Islam Times:
2025-11-12@12:59:18 GMT

احمد الشرع کی وائٹ ہاوس یاترا

اشاعت کی تاریخ: 12th, November 2025 GMT

احمد الشرع کی وائٹ ہاوس یاترا

اسلام ٹائمز: ویسے تو جس طرح شامی و اسرائیلی مذاکرات ہوئے، جس کے نتیجے میں احمد الشرع کی وائٹ ہاوس کی یاترا کی منظوری اسرائیل سے حاصل کی گئی، اس سے لگتا ہے کہ احمد الشرع کے شام کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا کوئی بڑا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ وہ جب چاہیں ایسا کر گزریں گے اور اس کی عملی یقین دہانیاں کروا دی گئیں۔ اس سب کے باوجود اسرائیل احمد الشرع پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اسی لیے آپ دروز اور کردوں کی بڑھتی طاقت کا مشاہدہ کر رہے ہوں گے۔ اب دروزوں کو دبانا احمد الشرع کے بس کی بات نہیں ہوگا۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

امریکی صدر سے صحافی نے سوال کیا کہ احمد الشرع اب آپ کے مہمان ہو رہے ہیں۔؟ مقصد یہ تھا کہ کل تک وہ دہشتگرد تھا، اب آپ کے پاس وائٹ ہاوس آرہا ہے۔ اس پر ٹرمپ نے کہا کہ ہم نے ترکیہ اور کچھ دیگر ممالک بالخصوص اسرائیل کی درخواست پر پابندیاں ہٹائی ہیں۔ ایک وقت تھا، یہ داعش کا رہنماء اور عراق میں جنگ کر رہا تھا، امریکہ اور مغربی دنیا ان کے پیچھے تھی۔ پھر یہ ترکیہ پہنچ گئے، جہاں ان کی تربیت کی گئی اور خاص طور پر تیار کیا گیا۔ حالات بتا رہے ہیں کہ کل کا جولانی اور آج کا احمد الشرع خطے میں امریکی و اسرائیلی اثاثہ ثابت ہو رہا ہے۔ یہ دن رات مزاحمت اور اسرائیل کے دشمنوں کے خلاف تو بات کرتے ہیں، مگر کسی بھی طور پر شام کے بڑے حصے پر قابض اسرائیل کے خلاف لب کشائی نہیں کرتے۔ ٹرمپ کا بیان چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ موصوف اور اسرائیل کے تعلقات کیسے ہیں؟ ورنہ اسرائیل کبھی اپنے دشمن کی سفارش نہیں کرتا کہ اس سے پابندیاں ہٹا لی جائیں۔

بین الاقوامی ادارے اور نعرے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی حیثیت کھوتے جا رہے ہیں۔ احمد الشرع نے ملاقات کے لیے امریکہ پہنچنا تھا اور ان کا نام دہشتگردوں کی اقوام متحدہ کی فہرست میں موجود تھا۔ امریکہ کے لیے اقوام متحدہ سمیت ہر ادارہ لبیک کہتا نظر آتا ہے۔ 7 نومبر کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل نے قرارداد 2799 منظور کی، جس کے تحت احمد الشرع کا نام ان افراد کی فہرست سے خارج کر دیا گیا ہے، جن پر دہشت گرد تنظیموں داعش اور القاعدہ سے تعلق کی بنیاد پر پابندیاں عائد تھیں۔ امریکی مسودے پر مبنی اس قرارداد کے ذریعے شام کے وزیرِ داخلہ انس خطاب پر عائد پابندیاں بھی ختم کر دی گئیں۔ قرارداد کے حق میں 14 ووٹ آئے، جبکہ چین نے رائے شماری سے اجتناب کیا۔

احمد الشرع کے ساتھ ساتھ ان کے دوست کو بھی نواز دیا گیا۔ ہر دو سے اقوام متحدہ کی پابندیاں ہٹا دی گئیں۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ دہشتگرد بنانا اور امن کا عنوان دینا اس بات سے مشروط ہے کہ امریکہ کیا چاہتا ہے۔؟ جیسے ہی امریکہ چاہے تو کوئی بھی دہشتگرد بن جائے اور جیسے ہی امریکی ارادہ بدلے تو وہ دہشتگردوں سے نکل کر پرامن شہری بلکہ نام نہاد صدر بن کر وائٹ ہاوس کا مہمان بن جائے۔ امریکہ شام سے کیا چاہتا ہے۔؟ یہ بات تو واضح ہے کہ امریکہ جولانی کو مزاحمت کا راستہ کاٹنے اور اسرائیل کے تحفظ کے لیے لے کر آیا ہے اور اسی کے لیے استعمال کرے گا۔ اس ملاقات کا جائزہ لیا جائے تو امریکہ نے پابندیاں ہٹانے کے بدلے میں جو نقد مانگا ہے، میڈیا کے مطابق وہ یہ ہے کہ امریکہ دمشق کے قریب واقع المزہ فوجی ہوائی اڈے پر ایک فوجی اڈہ قائم کرنے کا ارادہ رکھتا ہے، تاکہ شام اور اسرائیل کے درمیان پیش رفت پر بھی نظر رکھی جا سکے۔

اس سے اسرائیل بے فکر ہو کر جو چاہے کرے، اس بارڈر کی نگرانی امریکہ کے ہاتھوں چلی جائے گی۔ ہیرس کے بقول ٹرمپ کا شام کے لیے وژن، اس ملک کے ایک اسٹریٹیجک حصے پر اسرائیلی اثر و رسوخ کو آنے والے برسوں تک یقینی بناتا ہے۔ایسا نہیں ہے کہ امریکی افواج شام میں موجود نہیں ہیں یا اس کے اڈے نہیں ہیں۔ابھی تک شام میں تعینات امریکی فوج کی اکثریت شمال مشرق میں کرد افواج کے زیر کنٹرول علاقوں میں موجود ہے۔ بشار الاسد کی موجودگی میں امریکہ یا کسی بھی مغربی ملک کے تصور میں بھی نہیں تھا کہ انہیں دمشق کے پاس کوئی فوجی اڈا مل جائے گا، مگر جولانی نے سب کچھ ممکن کر دکھایا ہے۔

 ٹرمپ ابراہیمی اکارڈ کو بھی بار بار میڈیا کی زینت بنا رہے ہیں۔ اس ملاقات میں  بھی ٹرمپ نے امید ظاہر کی ہے کہ شام دیگر عرب ممالک کی طرح ابراہیمی معاہدے کے تحت اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لے آئے گا۔ ویسے تو جس طرح شامی و اسرائیلی مذاکرات ہوئے، جس کے نتیجے میں احمد الشرع کی وائٹ ہاوس کی یاترا کی منظوری اسرائیل سے حاصل کی گئی، اس سے لگتا ہے کہ احمد الشرع کے شام کے لیے اسرائیل کو تسلیم کرنا کوئی بڑا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ وہ جب چاہیں ایسا کر گزریں گے اور اس کی عملی یقین دہانیاں کروا دی گئیں۔ اس سب کے باوجود اسرائیل احمد الشرع پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اسی لیے آپ دروز اور کردوں کی بڑھتی طاقت کا مشاہدہ کر رہے ہوں گے۔ اب دروزوں کو دبانا احمد الشرع کے بس کی بات نہیں ہوگا۔

آخر میں یہ لطیفہ بھی سن لیں کہ جولانی کی قیادت میں قائم حکومت نے وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اعلیٰ سطحی ملاقات کے بعد شام نے پیر کے روز شدت پسند تنظیم داعش کے خلاف امریکی قیادت والے بین الاقوامی اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی۔ شام کے وزیرِ اطلاعات حمزہ المصطفیٰ نے اسے اور انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اعلان کیا کہ معاہدہ فی الحال سیاسی نوعیت کا ہے اور اس میں کوئی فوجی شق شامل نہیں، لیکن یہ شام کے لیے عالمی سطح پر ایک اہم شراکت داری کی علامت ہے۔ جس سے ''دہشت گردی کے خلاف شراکت دار کے طور پر اپنے کردار اور علاقائی استحکام کی حمایت‘‘ کی توثیق ہوتی ہے۔ ایسے عالی شان کارنامے امریکی صدر ٹرمپ ہی دکھا سکتے ہیں، جو ایک مدت تک داعش کے فیلڈ کمانڈر کو حکومت مل جانے کے بعد اسی داعش کے خلاف اتحادی قرار دے رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اور اسرائیل کے احمد الشرع کے شام کے لیے وائٹ ہاوس نہیں ہیں رہے ہیں کے خلاف اور اس

پڑھیں:

امریکی انتخابی ہیٹ ٹرک ۔۔جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا

ڈاکٹر سلیم خان

اسرائیل کو بجا طور پر امریکہ کی 51ویں ناجائز ریاست سمجھا جاتا ہے لیکن ایک خیال یہ بھی ہے ساری دنیا بشمول امریکہ یہودیوں کے سرمایہ دارانہ چنگل میں ہے ۔ امریکہ کی حد تک تو یہودی سرمایہ داروں کی بابت یہ عام خیال ہے کہ ان کی مرضی کے بغیر پتاّ بھی نہیں ہلتا اور عصرِ حاضر میں انتخابات پیسے کا کھیل ہے اس لیے حکمراں نہ صرف ان کی مرضی سے منتخب ہوتے ہیں بلکہ انہیں کی تابعداری کرتے ہیں مگر ظہران ممدانی، آفتاب پوریوال اور غزالہ ہاشمی کی جیت نے وہ طلسم توڑ دیا۔ تل ابیب کے بعد نیویارک شہر میں رہنے والی سب سے بڑی یہودی آبادی کے پاس دولت کی افراط ہے ۔ میڈیا مٹھی میں ہیں۔ امریکی سیاستدانوں کے ساتھ خفیہ سازش کرنے میں وہ ماہر ہیں ۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ظہران ممدانی کو یہودی مخالف قرار دیتے ہیں ۔ آر ایس ایس نے سنا ہے امریکہ اپنی جڑیں بہت مضبوط کرلی ہیں مگر یکے بعد دیگرے ہنود اور یہود کی حالیہ شکست نے ساری خوش فہمیاں دور کردیں ۔ امریکہ میں یہودی و ہندو سیاستدانوں کا اپنا کوئی تشخص نہیں ہے وہ تقریباً عیسائی بن گئے ہیں لیکن ظہران ، آفتاب اور غزالہ کا معاملہ منفرد و مختلف ہے ۔
کھیل کی دنیا میں مسلسل تین کامیابیوں کو ہیٹ ٹرک کہتے ہیں ۔ امریکہ کی سرزمین پر انتخابی کھیل میں یہ چمتکار ہوگیا ۔ نیویارک کے ظہران ممدانی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو دھوبی پچھاڑ دیا تو ان کے نائب جی ڈی وینس کو سوتیلے بھائی کو آفتاب پوریوال نے سنسناٹی میں چِت کیا ۔ ان دونوں کے علاوہ غزالہ ہاشمی نے ورجینیا کے اندر لیفٹننٹ گورنر کا انتخاب جیت کر پہلی مرتبہ کسی مسلم خاتون نے اس اہم عہدے پر فتح کا پرچم لہرا دیا۔ ٹرمپ کی مخالفت نے نیویارک کے انتخاب کو غیر معمولی مقبولیت عطا کردی مگر 909 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع سنسناٹی میں بھی اسی طرح کی کہانی دوہرائی گئی جہاں نائب صدر کے سوتیلے بھائی کو ڈیموکریٹ امیدوار اور ہندوستانی نژاد سکھ آفتاب پوریوال نے دھول چٹا دی ۔ موصوف نے سنسناٹی کے میئر کی حیثیت سے دوسری مرتبہ کامیابی درج کرائی لیکن اس بار ان کے مقابلے میں جے ڈی وانس کے سوتیلے بھائی کوری بوومن تھے ۔ ان کو کامیاب کرنے کی خاطر نائب صدر نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا مگر کامیابی سے محروم رہے ۔ ایک بارسوخ امیدوارکوہرا کر پھر سے کامیاب ہوجانا اس بات کا ثبوت ہے کہ شہر کے لوگ ان کارکردگی سے مطمئن اور خوش ہیں کیونکہ امریکہ ووٹ چرائے نہیں جاتے ۔
آفتاب پوریوال کی پیدائش اوہائیو میں تارک وطن والدین کے ہاں ہوئی۔ ان کے والد دیویندر سنگھ پوریوال ہندوستان کے پنجاب صوبے سے امریکہ منتقل ہوئے تھے جبکہ ان کی والدہ ڈرینکو تبت سے تعلق رکھنے والی مہاجر تھیں۔ انہوں نے اوہائیو اسٹیٹ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور ایک اداکار کے طور پر آزاد فلم،”بلو کار” میں چھوٹا سا کردار بھی ادا کیا۔ اس کے بعد وائٹ اینڈ کیس کے وکیل کے طور پر یونیورسٹی آف سنسناٹی کالج آف لا سے جیورس ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اینٹی ٹرسٹ مقدمات پر کئی سال کام کیا۔آگے چل کر وہ امریکہ کے محکمہ انصاف میں بطور اسپیشل اسسٹنٹ یو ایس اٹارنی شامل ہوئے ۔انہوں نے مساوی معاشی ترقی، نیز عوامی حفاظت، سستی رہائش، اور ماحولیات میں جامع اصلاحات اور بہتری کو بھی اپنی اولین ترجیحات میں شامل کیا اور2022ء میں سنسناٹی کے میئر کا انتخاب جیت کر پہلے ایشیائی نژاد امریکی کو میئر کا اعزاز حاصل کیا۔ اس کے 6 ماہ بعد آل پارٹی میونسپل پرائمری میں انہوں نے 80 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے ایک تاریخ رقم کی ۔موصوف ایک وکیل اور سیاست دان ہیں جو جنوری 2022ء سے اس عہدے پر اپنی گراں قدرخدمات انجام دے رہے ہیں۔
مذکورہ بالا ہائی پروفائل امیدواروں کے علاوہ ایک نسبتاً گمنام ریاستی قانون ساز غزالہ ہاشمی نے بھی ورجینیا میں لیفٹننٹ گورنر کا انتخاب جیت کر ایک بڑا کارنامہ انجام دے دیا ۔ حیدرآباد میں جنم لے کر امریکہ جانے والی غزالہ ہاشمی کا یہ سیاسی عروج نہایت تیز رفتار ہے ۔موصوفہ ورجینیا صوبے میں لیفٹیننٹ گورنر کے عہدے پر فائز ہونے والی ریاست کی پہلی جنوبی ایشیائی اور امریکی مسلم خاتون ہیں ۔ انہوں نے ریپبلکن مصنف اور معروف قدامت پسند ریڈیو میزبان جان ریڈ کو شکستِ فاش سے دوچار کیا۔ پوری مہم کے دوران انہیں سبقت حاصل رہی اگرچہ آخری مرحلے میں فرق کچھ کم ہو گیا تھا۔ غزالہ ہاشمی کا 7 لاکھ47 ہزار773 یعنی 53.8 فیصد ووٹ حاصل کرنا ان کے مقبولیت کا ثبوت ہے ۔ ڈیموکریٹک پارٹی کی نامزدگی حاصل کرنے کے لیے انہوں نے ایک سخت مقابلے میں سابق رچمنڈ میئر لیور اسٹونی اور ریاستی سینیٹر ایرن راؤس کو ہرایا تھا۔ امریکہ کے ایموری یونیورسٹی سے انگریزی میں پی ایچ ڈی کرنے کے بعد غزالہ نے ورجینیا کی کمیونٹی کالجز میں 2 دہائیوں سے زیادہ عرصہ درس و تدریس کی خدمات انجام دیتی رہیں۔ سیاست میں قدم رکھنے کے بعد 2019ء میں ریاستی سینیٹ کا انتخاب جیت کر وہ ورجینیا کی پہلی مسلم خاتون قانون ساز بن گئیں اور اب ریاستی سطح پر پہلی مسلم خاتون کے منتخب ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا ۔ ان تینوں کی کامیابی پر وسیم بریلوی کا یہ شعر صادق آتا ہے
جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا
ظہران ممدانی کی جیت اس لیے اہم ہے کہ اکریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ خود ایک میئر کو ہرانے کی خاطر لنگوٹ کس کر میدان میں اتر پڑے ۔ اس کے بعد جب عوام کی مدد سے ظہران نے انہیں ناک آوٹ کردیا تب بھی انہوں نے کھلے دل سے اپنی شکست کو تسلیم کرکے انہیں مبارکباد نہیں دی بلکہ اکڑ کر بولے نیویارک اب آزاد نہیں رہا۔ سچ تو یہ ہے ظہران نے نیویارک کو ٹرمپ جیسے مغرور سرمایہ دار کے چنگل سے آزاد کروادیا۔ وہاں کے لوگوں نے ثابت کردیا کہ یہودی سرمایہ اور سازش انتخاب جیتنے کے لیے کافی نہیں ہے ۔ ٹرمپ کا اقتدار اور میڈیا کا اشتہار بھی عوام کی سونامی کو روک نہیں سکتا ۔ یہ پیغام ٹرمپ اور ان جیسے یاہو یا مودی کے لیے بھی ایک تازیانۂ عبرت ہے کہ اب ان کی چوری چکاری کے دن پورے ہوگئے ہیں اور بہت جلد پاپ کا گھڑا بیچ چوراہے پر پھوٹنے والا ہے ۔ظہران ممدانی کی فتح کے بعدٹرمپ نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم سوشلسٹ کے بجائے ایک کمیونسٹ کو میئر بنادیا ۔ سوال یہ ہے کہ سرمایہ داری ہار گئی تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ سوشلسٹ جیتین یا کمیونسٹ کامیاب ہوں ؟
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ممدانی کی فتح کو’کمیونزم کی جیت’ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کے سامنے اب دو راستے ہیں۔ کمیونزم یا کامن سنس۔ ٹرمپ کو چاہیے تھا کہ وہ کمیونزم کے مقابلے متبادل کے طور پر سرمایہ داری کا نام لیتے لیکن ایسا کرنے میں خود ان کو شرم آتی ہے اس لیے کامن سینس کی آڑ میں چھپنے کی سعی کرڈالی ۔ سچ تو یہ ہے کہ امریکی صدر کا کامن سینس سے دور دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ اس حقیقت پر عالمی اتفاق رائے ہے اگر آج خبط الحواس لوگوں کا کوئی عالمی مسابقہ منعقد ہوتو دنیا کا کوئی بڑا بڑا سے رہنما ان کے قریب نہیں پھٹک سکتا ۔ مودی اور یاہو بھی ان کے آگے پانی بھرتے ہیں اس لیے وہ انہیں بڑی آسانی سے ہرا دیں گے ۔ ظہران ممدانی نے کامیابی کے بعد اپنے فاتحانہ خطاب میں کہا کہ :”جب میں آپ کے سامنے کھڑا ہوں تو مجھے جواہر لال نہرو کے وہ الفاظ یاد آتے ہیں، تاریخ میں کبھی کبھار ایسا لمحہ آتا ہے جب ہم قدیم سے نکل کر جدید کی طرف قدم بڑھاتے ہیں، جب ایک دور ختم ہوتا ہے اور جب ایک طویل عرصے تک دبائی گئی قوم کی روح اپنی آواز پاتی ہے ”۔
پنڈت نہرو نے ہندوستان کی آزادی کی شام قوم سے خطاب کرتے ہوئے 1947ئکے تاریخی خطاب میں جو کہا تھا اس کا انطباق کرتے ہوئے وہ بولے :”آج رات ہم قدیم (زمانے ) سے نکل کر جدید(دور) میں داخل ہو گئے ہیں۔ لہٰذا اب ہمیں واضح اور پُرعزم انداز میں بولنا ہوگا کہ یہ نیا زمانہ کس کیلئے کیا لائے گا؟ اس دور میں نیویارک کے لوگ اپنے رہنماوں سے حیلہ بہانہ و اندیشے چھوڑ کر بہادری کے ساتھ مستقبل کاخواب دیکھنے کی توقع کریں گے ”۔ اپنے خوابوں کی تفصیل بتاتے ہوئے وہ بولے :”اس خواب کے مرکز میں مہنگائی اور روزمرہ زندگی کے اخراجات کے بحران سے نمٹنے کا ایک انتہائی جامع اور بلند عزم ایجنڈا ہوگا”۔ ممدانی نے اپنی تقریر میں دیسی تڑکا لگاتے ہوئے اس کا اختتام2004ء کی ہندی فلم ”دھوم ”کے مشہور گانے ”دھوم مچالے ” پرکیا ۔ ظہران ممدانی کے خوابوں نے ٹرمپ اور مودی جیسے لوگوں کی تو نیند اڑادی ہے مگر یہ مایوسی کے اندھیروں میں بھٹکنے والوں کے لیے امیدوں کے روشن چراغ ہیں۔ ساحر نے یہی کہا تھا
آو کے کوئی خواب بنیں کل کے واسطے ،
ورنہ یہ رات آج کے سنگین دور کی
ڈس لے گی جان و دل کو کچھ ایسے کہ جان و دل ،
تاعمر پھر نہ کوئی حسیں خواب بن سکیں

متعلقہ مضامین

  • شامی صدر احمد الشرع عالمی سطح پر نمایاں، ملکی سطح پر چیلنجز کا سامنا
  • امریکہ اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کے عمل میں ہماری مدد کر رہا ہے، الجولانی
  • ٹرمپ سے  شامی صدر احمد الشرع کی ملاقات، مشرق وسطیٰ کے لیے نیا اشارہ
  • امریکا کا بڑا فیصلہ: شامی صدر احمد الشرع سے ملاقات کے بعد شام پر عائد پابندیاں 6 ماہ کے لیے ختم
  • احمد الشرع کی ٹرمپ سے ملاقات، امریکا نے شام پر عائد پابندیاں عارضی طور پر ختم کردیں
  • سابق القاعدہ کمانڈر سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات، ٹرمپ نے شامی صدر کو طاقتور رہنما قرار دیا
  • امریکہ، ترکیہ اور شام کے وزرائے خارجہ کے درمیان سہ فریقی اجلاس
  • امریکی انتخابی ہیٹ ٹرک ۔۔جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا
  • دنیا ایک نئے عالمی موڑ پر، خود مختاری کا اُبھرتا ہوا بیانیہ