سینیئر اداکارہ سلمیٰ ظفر نے اپنی ازدواجی زندگی کے حوالے سے ایک سبق آموز اور حیران کن انکشاف کیا ہے۔

ڈراما سیریلز نمک حرام، مشک، قرضِ جان اور زیبائش میں اداکاری کے جوہر دکھانے والی سینیئر اداکارہ سلمیٰ ظفر نے نجی ٹی وی پر ایک انٹرویو میں اپنی زندگی کے ان گوشوں سے پردہ اُٹھایا جو اب تک سامنے نہیں آئے تھے۔

سلمیٰ ظفر نے بتایا کہ محبت میں دھوکا ملا لیکن پھر بھی امید کا دامن نہیں چھوڑا۔ جب کسی کی طرف سے وہی محبت نہ ملے جو آپ دے رہے ہوں، تو دل ٹوٹتا ہے، لیکن میں نے ہار نہیں مانی۔ میں منتظر کھڑی رہی کہ وہ شخص لوٹ آئے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ شادی کے 18 سال بعد میرے شوہر نے دوسری شادی کرلی۔ تب میں نے یہی سوچا کہ جب کسی سے محبت کرتے ہیں تو اس کی ہر خوبی اور خامی کے ساتھ محبت کرتے ہیں حتیٰ کہ اس کے ناپسندیدہ فیصلوں کے ساتھ بھی۔

اداکارہ سلمیٰ ظفر نے کہا کہ محبت میں سمجھوتہ کرنا پڑتا ہے، بس پھر میں نے اپنے شوہر کا انتظار کیا اور وہ بعد میں اُس خاتون کو طلاق دیکر واپس میرے پاس لوٹ آئے۔

سلمیٰ ظفر نے کہا کہ میں نے کبھی اُن دوسری خاتون کے لیے بددعا نہیں کی، نہ ہی برا بھلا اور کہا اور نہ ہی ان خاتون کے طلاق ہونے سے میرا کوئی تعلق ہے۔ میں نے بس صبر کیا تھا۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

سب سے مل آؤ مگر…

وہ بات جو ’’منی بائی‘‘ نے نہ جانے کس سے کہی تھی کہ تم ہر کسی سے ملو،گل و بلبل سے ملو، موج و ساحل سے ملو۔ سروسنبل سے ملو، عاقل و جاہل سے ملو، درکامل سے ملو۔ سب سے مل آؤ تو اک بار میرے دل سے ملو۔

وہی بات ہم اپنے وزیراعظم، نائب وزیراعظم اور سارے وغیرہ وغیرہ سے کہنا چاہتے ہیں کہ بے شک، چین سے ملو، جاپان سے ملو، ایران توران سے ملو، سعودی عرب سے ملو وہاں جاکر ملو یا یہاں بلا کر ملو، ہاتھ ملا کر ملو یا سینے سے لگا کر ملو، ملتے رہیے کہ ملنے سے محبت بڑھتی ہے، ملنے سے گلے شکوے دور ہوا کرتے ہیں، دل قریب آتے ہیں۔

لیکن ان سب سے مل آؤ تو اس پیاری پیاری مہنگائی سے بھی ذرا مل لیجیے۔ کیونکہ اب تو اس نے قدم قدم چلنا بھی چھوڑ دیا، دوڑنا بھی ترک کردیا، برق کی طرح چھلانگیں لگانا شروع کر دیا ہے بلکہ لگتا ہے کہ اڑنے کے لیے بھی اسٹارٹ لینے والی ہے۔ اور جب سے جناب بانی مبانی کی آکاش وانی یا بلائے آسمانی ہم پر مسلط ہوئی ہے تب سے ہم سوچ رہے ہیں کہ
سوچتے ہیں کہ اب انجام سفر کیا ہوگا
پاؤں بھی کانچ کے ہیں راہ بھی پتھریلی ہے
ادھر روپیہ ہے کہ روز بروز گرتا جارہا ہے اور ادھر مہنگائی ، اس کے سر، پر، پاؤں ہیں۔ آپ یقین کریں کسی اور پر تو ہمارا بس چلتا نہیں ہے، اس لیے خود ہی پر پابندیاں لگارہے ہیں، ایسی بہت سی چیزیں ہم نے چھوڑ دی ہیں جو کبھی ہماری پسندیدہ ہوا کرتیتھیں، چھوٹا گوشت خریدنے سے پہلے یہی بہتر نظر آتا ہے کہ خود ہی اپنے دل ودماغ کو کھالیں، پھر شاید گوشت خریدنے کا حوصلہ پیدا ہوجائے۔

ماش کی دال ہماری پسندیدہ دال ہوا کرتی تھی لیکن وہ اتنی نایاب ہوگئی ہے کہ نام لینے پر بھی جھرجھری آجاتی ہے۔ ایک سبزی ’’اروی‘‘ جو ہمیں دل و جان سے پسند تھی لیکن وہ ہمارے نوالے سے ایسی پھسل گئی کہ نوالہ بھی ساتھ لے گئی۔

چپل کباب کا شوق البتہ جاری ہے کیونکہ جب بھی دل کرتا ہے کسی کبابی کی دکان کے سامنے سے گزر جاتے ہیں بلکہ تھوڑی دیر ٹھہر بھی جاتے ہیں کیونکہ حکومت کو ابھی ہماری اس عیاشی کا پتہ نہیں چلا ہے ورنہ ٹیکس لگا دیتی۔بڑی بڑی قیمتی چیزیں مثلاً پیاز، ٹماٹر، آلو، چاول دال وغیرہ کو تو ہم کب کے بھلا کر طاق نسیاں پر رکھ چکے ہیں۔
یاد تھیں ہم کو بھی رنگارنگ’’خریداریاں
لیکن اب نقش ونگار طاق نسیاں ہوگئیں
لیکن اب معمولی چیزوں کے لیے بھی آنکھیں’’ترستیاں‘‘ ہیں کہ وے صورتیں الٰہی کس دیس ’’بستیاں‘‘ ہیں۔ مثلاً مہنہ میں رکھنی والی چکٹی کو لے لیجیے جو پہلے مفت بھی کسی نہ کسی سے لے کر گزارہ کرلیتے ہیں لیکن آج کل لوگ ایک دوسرے سے ایسا چھپا چھپا کر رکھتے ہیں جیسے پولیس سے ناجائز اسلحہ چھپایا جاتا ہے۔

اُڑان بھرنے سے پہلے ایک ٹکیہ ایک روپے کی تھی ، پھر اس نے دو روپے پر چھلانگ لگائی اور ابھی لوگ سنبھل بھی نہ پائے تھے کہ پانچ اور پھر دس کی ہوگئی، مہینہ بھی نہیں گزرا تھا کہ بیس اور پھر تیس۔ مہینے سے زیادہ ہو چکا ہے، آج کل میں ساٹھ کا ہونے والا ہے۔

پہلے کسی چیز کی قیمت بڑھتی تھی تو آنے دو آنے یا روپیہ دو روپے لیکن اب اس کم بخت نے چھلانگیں سیکھ لی ہیں، رات ہی رات میں دگنی بلکہ تگنی اور چوگنی ہوجاتی ہیں اور اب تو حکومتوں کی پالی ہوئی وزیروں کی ’’پوسی ہوئی‘‘ اور محکموں کی’’پروسی ہوئی‘‘ یہ مہنگائی اتنی بدمعاش ہوگئی ہے کہ کسی کی ذرا بھی پروا نہیں کرتی اور کوئی پروا کرنے والا ہے بھی نہیں کہ سب اس کے طرف دار ہوچکے ہیں بلکہ حصہ دار کہئے۔
ہم نے چاہا تھا کہ حاکم سے کریں گے فریاد
وہ بھی کم بخت تیرا چاہنے والا نکلا
اس لیے جب چاہتی ہے لمبی چھلانگ لگا دیتی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے علاقے میں بڑاگوشت چودہ آنے سے اٹھارہ آنے سیر ہوگیا ، ایک ہنگامہ مچ گیا، لاوڈاسپیکروں پر اعلان ہوئے، دو چار قصائیوں کو مار بھی پڑی، لوگوں نے گوشت کا بائیکاٹ کردیا، آخر قصائی مجبور ہوگئے اور پرانی قیمت بحالی ہوگئی۔

آج وہی گوشت بڑے آرام سے ایک ہزار میں فروخت ہورہا ہے۔ چینی کا قصہ اس سے بھی زیادہ مشہور اور دلچسپ ہے، چینی کا نرخ بھی دس آنے سے چودہ آنے ہوگیا تھا۔ اس پر اتنا ہنگامہ ہوگیا تھا کہ’’گوگوخاں‘‘ زندہ باد سے مردہ ہوگیا۔ بلکہ ’’چینی چور‘‘ کا اضافی ٹائٹل بھی دے دیا تھا۔ آخر کار اسے استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا۔

اور آج یونان کی ایک بہت پرانی روایت زندہ ہوگئی، یونان کے پہلے فلسفی اینکسی مینڈر نے کہا تھا کہ آپ کسی دریا میں’’دوبار‘‘ ہاتھ نہیں دھوسکتے کیونکہ دوسری بار دوسرا پانی اور دوسرا دریا ہوچکا ہوتا ہے۔ اور آج آپ کوئی بھی چیز دوسری مرتبہ اسی قیمت پر خرید نہیں سکتے۔

یہ خود ہمارے ساتھ ہوچکا ہے، ہم نے ایک دکاندار سے آٹے کے تھیلے کا نرخ پوچھا تو اس نے چھ سو روپے بتایا۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے ہم بازار سے کچھ اور سودا کرکے آتے ہیں، دوسرے کام کرنے میں ہمیں ڈیڑھ دو گھنٹے لگ گئے، آٹے کی دکان پر آئے اور چھ سو روپے دے کر تھیلا دینے کو کہا تو دکاندار نے چھ سو روپے لوٹاتے ہوئے کہا۔

بارہ سو دیجیے۔ ہم نے صبح کا حوالہ دیا۔ وہ صبح تھی اب دوپہر ہے پھر سامنے خالی ہوتے ہوئے ٹرک کی طرف اشارہ کرکے بولا ، اب بارہ سو ہوگیا ہے۔ اسی لیے ہم کہنا چاہتے ہیں کہ
سب سے مل آؤ تو اک بار اس ببلی بدمعاش یعنی مہنگائی سے بھی مل لیجیے۔
 

متعلقہ مضامین

  • ’’ بکھری ہے میری داستان ‘‘
  • سب سے مل آؤ مگر…
  • انڈیا پر پابندیوں کے بعد پاکستانی چاول امریکی مارکیٹوں میں نظر آنا شروع ہو گیا، سینیئر صحافی انور اقبال
  • خاتون نے پانچویں شوہر کو انسولین کی زائد مقدار دیکر ہمیشہ کیلیے موت کی نیند سلادیا
  • باراک اوباما کی مشیل اوباما کو شادی کی 33ویں سالگرہ پر محبت بھری مبارکباد
  • امریکا: خاتون کو 3 سالہ مسلم بچی کے قتل کی کوشش پر 5 سال قید کی سزا
  • کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
  • جنتی عورت کون؟
  • سونم کپور کے یہاں دوسری خوشخبری متوقع، کیا فلموں میں واپسی کھٹائی میں پڑگئی؟
  • فیروز خان کی دوسری اہلیہ سے بھی علیحدگی ہوگئی؟ پوسٹ وائرل