ثانیہ زہرا قتل کیس، مقتولہ کے شوہر کو سزائے موت سنادی گئی
اشاعت کی تاریخ: 19th, November 2025 GMT
ملتان کی ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت نے ثانیہ زہرا قتل کیس میں مقتولہ کے شوہر علی رضا کو سزائے موت سنادی۔
ثانیہ زہرا قتل کیس میں شوہر علی رضا، ساس عذرا پروین، دیور علی حیدر سمیت 6 ملزمان کو نامزد کیا گیا تھا۔
عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے شوہر علی رضا کو دفعہ 302 کے تحت سزائے موت سنائی جبکہ ساس عذرا پروین اور دیور علی حیدر کو عمر قید کی سزا سنائی گئی، 5 لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کردیا گیا جبکہ 3 ملزمان کو رہا کردیا گیا۔
فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مقتولہ ثانیہ زہرا کے والد اسد عباس شاہ نے کہا کہ میں اپنی بیٹی کے لیے اکیلا لڑتا رہا، آج انصاف اور عدلیہ کی جیت ہوئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھی کسی بچی کو آئندہ قتل نہیں کرسکے گا۔
واضح رہے کہ ثانیہ زہرا کو گزشتہ سال اس کے شوہر نے قتل کردیا تھا۔
ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: ثانیہ زہرا
پڑھیں:
شیخ حسینہ کی سزائے موت کا فیصلہ؛ بھارت کیا کرے گا؟
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251119-03-6
بنگلا دیش کی عبوری حکومت نے 2025 میں ایک تاریخی اور جرأت مندانہ فیصلہ کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو 2024 کے طلبہ کے احتجاج پر لاگو کیے گئے سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مقدمے میں سزائے موت سنائی۔ یہ فیصلہ نہ صرف ملک کی سیاسی تاریخ کا ایک نمایاں باب ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی بنگلا دیش کی آئندہ سیاسی اور سماجی سمت کے لیے ایک پیغام ہے۔ بلاشبہ شیخ حسینہ کی حکومت کے دور کو بنگلا دیش کی تاریخ میں تشدد اور جبر کا دور کہا جاسکتا ہے۔ 2024 میں طلبہ کے بڑے پیمانے پر احتجاج نے ملک میں ایک نیا سیاسی بحران کھڑا کیا۔ یہ تحریک بنیادی طور پر تعلیمی اصلاحات اور سماجی انصاف کے لیے تھی، لیکن حکومت نے اسے خطرہ سمجھ کر طاقت کا استعمال کیا۔ ان مظاہروں کے دوران سیکڑوں طلبہ نے اپنی جانیں گنوائیں۔ ان مظالم سے نہ صرف انسانی جانیں ضائع ہوئیں بلکہ ملک کا جمہوری عمل بھی متاثر ہوا۔ یہ شہادتیں اور تشدد اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ شیخ حسینہ کی حکومت نے طاقت کے ذریعے عوامی آواز کو دبانے کی مسلسل کوشش کی۔ ایسے مظالم پر مقدمہ قائم کرنا اور مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لانا ہر ملک کی ذمے داری ہے۔ بنگلا دیش کی عبوری حکومت نے اسی ذمے داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عدالت میں ان جرائم کی تحقیقات کرائی اور قانون سازی کے ذریعے انصاف کی راہ ہموار کی۔ عدالتی کارروائی کے دوران شیخ حسینہ پر الزام عائد کیا گیا کہ انہوں نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے انسانی حقوق پامال کیے اور مظاہرین کے خلاف سخت اقدامات کیے۔ اس فیصلہ کے نتیجے میں متعدد منفی اور مثبت ردعمل سامنے آئے۔ ایک طرف وہ لوگ جو عبوری حکومت کے اس اقدام کو ایک عادلانہ فیصلہ سمجھتے ہیں جو ظلم و جبر کے خلاف عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے۔ لوگ امید رکھتے ہیں کہ یہ فیصلہ ملک میں عدل و انصاف کی بالادستی کی علامت بنے گا اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچاؤ کا سبب ہوگا۔ دوسری طرف، شیخ حسینہ کی حمایت میں کچھ حلقے اس فیصلہ کو سیاسی انتقام قرار دیتے ہیں اور اسے بنگلا دیش کی سیاسی تقسیم کو مزید بڑھاوا دینے والا کہتے ہیں۔
اس تاریخی مرحلے پر بھارتی حکومت کا کردار بھی انتہائی اہم بن گیا ہے۔ شیخ حسینہ اگست 2024 میں بھارت فرار ہو گئی تھیں، جہاں انہیں پناہ دی گئی۔ بھارت کی یہ پناہ نہ صرف بنگلا دیش کی خودمختاری کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ ایک سیاسی حمایت کا اظہار بھی ہے جو خطے کی پیچیدہ سیاسی فضا کو متاثر کر رہا ہے۔ بھارت کی پناہ نے بنگلا دیش کی عبوری حکومت کے انتظامی اور قانونی اقدامات کو روکنے کی کوشش کی ہے، جو نہ صرف سفارتی بلکہ علاقائی توازن کے لیے بھی خطرناک ہے۔ بھارت کا یہ عمل خطے میں امن اور استحکام کے لیے رکاوٹ ہے اور اسے عالمی برادری کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ خطے کے سیاسی منظرنامے پر اس فیصلے کے بہت گہرے اثرات مرتب ہونے جا رہے ہیں۔ بنگلا دیش میں یہ فیصلہ سیاسی استحکام کی نئی راہیں کھول سکتا ہے اور جمہوری اصولوں کو مضبوط کر سکتا ہے۔ ساتھ ہی، یہ فیصلے دوسرے جنوبی ایشیائی ممالک کے لیے بھی ایک مثال ثابت ہو سکتے ہیں جہاں ارباب اختیار پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں عروج پر ہیں۔ اس کے علاوہ، بھارت اور بنگلا دیش کے تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے جو پورے خطے کی سیاسی حرکیات کو متاثر کرے گا۔ عوامی سطح پر یہ فیصلہ بنگلا دیشی معاشرے میں انصاف کے قیام اور انسانی حقوق کی حفاظت کے شعور کو بڑھانے کا سبب بنے گا۔ اس طرح کے اقدامات ظالم سیاست دانوں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ عوامی آراء اور حقائق کو نظر انداز نہ کریں بلکہ شفاف اور منصفانہ حکمرانی کو اپنائیں۔ بنگلا دیش کی یہ عبوری حکومت نئے دور کی نمائندہ ہے جو ظلم کے خلاف ٹھوس قدم اٹھا رہی ہے۔ شیخ حسینہ کی حکومت کی پالیسیوں کی مذمت اور بھارت کی اس کو پناہ دینے پر تنقید کے بغیر خطے کے استحکام کی بات ممکن نہیں۔ عالمی برادری کو بھی چاہیے کہ وہ بنگلا دیش میں انصاف کی اس تحریک کی حمایت کرے اور خطے میں امن و استحکام کے لیے مثبت کردار ادا کرے۔
بنگلا دیش کی عبوری حکومت کی جانب سے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کو سزائے موت سنانے کے بعد بھارتی حکومت نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں اس فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بھارت بنگلا دیش کے عوام کے بہترین مفادات، امن، جمہوریت، شمولیت اور استحکام کے لیے پرعزم ہے اور تمام متعلقہ فریقین کے ساتھ تعمیری تعلقات قائم رکھے گا۔ تاہم، یہ بیان ایک حد تک دھوکا دہی اور سیاسی چالاکی کا مظہر ہے، کیونکہ بھارت جو خود خطے میں انسانی حقوق کی متعدد سنگین خلاف ورزیوں کا مرتکب ہے، اپنی سیاسی حکمت عملی کے تحت بنگلا دیش کے داخلی معاملات میں اس طرح کی نصیحت یا مشورہ دینے کا کوئی اختیار نہیں رکھتا۔
بھارت میں اقلیتوں کے حقوق مسلسل پامال ہو رہے ہیں، کشمیریوں کو ان کا جائز حق خود ارادیت نہیں دیا جا رہا، اور آسام اور اس سے ملحقہ دیگر ریاستوں کے معاملے میں بھی بھارت کا کردار کافی گھناؤنا ہے۔ بھارت نے ان ریاستوں پر ظلم و جبر کے ذریعے قبضہ کر رکھا ہے۔ ایسی صورتحال میں بھارت کی جانب سے بنگلا دیش کی خودمختاری اور عدلیہ پر غیر متناسب تبصرے کو کھلے عام مداخلت قرار دیا جانا چاہیے۔ بھارت کی یہ پالیسی خطے کے ممالک کے درمیان سیاسی کشیدگی کو فروغ دیتی ہے اور علاقائی استحکام کو نقصان پہنچاتی ہے۔ ایک طرف تو بھارت اپنی داخلی صورتحال میں بہت سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ذمے دار ہے، اور دوسری طرف وہ اپنے پڑوسی ممالک کے سیاسی معاملات میں ’’امن اور استحکام‘‘ جیسے بلند مقاصد کا دعویٰ کرتا ہے، جو کہ سیاسی منافقت کے سوا کچھ نہیں۔ اس پس منظر میں، بھارت کی اس بیان کو بنگلا دیش کی قبائلی اور جمہوری خودمختاری میں مداخلت سمجھنا چاہیے اور یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ حقیقی امن اور خوشحالی عدلیہ کی خودمختاری کے بغیر بھارت کی وزارت خارجہ کا بیان، جس میں بنگلا دیش کے سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے خلاف بنگلا دیش کی بین الاقوامی جرائم عدالت کے فیصلے کو نوٹ کیا گیا ہے، بین الاقوامی قانون کی روشنی میں ایک متنازع موقف سمجھا جاسکتا ہے۔ بین الاقوامی قانون کے تحت ہر ملک کی خودمختاری کو اولین اہمیت دی جاتی ہے، اور ریاستوں کے داخلی معاملات میں مداخلت عموماً ممنوع ہوتی ہے۔ اس اصول کو ’’ریاستی خودمختاری‘‘ کہا جاتا ہے، جس کے تحت ایک ملک پر دوسرے ملک کی قانونی یا سیاسی مداخلت جائز نہیں ہوتی جب تک کہ وہ ملک خود اس مداخلت کا اختیار نہ دے۔ بھارت کا موقف جس میں وہ ’’تمام متعلقہ فریقین کے ساتھ تعمیری تعلقات قائم رکھنے‘‘ پر زور دیتا ہے، بذات خود داخلی معاملے میں مداخلت سے بچنے کی کوشش معلوم ہوتا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ بیان خطے کی سیاسی حساسیت اور بھارت کے بنگلا دیش میں مداخلت کے شبہات کو بھی جنم دیتا ہے۔ خاص طور پر جبکہ بھارت نے شیخ حسینہ کو اپنی سرزمین پر پناہ دی ہے، تو دیگر ممالک کے لیے یہ بات مشکوک ہو سکتی ہے کہ بھارت واقعی غیر جانبدار اور غیر مداخلت پسند ہے۔ اگر بھارت واقعی غیر جانبدار ہے تو وہ شیخ حسینہ واجد کو بنگلا دیشی حکومت کے حوالے کر دے کیونکہ وہ بنگلا دیشی حکومت کی ایک مجرم ہے۔
بین الاقوامی قانون میں اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی برادری کے متعلقہ معاہدات میں ریاستوں کی خودمختاری اور عدم مداخلت کے اصول واضح کیے گئے ہیں اور یہ اصول اس بیان کے پس منظر میں اہم حیثیت رکھتے ہیں۔
کسی بھی ملک کو دوسرے ملک کی عدالتی کارروائیوں یا سیاسی فیصلوں کی جانب غیر ضروری مداخلت سے گریز کرنا چاہیے۔ اگر کہیں بھارت کا بیان اس تناظر میں داخلی امور میں دخل اندازی کے طور پر دیکھا گیا تو یہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی تصور ہو سکتی ہے۔ مزید یہ کہ عالمی قانونی نظام میں ایسے معاملات میں عدالتوں کا اختیار اور دو طرفہ معاہدات کا کردار بھی اہم ہوتا ہے، جس میں پاکستان بھارت اور دیگر ریاستوں کے مسائل کے تناظر میں بین الاقوامی عدالت انصاف نے اپنے فیصلے دیے ہیں کہ صرف اس وقت کسی ریاست کو عدالت میں پیش کیا جا سکتا ہے جب وہ خود عدالت کے اختیار کو تسلیم کرے۔ نتیجتاً، بھارت کا یہ بیان ایک سفارتی انداز میں خود کو غیر جانبدار ظاہر کرنے کی کوشش ہے، لیکن تاریخی اور موجودہ سیاسی حقائق کی روشنی میں اسے قانونی طور پر مکمل طور پر غیر جانبدار یا مداخلت سے پاک قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ بیان بین الاقوامی قانون کی بنیاد پر بذات خود مسئلہ نہیں، مگر اس کی عملی حرکات اور داخلی پناہ دینے کی پالیسیاں اس کی ساکھ کو متاثر کر سکتی ہیں۔ اس تجزیہ کو بنگلا دیش حوالے مضمون میں شامل کیا جا سکتا ہے تاکہ بھارت کی اس سفارتی پالیسی کی نوعیت کو اجاگر کیا جا سکے اور بین الاقوامی قانون کے اصولوں کی روشنی میں اس کا جائزہ پیش کیا جا سکے۔