خبریں سب ہی سنتے ، پڑھتے اور سمجھتے ہیں۔ ہر خبر کی تاثیر مختلف ہوتی ہے۔ ہر خبر مختف ڈھنگ سے سماج کو متاثر کرتی ہے۔ خبر کے لیے وقت اہم ہوتا ہے۔ وقت گزرنے کے بعد وہی خبر ردی کا ٹکڑا بن جاتی ہے۔
یہ وقت فیصلہ کرتا ہے کہ خبر بریکنگ نیوز بنتی ہیں، یا اخبارات کے صفحوں میں گم ہو جاتی ہیں یا پھر دلوں کو چیر جاتی ہیں۔
یہ خبر سب نے سنی کہ اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں میں اضافہ ہوا۔ یہ خبر سب کی نظروں سے گزری کہ وفاقی وزرا کے معاوضوں میں ہوش ربا بڑھوتری ہوئی۔ یہ بات سب تک پہنچی کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق کی تنخواہ لگ بھگ 21 لاکھ روپے ہو گئی۔ یہ اضافہ موصوف نے خود فرمایا ہے۔
ان سب خبروں کی تاثیر اور اثر مختلف رہا۔ یوں لگا کسی نے رستے زخموں پر نمک چھڑک دیا ہو۔ یوں لگا جیسے کسی نے اس ملک کے غریب کو گالی دی ہو، یوں لگا کہ جیسے کوئی فاقہ کش کسی بدمست ٹرک کے نیچے آ گیا ہو۔
ایوان نمائندگان سے لوگوں سے بھرا پڑا ہے، لکشمی جن کے قدموں میں ڈھیر رہتی ہے، جن کے پاس اپنی دولت کا حساب رکھنا مشکل ہوتا ہے، جن کے کاروبار کئی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ جن کے ذرائع آمدن کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ ایسے لوگوں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ غریب کے منہ پر تھپڑ ہوتا ہے، اس کی مفلسی کے ماتم کے مقابل جشن ہوتا ہے۔
ایک لمحے کو سوچیں ایک ایسے شخص کے بارے میں جس کی سارے مہینے کی تگ و دو کا مرکز و محور وہ بجلی کا بل ہو جو اس سے ادا نہیں ہوتا۔
ایک لمحے کو اس شخص کے بارے میں سوچیں جس نے اپنے بچوں کو اسکول سے اٹھا لیا ہو کیونکہ نہ اس کے پاس فیس کے پیسے ہیں نہ کتابوں کا خرچہ اور نہ ہی بچوں کو اسکول پہنچانے کا کوئی ذریعہ۔
ایک لمحے کو سوچیں اس شخص کے بارے میں جس کے بچے بڑھتی مہنگائی کی وجہ سے بھوکے سوئے، جس کی ماں کو دوائی میسر نہ ہوئی، جس کے پاس موٹر سائیکل میں پیٹرول ڈلوانے کے پیسے نہیں رہے، جس کے پاس بس میں سفر کرنے کا کرایہ نہیں رہا، اس نے اسپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ 21 لاکھ روپے کیے جانے کی خبر کو کیسے پڑھا ہو گا؟ کسے سنا ہوگا؟ کیسے سمجھا ہوگا؟ اس کے دل پر کیا گزری ہو گی؟
سوچیں ذرا! دنیا کے سب ملکوں میں پیٹرول سستا ہو رہا ہے۔ عالمی منڈی پیٹرول کی قیمتوں میں کمی کو نوید سنا رہی ہے۔ بین الاقوامی سطح پر کاروباری حالات بہتر ہو رہے ہیں لیکن اپنے ہاں اس کے الٹ ہو رہا ہے۔ پیٹرول کی قیمت بڑھنے کی خبر سانپ بن کر سینوں پر لوٹ رہی ہے۔ قیمتوں میں کمی کی ذرا سی امید لگتی ہے تو حکومت بڑے طمطراق سے اس امید کو پیروں تلے مسل دیتی ہے۔ کوئی نہیں سوچتا غریب کے بارے میں۔ کوئی اس کے دکھ کی خبر نہیں لیتا، کوئی اس کو سینے سے نہیں لگاتا۔
ایک وزیر خزانہ ہیں ان کے پاس ایک ہی رٹ ہے کہ اس ملک کے بدبخت، جاہل اور احمق لوگ ٹیکس نہیں دیتے۔ وہ بڑے زعم سے اعلان کرتے ہیں کہ اِس پر بھی ٹیکس لگا دو اور اُس کو ٹیکس نیٹ میں لے آؤ۔ ان کو کوئی یہ خبر نہیں دیتا کہ ماچس بنانے والے سے لے کر بس کا کرایہ وصول کرنے والے تک ہر کوئی اس ٹیکس کا بوجھ غریب پر منتقل کرتا ہے۔ غریب پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے اور اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ چیخ نہیں پا رہا، اس کی آواز بھی گم ہو گئی ہے، اور وہ اس سارے نظام سے لاتعلق ہوگیا ہے۔
لوگ اب یہ سوال بھی نہیں پوچھتے کہ ٹیکس کے بدلے ہمیں حکومتیں کیا دیتی ہیں؟ کون سی سہولتیں ہمارا مقدر بنتی ہیں؟ کون سے منصوبے ہمارے لیے شروع ہوتے ہیں، کن اسکیموں کے ثمرات ہم تک پہنچتے ہیں؟
لوگ اب سوال نہیں پوچھتے، جواب نہیں مانگتے، حق نہیں مانگتے۔ لوگ خاموش رہتے ہیں یا چیخ پڑتے ہیں۔
چند ماہ پہلے کی بات ہے، بہت سے ایسے تھے جو عمران خان کا نعرہ لگاتے تھے، بہت سے ایسے تھے جو نواز شریف کا دم بھرتے تھے، بہت سے ایسے تھے جو مولانا کے گیت گاتے تھے۔ بہت سے ایسے تھے جو آج بھی بھٹو کے ترانے بجاتے تھے۔ لیکن اس مفلسی نے سب کی تخصیص ختم کردی ہے۔
اب کوئی کسی سیاسی جماعت کا نعرہ نہیں لگا رہا، کوئی کسی کو نجات دہندہ نہیں مان رہا۔ اب نہ جماعت کی تخصیص رہی نہ لیڈروں میں کوئی فرق رہا۔ نہ کسی کے منشور سے وابستہ امیدیں رہیں نہ کسی کی شخصیت سے توقع رہی۔ سب مفلسی کی زنجیر میں بندھ گئے۔ اب کارکن نہیں رہے، اب سب غریب بن گئے ہیں۔ اب یہ معاشرہ کئی طبقات میں منقسم نہیں رہا۔
اب صرف 2 طبقے ہو گئے ہیں۔ ایک وہ جو حکومت میں اپنی مرضی سے اپنی تنخواہوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں اور دوسرے وہ جو ان کی چمکتی گاڑیوں کی دھول میں حسرتیں پالتے رہتے ہیں۔
ابھی ابھی خبر آئی ہے کہ کراچی میں ایک بوسیدہ بلڈنگ گر گئی۔ مرنے والوں کی تعداد اراکان اسمبلی کی تنخواہوں میں اضافے کی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔ کوئی اس حادثے کی ذمہ داری نہیں لے گا، کوئی استعفیٰ نہیں دے گا، کوئی نہیں پوچھے گا کہ مدتوں سے کراچی پر راج کرنے والی جماعتیں کہاں ہیں؟ سندھ کے مسیحا کہاں ہیں؟ اب صرف کراچی میں چھیپا کی ایمبولینسوں کے سائرن گونجتے ہیں۔ یہی اس نظام نے 2 کروڑ کی آبادی والے شہر کو دیا ہے۔ اسی نظام کے ملبے تلے دبی لاشیں ہمار مقدر ہیں۔
ہمار المیہ یہ ہے کہ ہم نے ہر زمانے اور ہر عہد میں کسی نہ کسی سے سب امیدیں وابستہ کیں۔ کسی کو مسیحا مانا، کسی کو مالک تسلیم کیا، کسی شخص کے قصیدے پڑھے، کسی جماعت کے نعرے لگائے، کسی انقلاب کا انتظار کیا لیکن سب کا نتیجہ ایک رہا۔ سب نے خواب دیکھنے والوں کے خواب چکنا چور کیے۔ سب نے محروموں کی محرومیوں میں اضافہ ہی کیا۔ سب نے اپنے مفاد کے بارے میں سوچا اور عوام کی امیدوں، چاہتوں اور تمناؤں کو کراہت سے پس پشت ڈال دیا۔
یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ایک پوری قوم اشرافیہ کے اس تماشے سے مایوس ہو چکی ہے۔ اور یاد رکھیں کہ دہائیوں سے مایوس لوگوں سے زیادہ خطرناک کوئی نہیں ہوتا۔ ایسے میں مایوسی بڑھ جائے تو لوگ دیوار سے سر ٹکرا دیا کرتے ہیں۔
اب معاملہ یہ ہے کہ غربت میں پسے لوگ مسائل کا فوری حل چاہتے ہیں، ان کو وضاحتیں مطمئن نہیں کرتیں۔ ان کا پیٹ اب نصیحتوں سے نہیں بھرتا۔ ان کے دلدر نعروں سے دور نہیں ہوتے۔ خالی پیٹ تو وہ خوشحالی کے خواب بھی نہیں دیکھ پاتے۔ یہ ملک مفلس لوگوں کا آتش فشاں بن چکا ہے۔ یاد رکھیں! مہنگائی کی مزید کسی خبر سے یہ آتش فشاں پھٹ بھی سکتا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
عمار مسعود کالم نگار، سیاسی تجزیہ کار، افسانہ نگار اور صحافی۔ کبھی کبھی ملنے پر اچھے آدمی ہیں۔ جمہوریت ان کا محبوب موضوع ہے۔ عوامی مسائل پر گہری نظر اور لہجے میں جدت اور ندرت ہے۔ مزاج میں مزاح اتنا ہے کہ خود کو سنجیدہ نہیں لیتے۔ تحریر اور لہجے میں بلا کی کاٹ ہے مگر دوست اچھے ہیں۔
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: کے بارے میں کوئی اس ہوتا ہے کے پاس شخص کے
پڑھیں:
ہم کسی سے مذاکرات کی کوئی درخواست نہیں کریں گے. سلمان اکرم راجہ
اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔03 جولائی ۔2025 )پی ٹی آئی رہنما سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ ہم کسی سے مذاکرات کی کوئی درخواست نہیں کریں گے ،اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کے لیے ہم کچھ نہیں کریں گے، یہ کام ان کو کرنا ہے سلمان اکرم راجہ نے کہا ہے کہ پارٹی کی جانب سے کسی سے مذاکرات کی کوئی درخواست نہیں کی جائے گی. اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کے لیے بھی پی ٹی آئی کوئی قدم نہیں اٹھائے گی یہ ذمہ داری ان کی ہے، ہماری نہیں موجودہ نطام میں رعونت، کوئی گوشہ آئین اور جمہوری آزادی کے لیے نہیں چھوڑا گیا پاکستانی عوام کو دھتکارا گیا، بھیڑ بکری سمجھا گیا.(جاری ہے)
سلمان اکرم راجہ نے واضح کیا کہ ہم اسیر راہنماﺅں کی جانب سے بھی مذاکرات کے لیے کوئی پیغام یا دباﺅ نہیں محسوس کر رہے، اور نہ ہی فی الحال اسمبلیوں سے باہر نکلنے کا کوئی ارادہ رکھتے ہیں اسیر رہنما گاہے بہ گاہے پہلے بھی خط لکھتے رہے ہیںیہ کوئی نئی بات نہیں ہے ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے مستقبل کے حوالے سے کوئی بھی حتمی فیصلہ پارٹی کے بانی چیئرمین عمران خان ہی کریں گے. انہوں نے کہاکہ محرم کے بعد سیاسی جدوجہد کا آغاز کریں گے، لائحہ عمل واضح ہے پورے ملک میں آواز گونجے گی، عمران خان آئین، جمہوریت کی بحالی کے لیے بات کریں گے سلمان اکرم راجہ کا کہنا تھا کہ آج کوئی یہاں بیٹھا ہے کل نہیں بیٹھا ہوگا ہمارے رہنما اسیر ہیں، جبر کا نظام ہے، یقین ہے خیبر پختون خوا میں حکومت نہیں بدلی جا سکتی، قومی اسمبلی میں کیا تعداد رہ جائے کوئی فرق نہیں پڑے گا، اسمبلی میں لوگ نہ بھی ہوں تو فرق نہیں پڑتا، ہمارا مطالبہ پاکستان کی عوام سے ہے.