Express News:
2025-07-04@04:14:27 GMT

تنہائی کا کرب

اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT

تنہائی کا کرب جن کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے، وہی اس کی اذیت کو جانتے ہیں، ہمارے ارد گرد کتنے لوگ تنہائی کے آسیب کا شکار ہیں، کسی کو پتا نہیں، بس جن کا شور سوشل میڈیا پر مچ گیا، اس کے تعلق سے لوگ اپنی اپنی کہانیاں بنا کر پیش کررہے ہیں، میری دو عزیز سہیلیاں اس تنہائی کا زخم سہتے سہتے ختم ہوگئیں، ایک دوست تھیں جانی مانی صحافی شمیم اختر، جو بیوہ تھیں، انھوں نے ایک بچے کو لے کر پالا، جب وہ جوان ہو گیا تو اس کی شادی اپنی بھابی کی بھتیجی سے کروا دی۔

 اس کے بعد ہم سے کہنے لگیں کہ ’’ میں اپنی زندگی ہی میں فلیٹ اپنے بیٹے کے نام کردوں گی‘‘ ہم دوستوں نے انھیں منع کیا کہ ملنا تو اسی کو ہے، لیکن تمہاری زندگی میں نہیں، میں نے انھیں مشورہ دیا کہ آپ کاغذی کارروائی مکمل کر لیں، لیکن فائل اپنے پاس رکھیں جس میں واضح طور پر لکھا ہو کہ جو کچھ بھی ہوگا آپ کے بعد ہوگا، لیکن ان خاتون نے نہ ماننا تھا، نہ مانی اور اچھے لگژری فلیٹ کی فائل لے پالک کے حوالے کر دی۔

 اس نے چند ماہ بعد ہی وہ فلیٹ بیچ دیا اور اپنی ساس کے قریب ایک گھر لے لیا، شمیم اختر کے لیے 10x10 کا ایک چھوٹا سا کمرہ چھت پر بنوا دیا، وہ بہت بیمار رہنے لگی تھیں، لیکن دوپہر کے کھانے کی ذمے داری ان پر تھی، اگر کسی دن وہ نہ پکا پاتیں تو انھیں فاقہ کرنا پڑتا، رات کو زیادہ تر ان کی بہو اور بیٹا باہر چلے جاتے اور کھانا کھا کر آتے، یہ پریشان رہتیں، اب روتی رہتی تھیں کہ فلیٹ کیوں بیٹے کے نام کیا، مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ میرا ڈپریشن ان سے مل کر اور بڑھ جاتا تھا۔ دوست احباب اگر ان کے لیے کچھ کھانے پینے کا سامان یا پھل وغیرہ لے کر جاتے توکوئی پانی کو بھی پوچھنے نہ آتا،گیٹ پر ہی سے اوپر جانے کا اشارہ مل جاتا تھا۔

شمیم کھانے پینے کی چیزوں کو چھپا دیتی تھیں، بصورت دیگر ان کی بہو لے جاتی تھی۔ شمیم کا آدھا چہرہ جھلسا ہوا تھا، جس کے بارے میں وہ یہ بتاتی تھیں کہ کالج میں پریکٹیکل کرتے ہوئے جل گیا۔ تب سبھی یہ سوچتے کہ پریکٹیکل کرتے ہوئے اسی لیے کوٹ پہنا جاتا ہے کہ اگر کچھ گرے تو کپڑے خراب نہ ہوں، میں نے کبھی شمیم سے ان کے چہرے کے متعلق بات نہ کی، دراصل مجھے کبھی یہ نہیں پسند کہ کسی کی خامیوں پر بات کی جائے۔ پھر ایک دن معروف صحافی علیم درانی نے مجھے اور اختر کو یہ بتایا کہ کالج کے زمانے میں ایک لڑکا برابر شمیم کا پیچھا کرتا تھا، پھر ایک دن اس نے اپنا رشتہ بھجوایا، جسے فوری طور پر اس لیے رد کر دیا گیا کہ وہ آوارہ تھا، پھر ایک دن شمیم کے لیے تباہی لے کر آیا۔

 نیچے کا گھر تھا، کھڑکی روڈ پر کھلتی تھی، شمیم استری کر رہی تھیں کہ اس بدبخت نے تیزاب شمیم کے چہرے پہ پھینک دیا، بعد میں وہ پکڑا گیا لیکن کیا فائدہ؟ شمیم تو جیتے جی مرگئی۔ شمیم نے آخری وقت میں یہ وصیت کر دی تھی کہ اس کی میت اس کی بھانجی کے گھر سے اٹھائی جائے، ایسا ہی ہوا، وہ تنہائی کا آسیب سینے سے لگائے قبر میں جا سوئیں۔ انتقال سے دو ماہ پہلے شمیم نے مجھے فون کیا اور کہا کہ ’’ میں اگر کسی اولڈ ہوم کا پتا جانتی ہوں تو، مجھے وہاں داخل کرا دو۔‘‘ میں نے قائد اعظم کے مزار کے سامنے ایک اولڈ پیپلز ہوم ہے جس کا نام غالباً دارالسکون ہے اور اسے کرسچن سوسائٹی چلاتی ہے، میں نے دورہ کیا ہے بہت خوب انتظام ہے۔

 اس وقت ایک مریض کے 17 ہزار روپے لیے جاتے تھے، میں نے وہاں کی منتظم خاتون سے بات کی تو انھوں نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ وہ بیمار لوگوں کو ایڈمٹ نہیں کرتے کیونکہ ان کے پاس کسی ڈاکٹر کا انتظام نہیں ہے۔ بعد میں خیال آیا کہ اگر اتنا اچھا اولڈ ہوم ہے تو کسی ڈاکٹر کا انتظام بھی کر لیتے۔ ہو سکتا ہے کوئی ڈاکٹر بغیر پیسے لیے ہفتے میں ایک بار وقت دے سکتا تھا۔

دوسری دوست جو تنہائی کا شکار ہو کر اس دنیا سے گئیں وہ عبداللہ گرلز کالج کی ایسوسی ایٹ پروفیسر تھیں جو شپ اونرز کالج کے پاس مردہ پائی گئی تھیں، ایدھی والوں نے فیس بک پر ان کی تصویر لگا دی تھی اور وہ لاوارث لاش سمجھ کر دفنانے والے تھے کہ ان کے چھوٹے بھائی کو خبر ہو گئی۔ اس نے لاش وصول کی، مجھے لوگوں کی بے حسی پر رونا آیا، میں نے پچھلے دنوں ان پر ایک کالم بھی لکھا تھا، لیکن افسوس یہ ہوا کہ ان کی المناک موت پر سوشل میڈیا بالکل خاموش تھا، شاید اس لیے کہ ان کا تعلق شوبز کی دنیا سے نہیں تھا۔ ورنہ اگر وہ کوئی اداکارہ ہوتیں تو نجانے فیس بک پہ کتنی کہانیاں آ چکی ہوتیں، لیکن وہ تو پروفیسر تھیں، ان سے کون اپنا تعلق بتاتا۔

تنہائی کے کرب کی ایک اور خاتون شکار ہوئیں، عائشہ خان جو کچھ عرصہ پہلے تک عائشہ ریاست کے نام سے ڈراموں میں کام کرتی تھیں، پھر کب انھوں نے خان کا لاحقہ اپنے نام کے ساتھ لگا لیا اس کا پتا نہیں چلا۔ اس میں شک نہیں کہ عائشہ کی موت بہت المناک ہوئی، لیکن اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ان کی تنہائی تھی، سب کچھ اپنے بیٹے کے سپرد کر کے تنہائی کا عذاب انھوں نے جھیلا، عائشہ خان کی موت کی خبر جیسے ہی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی۔

 ان کے جاننے والوں کی تحریروں کے تانتے بندھ گئے، پتا نہیں کہاں کہاں سے ان کے واقف کار نکل آئے اور ہر ایک کی کہانی الگ، کوئی اپنی تحریر میں بتا رہا ہے کہ ان کے دو بیٹے تھے، ایک بیٹا ملائیشیا میں ہے دوسرا اسلام آباد میں چک شہزاد میں۔ فیس بک پر بھی لوگ رواں ہوگئے، کوئی بتا رہا ہے ان کے تین بچے تھے، دو بیٹے، ایک بیٹی لیکن بیٹی کا کہیں ذکر نہیں۔ کوئی لکھ رہا ہے کہ ان کے بیٹوں کے نام احمد اور احمر تھے، کوئی لکھ رہا ہے کہ ان کے بیٹوں کے نام ریحان اور کامران ہیں۔ کسی نے تصحیح کرنے کی کوشش نہیں کی، شاید ان کے لواحقین کسی بھی تحریر کی تصدیق یا تردید کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کر رہے۔

جو بھی ہوا بہت برا ہوا، عائشہ نے بڑی ذمے داری سے بچوں کو پالا لیکن وہ اپنا اپنا حصہ لے کر الگ ہو گئے، کسی کو نہ ماں کی تنہائی کا خیال تھا، نہ رشتے کا، شادی کے بعد عموماً لڑکے بدل جاتے ہیں، وہ بیوی کی نظر سے دنیا کو دیکھنے لگتے ہیں، بہوئیں چاہتی ہیں کہ ساس مر جائے، نندیں ہیں تو وہ بھی جہنم واصل ہو جائیں، لیکن وہ یہ بھول جاتی ہیں کہ دنیا مکافات عمل ہے، وہ بھی ایک دن ساس بنیں گی، لیکن نہ بیٹوں کو خدا کا خوف ہوتا ہے نہ ان کی بیویوں کو۔ عائشہ خان کی موت بہت عبرت ناک ہے، ایک بے بس ماں کی موت جو اپنی اولادوں سے جیتے جی محروم ہو گئی، جو فون کالز کا انتظار کرتی تھی، پھر ناامید ہو کر خود فون کرتی تھی تو جواب نہیں ملتا تھا، جواب ملتا تو بیٹا کہتا ’’ بس دو منٹ دیجیے، ابھی فون کرتا ہوں۔‘‘ اور یہ دو منٹ کبھی دو گھنٹے اور کبھی دو دن میں تبدیل ہو جاتے، لیکن فون نہ آتا، کچھ عرصہ پہلے انھوں نے نئی گاڑی خریدی اور مٹھائی لے کر طلعت حسین کے گھر پہنچیں، وہاں اپنے دل کی بھڑاس نکالی، خوب روئیں اور اس بات کا اعتراف کیا کہ زندگی میں انھوں نے بیٹوں کو جائیداد دے کر بہت بڑی غلطی کی ہے۔ اب جو سنا ہے کہ ان کا ایک بیٹا اسلام آباد سے آیا ہے میت وصول کرنے۔

ایک بات سمجھ میں نہیں آتی کہ ہمسایوں کو پہلے خیال نہیں آیا کہ وہ نظر نہیں آ رہی ہیں، ایک صاحب جنھوں نے دعویٰ کیا کہ ان کی بیگم سے عائشہ کے بہت گہرے تعلقات تھے انھوں نے نوٹس نہیں لیا، ان کے بقول وہ تین دن تک کھانا لے کر جاتے رہے لیکن دروازہ نہیں کھلا، ایسی صورت میں انھیں پولیس کو اطلاع دینی چاہیے تھی، لیکن وہ تین دن تک کھانا واپس لاتے رہے اور پھر سات دن بعد جب فلیٹ سے تعفن اٹھنے لگا تب پولیس کو اطلاع دی، اور پھر ان کی گھریلو ملازمہ کہاں تھی۔

 اس کی بھی کوئی خبر نہیں۔ مجھے شکایت ہے تو اہل محلہ سے، ایک جانی مانی خاتون جب مسلسل منظر سے غائب ہیں تو ان کا نوٹس لینا چاہیے تھا۔ کسی نے لکھا ’’اچھا ہوا عائشہ خان مرگئیں۔‘‘ میں بھی یہی کہتی ہوں کہ اچھا ہوا عائشہ مرگئیں۔ جیتی رہتیں تو نہ جانے تنہائی کے کتنے کرب انھیں سہنے پڑتے، لوگوں کی بے حسی کا اس سے بڑا ثبوت اورکیا ہوگا کہ لوگوں کی بغل میں ایک عورت مر گئی اور انھیں خبر نہ ہوئی، پتا نہیں معاشرے کو کیا ہوتا جا رہا ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: تنہائی کا پتا نہیں انھوں نے کہ ان کے ہے کہ ان لیکن وہ ہیں کہ ایک دن کی موت رہا ہے کے نام

پڑھیں:

ملک میں نظام مفلوج ہوچکا ہے،مسرت جمشید چیمہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

لاہور (آن لائن) پاکستان تحریک انصاف کی سینئر رہنما مسرت جمشید چیمہ نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ کی خوشنودی کےلیے پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے خلاف یکطرفہ اقدامات
اٹھائے گئے ،ایوان میں اپوزیشن اورحکومت دونوں طرف سے احتجاج کیا گیا لیکن حیرت ہے کہ حکومتی اراکین کو تو اس پر شاباش دی جاتی ہے جبکہ اپوزیشن اراکین کو معطل ، بھاری جرمانے کرنے اور قائمہ کمیٹیوں کی چیئر مین شپ سے ہٹانے کی سزا دیدی گئی ۔اپنے بیان میں انہوںنے کہا کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان ، ان کا خاندان ، پارٹی رہنمااور کارکنان بڑی قربانیاں دے چکے ہیں، قائمہ کمیٹیوں کی چیئرمین شپ چھیننا ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔مخصوص نشستوں کے فیصلے سے ثابت ہو گیا کہ ملک بے آئین ہوچکا ہے، پہلے منڈیٹ چوری ہوا، اب مال غنیمت سمجھ کر مخصوص نشستیں تقسیم ہوئیں،ملک میں نظام مفلوج ہوچکا ہے، اسپیکر پنجاب اسمبلی نے صرف وزیر اعلیٰ کی خوشنودی کےلیے آئین و قانون سے ہٹ کر راستہ اختیار کیا لیکن اس عمل کا سایہ ساری زندگی ان کا ساتھ نہیں چھوڑے گا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم خدا کی ذات سے نا امید نہیں ہےں ، یہ قانون قدرت ہے جب ظلم حد سے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے ۔

متعلقہ مضامین

  • شوہر نے دوسری شادی کی لیکن پھر لوٹ آئے؛ سینیئر اداکارہ نے ’صبر آزما‘ داستان سنادی
  • ’کیک پر لکھ دینا چھیپا صاحب کی طرف سے تحفہ ہے لیکن یہ مت بتانا میں نے دیا ہے‘
  • مودی سرکار کی خارجہ پالیسی نعرے بازی تک محدود؛بھارت عالمی سطح پر تنہائی کا شکار
  • میرے بیٹے عباس آفریدی کی موت حادثہ نہیں قتل ہے، سابق سینیٹر شمیم آفریدی
  • میرے بیٹے سابق وفاقی وزیر عباس آفریدی کی موت حادثہ نہیں قتل ہے، شمیم آفریدی
  • غیبت کا کلچر اور اس کی بنیادیں
  • اداکارہ زارا ترین کے یک طرفہ محبت اور طلاق سے متعلق اہم انکشافات
  • اداکارہ زارا ترین کے یک طرفہ محبت اور طلاق سے متعلق اہم انکشافات
  • ملک میں نظام مفلوج ہوچکا ہے،مسرت جمشید چیمہ