بھارت میں مودی سرکار کی خارجہ پالیسی محض نعرے بازی تک محدود ہو گئی ہے، جس کے نتیجے میں نام نہاد جمہوری ملک عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔

آپریشن سندور کے دوران کسی بھی ملک کی جانب سے بھارت کی کھل کر حمایت نہیں  کی گئی ، اس کے برعکس پاکستان کے سفارتی تعلقات کو عالمی سطح پر پذیرائی حاصل  ہوئی ہے۔ مودی سرکار کی خارجہ پالیسی اس وقت شدید تنقید کا شکار ہے اور بھارت دن بدن تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔

کانگریس رہنما پرمود تیواری نے مودی کی ناکام سفارتی حکمت عملی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ آپریشن سندور کے دوران ایک بھی ملک ایسا نہیں تھا جس نے بھارت کی کھل کر حمایت کی ہو۔

انہوں نے کہا کہ چین اور ترکی جیسے طاقتور ممالک نے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیا۔ مودی کا ’’اب کی بار، ٹرمپ سرکار‘‘کا نعرہ بھی ناکام رہا جب ٹرمپ نے آپریشن سندور کے دوران بھارت سے دُوری اختیار کی۔

پرمودتیواری نے کہا کہ ٹرمپ حکومت نے ثالثی کا دعویٰ کر کے پاکستان کو برابر کا فریق تسلیم کیا۔ مودی صرف غیرملکی دوروں میں مصروف رہے، لیکن ان دوروں سے بھارت کو کوئی ٹھوس سفارتی فائدہ نہیں پہنچا۔

آپریشن سندور کے دوران عالمی طاقتوں کی خاموشی نے واضح کر دیا ہے کہ مودی سرکار کی خارجہ پالیسی ناکام ہو رہی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: مودی سرکار کی خارجہ پالیسی آپریشن سندور کے دوران کا شکار

پڑھیں:

ٹرمپ مودی کشیدگی کی وجہ پاکستان سے ٹرمپ کی قربت

پروفیسر شاداب احمد صدیقی

مودی کی ہٹ دھرمی اور انا نے خطہ میں عدم استحکام پیدا کر دیا ہے ۔جنگ میں شکست فاش ہوئی جو کہ مودی نے مسلط کی تھی۔اگر جنگ زیادہ طویل ہوتی تو بہت زیادہ تباہی اور انسانی ہلاکتوں کا خدشہ تھا۔اس وقت جنگ بندی میں ٹرمپ نے اہم کردار ادا کیا۔بھارت نے خود جنگ بندی پر سکون کا سانس لیا کیونکہ بہت بری طرح بھارت کی فضائیہ رافیل طیارے پاکستان ائیر فورس نے تباہ کر دیے ۔پاکستانی افواج مسلسل بھارت کی حدود میں پیشرفت کر رہی تھی۔مودی کے ہتھیار ڈالنے پر بھارت کی اپوزیشن اور عوام نے اظہار برہمی اور ناراضی کا اظہار کیا۔
ٹرمپ اور مودی کے درمیان تعلقات کی خرابی کی اصل وجہ بظاہر پاک بھارت جنگ اور اس کے بعد پیدا ہونے والا بحران بنا۔ مئی میں کشمیر میں ہونے والے حملوں اور جھڑپوں نے خطے کو ایک بار پھر خطرناک موڑ پر لا کھڑا کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس موقع پر خود کو ثالث ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کی اور اعلان کیا کہ جنگ بندی کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے ۔ یہ وہ اعلان تھا جسے پاکستان نے خوش آمدید کہا اور کئی حلقوں نے ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کا مستحق قرار دیا۔ مگر یہی معاملہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ مودی حکومت نے اس پر سخت ردعمل دیا اور دونوں رہنماؤں کے تعلقات میں تناؤ کی پہلی بڑی دراڑ یہیں سے پیدا ہوئی۔پاکستان کی جانب سے ٹرمپ کو امن کا سفیر قرار دینے اور نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کی مہم نے مودی کو مزید مشتعل کر دیا۔ بھارت کے لیے یہ صورت حال اس وجہ سے زیادہ پریشان کن تھی کہ عالمی سطح پر پاکستان کی سفارتی پوزیشن بہتر دکھائی دینے لگی تھی، جبکہ بھارت یہ تاثر دینے میں ناکام رہا کہ وہ ہی خطے کا بڑا اور فیصلہ کن کردار ہے ۔ ٹرمپ نے اس دوران پاکستان کے ساتھ توانائی، کرپٹو کرنسی اور معدنیات کے شعبوں میں بڑے معاہدے کیے ۔ یہ معاہدے نہ صرف پاکستان کے لیے معاشی لحاظ سے اہم تھے بلکہ بھارت کے لیے یہ ایک واضح پیغام بھی تھے کہ امریکا اب خطے میں توازن قائم کرنے کے لیے اسلام آباد کے ساتھ نئے باب کا آغاز کر رہا ہے ۔
اسی پس منظر میں ٹرمپ نے مودی سے اپنی نوبیل امن انعام کی مہم میں حمایت طلب کی۔ مگر مودی نے یہ مطالبہ ماننے سے انکار کر دیا۔ یہ انکار صرف انکار نہیں تھا بلکہ ٹرمپ کی انا کو چیلنج کرنے کے مترادف تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ دونوں رہنماؤں کے درمیان تعلقات مزید کشیدہ ہو گئے۔ ٹرمپ نے اس کا بدلہ لینے کے لیے بھارت پر بھاری ٹیرف عائد کر دیے ۔ اگست میں امریکی صدر نے بھارت پر 50 فیصد ٹیرف لگا دیا، جس نے بھارتی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ اقدام واضح کرتا تھا کہ ٹرمپ اپنے ذاتی سیاسی مقاصد کے لیے عالمی تجارتی نظام کو بھی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے ۔
مودی نے اس صورتحال کا جواب عالمی سطح پر اپنی خارجہ پالیسی کے ذریعے دیا۔ انہوں نے چین کے صدر شی جن پنگ کی دعوت پر سات سال بعد بیجنگ کا دورہ کیا۔ اس دورے کے دوران انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے ساتھ قریبی رابطہ کیا۔ یہ سفارتی سرگرمیاں دراصل امریکا کو یہ پیغام دینے کے لیے تھیں کہ بھارت کسی ایک ملک پر انحصار نہیں کرے گا اور اپنی خارجہ پالیسی کو کثیر جہتی رکھے گا۔ تاہم اس سب کے باوجود مودی نے چین کے فوجی پریڈ میں شریک نہ ہو کر یہ باور کرا دیا کہ بھارت اور چین کے تعلقات میں بنیادی بداعتمادی بدستور موجود ہے اور یہ قریبی تعلقات کسی بھی وقت محدود ہو سکتے ہیں۔ٹائم میگزین کے کالم نگار کے مطابق ٹرمپ اور مودی کے درمیان اصل تنازع روس نہیں بلکہ کشمیر میں ہونے والی جھڑپیں تھیں۔ ٹرمپ کی ثالثی کی کوشش اور اعلان کہ جنگ بندی کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے ، بھارت کے لیے ناقابل قبول تھا۔ پاکستان نے ٹرمپ کے اس کردار کو نہ صرف تسلیم کیا بلکہ انہیں نوبیل امن انعام کے لیے مستحق قرار دینے کی فضا بھی بنائی۔ یہ وہ نکتہ تھا جس نے مودی کو سب سے زیادہ ناراض کیا۔ اس کے بعد ٹرمپ کے پاکستان کے ساتھ معاہدے اور مودی سے نوبیل مہم کی حمایت کی فرمائش نے تعلقات کو مزید خراب کر دیا۔
امریکا کے 50فیصد ٹیرف کے اعلان کے بعد بھارتی حکومت پر اندرونی دباؤ بھی بڑھ گیا۔ ایک طرف مقامی صنعت کار اور تاجر برادری پریشان تھی، تو دوسری طرف بھارت کی عالمی سطح پر کمزور ہوتی پوزیشن نے مودی کو مجبور کیا کہ وہ نئی راہیں تلاش کریں۔ چین اور روس کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کی کوشش اسی دباؤ کا نتیجہ تھی۔ لیکن بھارت کے لیے یہ بھی ممکن نہ تھا کہ وہ مکمل طور پر امریکا سے تعلقات توڑ لے ، کیونکہ دفاعی، ٹیکنالوجی اور سرمایہ کاری کے میدان میں امریکا اب بھی ایک بڑی طاقت ہے ۔یہ ساری صورت حال ظاہر کرتی ہے کہ ٹرمپ اور مودی کی لڑائی ذاتی انا اور عالمی سیاست کے امتزاج سے پیدا ہوئی۔ ٹرمپ نے ثالثی کا کریڈٹ لے کر خود کو امن کا سفیر ثابت کرنے کی کوشش کی، پاکستان نے اس کردار کو تسلیم کر کے ان کے نوبیل انعام کے امکانات کو بڑھایا، لیکن بھارت نے اسے اپنی توہین سمجھا۔ پھر معاہدے ، نوبیل مہم کی حمایت کا انکار، بھاری ٹیرف اور چین و روس کی طرف مودی کا جھکاؤ، یہ سب عوامل ایک دوسرے سے جڑ کر امریکا اور بھارت کے تعلقات میں ایسی دراڑ لے آئے جس نے عالمی سیاست کو متاثر کیا۔
اب جبکہ کچھ اشارے مل رہے ہیں کہ امریکا اور بھارت تعلقات میں دراڑ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، سوال یہ ہے کہ کیا یہ تعلقات دوبارہ اعتماد کی سطح پر بحال ہو سکیں گے ؟ خطے کے امن کے لیے اصل سوال یہ ہے کہ کیا پاک بھارت تعلقات میں کوئی بہتری آ سکتی ہے ؟ کیونکہ جب تک کشمیر کا تنازع حل نہیں ہوتا، ٹرمپ یا کوئی اور رہنما ثالثی کے دعوے کرتے رہیں، امن محض ایک خواب رہے گا۔ امریکا، چین اور روس اپنی اپنی بساط پر کھیلتے رہیں گے ، مگر اصل بوجھ پاکستان اور بھارت پر ہے کہ وہ اپنے عوام کے مستقبل کو جنگ کی نذر کرتے ہیں یا امن کی طرف قدم بڑھاتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی برادری خصوصاً اقوام متحدہ اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے ۔ پاکستان اور بھارت دونوں کو چاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ مذاکرات کی راہ اپنائیں اور اپنی توانائیاں جنگ کی تیاری کے بجائے عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں۔ امریکا جیسے طاقتور ملک کو بھی چاہیے کہ وہ ثالثی کو ذاتی مفاد کے بجائے حقیقی امن کے لیے استعمال کرے ۔ اگر یہ اقدامات کیے جائیں تو نہ صرف ٹرمپ اور مودی جیسے رہنماؤں کی سیاست خطے پر منفی اثر ڈالنے سے رُک سکتی ہے بلکہ جنوبی ایشیا میں ایک پائیدار امن کی بنیاد بھی رکھی جا سکتی ہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • معرکہ حق میں جگ ہنسائی ،بھارت نے آپریشن سندور ٹو کی تیاری شروع کردی
  • آئندہ جنگ میں ضبط کا مظاہرہ نہیں کیا جائے گا، بھارتی آرمی چیف کی پاکستان کو دھمکی
  • معرکہ حق میں شکست کے باوجود مودی سرکار کی افواج میں جارحیت کا سلسلہ جاری
  • معرکہ حق میں عالمی رسوائی کے باوجود انتہا پسند مودی کی  شکست خوردہ افواج  کا جنگی جنون برقرار 
  • آر ایس ایس کے نظریے پر چلنےوالی بی جے پی سرکار میں مسلمانوں کے مذہبی مقامات غیر محفوظ
  • ٹرمپ مودی کشیدگی کی وجہ پاکستان سے ٹرمپ کی قربت
  • ملتان، نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں پولیس گردی کیخلاف صحافی سراپا احتجاج، نعرے بازی 
  • اکشے کمار کی بیٹی کیساتھ نازیبا حرکت؛ اداکار کی مودی سرکار سے مدد کی اپیل
  • مودی سرکار نے ویمنز ورلڈ کپ کو بھی نشانے پر رکھ لیا ،بھارت کا کرکٹ سے کھلواڑ جاری
  • سکھوں کی عالمی سطح پر  ٹارگٹ کلنگ میں ملوث فاشسٹ مودی سرکار کا دہشتگرد نیٹ ورک بے نقاب