صبا قمر اور عثمان مختار کے ڈرامے میں بولڈ مناظر نے سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا کردیا
اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT
صبا قمر اور عثمان مختار کے ڈرامے پامال کی حالیہ قسط میں دکھائے گئے بولڈ مناظر نے سوشل میڈیا پر طوفان کھڑا کردیا۔
ڈرامہ پامال زنجبیل عاصم شاہ کی تحریر اور خضر ادریس کی ہدایت کاری میں بنایا گیا ہے، جبکہ اس کی پروڈیوسر تحریم چوہدری ہیں۔
کہانی ایک مصنفہ ملکہ (صبا قمر) کے گرد گھومتی ہے، جس نے شادی سے پہلے اور بعد دونوں ادوار میں مشکلات بھری زندگی گزاری ہے۔
اب تک پامال کی 12 اقساط نشر ہو چکی ہیں۔ تازہ قسط میں رضا (عثمان مختار) اور ملکہ (صبا قمر) کے درمیان اسپتال میں ملاقات کا منظر دکھایا گیا، جہاں ملکہ اپنے شوہر کو دیکھ کر جذباتی انداز میں انہیں گلے لگاتی ہے۔
یہ منظر بغیر سینسر کیے نشر کیا گیا جس پر ناظرین کی بڑی تعداد نے سوشل میڈیا پر سخت ردِعمل دیا۔
ایک صارف نے لکھا:
’کوئی تو صبا قمر کی شادی کروا دے’۔
ایک اور صارف نے تنقید کی:
’ ڈائریکٹر کو شرم آنی چاہیے، یہ پاکستانی ڈرامہ ہے یا بھارتی شو؟‘
کئی صارفین نے شکایت کی کہ اب ڈراموں میں غیر ضروری بولڈ مناظر دکھائے جا رہے ہیں۔ ایک نے کہا:
’کیا اب ہم یہ ڈرامے فیملی کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ بھی سکتے ہیں یا نہیں؟‘
ایک اور صارف نے طنزیہ انداز میں لکھا:
’شکر ہے میرے والد اس وقت ساتھ نہیں بیٹھے تھے، ورنہ یہ منظر دیکھنا بہت مشکل تھا۔‘
بعض نے عثمان مختار پر بھی مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں اُن سے یہ توقع نہیں تھی‘۔
صبا قمر کے بارے میں ایک صارف نے لکھا:
’صبا قمر کو ہمیشہ بولڈ کرداروں میں ہی دیکھا ہے، لگتا ہے وہ بھول جاتی ہیں کہ یہ پاکستانی ڈرامہ ہے، کوئی بالی ووڈ فلم نہیں‘۔
ڈرامہ پامال اپنی کہانی اور کرداروں کی گہرائی کے باعث مقبول ہو رہا ہے، تاہم حالیہ تنازع نے اداکاری میں حدود و قیود پر ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: عثمان مختار
پڑھیں:
جدید نصابِ تعلیم میں عشق کی اہمیّت
اسلام ٹائمز: جو لوگ زمانے کے تقاضوں کے مطابق اپنی خود مختار عقل کی روشنی میں آئی اے کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہ نہ صرف آئی اے کی طاقت سے فائدہ اٹھائیں گے بلکہ اس سے آگے رہیں گے، اپنے فیصلے خود کریں گے اور سماجی ترقی میں فعال کردار ادا کریں گے۔ جہاں بھی نصاب تعلیم، خود مختار عقل یعنی عشق کے مطابق ہوگا تو وہاں آئی اے کے عصر میں بھی انسان آزاد، بیدار اور خود مختار رہے گا اور اس کی سوچنے، سوال کرنے اور دلیل پر مبنی فیصلے کرنے کی صلاحیت زندہ رہے گی۔ اس کے برعکس جو زمانے کے ساتھ نہیں چلیں گے، وہ ہمیشہ کی طرح دوسروں کے غلام اور محتاج رہیں گے۔ وہ مصنوعی ذہانت کے دور میں بھی لیلیٰ مجنوں و ہیر رانجھا کی کہانیوں میں الجھے رہیں گے اور کرونا جیسی بیماریوں کا علاج لہسن اور ہلدی سے کرتے رہیں گے۔ تحریر: ڈاکٹر نذر حافی
آئی اے اور ڈیجیٹل دور میں "خود مختار عقل" کی اہمیت نئی معنویت اختیار کر گئی ہے۔ تکنیکی اور مصنوعی ذہانت کی ترقی نے انسانی فکر کے دائرے کو مزید وسعت دے دی ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ اس سے انسان کی خودی، اس کی خود مختار عقل اور اس کے ایمان و وجدان پس پشت چلے جائیں گے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صرف معلومات کی بھرمار یا مشینی حساب کتاب میں انسان کو ڈھالنے سے انسان کی خودی، آزادی، خود مختاری، نیز ایمان اور وجدان کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ "خود مختار عقل "انسان کو اندھی تقلید (خواہ اپنے نفس کی ہو یا اپنے اباو اجداد کی) اور بیرونی دباؤ (خواہ طاغوت و استکبار کا ہو یا حالات کا) سے آزاد کرتی ہے۔ اسی کو اقبالیات کی زبان میں عشق کہا گیا ہے۔ اقبال کے ہاں عشق یہ ہے کہ انسان اندرونی طور پر اپنی خواہشاتِ نفس اور بیرونی طور پر ہر طرح کے دباو، خوف اور لالچ سے آزاد ہو کر قدم اٹھائے۔
اقبالیات میں جو عشق مذکور ہے، اس سے انسان اپنے اعمال کا مالک بنتا ہے اور اسے اپنے ارادے، شعور، ایمان اور اپنے وجدان کی روشنی میں زندگی گزارنے کی سمت ملتی ہے۔ تعلیم و تربیّت کا مقصد انسان کو نفسِ امّارہ سے نفسِ مطمئنہ تک پہنچنے کا راستہ دکھانا اور نصاب تعلیم اسے خلیفۃُ اللّٰہ کے مقام تک لے جانے کے راستے کا نام ہے۔ اس راستے میں خود مختار عقل ایک ریل کی پٹڑی کی مانند ہے، جبکہ ایمان اور وجدان رہنمائی کا ستارہ اور اقبالیات روشنی کا چراغ ہیں۔ اقبال نے اپنے عہد میں انسان کے اندر جس خودی کی بیداری، ایمان کی روشنی اور وجدان کی جلا کی بات کی تھی، آج کے عہد میں وہ سب سے بڑی ضرورت بن گیا ہے۔ آج کا آئی اے دور انسان کو وسائل کی بھرمار دے سکتا ہے، مگر "فیصلے کی آزادی، اخلاقی شعور اور اپنی ذات کی تخلیقی قوت" صرف انسان کی خود مختار عقل سے جنم لیتی ہے۔
خود مختار عقل یعنی عشق انسان کو بیدار کرتا ہے۔ انسان اور نظریہ دونوں کی عملی شکل کو بیداری کہتے ہیں۔ کیا عشق کی طرح اے آئی بھی دونوں کو بیدار رکھ سکے گی۔؟ انسان کی ظاہری بیداری کے علاوہ انسان کے اندر سوئے ہوئے امکانات اور خوابیدہ صلاحیتوں کی بیداری بھی ایک لازمی امر ہے۔ ازل سے ہر بیدار مغز شخص کا ہم و غم یہی رہا ہے کہ سماج میں انسان اور نظریہ دونوں بیدار رہیں۔ حالتِ خواب میں پڑے ہوئے انسان کو کمزوری، جمود اور غلامانہ ذہنیت سے نجات دلانا ممکن نہیں۔ بیدار انسان وہ ہے، جو اپنی قوتِ ارادی اور اپنی ذات کے تخلیقی جوہر سے خود جنم لیتا ہے اور اپنی خواہشاتِ نفس سے آزاد ہو کر اپنی اقدار خود وضع کرتا ہے۔ یہی ہے وہ عاشق انسان، جو اپنے فیصلوں کے ذریعے اپنی ذات کو اس مقام تک پہنچاتا ہے، جہاں وہ کسی کا غلام نہیں رہتا بلکہ خدا کی مرضی کا آئینہ بن جاتا ہے۔ یہ بظاہر خود کے لیے جیتا ہے، لیکن حقیقت میں کسی نظریئے کے لیے زندگی بسر کرتا ہے۔ ایسے لوگوں کیلئے عمل ہی نظریئے کا پیمانہ ہوا کرتا ہے۔
یاد رہے کہ ہر عمل نہیں بلکہ ایسا عمل جو کسی بیرونی دباؤ، کسی ظالم استعماری اتھارٹی یا خواہشِ نفس کے تابع ہو کر نہیں بلکہ اپنی خود مختار عقل کے فیصلے کے مطابق کرے۔ صرف اور صرف خود مختار عقل ہی قابلِ اعتماد ہے۔ اگر انسانی عقل خواہشاتِ نفس یا کسی بیرونی دباو کے تابع ہو تو پھر اُس میں اور دیگر حیوانات میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ یعنی کوئی انسان اگر اپنا کوئی عمل صرف کسی سزا کے خوف، یا انعام کی امید پر انجام دیتا ہو تو وہ خود مختار نہیں۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ معاشرہ تب ترقی کرتا اور آزاد ہوتا ہے کہ جب افراد اپنے فیصلے اندھی تقلید یا کسی دباو کے بجائے سوچ سمجھ کر دلیل کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ کیا اے آئی کے دور میں ایسا ممکن رہے گا۔؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ عقل اگر ایمان اور وجدان کے بجائے نفع و نقصان کے تابع ہو جائے تو محض حساب و منطق کی غلام بن جاتی ہے۔ جی ہاں سب سے بڑی سچائی تو یہی ہے کہ قومیں تب آزاد اور خود مختار ہوتی ہیں، جب اپنے فیصلے ایمان اور وجدان کے مطابق کریں۔ بصورتِ دیگر
عقل عیار ہے، سو بھیس بنا لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ مُلّا ہے، نہ زاہد، نہ حکیم!
مذکورہ بالا تناظر میں عشق کی تفسیر ایمان و وجدان اور خود مختار عقل کے سوا کچھ اور نہیں کی جا سکتی۔ انسان کی نجات عقل کی خود مختاری میں ہے اور عقل اس وقت تک خود مختار نہیں ہوسکتی، جب تک ایمان اور وجدان انسان کے اندر زندہ نہ ہوں۔ تعلیم و تربیت اور اجتماعی شعور کو اقبالیات کے قالب میں ڈھالنے کیلئے نصابِ تعلیم کے اندر ایمان اور وجدان کو زندہ رکھنا ضروری ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کی خود مختار عقل زمانے کے سوالوں سے مکالمہ کرتی رہے۔ ایسی عقل کے تجربات معاشرتی حرکت کی بنیاد ہوا کرتے ہیں۔ غُلام عقل کالے انگریز اور کلرک تو پیدا کرسکتی ہے، لیکن سماج میں کوئی بیداری کی تحریک نہیں لاسکتی اور نہ ہی کسی تمدّن کو جنم دے سکتی ہے۔ جو انسان بیدار نہ ہو، یعنی خود مختار عقل نہ رکھتا ہو، وہ اپنی تقدیر بھی خود نہیں تراش سکتا۔ پس جو نصابِ تعلیم خود مختار عقل کی تولید نہ ہو، وہ قوم کی تقدیر کیا بدلے گا!۔
آخر میں یہ سوال کہ کسی بھی دور میں تعلیم کا مقصد انسان سے سوچنے، سوال کرنے اور دلیل پر مبنی فیصلے کرنے کی صلاحیت سلب کرنا ہرگز نہیں رہا، لیکن کیا اے آئی کے دور میں انسان کیلئے یہ سب ممکن رہے گا۔؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ زمانے کے تقاضوں کے مطابق اپنی خود مختار عقل کی روشنی میں آئی اے کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں، وہ نہ صرف آئی اے کی طاقت سے فائدہ اٹھائیں گے بلکہ اس سے آگے رہیں گے، اپنے فیصلے خود کریں گے اور سماجی ترقی میں فعال کردار ادا کریں گے۔ جہاں بھی نصاب تعلیم، خود مختار عقل یعنی عشق کے مطابق ہوگا تو وہاں آئی اے کے عصر میں بھی انسان آزاد، بیدار اور خود مختار رہے گا اور اس کی سوچنے، سوال کرنے اور دلیل پر مبنی فیصلے کرنے کی صلاحیت زندہ رہے گی۔ اس کے برعکس جو زمانے کے ساتھ نہیں چلیں گے، وہ ہمیشہ کی طرح دوسروں کے غلام اور محتاج رہیں گے۔ وہ مصنوعی ذہانت کے دور میں بھی لیلیٰ مجنوں و ہیر رانجھا کی کہانیوں میں الجھے رہیں گے اور کرونا جیسی بیماریوں کا علاج لہسن اور ہلدی سے کرتے رہیں گے۔