سی پیک، پاک چین نئی تعلیمی و تحقیقی شراکتداری، اہم معاہدے طے
اشاعت کی تاریخ: 10th, December 2025 GMT
اسلام آباد (نیوزڈیسک) بیلٹ اینڈ روڈ فریم ورک کے تحت پاکستان اور چین کے درمیان نئی تعلیمی و تحقیقی شراکت داری قائم ہو گئی، پنجاب یونیورسٹی اور چین کی یونیورسٹی آف جنان کے درمیان اہم معاہدے طے پاگئے ۔
معاہدوں پردستخطوں کی آن لائن تقریب وائس چانسلرآفس میں ہوئی ۔تقریب میں وائس چانسلرپنجاب یونیورسٹی ڈاکٹرمحمدعلی، یونیورسٹی آف جنان سےپروفیسرڈاکٹرڈوچنگ نےشرکت کی۔چینی صنعتی شراکت دار”ژینگسائی گروپ اورپاکستانی مرجان پولیمر انڈسٹریز بھی معاہدے کا حصہ دونوں جامعات سائنسی،انجینئرنگ اورٹیکنالوجی تحقیق میں تعاون کریں گی۔
معاہدےمیں اساتذہ اورطلباءکےباہمی تبادلےکےپروگرام پربھی اتفاق کیا گیا ۔پنجاب یونیورسٹی کے وی سی ڈاکٹر محمد علی کا کہنا تھا دونوں جامعات مٹی کےکٹاؤ،ماحولیاتی بحالی اورپانی کےتحفظ اورمیٹریل کی تیاری پرمشترکہ تحقیق کریں گی۔زمین اورپانی کےتحفظ اورماحولیاتی بحالی کےلیےانٹرنیشنل جوائنٹ لیبارٹری قائم کی جائےگی۔ان کا کہنا تھا معاہدہ پاک چین دوستی کانیاباب ہےجس میں پائیدارترقی کےمشترکہ منصوبےشامل ہیں۔
.
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ایک ایرانی میزائل سے ہونیوالی تباہی کی بحالی کا اسرائیل کو ماہانہ 5 لاکھ شیکل کا خرچہ کرنا پڑ رہا ہے، صیہونی ذرائع
رامات گان میں ایران کے ساتھ جنگ کے دوران نشانہ بنائے گئے دیگر ٹاورز جون سے اب تک اسی حالت میں کھڑے ہیں اور کسی قسم کی تعمیر نو شروع نہیں کی گئی۔ ان ٹاورز کے رہائشی بھی متبادل گھروں میں رہ رہے ہیں جن کے کرایے کی مجموعی سالانہ لاگت 2.5 ملین شیکل تک پہنچ رہی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ایک عبرانی زبان کے میڈیا ادارے نے رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ بارہ روزہ جنگ کے دوران نشانہ بنائے جانے والے ایک ٹاور کو پہنچنے والے نقصان کے سبب اسرائیل اب بھی ماہانہ پانچ لاکھ شیکل سے زائد کرایہ ادا کرنے پر مجبور ہے۔ صہیونی چینل 12 نے تل ابیب کے مرکز میں واقع داوِنچی ٹاور پر ایک مفصل رپورٹ تیار کی ہے۔ یہ وہی ٹاور ہے جسے ایک ایرانی میزائل نے ناقابل رہائش خطہ بنا دیا ہے اور اس کے مکین پچھلے پانچ ماہ سے اپنے گھروں میں واپس نہیں جا سکے۔ دیگر حملہ زدہ عمارتوں کی حالت بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایرانی میزائل لگنے کے تقریباً پانچ ماہ بعد بھی داوِنچی ٹاور کے نقصانات کے نئے پہلو سامنے آ رہے ہیں، چاہے وہ انجینیئرنگ سے متعلق ہوں، منصوبہ بندی سے یا اقتصادی اثرات کے بارے میں ہوں۔ اس ضرب کی شدت اس قدر زیادہ تھی کہ ٹاور کا شمالی حصہ مکمل طور پر رہائش کے قابل نہیں رہا اور بلدیہ نے اعلان کیا ہے کہ اس کی طویل اور وسیع بحالی ناگزیر ہے۔
ٹاور میں مقیم افراد کو یہ اطلاع بھی دی گئی ہے کہ وہ کم از کم دو سال تک اپنے گھروں میں واپس نہیں جا سکیں گے، جس کے نتیجے میں وہ مجبوری کے تحت متبادل رہائش ڈھونڈ رہے ہیں اور ان کے کرایے کی ادائیگی کی ذمہ داری تل ابیب میونسپلٹی پر ہے۔ اسرائیلی اقتصادی اخبار گلوبس کی تحقیق کے مطابق داوِنچی ٹاور کے شمالی حصے کے باسیوں کے لیے سالانہ کرایہ 5 سے 6 ملین شیکل (18.5 لاکھ ڈالر سے زیادہ) بنتا ہے۔ یعنی ماہانہ کرایہ تقریباً 500 ہزار شیکل سے زائد ہے، جو اسرائیل کے لیے مستقل مالی بوجھ بن چکا ہے۔
اس کے علاوہ، ٹاور کی دوبارہ تعمیر کے بھاری اخراجات اس کے علاوہ ہیں۔ میڈیا نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس رپورٹ میں ذکر کیا گیا ٹاور صرف ایک مثال ہے۔ ملنے والی معلومات کے مطابق رامات گان میں ایران کے ساتھ جنگ کے دوران نشانہ بنائے گئے دیگر ٹاورز بھی جون سے اب تک اسی حالت میں کھڑے ہیں اور کسی قسم کی تعمیر نو شروع نہیں کی گئی۔ ان ٹاورز کے رہائشی بھی متبادل گھروں میں رہ رہے ہیں جن کے کرایے کی مجموعی سالانہ لاگت 2.5 ملین شیکل تک پہنچ رہی ہے۔