وہ بھی پوری طاقت کے ساتھ۔ ان کے مطابق اس طرح کی حرکتیں کرنے والے خود اپنے انجام کی طرف جا رہے ہیں اور پی ٹی آئی کی اکثریت اس ’’پاگل پن‘‘ کا حصہ نہیں بنے گی۔

رانا ثنااللہ کا کہنا تھا کہ عمران خان کے خلاف غداری کے مقدمے کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا اور ان کا سیاسی انجام ایم کیو ایم اور بانی ایم کیو ایم سے مختلف نہیں ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا کہ جلد ہی پاکستان تحریک انصاف اور اڈیالہ تحریک انصاف کے درمیان فرق سب پر واضح ہو جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • اَخلاق اور اِسلامی عبادات
  • اساسِ قرآن
  • عمل کا شوق اور قبولیت کی آرزو
  • علمائے پاکستان سے سوال
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • پی ٹی آئی میں مذاکرات پر مکمل پابندی، عمران خان کا سخت فیصلہ: رانا ثنا اللہ
  • مذاکرات کی راہ میں عمران خان رکاوٹ ہیں، رانا ثناء اللہ
  • قال اللہ تعالیٰ وقال رسول اللہﷺ
  • نصر ت ٹرسٹ کے زیراہتمام نصرت کمپلیکس ملیر میں معذور افراد کے عالمی دن کی مناسبت سے ‘‘ونٹر فیسٹیول ‘‘سے ڈاکٹر رتنا دیوان ‘مفتی ابوبکر محی الدین ‘ابوقتادہ اور مفتی ابو طلحہ خطاب کررہے ہیں