Jasarat News:
2025-11-18@23:53:20 GMT

سوات قومی جرگہ کا دسمبر میں لویہ جرگہ بلانے کا عندیہ

اشاعت کی تاریخ: 19th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

سوات (صباح نیوز)سوات قومی جرگہ نے ملاکنڈ ڈویژن میں امن و امان کی مسلسل بگڑتی ہوئی صورتحال، دہشت گردی کے بڑھتے واقعات اور مرکزی و صوبائی حکومت کی غیر سنجیدگی پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اگر فوری طور پر دہشت گرد عناصر کے خلاف عملی اقدامات نہ اٹھائے گئے تو دسمبر میں ملاکنڈ ڈویژن کی سطح پر لویہ جرگہ بلایا جائے گا۔ سوات پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جرگہ کے اراکین مختار خان یوسفزئی، خورشید کاکا جی، شیر شاہ خان، الحاج زاہد خان، اختر علی خان جی، شیر بہادر زادہ، احمد شاہ خان، ڈاکٹر خالد محمود اور دیگر نے کہا کہ سوات میں دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات نے عوام میں شدید تحفظات اور بے چینی پیدا کر دی ہے۔ انہوں نے کہا کہ چار ماہ قبل ہونے والے مسلسل احتجاج کے بعد کمشنر ملاکنڈ اور ڈپٹی کمشنر سوات نے انہیں یقین دہانی کرائی تھی کہ ایک ماہ کے اندر دہشت گردوں کا مکمل صفایا کرکے علاقے میں امن بحال کیا جائے گا، لیکن چار ماہ گزرنے کے باوجود صورتحال میں بہتری نہیں آئی اور بے امنی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ رہنماؤں نے سوات قومی جرگہ کے رہنما ممتاز علی خان پر ہونے والے قاتلانہ حملے سمیت دیگر دہشت گردی کے واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی حلقوں نے یقین دلایا تھا کہ پولیس فورس دہشتگردی کا مقابلہ کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے، مگر زمینی صورتحال اس کے برعکس دکھائی دے رہی ہے جس سے یہ تاثر مضبوط ہو رہا ہے کہ مرکزی اور صوبائی حکومتیں اس معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔جرگہ رہنماؤں نے کہا کہ اب ایک بار پھر سوات اور پورے ملاکنڈ ڈویژن میں حالات کو خراب کرنے کی کوششیں جاری ہیں جو یہاں کی عوام کو کسی صورت قبول نہیں۔ انہوں نے مرکزی اور صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ فوری طور پر ٹھوس، سنجیدہ اور نتیجہ خیز اقدامات اٹھا کر علاقے میں قیام امن کو یقینی بنایا جائے، بصورت دیگر سوات قومی جرگہ دسمبر کے مہینے میں ملاکنڈ ڈویژن کی سطح پر لویہ جرگہ بلائے گا اور پھر جرگہ کے فیصلوں کے مطابق دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف قومی سطح پر عملی اقدامات اُٹھائے جائیں گے۔

خبر ایجنسی گلزار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سوات قومی جرگہ ملاکنڈ ڈویژن کہا کہ

پڑھیں:

چار محاذ، ایک ریاست؛ پاکستان کی بقا کی حقیقی لڑائی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251118-03-5
پاکستان آج ایک ایسے دوراہے پر کھڑا ہے جہاں دہشت گردی کی نئی لہر محض ایک داخلی سیکورٹی چیلنج نہیں رہی، بلکہ یہ چاروں طرف سے آنے والے اسٹرٹیجک دباؤ، خطے کی طاقتوں کی نئی صف بندی، عالمی پروپیگنڈے، اور بیانیاتی جنگ کا حصہ بن چکی ہے۔ گزشتہ چالیس برسوں میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو جس نے اپنی سرزمین پر اتنا خون دیکھا ہو، اپنی نسلوں کو اتنی اذیت سے گزارا ہو، اور پھر بھی دنیا کے سامنے اپنے آپ کو مسلسل دفاع پر مجبور پایا ہو۔ افغانستان کی جنگ، عالمی طاقتوں کی پراکسی پالیسیاں، مشرقی سرحد کے تناؤ، دہشت گردی کے حملے، اور داخلی کمزوریوں نے پاکستان کو ایک ایسی پوزیشن میں لا کھڑا کیا ہے جہاں اسے ایک ساتھ چار محاذوں پر کھڑے ہو کر دنیا کو بتانا پڑ رہا ہے کہ وہ جنگجو نہیں، جنگ کا زخمی ہے؛ مگر افسوس یہ ہے کہ دنیا کے طاقتور حلقے آج بھی پاکستان کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں، جیسے وہ یہ سب کچھ اپنی مرضی سے برداشت کر رہا ہو، نہ کہ عالمی فیصلوں اور علاقائی سیاست کی قیمت کے طور پر۔
پاکستان میں دہشت گردی کی تاریخ 2001 سے نہیں، بلکہ 1979 سے شروع ہوتی ہے، جب سوویت یونین افغانستان میں داخل ہوا اور پاکستان کو ایک ایسی جنگ کا مرکز بنا دیا گیا جس میں شرکت ہماری اپنی ترجیح نہیں تھی۔ افغان جہاد کی دہائی میں امریکا اور مغربی طاقتوں نے پاکستان کو ایک فرنٹ لائن ریاست بنایا، مگر جب جنگ ختم ہوئی تو وہ یہاں بارود، اسلحہ، نظریاتی تقسیم، اور لاکھوں مہاجرین چھوڑ کر چلے گئے۔ 1990 کی دہائی میں افغانستان خانہ جنگی میں ڈوبا رہا اور پاکستان کو عسکریت پسندی، منظم گروہوں، ریاستی خلاؤں، اور بھارتی دباؤ کے درمیان سروائیو کرنا پڑا۔ پھر نائن الیون آیا اور پاکستان پر وہ فیصلہ تھوپ دیا گیا جو ہم نے خود نہیں کیا تھا: ’’آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے خلاف؟‘‘ دو دہائیوں تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے اسی ہزار سے زائد زندگیاں کھو دیں، معیشت کو ایک کھرب ڈالر سے زیادہ نقصان پہنچا، قبائلی معاشرت اجڑ گئی، معصوم بچے، جوان، سپاہی شہید ہوئے اور ریاست ایک نہ ختم ہونے والی جنگ میں الجھ گئی۔ مگر دنیا نے کبھی سوچا نہیں کہ اس جنگ کی سب سے بھاری قیمت صرف پاکستان نے ادا کی۔
مگر پاکستان کو جو سب سے بڑا خطرہ آج درپیش ہے، وہ صرف بندوقوں کا نہیں، بلکہ چار مسلسل اور بیک وقت اسٹرٹیجک پریشر پوائنٹس کا ہے۔ ایسے پریشر پوائنٹس جن کا سامنا اس وقت شاید کسی اور ریاست کو نہیں ہے۔ پہلا دباؤ مشرقی سرحد پر ہے، جہاں بھارت کے ساتھ روایتی اسکیلیشن کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے۔ پاکستان اور بھارت کا تعلق ہمیشہ ایک ’’کانیٹک تھریٹ‘‘ کے طور پر موجود رہا ہے، اور حالیہ برسوں میں اس فضا میں ہنگامی تناؤ مزید بڑھا ہے۔ دوسرا دباؤ اسی محاذ سے جڑا ہوا نیوکلیئر ڈیٹرنس ڈائنامک ہے، جو دونوں ریاستوں کی بقا کے لیے بنیادی ستون ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ اس ڈیٹرنس کو ذمے داری سے مینج کیا ہے، لیکن ماضی کے کچھ واقعات نے اس حساس توازن پر غیر معمولی دباؤ ڈالا ہے، اور بھارت کی جارحانہ حکمت عملی خطے کو مزید غیر مستحکم بنا رہی ہے۔ تیسرا محاذ افغانستان اور مغربی سرحد کا ہے، جو صرف دہشت گردی تک محدود نہیں رہا، بلکہ اب براہِ راست کانیٹک آپریشنز کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ سرحد پار گروہوں کی بڑھتی ہوئی فعالیت، ٹی ٹی پی کی ری گروپنگ، اور بدلتی ہوئی طالبان پالیسیوں نے پاکستان کی مغربی سرحد کو مستقل دباؤ کا مقام بنا دیا ہے۔ مگر چوتھا دباؤ باقی تینوں سے زیادہ پیچیدہ اور خطرناک ہے۔ وہ غیر رسمی اور غیر اقوام متحدہ منصوبہ جس کے تحت خبریں گردش کر رہی ہیں کہ پاکستانی دستے ممکنہ طور پر غزہ میں تعینات کیے جا سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسا تنازع ہے جو عالمی سطح پر نسل کشی سمجھا جا رہا ہے اور کسی ایسے مشن میں شرکت جس کا یو این مینڈیٹ نہ ہو پاکستان کو نہ صرف خطے میں سیاسی طور پر تنہا کر سکتا ہے بلکہ داخلی سطح پر بھی شدید ردِعمل پیدا کر سکتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ جب پاکستان پہلے ہی مشرق، مغرب، اندرونی دہشت گردی اور عالمی بیانیاتی جنگ کے دباؤ میں ہے تو کیا ہم اپنی سیکورٹی فورسز کو مزید وسعت دینے کے متحمل ہو سکتے ہیں؟ اگر ہماری افواج کسی ایسے تنازعے میں ملوث ہو جاتی ہیں جس کا بلاواسطہ تعلق پاکستان سے نہیں، تو کیا یہ ٹی ٹی پی، بی ایل اے، ٹی ٹی اے اور بھارت جیسی طاقتوں کے لیے ’’سنہری موقع‘‘ نہیں بن جائے گا کہ وہ پاکستان پر کئی سمتوں سے دباؤ بڑھا دیں؟ کیا پاکستان کی نیشنل سیکورٹی پالیسی میں ایسی کوئی بنیادی تبدیلی ہوئی ہے جس کا قوم کو علم ہو؟ اور کیا ہماری معیشت، سفارت کاری، اور داخلی سیاست اس نئے بوجھ کو برداشت کر سکتی ہے؟
اسی دباؤ کے بیچ ایک اور غلط فہمی ہے جس کا بوجھ پاکستان کو مسلسل اٹھانا پڑ رہا ہے۔ دہشت گردی کو ’’اسلام‘‘ اور ’’جہاد‘‘ کے ساتھ جوڑنا۔ مسلمان ریاستوں اور خاص طور پر پاکستان کے بارے میں دنیا کا ایک مخصوص بیانیہ طاقت کے ایوانوں میں بنایا اور پھیلایا گیا ہے، جس میں ’’جہاد‘‘ کو ایک عسکری اصطلاح کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جبکہ اسلامی روایت میں جہاد کا بنیادی مفہوم ظلم کے خلاف مزاحمت، اخلاقی ذمے داری، انسانی وقار کا دفاع، اور عدل و انصاف ہے۔ مگر طاقتور ریاستوں نے اس مذہبی اصطلاح کو سیاسی مفادات کی سطح پر اتنا مسخ کر دیا کہ آج ہر دہشت گردی کے واقعے کو اسلام کے ساتھ جوڑ دینا سب سے آسان پروپیگنڈا بن چکا ہے۔ یہی غلط تعبیر پاکستان کے بیانیاتی تشخص کو شدید نقصان پہنچاتی ہے۔ پاکستان پر دہشت گردی کے الزامات کبھی بھی اس لیے نہیں لگائے گئے کہ وہ عسکریت کو پالتا ہے، بلکہ اس لیے کہ عالمی طاقتیں ’’جہاد‘‘ کو ایک convenient narrative tool کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ اور چونکہ پاکستان دنیا کی واحد مضبوط ایٹمی مسلمان ریاست ہے، اس لیے اسے کمزور کرنا عالمی سیاست میں ایک آسان ہدف سمجھا جاتا ہے۔
مگر پاکستان کا اصل دکھ اس غلط تعبیر سے بھی بڑھ کر ہے۔ پاکستان نے دنیا کو اپنی قربانیوں کے بارے میں سمجھانے کی ہزار کوششیں کیں، مگر وہ سنی نہیں گئیں۔ پاکستان نے اسی ہزار شہادتیں دیں، بیس سال تک خطے کی سب سے بڑی جنگ لڑی، چالیس برس افغان مہاجرین کو سہارا دیا، اپنے شہر جلتے دیکھے، مسخ شدہ لاشیں اٹھائیں، خودکش حملوں کا صدمہ برداشت کیا، اپنے اسکولوں کے بچوں کو خون میں نہاتا دیکھا، اور اپنے محافظوں کو روز قبروں کے حوالے کیا۔ اس سب کے باوجود دنیا آج بھی کہتی ہے کہ ’’پاکستان دہشت گردوں کو پالتا ہے‘‘۔ اس سے بڑا ظلم کیا ہو سکتا ہے؟ یہ وہ مقام ہے جہاں بارود سے زیادہ بیانیہ جان لیتا ہے، اور حقیقت سے زیادہ پروپیگنڈا مضبوط ہو جاتا ہے۔
آج پاکستان کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ صرف سیکورٹی نہیں، بلکہ ایک مضبوط، مربوط اور عالمی سطح پر قابل ِ قبول قومی بیانیہ ہے۔ پاکستان کو دنیا کے سامنے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ دہشت گردی کا نہ صرف شکار ہے بلکہ اس کے خلاف سب سے مؤثر جنگ لڑنے والا ملک بھی ہے۔ ہماری قربانیاں، ہمارا خون، ہماری جدوجہد؛ یہ سب دنیا کے سامنے ایک نئی زبان، نئے انداز اور ایک متحد سیاسی آواز کے ذریعے لانا ہوں گی۔ داخلی اتحاد، معاشی استطاعت، سفارتی توازن، اور بیانیاتی جنگ کی مضبوط حکمت ِ عملی یہ سب آج پاکستان کی بقا کے ستون ہیں۔ دنیا چاہے کچھ بھی کہے، تاریخ کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔ تاریخ ہمیشہ یہ لکھے گی کہ پاکستان دہشت گردی کا ملک نہیں، دہشت گردی کا زخمی ہے۔ اور جب زخمی سچ بولتا ہے، تو اس کی آواز دیر سے سہی، مگر دنیا تک ضرور پہنچتی ہے۔

رمیصاء عبدالمھیمن سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • دہشت گردی اور نیشنل ایکشن پلان
  • بنوں، شہریوں پر حملے کی کوشش ناکام، فتن الخوارج کا دہشتگرد بارودی مواد نصب کرتے ہوئے ہلاک
  • عزمِ استحکام مہم پائیدار امن کی ضمانت ہے، قومی اتفاق رائے برقرار رہے گا، صدر زرداری
  • یکم اور 2 دسمبر کو چھٹی کا اعلان!
  • چار محاذ، ایک ریاست؛ پاکستان کی بقا کی حقیقی لڑائی
  • دہشت گردی کی حالیہ لہر …نمٹنے کیلئے قومی وحدت ناگزیر ہے !!
  • رواں سال خیبرپختونخوا میں قتل، اقدام قتل اور اغواء کے واقعات میں تشویشناک اضافہ
  • دہشت گردی کی حالیہ لہر ...نمٹنے کیلئے قومی وحدت ناگزیر ہے !!
  • افغانستان دہشت گردی میں ملوث ہے‘وفاقی وزیر داخلہ