Express News:
2025-11-15@20:58:25 GMT

زنجیریں

اشاعت کی تاریخ: 15th, November 2025 GMT

پاکستان کا معاشی و سیاسی بحران محض نااہلی یا وقتی ناکامیوں کا نتیجہ نہیں، بلکہ ایک گہری ریاستی، معاشی اور سماجی ساخت کا اظہار ہے جو دہائیوں سے عوام کو اپنے ہی ملک میں کمزور، محتاج اور بے اختیار رکھنے پر قائم ہے۔

یہ حقیقت بار بار ثابت ہوچکی ہے کہ اگر ریاست چاہے تو پانی کے نظام کو درست کر کے زراعت کو جدید خطوط پر استوارکرسکتی ہے۔

بجلی کے بحران کو ڈیموں اور مقامی توانائی ذرائع کے ذریعے حل کرسکتی ہے، ایران جیسے ہمسائے سے سستا تیل و گیس خرید کر عوامی مشکلات کم کر سکتی ہے، تعلیم، صحت، روزگار، امن و امان اور سیاحت جیسے شعبوں کو مضبوط کر کے ملک کی مجموعی ترقی کا راستہ کھول سکتی ہے، مگر ان تمام امکانات کے باوجود ایسا کبھی نہیں ہوتا۔

اس نہ ہونے کے عمل کے پیچھے اصل وجہ یہ نہیں کہ حکمران نااہل ہیں یا وسائل کم ہیں، بلکہ وجہ یہ ہے کہ ریاستی ڈھانچہ بنیادی طور پر عوامی فلاح کے نظریے پر قائم ہی نہیں۔

یہ ڈھانچہ سیاسی معیشت، طاقت کے ارتکاز اور مفادات کے ایسے جال پر کھڑا ہے جہاں ریاست کا مقصد عوام کو ترقی دینا نہیں بلکہ انھیں ایسے مقام پر رکھنا ہے جہاں وہ زندہ تو رہیں مگر بااختیار نہ ہو جائیں۔

پاکستان کی سیاسی معیشت مخصوص اشرافیہ کا تسلط (Elite Capture) کے اصول پر چلتی ہے۔ طاقت، دولت، پالیسی اور اداروں کا کنٹرول چند طاقتور گروہوں کے پاس ہے، جن میں سیاسی اشرافیہ ، جاگیردار، بڑے صنعتی سرمایہ کار، غیر قانونی تجارتی گٹھ جوڑ Business Cartel اور مذہبی و سماجی اثر و رسوخ رکھنے والے طبقات شامل ہوتے ہیں۔

ان کے مفادات اس طرح جڑے ہوئے ہیں کہ عوام کے لیے کوئی بھی بنیادی سہولت چاہے وہ بجلی ہو یا پانی، تعلیم ہو یا صحت اس وقت تک دستیاب نہیں ہوتی جب تک یہ طاقتور گروہ خود کو غیر محفوظ محسوس نہ کریں۔ بجلی مہنگی اس لیے نہیں کہ پیداوار ناممکن ہے، بلکہ اس لیے کہ توانائی کا پورا شعبہ ایسے مفادات کے گرد گھومتا ہے جن کے لیے بحران فائدہ مند اور حل خطرناک ہوتا ہے۔

ٹیکس کا نظام اس لیے غیر منصفانہ ہے کہ اسے عوام کے لیے نہیں بلکہ طاقتور طبقات اور ریاستی اداروں کے مالی مفادات کے تحفظ کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔

اسی طرح زرعی اصلاحات نہ ہونے، زمین کی غیر منصفانہ تقسیم، درآمدی پالیسیوں کی بدعنوانی اور عوامی خدمات کے زوال کے پیچھے بھی یہی سیاسی معیشتی ڈھانچہ کام کرتا ہے۔

ریاستی سائنس کے لحاظ سے ایک مضبوط ریاست وہ ہوتی ہے جس کے پاس قانون نافذ کرنے کی صلاحیت، فیصلہ سازی کی شفافیت، عوامی قبولیت اور اداروں کی آزادی ہو۔

پاکستان میں یہ تمام عناصر کمزور ہیں، کیونکہ طاقت کئی مراکز میں بٹی ہوئی ہے اور کوئی بھی مرکز ایسا نہیں جس کا مقصد عوام کو بااختیار بنانا ہو۔ فیصلے اکثر آئین یا عوامی فلاح کے تحت نہیں بلکہ اس بنیاد پرکیے جاتے ہیں کہ طاقت کا موجودہ توازن برقرار رہے۔

اسی لیے پالیسیوں میں تسلسل نہیں آتا، اصلاحات کبھی مکمل نہیں ہوتیں، ادارے مسلسل سیاسی، عسکری یا معاشی اثر و رسوخ میں دبے رہتے ہیں، اور عوام بنیادی حقوق کے لیے بھی لڑتے رہتے ہیں۔

ریاست (Extractive Model) کے تحت چلتی ہے، یعنی عوام سے ٹیکس، محنت اور معاشی قربانیاں لی جاتی ہیں، مگر بدلے میں انھیں نہ تحفظ ملتا ہے، نہ سہولت، نہ ترقی۔ سماجیاتی تجزیے کے مطابق پاکستان کا معاشرہ طبقاتی تقسیم، کمزور سیاسی شعور اور طاقت کے روایتی مراکز کے زیرِ اثر ہے۔

یہ تقسیم صرف معاشی نہیں بلکہ فکری اور ثقافتی بھی ہے۔ اشرافیہ پالیسی بناتی ہے اور متوسط طبقہ ان پالیسیوں کو اپنی بقا کے خوف یا امید میں قبول کرتا ہے، جب کہ محنت کش اور غریب طبقے ریاستی استحصال کا بوجھ برداشت کرتے رہتے ہیں۔

عوام کو دانستہ طور پر روزمرہ معاشی مشکلات میں الجھا دیا جاتا ہے تاکہ وہ بڑے ریاستی مسائل کو سمجھنے اور ان پر سوال اٹھانے کی صلاحیت کھو بیٹھیں۔ جب لوگ مہنگائی، روزگار، بجلی کے بل، اسکولوں کی فیس، یا صحت کے اخراجات میں پھنس جائیں تو انھیں اس بات پر غور کرنے کا موقع نہیں ملتا کہ یہ سارا بحران کیوں پیدا ہوتا ہے اور اسے کون چلاتا ہے۔

یہ پورا نظام عوام کو Survival Mode میں رکھتا ہے، جس میں انسان سوچتا کم اور جیتا زیادہ ہے۔اجتماعی نفسیات کے اعتبار سے ریاست طاقت کے دو بنیادی اصول استعمال کرتی ہے، خوف اور امید۔

عوام کو کبھی سیکیورٹی کے نام پر ڈرایا جاتا ہے، کبھی معاشی بحران کے نام پر، کبھی انتشار اور دشمن کے خوف میں رکھا جاتا ہے اور کبھی چھوٹی چھوٹی رعایتوں کے ذریعے انھیں امید کا دھوکا دیا جاتا ہے۔ یہ نفسیاتی ماحول عوام کو مطیع رکھتا ہے، انھیں بڑے سوال پوچھنے سے روکتا ہے اور انھیں قلیل مدتی مسائل میں گم رکھتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جب عوام اپنی محنت سے آگے بڑھنے لگتے ہیں تو ریاست انھیں ٹیکسوں، مہنگائی یا نئے انتظامی مسائل کے ذریعے واپس اسی مقام پر لے آتی ہے جہاں سے وہ نکلنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں۔اصل مسئلہ یہ نہیں کہ پاکستان ترقی نہیں کرسکتا، مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حکمرانی ماڈل میں ترقی کو عوامی حق کے بجائے ایک خطرہ سمجھا جاتا ہے۔

باشعور اور بااختیار عوام ریاستی طاقت کے توازن کو چیلنج کرتے ہیں، اسی لیے تعلیم بہتر نہیں ہوتی، تحقیق و ترقی کو مواقع نہیں ملتے، صحت اور روزگار کے شعبے مضبوط نہیں ہوتے، اور عام آدمی کو وہ سہولتیں نہیں ملتیں جو ایک آزاد شہری کا بنیادی حق ہوتی ہیں۔

یہ غلامی آج زنجیروں میں نظر نہیں آتی بلکہ معاشی ڈھانچوں، سماجی رویوں، کمزور اداروں، غلط ترجیحات اور طاقت کے ناموزوں توازن میں چھپی ہوئی ہے۔اگر کوئی قوم اس صورتحال کو بدل سکتی ہے تو وہ خود عوام ہیں، مگر تبدیلی اس وقت آتی ہے جب قوم اپنے مسائل کو صرف جذبات یا سیاست کی عینک سے نہیں بلکہ ایک اجتماعی حقیقت کے طور پر دیکھتی ہے۔

پاکستان کا مستقبل اسی وقت بدلے گا جب ریاست کی ترجیح طاقت کے تحفظ کے بجائے عوام کی بہتری ہوگی، اور یہ تبدیلی تبھی ممکن ہے جب عوام اپنے حقوق کو محض خواہش نہیں بلکہ مطالبہ بنا دیں۔ جو قوم حقیقت کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا کر لے، وہ غلامی کی سب سے مضبوط زنجیر بھی توڑ سکتی ہے، خواہ وہ زنجیر نظر نہیں بھی آتی ہوں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نہیں بلکہ ہیں بلکہ عوام کو جاتا ہے سکتی ہے طاقت کے ہے اور ہیں کہ کے لیے

پڑھیں:

عسکری اور معاشی دہشت گردی کبھی اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے مجبور نہیں کر سکتی، ایران

تسنیم نیوز کے مطابق اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر اور مستقل نمائندے امیر سعید ایروانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایران سے متعلق بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی رپورٹ پر منعقد ہونیوالے اجلاس میں گفتگو کی۔  اسلام ٹائمز۔ اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندے امیر سعید ایروانی نے زور دے کر کہا کہ فوجی تجاوز اور اقتصادی دہشت گردی ایران کو کبھی بھی اس کے جائز حقوق سے دستبردار ہونے پر مجبور نہیں کرسکتی۔ تسنیم نیوز کے مطابق اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر اور مستقل نمائندے امیر سعید ایروانی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایران سے متعلق بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کی رپورٹ پر منعقد ہونیوالے اجلاس میں گفتگو کی۔ 

انہوں نے کہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران 1970 سے جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کا ایک ذمہ دار اور پابند رکن ہے، تاہم تین یورپی ممالک اور امریکہ، صہیونی رجیم کے من گھڑت دعووں کو دہراتے ہوئے ایران کی پُرامن ایٹمی سرگرمیوں کو توڑ مروڑ کر پیش کیا جاتا ہے۔

امیر سعید ایروانی کی تقریر کا مکمل متن:
بسم الله الرحمن الرحیم
جنابِ صدر،
میں ڈائریکٹر جنرل کا رپورٹ پیش کرنے پر شکریہ ادا کرتا ہوں، لیکن ایسی تمام رپورٹس ہمیشہ پیشہ ورانہ، حقیقت پر مبنی اور سیاسی اثرات سے پاک رہنے چاہئیں، کیونکہ ایجنسی کی ساکھ اس کی غیر جانب داری پر مکمل طور پر منحصر ہے۔ ایٹمی توانائی ترقی اور توانائی کی سلامتی کے لیے، خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں، ایک بنیادی اور ناقابلِ متبادل ضرورت ہے۔ سالم ایٹمی ٹیکنالوجی اور علم کی منتقلی، جو این پی ٹی کی شق 4 اور عالمی ایجنسی کے آئین کے مطابق ضمانت شدہ ہے، ایک اصل حق ہے، کوئی عطیہ یا رعایت نہیں۔ پروٹوکول اور نگرانی کا نظام پُرامن ایٹمی سرگرمیوں میں سہولت کار ہونا چاہیے، نہ کہ رکاوٹ۔

ایٹمی پھیلاؤ کے بہانے ترقی پذیر ممالک کے حقوق سلب کرنا این پی ٹی کی روح اور متن کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انتہائی تشویش کا مقام ہے کہ کچھ ممالک ترقی پذیر ممالک کی پُرامن ایٹمی ٹیکنالوجی تک رسائی کو منظم انداز سے محدود کرتے ہیں، جبکہ اسی وقت صہیونی  رجیم، جو این پی ٹی کا رکن بھی نہیں، اور جس کے پاس وسیع پوشیدہ جوہری ہتھیار ہیں، اس کو اسلحہ اور عسکری مدد فراہم کرتے ہیں۔ یہ دوہرا معیار اور یک طرفہ غیرقانونی اقدامات، عدم پھیلاؤ کے نظام اور عالمی ایٹمی ایجنسی کے تعاون مشن کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچاتے ہیں۔

2025 کا صہیونی حملہ:
جنابِ صدر،
دنیا نے جون 2025 میں ایک نہایت مجرمانہ اور تجاوزکارانہ اقدام دیکھا۔ صہیونی رجیم نے، ایٹمی توانائی ایجنسی کے گورنرز بورڈ میں سیاسی محرکات کے تحت منظور کی گئی ایک قرارداد کے صرف چند گھنٹے بعد، ایران کی نگرانی کے نظام کے تحت موجود، ایجنسی کی مکمل نگرانی میں ایٹمی تنصیبات پر شدید اور وسیع حملے شروع کر دیے۔ ان حملوں نے ایرانی سائنسدانوں اور ان کے اہلِ خانہ کو نشانہ بنایا، ہزاروں افراد کو شہید یا زخمی کیا، اور بے پناہ تباہی پھیلائی۔ امریکہ، جو سلامتی کونسل کا مستقل رکن اور این پی ٹی کا ضامن ہے، 22 جون کو اس حملے میں شمولیت اختیار کرتے ہوئے براہِ راست عالمی ایجنسی کی نگرانی میں موجود تنصیبات کو نشانہ بنایا، یہ بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کے منشور، عالمی ایٹمی ایجنسی کے آئین، اور سلامتی کونسل کی قرارداد 487 (1981) کی صریح خلاف ورزی ہے، جو پُرامن ایٹمی تنصیبات پر کسی بھی قسم کے حملے کو ممنوع قرار دیتی ہے۔ یہ حملہ صرف ایک رکن ملک پر حملہ نہیں تھا، بلکہ اقوام متحدہ کی اتھارٹی، عالمی ایٹمی ایجنسی کی ساکھ، اور پروٹوکول نظام کی بنیادوں پر حملہ تھا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نہ ایجنسی، نہ سلامتی کونسل، اور نہ ہی خود ڈائریکٹر جنرل نے اس غیرقانونی حملے کی مذمت کی۔ حتیٰ کہ جنرل اسمبلی کے صدر اور ڈائریکٹر جنرل نے بھی آج کی نشست سے قبل اپنے بیانات میں اس جارحیت کے خلاف ایک لفظ تک نہ کہا۔

ایران کی قانونی پابندی اور مغرب کا پروپیگنڈا:
اسلامی جمہوریہ ایران 1970 سے این پی ٹی کا ذمہ دار رکن ہے۔ اس کے باوجود تین یورپی ممالک اور امریکہ صہیونی رجیم کے جھوٹے دعووں کا سہارا لے کر ایران کی پُرامن جوہری سرگرمیوں کو بدنام کرتے رہتے ہیں۔ جبکہ یہی صہیونی رجیم خطے میں واحد جوہری ہتھیار رکھنے والا ملک ہے، اور مشرقِ وسطیٰ کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ ایران، دہشت گردانہ حملوں، تخریب کاری، سائنسدانوں کے قتل، غیرقانونی پابندیوں، اور اب پُرامن تنصیبات پر براہِ راست حملوں کے باوجود، کبھی بھی نہ برجام کی خلاف ورزی کی، نہ این پی ٹی کی، اور نہ پروٹوکول ذمہ داریوں کی۔ ایران ہمیشہ سفارت کاری پر قائم رہا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل کی تازہ رپورٹس بھی تصدیق کرتی ہیں کہ بازرسیوں کی معطلی، انہی مسلح حملوں کا براہِ راست نتیجہ ہے، اس کی ذمہ داری حملہ آوروں پر ہے، نہ کہ ہمارے اوپر۔ لہٰذا ایسی غیر معمولی صورتحال میں، کارکنوں اور ایٹمی تنصیبات کی سلامتی کے لیے ایک نئے فریم ورک کی ضرورت ہے۔

قاہرہ مفاہمتی یادداشت اور مغربی تخریب کاری:
ایران اور ایجنسی نے 9 ستمبر 2025 کو قاہرہ میں ایک تعمیری ماحول میں اس بحران کو حل کرنے کے لیے مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے، لیکن امریکہ اور تین یورپی ممالک نے فوراً اس مثبت پیشرفت کو سبوتاژ کر دیا اور چین و روس کی متوازن تجاویز تک کو سلامتی کونسل میں روک دیا۔ تین یورپی ممالک کی جانب سے سنیپ بیک میکنزم کو فعال کرنا مکمل طور پر غیر قانونی، غیر ذمہ دارانہ اور آخری سفارتی پل کو تباہ کرنے کی کوشش ہے۔ یہ ممالک خود برجام اور قرارداد 2231 کے خلاف ہیں، اس لیے انہیں اس کی دفعات کا حوالہ دینے کا حق ہی نہیں۔ علاوہ ازیں، قرارداد 2231 18 اکتوبر 2025 کو مستقل طور پر ختم ہو چکی ہے اور اس سے متعلق تمام پابندیاں ختم ہو چکی ہیں۔ لہٰذا انہیں دوبارہ نافذ کرنے کی کوشش غیر قانونی ہے اور جنرل اسمبلی و سیکرٹری جنرل کو اسے مکمل طور پر ردّ کرنا چاہیے۔

ایران کا واضح پیغام:
جنابِ صدر،
ایران کبھی بھی دھمکی یا دباؤ کے آگے جھکنے والا ملک نہیں۔ ہمارا جواب صرف احترام، قانون پسندی اور مساوات ہے۔ جنگ، تجاوز اور معاشی دہشت گردی ایران کو کبھی بھی اپنے جائز حقوق سے پیچھے ہٹنے پر مجبور نہیں کر سکتی۔

متعلقہ مضامین

  • 27ویں ترمیم شفاف حکمرانی کے اصولوں کیخلاف ہے، جاوید قصوری
  • عسکری اور معاشی دہشت گردی کبھی اصولی موقف سے پیچھے ہٹنے مجبور نہیں کر سکتی، ایران
  • کراچی کے مسائل کے حل کیلئے زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی طور پر کام کیا جائے، شاداب نقشبندی
  • ججوں کا کام ٹکر بنوانا، کسی کو رسوا کرنا یا ڈانٹا نہیں بلکہ انصاف دینا ہے، پرویز رشید
  • پاک امریکی تعلقات اختیاری نہیں بلکہ دنیا کیلئے بھی ناگزیر ہیں، پاکستانی سفیر
  • حاجی نبن شاہ لکھاری نہیں بلکہ ایک ادارہ تھا، علی حیدرچانڈیو
  • 50کروڑ کی حد کو کم کرو بلکہ ختم کرو
  • دنیا کا سب سے مہنگا ویزا کس ملک نے جاری کر رکھا ہے؟
  • استثنیٰ کسی شخصیت کے لیے نہیں بلکہ صدر و وزیراعظم کے عہدوں کا احترام ہے، رانا ثنا اللہ